رپورٹ دورہ حضور انور

UNESCO کی طرف سے حضورانور کے اعزازمیں تقریب اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا بصیرت افروز خطاب

………………………………………………

08؍اکتوبر2019ءبروزمنگل (حصہ دوم آخر)

………………………………………………

دیگرملاقاتیں

اس کےبعددرج ذیل3 مہمانوں نے حضور انور کے ساتھ شرفِ ملاقات پایا۔

1۔ VALERIE THORINصاحبہ (موصوفہ پروٹیسٹنٹ جرنلسٹ ہیں اور افریقنISSUESپر سپیشلائز کیا ہواہے۔ان کاایکRADIO PROTESTANT بھی ہےجس پرایک احمدی دوستSAID ADIWIبھی جماعت کےحوالہ سےپروگرام کرتےہیں۔)

2۔FLORENCE TAUBMANN صاحبہ (موصوفہEVANGELICAL چرچ کی پادری ہیں اور CHRISTIAN-JEWISH FRIENDSHIP COMMITTEE کی پریذیڈنٹ بھی ہیں۔)

3۔ ALFONSSINA BELLIOصاحبہ (موصوفہ سوشیالوجسٹ ہیں اور ایک بہت خاص RELIGIOUS LABORATORY OF RESEARCH سے منسلک ہیں۔)

ان سبھی نےباری باری حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکواپناتعارف کروایا۔

ALFONSSINA BELLIOصاحبہ نےعرض کیاکہ وہ جلسہ سالانہ فرانس میں شامل ہوئی تھیں۔یہ جلسہ میں شامل ہونامیری زندگی کاایک تاریخی موقعہ تھا۔جلسہ پرحضورانورنےفرانکفون مہمانوں سےخطاب بھی کیا۔ یہ ہمارےملک کےلیے بھی ایک تاریخی دن تھا۔

موصوفہ نےبتایاکہ وہ پیرس میں رہتی ہیں۔لیکن ان کاتعلق اٹلی سےہے۔ مہنگائی کےحوالہ سے بات ہوئی کہ دونوں ممالک میں سےزیادہ مہنگاکون ہے۔اس پراس نےکہاکہ روم میں بھی مہنگائی ہےلیکن پیرس میں زیادہ ہے۔

FLORENCE TAUBMANNصاحبہ نے بتایا کہ میں پروٹیسٹنٹ ہوں ہمارےچرچ میں نصف ملین لوگ ہیں۔لوگ مذہب سےدورجارہےہیں۔

اس پرحضورانورنےفرمایا۔آج کل کی دنیامیں لوگوں کومذہب کی پرواہ نہیں ہے۔انٹرفیتھ ڈائیلاگ ضروری ہےاس میں غیرمذہبی لوگوں کوبلاناچاہیےبجائے اس کےکہ مذہب کےخلاف بولیں اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں اوربتایا جائے کہ سب کومعاشرہ میںمل جل کررہنا چاہیے۔ہم سب ایک ہی معاشرہ میں رہنے والے ہیں۔
حضورانورنےفرمایا:اس وقت ضروری ہےکہ معاشرہ میں لوگوں کو خداتعالیٰ کی پہچان کروائیں۔اس پر بہت زور دیں۔بنیادی بات یہ ہےکہ ہرایک کو احساس ہو کہ ایک خدا ہے۔ہرایک کااپنامذہب ہے لیکن ایک خدا کوپہچاننایہ سب سے بنیادی بات ہے۔

VALERIE THORINنےبتایاکہ ہم ایک ریڈیوپروگرام ہر2ہفتہ بعد اتوارکوکرتے ہیں۔4لاکھ سننے والےہیں۔یہ مذہب کےبارہ میں ہوتاہے۔ایک عیسائی،ایک یہودی اورایک احمدی کواسلام کی نمائندگی کےلیےرکھاہےان کانام SAID ADIWIہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا :اسلام ، مسلمانوں کے بارہ میں لوگوں کے کیا خیالات ہیں؟

موصوفہ نےجواب دیاکہ ابھی بھی لوگوں کواسلام کے بارہ میں،مسلمانوں کےبارہ میں پتہ نہیں ہے۔جب سےایک احمدی کورکھاہے ہمارےسننےوالوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔لوگوں کوحقیقی اسلام کا پتہ چل رہاہے۔جوبھی فِیڈبیک ہوتاہےمثبت ہوتاہے۔

حضورانورنےفرمایا:بنیادی بات یہ ہےکہ اسلام کا مطلب ہی امن ہے۔

حضورانورنےفرمایا۔آتے ہوئےکافی ٹریفک تھا۔سب سےبڑاٹریفک جومیں نے دیکھاہےوہ لیگوس نائیجیریامیں تھا۔ اس کاخاص نامGO SLOWہے۔وہاں کوئی ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کرتا۔انہوں نےاس پرکہا کہ وہ بھی کچھ عرصہ نائیجیریا میں رہی ہیں۔بالکل ٹھیک کہتےہیں۔

آخرپرحضورانورنےفرمایاکہ میں8سال غانامیں رہا ہوں۔ افریقہ کواچھی طرح جانتاہوں۔افریقن لوگوں میں غانین سب سےزیادہ عاجزہیں اورایک ڈسپلن رکھتے ہیں۔

UNESCOکی طرف سے حضورانور کےاعزازمیں تقریب

بعدازاں 5بج کر55منٹ پرہوٹل سےUNESCOجانے کے لیے روانگی ہوئی۔ 6 بج کر5منٹ پرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ کیUNESCOتشریف آوری ہوئی۔

بیرونی دروازہ پرآنریبل ڈاکٹرOUMA KETAصاحب(جو UNESCO میں ملک مالی(MALI)کے ایمبیسڈر ہیں)نےحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ کااستقبال کیا اور خوش آمدیدکہااورحضورانورکواپنےساتھ عمارت کےاندراس ہال میں لےگئے جہاں تقریب کاانعقادکیاجارہاتھا۔

تقریب میں شامل ہونےوالے بعض مہمانان کےمختصرخطابات

آج کی اس تقریب میں91مہمان شریک تھے۔جن میں

٭…مالی کے ایمبسیڈر ڈاکٹر OUMA KETAکےعلاوہ
٭…MR. JEAN-CHRISTOPHE AUGER وزارت خارجہ فرانس میں مذہبی امورکےمشیر
٭…MR. CLEMENT ROUCHOUSE وزارت داخلہ فرانس کےمذاہب کےشعبہ کے ڈائریکٹر
٭…MR. GREGOIRE DUBLINEAU علاقہEAUBONNE کے مئیر
٭… MR. WILLY BRETON۔NATOمیموریل کےپریذیڈنٹ
٭…MR. OLIVIER DE LAGARADE۔CEO OF MULTIPLE BUSINESS SCHOOL
٭…MR. ABOUBAKAR DOLOفرانس میں مالی کے ایمبیسڈر کےفرسٹ ایڈوائزر
٭…MR.LUDOVIC MENDESممبرآف فرنچ پارلیمنٹ
٭…MR. PATRICK VANDANGEON کونسلرLES MUREAUX TOWN

