متفرق شعراء

طائف میں دعوت الیٰ اللہ

(محمد مقصود احمد منیب)

دعوت کا یہ قصہ ہے جو میں تم کو سناؤں
سوئے ہوئے جذبوں کو میں اِس ڈھب سے جگاؤں

جس ہستی کو یہ واقعہ پیش آیا وہ ہستی
اِس درجہ مہربان کہ قربان ہی جاؤں

پیغامِ خدا لے کے جو طائف میں وہ پہنچے
تو رحمت عالمؐ پہ ستم کیا نہیں ٹوٹے

جب آپؐ نے لوگوں کو دی دین کی دعوت
لوگوں میں بھڑک اُٹھی تھی بے وجہ عداوت

توحید کے پیغام کو سمجھے نہیں بھونڈے
پتھر تھے جو پیارے کو لگے مارنے لونڈے

سنگ باری ہوئی اِتنی کہ خوں بہنے لگا تھا
اس جسمِ مطہر سے لہو گرنے لگا تھا

خوں اتنا زیادہ کہ لگے نعل بھی بھرنے
نازل ہوئے جبریل لگے عرض یہ کرنے

غصے میں ہے مالک تو بہت عرشِ بریں کا
کچھ بدلا ہوا رنگ ہے اُس یارِ حسیں کا

پیغام خدا کا ہے اگر آپؐ کہیں تو
برباد ابھی کر دیں ہم اِک آن میں اِن کو

فرمایا نہیں میرے لیے ایسا نہیں کرنا
میں رحمتِ عالم ہوں کہ بدلہ نہیں بھرنا

پھر ہاتھ اُٹھائے تو دعا مانگی کہ مولیٰ!
کر دُور جہالت کو تُو اِن کی مرے مولیٰ!

نادان سمجھتے نہیں پیغام کو تیرے
میں کیا ہوں نہیں جانتے بندے ہیں یہ تیرے

ان خیرہ سروں کو تُو محبت کی ادا دے
بھٹکے ہوئے راہی ہیں انہیں رستہ دکھا دے

ہر ایک ستم لوگوں نے گر آپؐ پہ توڑا
تبلیغ کا رستہ نہ کوئی آپؐ نے چھوڑا

یہ پاک محمدؐ ہیں جو ہم سب کے ہیں آقاؐ
دیکھو جو کہ تھا آپؐ میں تبلیغ کا جذبہ

جب عزم و یقیں لے کے وہ اِس راہ میں نکلے
پھر عفو و محبت نے ہی حالات تھے بدلے

ہر قوم کو بربادی سے ہر وقت بچایا
ایمان کا رستہ تھا جو ہر اِک کو دکھایا

جانیں بھی دیں اِس قوم نے اسلام کی خاطر
اس پاک محمدؐ کے بھی پیغام کی خاطر

طائف میں محمدؐ نے جو تھا خون بہایا
اُس قوم کے بچوں نے تھا وہ قرض چکایا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button