کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کیا وحی و الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے؟

مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالفوں نے میری مخالفت میں یہاں تک غلو کیا ہے کہ اسلام کی بھی سخت ہتک کر لینی انہوں نے گوارا کی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم الانبیاء اور تمام نبیوں سے افضل اور اکمل تھے (صلے اللہ علیہ وسلم)معاذاللہ ناقص نبی ٹھہرایا۔ جب یہ تسلیم کر لیا اور اپنا عقیدہ بنا لیا کہ اب کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ سے شرف مکالمہ پا سکے اور خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ پر تائیدی نشان ظاہر کر سکے تو تم خود بتائو کہ اس عقیدہ سے اسلام کا کیا باقی رہتا ہے؟ اگر خدا تعالیٰ پہلے بولتا تھا مگر اب نہیں بولتا تو اس کا ثبوت کیا ہے کہ وہ پہلے بولتا تھا۔ اگر خدا تعالیٰ پہلے خارق عادت تصرفات دکھاتا تھا مگر اب نہیں دکھاتا تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ قصّے کہانیاں کون قوم بیان نہیں کرتی۔ افسوس ان کو تعصب نے ایسا اندھا کر دیا ہے کہ کچھ بھی ان کو سجھائی نہیں دیتا اور میری مخالفت میں یہ اسلام کو بھی ہاتھ سے دیتے ہیں۔

غرض اگر یہودی ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ (البقرہ:62) کے مصداق ہو چکے ہیں اور نبوت اس خاندان سے منتقل ہو چکی ہے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ مسیح دوبارہ اسی خاندان سے آوے۔ اگر یہ تسلیم کیا جاوے تو اس کا نتیجہ یہی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو ادنیٰ نبی مانا جاوےاور اس امت کو بھی ادنیٰ اُمت۔ حالانکہ یہ قرآن شریف کے منشاء کے صریح خلاف ہے کیونکہ قرآن شریف نے تو صاف طور پر فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(اٰل عمران:111)پھر اس امت کو خیر الامت کی بجائے شرالامت کہو گے؟اور اس طرح پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر حملہ ہو گا۔ مگر یقیناً یہ سب جھوٹ ہے ۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اعلیٰ درجہ کی تھی اور ہے اس لیے کہ وہ اب تک اپنا اثر دکھا رہی ہےاور تیرہ سو سال گزرنے کے بعد مطہر اور مقدس وجود پیدا کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا انتقال نبوت سے یہی منشاء تھا کہ وہ اپنا فضل و کمال دکھانا چاہتا تھا جو اس نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر کیا تھا ۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں ۔ یعنی اے اللہ ہم پر وہ انعام و اکرام کر جو پہلے نبیوں اور صدیقوں شہیدوں اور صالحین پر تو نے کیے ہیں ہم پر بھی کر۔ اگر خدا تعالیٰ یہ انعام و اکرام کر ہی نہیں سکتا تھا اور ان کا دروازہ بند ہو چکا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا ضرورت تھی؟ اسرائیلیوں پر تو یہ دروازہ بند ہو چکا تھا ۔ اگر یہاں بھی بند ہو گیا تو پھر کیا فائدہ ہوا؟ او ر کس بات میں بنی اسرائیل پر اس امت کو فخر ہوا؟ جو خود اندھا ہے وہ دوسرے اندھے پر کیا فخر کر سکتا ہے ؟

اگر وحی ، الہام، خوارق یہودیوں پر بند ہو چکے ہیں تو پھر یہ بتائو کہ یہ دروازہ کسی جگہ جا کر کُھلا بھی یا نہیں؟ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ نہیں ہم پر بھی یہ دروازہ بند ہے ۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے۔ پانچ وقت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحہ:6)کی دعا کرتے ہیں اور اس پر بھی کچھ نہیں ملتا ۔ تعجب۔ اللہ تعالیٰ کا خود ایسی تعلیم کرنا تو یہ معنی رکھتا ہے کہ میں تم پر انعام و اکرام کرنے کے لیے تیار ہوں جیسے کسی حاکم کے سامنے پانچ امیدوار ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو کہے کہ تم یہاں حاضر رہو تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ اس کو ضرور کام دیا جاوے گا۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم کی اور پانچ وقت یہ پڑھی جاتی ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ اس کا کچھ بھی اثر اور نتیجہ نہیں ہوتا۔ کیا یہ قرآن شریف کی ہتک اور اسلام کی ہتک نہیں؟میرے اور ان کے درمیان یہی امر در اصل متنازع فیہ ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کے برکات اور تاثیرات جیسے پہلے تھیں ویسے ہی اب بھی ہیں۔ وہ خدا اپنے تصرفات اب بھی دکھاتا ہے اور کلام کرتا ہے ۔ مگر یہ اس کے مقابلہ میں کہتے ہیں کہ اب یہ دروازہ بند ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ خاموش ہو گیا وہ کسی سے کلام نہیں کرتا ۔ دعاؤں میں تاثیر اور قبولیت نہیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات پیچھے رہ گئی ہیں اب نہیں۔ افسوس ان پر ۔ انہوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف اور خدا تعالیٰ کی قدر نہیں کی۔

اسلام زندہ مذہب اور ہماری کتاب زندہ کتاب اور ہماراخدا زندہ خدا اور ہمارا رسول زندہ رسول۔ پھر اس کے برکات، انوار اور تاثیرات مردہ کیونکر ہوسکتی ہیں؟ میں اس مخالفت کی کچھ پروا نہیں کر سکتا۔ ان کی مخالفت کے خیال سے میں خد اتعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔

لاہور میں عبد الحکیم نام ایک شخص سے میری گفتگو ہوئی۔ اس نے کہا کہ الہام پہلی امتوں کا خاصہ تھا ۔ یہانتک کہ عورتوں کو بھی وحی ہوتی تھی مگر اس امت میں یہ دروازہ بند ہے ۔ کیسے شرم کی بات ہے ۔ کیا یہ امت بنی اسرائیل کی عورتوں سے بھی گئی گزری ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے اس کے لیے یہی چاہا ہے کہ وہ خیر الامم کہلا کر بھی محروم رہے؟

اس عبدالحکیم نے تو یہانتک کہدیا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی محدَّث نہ تھے۔ وہ بھی صرف ان کو ایک خوش کرنے کی بات تھی ۔ محدَّث وہ بھی نہ تھے۔

مختصر یہ کہ اس قسم کی ہتک اسلام اور نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی یہ لوگ کرتے ہیں۔ پھر میں ان کی مخالفت کی کیا پروا کروں؟ یہ لوگ اسلام کے دوست نہیں۔ دشمن ہیں۔ اگر بقول ان کے سب بے نصیب ہیں تو پھر کیا فائدہ؟ ہزار اتباع کریں۔ معرفت نہ بڑھے گی تو کوئی احمق اور نادان ہی ہو گا جو اس پر بھی اتباع ضروری سمجھے ۔ حضرت عیسیٰ کا آنا نہ آنا تو امر ہی الگ ہے ۔ اس سوال کو پیچھے چھوڑو۔ پہلے یہ تو فیصلہ کرو کہ کیا اس امت پر بھی وہ برکات اور فیوض ہوں گے یا نہیں؟ جب یہ فیصلہ ہو لے تو پھر عیسیٰ کی آمد کا سوال جھٹ حل ہو سکتا ہے۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 87تا90۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button