اور مختلف حکومتی اداروں کےافراد،ڈائریکٹرز،جرنلسٹس اوردیگر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔

پروگرام کےمطابق6بج کر10 منٹ پر تقریب کا آغاز ہوا۔

٭…سب سے پہلے یونیسکو میں مالی کے ایمبیسڈر ڈاکٹرOuma Keitaنے اپناایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

اس تقریب میں شامل ہونا میرے لیے بہت فخر کی بات ہے۔ 2012ء سے میرا ملک مالی دہشت گرد حملوں کی لپیٹ میں ہے۔ وہ اپنے تنگ نظریات ہماری قوم پر نافذ کرناچاہتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری قومی اقدار کے خلاف ہیں۔ ہم رواداری کو پسند کرتے ہیں۔قانونی طور پر ہمارے ملک میں مذہبی آزادی ہے۔

جماعت مسلمہ احمدیہ 1987ءسے مالی میںموجود ہے اور معاشرے کی ترقی کے لیے فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ آج یہ جماعت دینی اور فلاحی کاموں میں فعال ہے۔ ہم جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہمارے ملک میں سکول اور ہسپتال کھول رہی ہے۔ نیز پانی کے نلکے لگارہی ہےاور Humanity First کے ذریعہ دیگر بہت سے فلاحی کاموں میں مصروف ہے۔

جماعت احمدیہ اپنے 17ریڈیوسٹیشنز،6 بڑی مساجد اور اسکولوں کی تعمیر سے ہماری قوم کو علم کے نور سے منور کر رہی ہے۔ میں جماعت احمدیہ کو اپنے ان کاموں کو جاری رکھنے کی درخواست کرتاہوں۔
میں امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کر تا ہوں جو دنیامیں امن قائم کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ہم جماعت احمدیہ کے کاموں پرمباک باد پیش کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ غانا میں ر ہے اور وہاں کے زرعی نظام میں بہتری لانے کے لیےکامیاب تجربے کیے۔ ہم آپ کو مالی میں بھی تشریف لانے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے لیے بہت اعزاز کی بات ہوگی۔ ہم آپ کی قیمتی نصائح کے انتظار میں ہیں۔

٭…بعد ازاں مکرم آصف عارف صاحب نیشنل سیکریٹری امور خارجہ فرانس نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے جماعت کا تعارف کروایا اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔

٭…اس کے بعد وزارت داخلہ فرانس کے مذاہب کے شعبہ کے ایک ڈائریکٹر Clément Rouchouseنے اپنے ایڈریس میں کہا:

میں امام جماعت احمدیہ کو فرانس میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہمارے ملک فرانس میں ہر مذہب وملت کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ فرانس کے قانون کے مطابق حکومت مذہبی امور میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ فرانس کا اسلام کے ساتھ ایک طویل تعلق ہے۔ فرانس میں بہت سے مسلمان موجود ہیں۔ 1924ء سے جماعت احمدیہ یہاں موجود ہے۔ آپ کی پُرامن تعلیمات کی بہت ضرورت ہے تا کہ اسلام ہماری ریاست میں اپنی جگہ بنالے۔ جماعت احمدیہ فرانس کے مختلف شہروں میں رفاہی کاموں میں فعال ہے۔ امن، اخوت، بین المذاہب مکالمے کے لیے جماعت احمدیہ کافی کام کر رہی ہے۔ اس بارے میں میں وزارت داخلہ کی طرف سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ہم آپ کےساتھ ہیں۔

٭…بعد ازاں منسٹری آف یورپ اور فارن افیئرز میں مذہبی امور کے کونسلر کے مشیر خاصJean – Christophe Augeنے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

میں امام جماعت احمدیہ کو فرانس میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں اس تقریب کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کر تا ہوں۔ ہم امام جماعت احمدیہ کی عالمگیر اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں اور آپ کی جماعت کو بھی جانتے ہیں۔ فرانس کی حکومت آزادیٔ رائے اور آزادیٔ مذہب کا دفاع کرتی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ امام جماعت احمدیہ کا دورہ فرانس کامیاب ہو۔

٭…اس کے بعد Eaubonne علاقہ کے مئیر Gregoire Dublineau نے اپنے ایڈریس میں کہا:

میں جماعت احمدیہ فرانس کی کوششوں کی تعریف کرتا ہوں۔ اس جماعت کے ممبرز ہرسطح پر ہماری مدد کرتے ہیں۔ وہ پیار، محبت اور اخوت بانٹ رہے ہیں۔ آپ کے کاموں کی وجہ سے لوگوں کے مسلمانوں کے بارہ میں تحفظات دور ہورہے ہیں اور لوگ اسلام کےبارے میں مز یدعلم حاصل کرنے کی جستجو کر رہے ہیں۔

٭…بعد ازاں نیٹو میموریل کے صدرWilly Bretonنےاپناایڈریس پیش کرتےہوئے کہا:

ہر سال ہم اپنی تقریب کے لیے فرانس کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دیتے ہیں ۔ ہم جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ خاص کر امام جماعت احمدیہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ آپ اس تقریب میں شامل ہوئے۔ ہماری تقریبات میں جماعت احمدیہ شامل ہوتی ہے اور وفات پانے والے فوجیوں کے لیے اور ان کے رشتہ داروں کے لیے دعا کرتے ہیں۔ میرا پیغام ہے کہ ہم سب مل کر امن کے لیے کوشش کریں۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے6بج کر40منٹ پر انگریزی زبان میں خطاب فرمایا جس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کابصیرت افروزخطاب

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سے خطاب کا آغاز فرمایا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

مہمانان کرام،السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

سب سے پہلے میں UNESCO کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے آج ہمیں یہاں اس پروگرام کے انعقاد کی اجازت دی۔ نیز میں تمام مہمانان کرام کا بھی شکریہ ادا کرناچاہتاہوں جو ہماری دعوت قبول کرتے ہوئے آج یہاں ایک ایسے شخص کی تقریر سننے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جو کہ نہ تو سیاستدان ہے ، نہ کوئی سیاسی لیڈر اور نہ ہی کوئی سائنسدان، بلکہ ایک مذہبی جماعت یعنی احمدیہ مسلم کمیونٹی کا لیڈر ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

