کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

نعمائے بہشت کی حقیقت(حصہ پنجم آخر)

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚقَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ(آل عمران:145)

میں کہتے ہیں کہ خَلَتْکے معنے موت کے نہیں۔ مگر یہ تو ان کی غلطی ہے اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے خَلَتْکے معنے کر دیے ہیں

اَفَائِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ۔

اگر اس کے سوا کوئی اَور معنے ہوتے جو یہ کرتے ہیں تو پھر رفع الجسد العنصریبھی ساتھ ہوتا۔مگر قرآن شریف میں تو ہے نہیں پھر ہم کیونکر تسلیم کر لیں۔ ایسی صورت میں درمیانی زمانہ کی شہادت کو ہم کیا کریں؟ اور پھر تعجب یہ ہے کہ اس زمانہ میں بھی اسی مذہب کے لوگ موجود ہیں جنہوںنے اس کی وفات کا اقرار کیا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے اگر میرا نام عیسیٰ رکھا تو اس میں اسلام کا کیا بُرا ہوا؟ یہ تو اسلام کا فخر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا فخر ہوا کہ وہ شخص جسے چالیس کروڑ انسان خدا سمجھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت کا ایک فرد ان کمالات کو پا لیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ جاتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے لکھا ہے کہ ہارون رشید نے مصر کا ایک علاقہ ایک حبشی کو دے دیا۔ کسی نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ وہی مصر ہے جس کی حکومت سے فرعون نے خدائی کا دعویٰ کر دیا تھا اسی طرح پر مسیح کی خدائی پر زد مارنے کے لیےاللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح بنا دیا۔ تا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی علوّشان اس سے ظاہر ہو۔

میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں نے مسیح کو بہت سی خصوصیتیں ایسی دے رکھی ہیں جو اَور کسی کو نہیں دی گئیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ مَسِّ شیطان سے وہی پاک ہے حالانکہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ کسی نبی کو بھی مَسّ شیطان نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے راست باز اور صادق بندوں میں سے بھی کسی کو مسِّ شیطان نہیں ہوتا۔ مطلب اس سے اَور تھا۔ اور انہوں نے کچھ اَور سمجھ لیا۔ اگر صاف یہ اعتقاد رکھا جاوے کہ مسیح ہی مسِّ شیطان سے پاک تھے اور کوئی پاک نہ تھا تو یہ تو کلمۂ کفر ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ یہودی مریم علیہا السلام کو معاذ اللہ زانیہ اور حضرت مسیح کو نعوذ باللہ ولد الزّنا کہتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ ان کے اس الزام سے برّیت کی اور مریم کا نام صدیقہ رکھا۔ اور حضرت مسیح کے لیے کہا کہ وہ مسّ شیطان سے پاک ہے۔
اولاد دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو مسّ شیطان سے ہو وہ ولد الحرام کہلاتی ہے۔ دوسری وہ جو روح القدس کے مسّ سے ہو۔ وہ ولد الحلال ہوتی ہے۔ یہودیوں کا اس پر زور تھا کہ مسیح پر ناجائز پیدائش کا الزام لگاتے تھے اور ان کے ہاں یہ لکھا تھا کہ ولد الحرام سات پُشت تک بھی خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ چونکہ ان کے اس شبہ اور الزام کا جواب ضروری تھا اس لیے ان کے متعلق یہ کہا گیا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ معاذ اللہ معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مسّ شیطان سے پاک نہ تھے۔ ایسا اعتقاد کُفر صریح ہے۔ کیا کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت آمنہ کی نسبت ایسا الزام لگایا؟ کبھی نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہمیشہ مخالفوں نے امین اور صادق تسلیم کیا۔ بر خلاف اس کے مسیح اور ان کی والدہ کی نسبت یہودیوں کے بیہودہ الزام تھے۔ خود عیسائیوں نے انسائیکلوپیڈیا میں مان لیا ہے کہ نعوذ باللہ وہ ولد الحرام تھے پھر ایسی صورت میں کس قدر ضروری تھا کہ اس کا ازالہ ہوتا۔ اب یہ ہمارے مخالف اندھے ہو کر ان کی خصوصیت بتاتے ہیں اور منبروں پر چڑھ کر بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو حضرت مسیح کا ایک داغ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دھویا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اس کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ مثلاً اگر ایک شخص کے چہرہ پر سیاہی کا داغ ہو اور اسے صاف کر دیا جائے تو یہ کیسی حماقت ہو کہ ایک شخص جس کے چہرہ پر وہ داغ ہی نہیں بلکہ خوبصورت اور روشن چہرہ رکھتا ہو اس سے اس سیاہی کے داغ والے کو افضل کہا جاوے۔ صرف اس لیے کہ اس کا داغ صاف ہوا ہے۔