UNESCOکے بنیادی مقاصد بہت عمدہ اور قابل ستائش ہیں۔ میرے علم کے مطابق اس کے مقاصد میں پوری دنیا میں امن اور باہمی عزت و احترام کا قیام، قانون اور انسانی حقوق کی پاسداری اور تعلیم کو فروغ دینا شامل ہیں۔ UNESCO آزادیٔ صحافت اور مختلف ورثوں اور ثقافتوں کی حفاظت کو بھی فروغ دیتی ہے۔ اس کے مقاصد میں غربت کا خاتمہ اور عالمی سطح پر دیر پاترقی اور نشوونما کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ پھر UNESCO اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایسا ترکہ چھوڑ کر جائے جس سے آنے والی نسلیں مستفیض ہوتی رہیں۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اسلامی تعلیمات بھی مسلمانوں سے انہی مقاصد کو پورا کرنے اور انسانی ترقی کے لیے مسلسل کوششوں میں لگے رہنے کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس قسم کی خدمات کی بنیاد قرآن کریم کی پہلی سورة پرہی ہے جس میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔ یہ آیت اسلامی عقائد کا محور ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ان کا ہی رب اور رازق نہیں بلکہ تمام بنی نوع کا بھی وہی رب اور رازق ہے۔ وہ رحمان اور رحیم ہے۔ پس وہ بلا امتیاز رنگ و نسل اور ذات کے اپنی تمام تر مخلوقات کی ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ پس اس کے پیش نظر حقیقی مسلمان اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان برابر پید اہوئے ہیں۔ پس قطع نظر عقائد کے اختلاف کے باہمی عزت و احترام اور بردباری جیسی اقدار معاشرہ کی بنیاد ہونی چاہئیں۔ سورة البقرة کی آیت نمبر 139 میں ایک بہت خوبصورت اصول بیان ہوا ہے کہ مسلمانوں کو الله تعالیٰ کی راہ پر قدم مارنے چاہئیں اور اس کی صفات کو اپنانا چاہیے۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر محیط ہے اور وہ تمام لوگوں کا رازق اور عطا کرنے والا ہے، حتیٰ کہ ان کا بھی جو اس کے وجود کے انکاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ان پر بھی رہتا ہے جو اس کے خلاف زبان درازی کرتے رہتے ہیں یا دنیامیں مظالم ڈھاتے رہتے ہیں۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسلام میں خدا کی طرف سے عائد کردہ جزاء و سزا کا تعلق آخرت کے ساتھ زیادہ ہے جبکہ اس زندگی میں تو الله تعالیٰ دنیا پر اپنے رحم و کرم کا اظہار فرماتا چلا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی صفات اپنانے کی تعلیم دےکر یہ بتایا ہے کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ رحم اور ہمدردی سے پیش آئیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ عقائد، تہذیب اور رنگ و نسل کے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہمیشہ دوسروں کی ضروریات پوری کریں اور ان سے ہمیشہ ہمدردی کا سلوک کریں اور ان کے جذبات کا احساس کریں۔ مزید یہ کہ قرآن کریم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔آپ ﷺ ہمدردی کی ان اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ تھے۔ جب آپ ﷺنے مذہب ‘‘اسلام’’ کی بنیاد رکھی تو اس کے بعد آپﷺ اور دوسرے مسلمانوں کو مکہ کے غیرمسلموں کی طرف سے جارحانہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہےجسے آپﷺ نے نہایت صبر اورتحمل کے ساتھ برداشت کیا۔ آخر کار جب ظلم و ستم انتہاسے بڑھ گئے تو وہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے جہاں رسول کریمﷺ نے مہاجرین، یہود اور دیگر اقوام کے باشندوں کے مابین امن کا معاہدہ طے کروایا۔ اس معاہدہ کے مطابق مختلف اقوام نے امن کے ساتھ رہنے، دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرنے اور باہمی ہمدردی، تعاون اور تحمل کو فروغ دینے کا عہد کیا۔ رسول کریم ﷺریاست کے والی مقرر ہوئے اور ان کی قیادت میں یہ معاہدہ انسانی حقوق اور حکمرانی کا ایک شاندار چارٹر ثابت ہوا اور اس نے مختلف قوموں کے مابین امن کو یقینی بنایا۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پیغمبر اسلام ﷺنے تنازعات کے حل کرنے کے لیے غیر جانبدارانہ عدلیہ کا نظام قائم فرمایا۔ آپ نے یہ واضح فرمایا کہ امیر اور طاقتور ، نیز غریب اور نادار لوگوں، سب کے لیے ایک ہی قانون ہو گا اور سب سے اس ریاستی قانون کے مطابق ہی سلوک کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ ایک اثر ورسوخ والی عورت نے ایک جرم کیا اور بہت سے لوگوں نے یہ تجویز دی کہ اس کا جرم نظر انداز کر دیا جائے۔ رسول کریمﷺنے اس تجویز کوردّ فرمایا اور یہ وضاحت کی کہ اگر میری بیٹی بھی جرم کرتی تو ان کو بھی رعایت نہ ملتی اور قانون کے مطابق سزاملتی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

مزید یہ کہ رسول کریم ﷺنے بہت ہی اعلیٰ تعلیم کا نظام بھی قائم فرمایا جس کے ذریعہ سے اس معاشرہ میں روشن خیالی کے معیار بلند ہو گئے۔ تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اَن پڑھ لوگوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ معاشرہ میں یتیموں اور کمزوروں کی تعلیم کے لیے خاص انتظامات کیے گئے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تا کہ کمزور اور نادار لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔ ٹیکس کا نظام بھی قائم کیا گیا جس سے معاشرہ کے امیر لوگوں سے ٹیکس لیا جاتا تھا اور معاشرہ کے مفلس لوگوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق پیغمبر اسلامﷺ نے تجارت کا بھی ایک ضابطۂ اخلاق قائم فرمایا تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تجارت انصاف اور ایمانداری سے ہورہی ہے۔ اس زمانہ میں جب کہ غلامی کا دور دورہ تھا اور آقا اپنے غلاموں سے نہایت بے رحمی کا سلوک کرتے تھے ، پیغمبر اسلام نے اس وقت معاشرہ میں انقلاب برپا کر دیا۔ آقاؤں کو حکم دیا گیا کہ غلاموں سے ہمدردی اور عزت کا سلوک کریں اور رسول کریم ﷺ نے متعدد مرتبہ انہیں آزاد کرنے کی بھی پرزور ترغیب دلائی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

نیز رسول کریم ﷺ کی قیادت میں عوامی حفظان صحت کا نظام بھی قائم کیا گیا۔ شہر کی صفائی ستھرائی کا پروگرام مرتب کیا گیا اور لوگوں کو ذاتی صفائی اور حفظانِ صحت کے متعلق بھی تعلیم دی گئی۔ شہر کی سڑکیں کشادہ اور بہتر کی گئیں۔ شہریوں کی ضروریات کا تعین کرنے اور دیگر معلومات اکٹھی کرنے کے لیے مردم شماری کی گئی۔ لہٰذاساتویں صدی میں پیغمبر اسلامﷺ کی حکومت کے زیرِ انتظام مدینہ میں انفرادی اور اجتماعی حقوق میں بہتری لانے کے لیے حیران کن اقدامات کیے گئے۔ یقینا ً عربوں میں پہلی مرتبہ باقاعدہ مہذب اور منظم معاشرے کا قیام عمل میں آیا۔ یہ معاشرہ کئی لحاظ سے مثالی تھا۔ مثلاً انفراسٹر کچر، خدمات اور سب سے بڑھ کر اس کثیرالثقافتی معاشرہ میں اتحاد اورتحمل کا مظاہرہ تھا۔ مسلمان وہاں مہاجرین کے طور پر آئے تھے لیکن پھر بھی مقامی معاشرے میں مدغم ہو گئے اور وہاں کی کامیابی اور ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تاہم یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھی آج کل کی دنیا میں پیغمبر اسلام ﷺکی کردار کشی ہورہی ہے۔ انہیں ایک جنگی لیڈر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ در حقیقت رسول کریم ﷺنے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں کے حقوق کے دفاع میں گزارا اور اسلامی تعلیمات کے ذریعہ انسانی حقوق کے بے نظیر اور دائمی منشور کا قیام عمل میں فرمایا۔ مثلاً آپﷺنے تعلیم دی کہ لوگ ایک دوسرے کے عقائد اور جذبات کا خیال رکھیں اور دوسروں کی مقدس ہستیوں پر تنقید کرنے سے باز رہیں۔

ایک دفعہ ایک یہودی آیا اور آپ ﷺ کے ایک قریبی صحابی کے بارہ میں شکایت کی۔ اس پر رسول کریم ﷺنے ان صحابی کو بلایا اور اس بارہ میں دریافت فرمایا۔ صحابی نے عرض کیا کہ وہ یہودی کہہ رہا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول کریم ﷺپر فوقیت حاصل ہے اور یہ بات مجھ سے برداشت نہیں ہوئی تو میں نے سختی سے اس کا جواب دیا کہ نہیں !رسول کریم ﷺ کا مرتبہ زیادہ بلند ہے۔ اس پر رسول کریم ﷺنے اپنے قریب ترین ساتھی کے ساتھ ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ آپ کو اس یہودی سے بحث نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ اس کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ یہ تھیں آپﷺ کی بے نظیر تعلیمات اور میرے خیال میں یہ نہایت قابل افسوس ہے کہ باہمی عزت و احترام کے بنیادی اصول، جو کہ محبت اور اتحاد کے قیام کا ذریعہ ہے، اس کو دور حاضر میں نام نہاد آزادی اور تفریق کے نام پر قربان کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ بانیان مذاہب کو بھی ہنسی، ٹھٹھہ اور تحقیر سے مبرا نہیں رکھا گیا۔ باوجودیکہ ان انبیاء پر طنز ان کے کروڑہا پیروکاروں کے غم و غصہ کا موجب بنتا ہے۔ دوسری طرف قرآن کریم اس حد تک تعلیم دیتا ہے کہ دوسروں کے بتوں کو بھی برا نہ کہیں کیونکہ ان کو تکلیف ہو گی۔ نیز یہ کہ نتیجتاً وہ خدا کو بھی برا کہیں گے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ کا امن اور اتحاد متاثر ہو گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

غریب اور نادار لوگوں کے حقوق پورا کرنے کے حوالہ سے رسول کریم ﷺ نے مختلف سکیموں اور منصوبوں کا آغاز کیا تا کہ ان کا طرز معاشرت بہتر ہو اور وہ اپنے وقارسے محروم نہ رہیں۔ آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اکثر ایسے لوگوں کو مقام و مرتبہ دیتے ہیں جو امیر اور طاقتور ہوں لیکن ایک غریب شخص جو کہ با اخلاق اور بامروت ہے وہ اس امیر شخص سے کہیں بہتر ہے جو دوسروں کے جذبات کا خیال نہیں رکھتا اور فقط اپنا ہی خیال ہوتا ہے۔

چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی رسول کریم ﷺاس بات کا خاص خیال رکھتے کہ پسماندہ افراد کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ مثال کے طور پر آپﷺ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ اپنے اجتماعات اور کھانے کی دعوتوں میں ہمیشہ غریب اور ضرورت مند افراد کو بلایا کریں۔ اگر امیر اور طاقتور لوگ غریبوں کا استحصال کرتے تو آپ ﷺ اپنے صحابہ سے فرماتے کہ کمزور لوگوں کو انصاف دلانے میں ان کی مدد کریں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

رسول کریمﷺ نے ہمیشہ غلامی کو ختم کرنے کی کو شش کی۔ آپ ﷺنے اپنے پیروکاروں کو بار بار نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے غلاموں کو آزاد کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر فوری طور پر آپ اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے اوڑھنے اور کھانے کا اسی طرح خیال رکھیں جیسا کہ آپ اپنارکھتے ہیں۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ایک اور مسئلہ جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ حقوق نسواں کا ہے، یعنی اسلام عورتوں کے حقوق ادا نہیں کرتا۔ اس کا حقیقت سے دور دور کا تعلق نہیں۔ بلکہ اسلام نے ہی تو سب سے پہلے عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق قائم فرمائے اور اس دور میں یہ حقوق قائم فرمائے جب عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ پیغمبر اسلامﷺ نے اپنے تابعین کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عورتوں کو تعلیم دی جائے اور ان کی عزت و احترام کیا جائے۔ یہاں تک فرمایا کہ اگر کسی شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں تعلیم دلائے اور سیدھے راستہ پر چلائے تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ یہ بات تو ان شدت پسندوں کے دعویٰ کے متضاد ہے جو کہتے ہیں کہ جہاد اور غیر مسلمانوں کو قتل کرنے سے انسان جنت میں چلا جائے گا۔ پیغمبر اسلامﷺ نے تو یہ بات سکھائی کہ جنت میں جانے کا رستہ لڑ کیوں کو تعلیم دینے اور اخلاقی اقدار سکھانے میں ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

انہی تعلیمات کی بناء پر دنیا بھر میں احمدی مسلمان لڑکیوں کو تعلیم دلوائی جاتی ہے اور وہ مختلف میدانوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ہماری بچیاں ڈاکٹرز بن رہی ہیں، استاد بن رہی ہیں، آرکیٹیکٹ بن رہی ہیں اور دیگر شعبہ جات میں جارہی ہیں اور اس طرح انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ہم اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کو تعلیم کے یکساں مواقع ملیں۔ چنانچہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں احمدی مسلمان لڑکیوں کی شرح خواندگی کم از کم ننانوے فیصد ہے۔