اس قسم کی غلطیوں میں ہمارے مخالف مبتلا ہیں۔ ہم ان پر صبر کرتے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم، اسلام اور ملّت پر زد نہ ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے تو جب آسمان پر جانے کا معجزہ مانگا جاوے تو انہیں

قُلْ سُبْحَانَ رَبّیْ (بنی اسرائیل:94)

کا جواب ملے اور مسیح کے لیے تجویز کر لیا جاوے کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے۔

ایسی خصوصیتوں کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اسے خدا بنایا جاوے۔ پھر توحید کہاں رہی؟ انہوں نے تو ان چالیس کروڑ کی مدد کی جو اسے خدا بنا رہے ہیں۔ افسوس ان لوگوں نے اصل شریعت کو چھوڑ دیا اور عجوبہ پسند ہو گئے۔

میرے متعلق یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ مسیح نے مردے زندہ کئے تھے انہوں نے کتنے کئے ہیں؟ میں اس کا کیا جواب دوں۔ پہلے یہ تو معلوم کر لیں کہ مسیح نے کتنے مُردے زندہ کئے تھے؟ پھر اس کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ مجھ سے پہلے ہے میں تو آپؐ کا ایک خادم ہوں۔ آپؐ کے پاس ایک مُردہ کی بابت کہا گیا جس کو سانپ نےکاٹا تھا اور کہا کہ اس کی نئی شادی ہوئی ہے۔ آپؐ اسے زندہ کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کو دفن کرو۔
اگر حقیقی مُردے زندہ ہو سکتے تو سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ معجزہ دیا جاتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ بعض اوقات سخت امراض میں مبتلا اور ایسی حالت میں کہ اس میں آثار حیات مفقود ہوں اللہ تعالیٰ اپنے ماموروں اور مرسلوں کی دعاؤں کی وجہ سے انہیں شفا دے دیتا ہے۔ اس قسم کا احیاء ہم مانتے ہیں اور یہاں بھی ہوا ہے اور اس کے سوا دوسری حیات روحانی حیات ہے۔ غرض یہ دو قسم کا احیائے موتیٰ ہم مانتے ہیں۔ روحانی طور پر مسیح کا اثر بہت کم ہوا۔ کیونکہ یہودیوں نے مانا نہیں اور جنہوں نے مانا ان کی تکمیل نہ ہوئی۔ ایک نے لعنت بھیج دی، دوسرے نے پکڑوا دیا اور باقی بھاگ گئے۔ ہاں جسمانی طور پر بعض کے لیے دعائیں کیں اور وہ مریض اچھے ہو گئے، اب بھی ہو رہے ہیں۔

غرض ہماری اصل غرض اور مقصد اور تعلیم وہ ہے جس کا میں ذکر کر آیا ہوں۔ یہ امور وفاتِ مسیح وغیرہ ہماری راہ میں آگئے جو مشرکین کا غلبہ توڑنے کے لیے مصلحتِ الٰہی نے ایسا ہی پسند فرمایا کہ چونکہ موسیٰ علیہ السلام کے آخری سلسلہ میں مسیح آیا تھاویسے ہی یہاں بھی ضروری تھا کہ مسیح آتا چنانچہ آ گیا۔

بعض یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مثیلِ موسیٰ تھا اس لیے یہاں بھی مثیل مسیح ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہاں موسیٰ ہوتا تو شُبہ پڑ جاتا۔ لیکن یہاں الیاس کی نظیر موجود تھی اس لیے یہاں مسیح ہی کہہ دیا۔

فرمایا:ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدود نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اصل مقصد نہیں۔ تزکیہ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے۔

(ملفوظات جلد 8صفحہ 67تا70۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button