حضور انور ایده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر رسول کریمﷺ نے ہمسایوں کے حقوق پر بہت زور دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمسایوں کے حقوق کی اس قدر تاکید کی کہ مجھے لگا کہ شاید ہمسایوں کو وراثت کے حقوق مل جائیں گے۔ پس رسول کریم ﷺنے رنگ و نسل اور ذات پات کو بالائے طاق رکھ کر عالمی انسانی حقوق کا قیام فرمایا۔ میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ کس طرح رسول کریمﷺنے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ اس کی ایک مثال اسلامی تاریخ کی پہلی جنگ کے بعد ملتی ہے۔ مسلمانوں نے بے ساز و سامانی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور اہل مکہ کو شکست دی۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺنے پڑھے لکھے جنگی قیدیوں کو اس شرط پر آزاد کر نے پیشکش کی کہ وہ معاشرے کے اَن پڑھ لوگوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں۔ پس اس طرح کئی صدیوں پہلے پیغمبر اسلام ﷺنے قیدیوں کی اصلاح اور انہیں معاشرے کا مفید وجود بنانے کا کامیاب نمونہ قائم فرمایا۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام جنگ و جدل کا مذہب ہے مگر حقیقت یہ ہے جو قرآن کریم میں بھی بیان ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو دفاعی جنگ کرنے کی اجازت صرف اس لیے دی گئی تا تمام بنی نوع انسان کے لیے آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ شعور قائم کی جائے اور اس کی حفاظت کی جائے۔ قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ اگر مسلمان کفار مکہ کی فوج کا مقابلہ نہ کرتے تو کوئی بھی کلیسا، گرجا گھر، مندر، مسجد یا کسی بھی مذہب کی عبادت گاه محفوظ نہ رہتی کیونکہ مخالفین تو ہر قسم کے مذہب کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ دراصل اوّلین مسلمانوں نے اگر جنگوں میں حصہ لیا تو وہ دفاعی جنگیں تھیں اور وہ جنگیں دیرپا امن کے قیام اور لوگوں کے آزادی سے جینے کے حق کی حفاظت کے لیے لڑی گئی تھیں۔ اگر آج کل بعض ایسے مسلمان ہیں جو شدت پسندی کے حربے اپناتے ہیں یا جو جنگ و جدل کی تعلیم دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو بھلا چکے ہیں یا ان تعلیمات سے بالکل لاعلم ہیں۔ جہاں کہیں بھی لوگ یا بعض گروپس دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کا مقصد طاقت و دولت کا حصول ہو تا ہے۔ اسی طرح وہ ممالک جو کہ غیر منصفانہ اور انتہا پسندانہ پالیسیاں اختیار کرتے ہیں اس کے پیچھے ان کے مقاصد جغرافیائی فوائد اور دوسروں پر اپنی طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی حرکات کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو فتنہ و فساد سے منع کیا ہے۔ اسی لیے نہ تو رسول کریم ﷺاور نہ ہی آپ کے خلفائے راشدین نے جنگیں شروع کیں بلکہ ہمیشہ امن اور صلح کے خواہاں رہے بلکہ اس راہ میں بے شمار قربانیاں بھی دیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

بعض تنقید کرنے والوں کی طرف سے اسلام پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اسلام ایک قدامت پسند اور پسماندہ مذہب ہے یا ایک ایسا مذہب ہے جو کہ روشن خیالی کو فروغ نہیں دیتا۔ یہ ایک بیوقوفانہ اور تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے جس کی بنیاد حقیقت کی بجائے افسانوں پر ہے۔ یہ ایک بے بنیاد الزام ہے۔ قرآن کریم نے ازخودیہ دعا سکھا کر تعلیم کی اہمیت بیان فرمائی ہے کہ‘‘اے میرے رب !میرے علم میں اضافہ فرما۔’’ جہاں یہ دعا مسلمانوں کے لیے مدد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے وہاں یہ دعا مسلمانوں کو علم حاصل کرنے اور اس میں مزید ترقی کرنے کی ترغیب دلاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے مسلمان مفکروں، فلسفیوں اور موجدین کی تحقیقات قرآن کریم اور آنحضرت ﷺکی تعلیمات سے متاثر ہیں۔

حضور انور ایده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اگر آپ ہزار سال قبل کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مسلمان موجدین اور سائنسدانوں نے علم کو پروان چڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور ایسی تکنیکیں ایجاد کیں جنہوں نے دنیاہی بدل دی اور یہ تکنیکیں آج بھی استعمال کی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ابن ہیشم نے پہلا کیمرہ ایجاد کیا اور UNESCO نے بھی یہ تسلیم کیا ہے جہاں اسے جدید optics (علم بصريات) کا بانی کہا گیا ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ لفظ کیمرہ بھی عربی لفظ کَمَرَسے نکلا ہے۔ بارہویں صدی میں ایک مسلمان نقشہ نگار نے قرون وسطیٰ کا دنیا کا سب سے تفصیلی اور صحیح نقشہ پیش کیا جو کہ کئی صدیوں تک سیاحوں کے زیر استعمال رہا۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر طب کے میدان میں بھی مسلمان اطباء اور سائنسدانوں نے کئی دریافتیں کیں اور بہت سی ایسی ایجادیں کیں جو آج کل بھی مستعمل ہیں۔ کئی آلات جراحی مسلمان طبیب الزہروی نے دسویں صدی میں بنائے۔ سترہویں صدی میں ایک انگریز طبیب ولیم ہاروے (William Harvey) نے خون کی گردش اور دل کس طرح کام کرتا ہے اس پر ایک اہم تحقیق پیش کی اور اس کی بہت مشہوری ہوئی۔ تاہم یہ بات بعد میں سامنے آئی کہ4سو سال قبل ایک عرب طبیب ابن نفیس عربی زبان میں خون کی بنیادی گردش کے بارے میں تفصیل پیش کر چکا تھا۔ نویں صدی میں جابر ابن حیان نے کیمسٹری میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس نے بہت سے ایسے عمل اور آلات پیش کیے، جو کہ آج بھی مستعمل ہیں۔ الجبرا کا اصول اور trigonometry کی اکثر تفصیل سب سے پہلے ایک مسلمان نے پیش کی۔ جدید دنیا میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں algorithms کا بہت عمل دخل ہے اور یہ بھی پہلے مسلمانوں نے پیش کیے۔ ذہنی ارتقاء میں مسلمانوں کی خدمات کو آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز میں ایک سائنس رپورٹر Denis O ‘ Brien کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس نے ایک مسلمان الطوسی جو کہ متعدد علوم کے ماہر تھے ان کے کردار کا ذکر کیا۔ مصنف نے الطوسی کی علم فلکیات، علم الاخلاق، حساب اور فلسفہ کے حوالہ سے کئی کاموں کا ذکر کیا اور اسے اپنے دور کا بہترین مفکر قرار دیا۔ یہ لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے قرون وسطیٰ میں ایسا معاشرہ قائم کیا جو کہ دنیا میں سائنس کا مرکز تھا۔ علم اور سائنس کے لیے عربی5 سو سال تک مرکزی زبان رہی۔ یہ ایک سنہری دور تھا جو آج کل کی جدید یونیورسٹیوں کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا۔ چنانچہ ابتدا سے ہی اسلام نے انسانی علم بڑھانے اور علم حاصل کرنے کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

احمدیہ مسلم جماعت کا قیام 1889ء میں ہوا۔ احمدیہ جماعت نے ہمیشہ افراد جماعت کوعلم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ کے فضل سے سب سے پہلے مسلمان نوبیل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام ایک احمدی تھے۔ یہ ایک مشہور سائنسدان تھے جنہوں نے 1979ء میں فزکس میں نوبل انعام حاصل کیا۔ پروفیسر عبد السلام عمر بھر اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ کس طرح ان کی تحقیقات کے پیچھے اسلام اور بالخصوص قرآن کریم کا فیض اور روشنی کار بند تھی۔ آپ کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم کی 750آیات سائنس سے متعلقہ ہیں، جن سے ہمیں قدرت اور کائنات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

مزید یہ کہ احمدیہ جماعت کے تیسرے خلیفہ نے عظیم مسلمان سائنسدانوں اور سکالرز کی ایک نئی صبح طلوع ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور اپنی جماعت میں علمی میدان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں کو گولڈ میڈل دیے جانے کی روایت کا آغاز کیا۔ چنانچہ ہر سال سینکڑوں احمدی مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو گولڈ میڈل دیے جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غربت کے چکر کو، جس نے معاشی طور پر پسماندہ ممالک کو نسل در نسل جکڑا ہوا ہے، ختم کرنے کے لیے تعلیم مہیا کرنا بہت ضروری ہے۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ہمیں یہ تعلیم رسول کریم ﷺنے دی ہے جس میں آپ نے بتایا کہ روحانی ترقی کا خدمت انسانیت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور ایک مسلمان صرف اللہ تعالیٰ کی عبادات اور نمازوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتا بلکہ رضائے باری تعالیٰ کا حصول مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ انسانیت کی بھی خدمت کریں۔ پس قرآن کریم کی سورة البلد کی آیات 15 تا17میں مسلمانوں کو غربت اور بھوک ختم کرنے،یتیموں کی ضروریات پوری کرنے اور مسکینوں اور غریب بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ ان لوگوں کو بھی پھلنے پھولنے کے مواقع ملیں۔ احمدیہ مسلم جماعت دنیا بھر میں انہی اعلیٰ تعلیمات پر حتی الوسع عمل پیرا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام پیار اور محبت کا مذہب ہے۔ پس ہم مذہب و نسل کا امتیاز کیے بغیر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے افریقہ کے غربت زدہ اور دور دراز کے علاقوں میں ہم نے پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کا قیام کیا ہے اور ان علاقوں میں ہم نے ہسپتال اور کلینک بھی کھولے ہیں۔ دور دراز کے دیہاتوں میں ہم پینے کا صاف پانی مہیا کر رہےہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کے بچے سارادن میلوں فاصلہ طے کر کے گھریلو استعمال کے لیے تالابوں سے پانی بھر کر لانے کی بجائے آزادی سے سکول جاسکتے ہیں۔

حضور انورایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

ہم نے ماڈل ویلیجز بنانے کے منصوبہ جات بھی شروع کیے ہیں جن میں کمیونٹی ہالوں سے لے کر صاف پانی، شمسی توانائی، انفراسٹرکچر اور دیگر کئی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ تمام تر سہولیات جو مقامی لوگوں کو بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب کے مہیا کی جاتی ہیں اس کا محرک ہمارامذہب ہی ہے۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جہاں ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افلاس و غربت کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہیں وہاں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ چیز دنیامیں دیرپا امن کے قیام کے لیے ایک کنجی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر لوگوں کے پاس کھانے کے لیے خوراک، پینے کے لیے پانی، رہنے کے لیے جگہ، بچوں کے لیے سکول اور طبی سہولیات مہیا ہوں تو لوگ پُرامن طور پر اپنی زندگیاں گزار پائیں گے اور مایوسی اور نفرت کی مہلک پکڑ جو کہ انہیں شدت پسندی کی طرف لے جاتی ہے اس سے بچ جائیں گے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ پس جب تک ہم لوگوں کی جانیں غربت و افلاس سے نہ چھڑادیں، ہم اس دنیامیں حقیقی امن نہیں دیکھ پائیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آخر میں میری دلی دعا ہے کہ بنی نوع انسان لالچ اور خود غرضی کا پیچھا چھوڑ کر اس دنیا میں تکلیف زدہ لوگوں کی تکالیف کا ازالہ کرنے پر توجہ دے۔ ان الفاظ کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر آپ سب کا آج شام یہاں تشریف آوری پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ بہت بہت شکریہ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکایہ خطاب 7 بج کر15منٹ تک جاری رہا۔ آخرپرحضورانور نےدعاکروائی۔

حضور انور کے خطاب کے بعد مہمان بہت دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔

بعدازاں مہمانوں نےباری باری حضورانورکےپاس آ کرتصاویر بنوائیں اور شرفِ مصافحہ بھی حاصل کیا ۔ حضور انور مہمانوںسےگفتگوفرماتےرہے۔

اس تقریب کےبعد مہمانوں کےلیےریفریشمنٹ کا انتظام کیاگیاتھا۔حضورانور بھی اس ایریامیں تشریف لائے، یہاں بھی مہمان حضورانور کےپاس آتے رہےاور تصاویربنواتےاورحضورانوران سےمختلف امور پرگفتگو فرماتےرہے۔یہاں نصف گھنٹہ تک حضور انورمہمانوں میں موجود رہے۔

8بجےیہاں سےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزواپس مشن ہاؤس دارالسلام (SAINT PRIX)کےلیےروانہ ہوئےاورقریباً45منٹ کےسفر کے بعد8بج کر45منٹ پرمشن ہاؤس تشریف آوری ہوئی۔
9بج کر10منٹ پرحضورانورنےمسجدمبارک میں تشریف لاکرنماز مغرب و عشاءجمع کرکےپڑھائیں۔نمازوں کی ادائیگی کے بعدحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پرتشریف لے گئے۔

……………………………………………………………………………

مہمانوں کےتأثرات

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے آج کے خطاب کامہمانوں پرگہرا اثر ہوا۔ بعض مہمانوں نےبرملا اپنے تأثرات کااظہار کیا۔

٭…Eaubonne کے مئیر Gregoire Dubinot نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

امام جماعت احمد یہ ایک پُر وقار شخصیت کے مالک ہیں اور بڑے ہمد ر د ہیں ۔ ان کی تقریر بہت مفید اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ امام جماعت احمدیہ کی حکمت پر دلالت کرتی ہے اور یہ حکمت امام جماعت آگے پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کی تقریر سے انسانی ہمدردی جھلک رہی تھی۔

٭…مالی سے UNESCO کے ایمبیسڈر عمر کائتا صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتےہوئے کہا:

امام جماعت احمد یہ امن کا پیکر ہیں اور UNESCO وہ بہترین جگہ ہے جہاں امن کے بارہ میں بات چیت ہوسکتی ہے۔ ہمیں اس امن کو پوری دنیامیں پھیلانا چاہیے۔

جماعت احمدیہ ہمارے ملک مالی میں سن 1987ءسے موجود ہےاور ہمارے ملک کی بہتری کے کافی کام کر رہی ہے اور دوستانہ طریقہ سے ہماری قوم کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

امام جماعت احمدیہ سے ملاقات کر کے بہت خوشی ہوئی۔ آپ ایک وسیع النظر شخصیت ہیں اور امن کے قیام کے لیے کوشاں ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی امت مسلمہ کو ضرورت ہے۔ عالمی انصاف اور ہم آہنگی کاجو تصور امام جماعت پیش کرتے ہیں، دنیاکو اس کی اشد ضرورت ہے۔

٭…فرانس میں مالی سے تعلق رکھنے والے کیتھولک افراد کی ایسوی ایشن کے صدر Guillaume Diallo اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

میں پہلے سے احمدیوں کے بارے میں جانتا تھا۔ تمام مذاہب کو یہ پیغام دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔ ہم بھی وہی امن کا پیغام دوسروں تک پہنچارہے ہیں۔ ہم بھی inter religious dialogue کے لیے کوشاں ہیں۔
اگر دنیا میں وہ اسلام قائم ہو جو امام جماعت احمدیہ پیش کر رہے ہیں تو دنیا کے سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔ جب دوسروں کے جذبات کا احترام ہوگا تو ہر جگہ امن قائم ہو گا۔ باہمی احترام کی بڑی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دین پر قائم ہیں لیکن ہمارا ایک مشترکہ عقیدہ ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔

٭…نیٹو میموریل کے صدر Mr Brenton کہتے ہیں:

اس تقریب میں شامل ہو کر بہت خوشی ہوئی۔ یہ کانفرنس اہم اور تاریخی تھی۔ اس سے امن، رواداری اور اخوت قائم ہوسکتی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ امام جماعت احمدیہ کے پیغام کو سنیں۔امام جماعت احمدیہ حقیقی اسلام کی بات کرتے ہیں جو پُرامن اور برادشت کی تعلیم دینے والا ہے۔ یہ پیغام شدت پسندوں کے عمل سے بالکل مختلف ہے۔ امام جماعت احمدیہ یہاں امن کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے بہت کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک ضروری کام ہے اور ہم بھی ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ہم میں سے ہرایک کو امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یہ کام ہرسطح پر کرناچاہیے اور اس کے لیے اپناعملی نمونہ پیش کرناچاہیے۔

٭…فرانس میں ایک فلاحی تنظیم کی ڈائر یکٹر بھی اس پروگرام میں شریک تھیں۔یہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیںکہ

ہماری تنظیم ہسپتالوں کے لیے فنڈز اکٹھے کرتی ہے۔ یہاں مجھے ایک احمدی خاتون نے آنے کی دعوت دی۔ یہ خاتون ہمارے ساتھ فلاحی کاموں میں کافی معاونت کرتی ہے۔ مجھے آپ کے خلیفہ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ آپ نے جو تعلیم کے حوالہ سے بات کی ہے، یہ بہت شاندار ہے۔ ہر ایک کوعلم حاصل کرنے کے یکساں مواقع ہونے چاہئیں۔ یہ پیغام بہت اہم ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کو امن کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں امن کو کئی طریق سے فروغ دیا جاسکتا ہے اور ہم سب اس میں اپنا اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں مثلا ً چیرٹی کا کام کر کے، آپ جیسی پُرامن جماعت کے ساتھ مل کر کام کر کے،آپ لوگ جو امن کے لیے کام کررہے ہیں، اس میں آپ لوگوں کی مدد کر کے ہم اَمن قائم کرنے میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ آپ لوگ اسکولز، ہسپتال وغیرہ قائم کر رہے ہیں، پانی فراہم کر رہے ہیں ان میں آپ لوگوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ ان تمام باتوں کے بارے میں آج سننے کو ملا ہے۔ یہ بہت اچھے اقدامات ہیں۔ اس تقریب میں مدعو کرنے کا بہت شکریہ۔

٭… فرانس کی ایک انسانی حقوق کی فیڈریشن کے ممبر بھی اس پروگرام میں شریک تھے ۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ

میرے بہت سے ساتھی یورپ میں گروپ کی صورت میں انسانی حقوق کے حوالہ سے کام کر رہے ہیں۔ مجھے یہاں آ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ ہماری ٹیم میں آسٹریا سے ایک دوست بھی شامل ہے، جو آپ کے ساتھ بھی کام کر تا ہے۔ اس سے یہاں ملاقات ہوئی ہے۔ آپ کے خلیفہ کی تقریر بہت اچھی اور بہت گہری تھی۔ آپ نے بڑی تفصیل سے علم کی ضرورت اور علم کے فروغ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کیا ہے علم کی تاریخ میں اسلام کی خدمات بھی گنوائی ہیں۔ یہ بہت دلچسپ معلومات تھیں۔ میری نظر میں امن انسان کے اپنے دل سے شروع ہوتا ہے، اپنے گھر سے شروع ہوتا ہے ہمیں اپنی فیملیوں کوعلم مہیا کرنا چاہیے۔

سٹی کونسل کے ایک ممبر بھی اس پروگرام میں شامل تھے۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں:

میں کونسل میں مختلف نسلوں کے مابین تفریق کے خلاف کام کرنے والے شعبہ کاانچارج ہوں۔ میں خلیفہ کے اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے آیا ہوں۔ آپ کے امام کی باتیں سن کر بہت اچھالگا ہے۔ خاص کر جو آپ نے خواتین کو علم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی بات کی ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ آپ نے افریقہ کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم اور صحت کے حوالہ سے شروع کیے جانے والے پروجیکٹس کاذکر کیا ہے۔ عام طور پر جب فرانس یا دیگر ممالک میں اسلام کی بات ہوتی ہے تو مختلف خدشات کا ذکر ہوتاہے، معاشرہ میں ایک اسلامو فوبیا ہے۔ ایسے میں اسلام کے بارے میں مثبت باتیں سننے کوملی ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے۔ میرا ایک دوست احمد ی ہے اس لیے میری خواہش تھی کہ میں یہاں آؤں اور دیکھوں کہ آپ کی جماعت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے اور آپ کے بارے میں مزید علم حاصل کروں۔

ایک صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ

یہ ایک بہت شاندار موقع تھا۔ مجھے یہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ خلیفہ نے بہت اچھے انداز میں اسلام کی مثبت تصویر پیش کی ہے اور توجہ دلائی ہے کہ چھوٹے پیمانے پر کام کر کے بھی دنیاکے امن میں اپنا کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ افریقہ میں مختلف پروجیکٹس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ میرا بھی خیال ہے کہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ہر جگہ ہی امن قائم کر دیں لیکن اگر ہم میں سے ہرایک لوکل، ریجنل اور نیشنل سطح پر اپنی اپنی ذمہ داری لے لے تو ہم بہت بڑافرق پیدا کر سکتے ہیں۔ مردو خواتین، مختلف نسلوں، قومیتوں کے مابین باہمی احترام اور برداشت کا مادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ہم کیسے کامیاب ہوں گے کیونکہ دنیا میں بہت سی طاقتیں امن کے خلاف کام کر رہی ہیں، لوگوں کو تقسیم کر نا چاہتی ہیں۔ میرے خیال میں لوکل سطح پر ہر ایک اپناکردار ادا کرنے کی کوشش کرے تا کہ دنیا پُر امن ہو۔

٭…Alexanderصاحب اس تقریب میں آئے تھے اور انہوں نے اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ
خلیفہ نے امن کا پیغام دیا اور آپ کا خطاب سچائی پرمشتمل تھا۔ آپ نے کھل کر اور واضح بات کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ احمدیہ جماعت نے غلامی کے مضمون کو واضح کیا ہے۔ یہ پیغام بہت شاندار ہے۔ مسلمانوں میں سے احمدیوں نے یہ پیغام پیش کیا ہے جو کہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ خلیفہ سے میری ملاقات بھی ہوئی اور ایسا انسان ہمیں اس دنیامیں چاہیے۔ خلیفہ ایک معزز انسان ہیں اور بہت دوستانہ طریقہ سے مجھے ملے۔ مجھے تصویر بنانے کی بھی سعادت ملی۔یہ میرے لیے ایک یاد گار لمحہ تھا۔

٭…ایک مہمان Mayine Onfray صاحب جو کہ تھنک ٹینک میں کام کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہا:

UNESCO کے لحاظ سے خلیفۃالمسیح کی تقریر بہت perfect تھی۔ جو بھی میرے دل کی خواہش تھی کہ آپ کے خلیفہ اس اس موضوع پر بات کریں خلیفہ نے انہیں موضوعات پر بات کی بلکہ انہوں نے بتایا پرانے زمانہ میں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم تھی اور بہت سے امور میں دنیا کوسکھایا اور بہت سے علوم کے بانی بنے۔
خلیفہ نے اسلامی تعلیم کی رو سے ہمیں سمجھایا کہ ہم آئندہ اپنی نسلوں کے لیے کس طرح دنیا کواچھا چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔ اس خطاب کو زبردست ٹائٹل کے ساتھ شائع ہو نا چاہیے۔

٭…ایک مہمان Bernard Goddard صاحب نے کہا:

ہمیں TV پر اسلام کے بارہ میں جو بھی پراپیگنڈا نظر آتا ہے خلیفۃالمسیح نے اس سے بالکل مختلف اسلام کی تعلیم پیش کی ہے اور یہی حقیقی اسلام ہے۔ میں نے آج آنحضور صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں علم حاصل کیا ہے کہ کس طرح مدینہ میں بہت اعلیٰ معاشرہ قائم کیا۔ مجھےآج پہلی دفعہ پتہ چلا ہے کہ اسلام نے علم کے میدان میں کتنابڑا حصہ لیا اور دنیا کوعلم دیا ہے۔

موصوف مز ید بیان کرتے ہیں کہ اس کے علاوہ خلیفہ صاحب کی جو تقریرتھی اس میں امن کا پیغام بھی تھا جوکہ قرآن کریم اور رسول الله ﷺ کی مثالوں کے ساتھ بیان کیا گیا۔ یہ آج کے دور میں نہایت مفید ہے۔

٭…ایک خاتون Miss Danutaجو کہ نان پرافٹ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر ہیں اپنےخیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:

آپ کے خلیفہ نے بار بار اپنی تقریر میں تعلیم کی اہمیت کاذکرکیا۔ مجھے یہ بہت ہی پیاری بات لگی کہ خلیفہ نے کس حد تک تعلیم پر زور ڈالا ہے۔ آپ لوگ لڑکیوں کو گولڈمیڈل دیتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ میں خود ایک سائینٹسٹ ہوں۔ میرے لیے یہ بہت حیران کُن بات ہے کہ ایک مذہبی لیڈر سائنس کو پروموٹ کرتا ہے جب کے مذہبی لیڈرزسائنس سے ڈرتے ہیں۔

٭…ایک مہمان Alexander Vigne صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

آپ کے خلیفہ کی تقریر زبردست تھی جس کی بنیاد امن پرتھی۔ اس تقریر میں انہوں نے واضح کردیا کہ مسلمان آسانی سے مغربی دنیامیں انٹیگریٹ ہو سکتے ہیں اور اسلام انسانی اقدار کو قائم کرتا ہے۔

میں نے انسانیت کے بارہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور میں حیران ہوں کہ آپ لوگ کس حد تک آگے بڑھ کر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ لوگ افریقہ میں تعلیم اور Health care غریب لوگوں تک پہنچارہے ہیں اور بلاتمیز رنگ و نسل، مذہب و ملت انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔

٭…Uma Keitaنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا

خلیفۃالمسیح ایک غیرمعمولی شخصیت ہیں۔ آپ امن پھیلا رہے ہیں اور آپ کا علم بھی بہت ہی وسیع ہے۔ میں آپ کو آپ کے امن کے پیغام کی وجہ سے مباک باد پیش کرتا ہوں۔ UNESCO ایک ایسی ideal جگہ ہے جہاں امن کی بات ہوسکتی ہے۔ آپ تو ایک ایسی شخصیت ہیں جو امن سے بھری پڑی ہے اور آج امتِ مسلمہ کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے۔

آج میں ایک ایسے انسان کے قریب تھا جو امن اور انصاف کا آدمی ہے۔ یہی وہ انصاف ہے جس کی آج ضرورت ہے جہاں دہشت گردی نے ہر طرف امن برباد کیا ہوا ہے۔

……………………………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button