متفرق مضامین

حاصل مطالعہ

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

’’حاصلِ مطالعہ‘‘ کےتحت قارئینِ الفضل انٹرنیشنل کی طرف سے موصولہ دینی، علمی، سائنسی، معلوماتی و دیگر مفید موضوعات پر ایسے حوالہ جات؍معلومات درج کرنے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جو قارئین کے لیے مفید ہوں۔ اگر آپ بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو اصل حوالہ (سکین شدہ کاپی؍انٹرنیٹ لِنک)ہمیں info@ alfazlintl.org پر یا بذریعہ ڈاک ارسال فرمائیں۔ شکریہ

٭…٭…٭…٭…٭…٭

وفاتِ مسيحؑ کے متعلق حضرت مسيح موعود ؑکے چند ارشادات

فرشتے اور انسان ايک دوسرے کي جگہ آباد نہيں ہوسکتے اللہ تعاليٰ نے قرآن کريم ميں دومرتبہ يہ حقيقت بيان فرمائي ہے کہ فرشتوں اور انسانوں کا الگ الگ مستقر ہے اور وہ ايک دوسرے کي جگہ پر آباد نہيں ہوسکتے۔سورة الانعام ميں اللہ تعاليٰ نے بيان فرمايا کہ اگر انسانوں کے پاس کوئي فرشتہ بطور رسول آتا تو وہ بھي انسان کا ہي وجود اختيار کرکے آتا۔

وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَيْھِمْ مَّا يَلْبِسُوْنَ(الاعراف:10)

اور اگر ہم اُس (رسول)کو فرشتہ بناتے تو ہم اسے پھر بھي انسان (کي صورت ميں) بناتے اور ہم ان پر وہ (معاملہ)مشتبہ رکھتے جسے وہ (اب)مشتبہ سمجھ رہے ہيں۔

اسي طرح سورہ ٔ بني اسرائيل ميں فرمايا کہ اگر زمين ميں فرشتے آباد ہوتے تو ان پر رسول بھي فرشتہ ہي آتا۔چونکہ زمين پر انسان بستے ہيں اور ان ميں مبعوث ہونے والے رسول کو ان کے درميان ہي بسنا ہے لہٰذا ان ميں فرشتہ بطور رسول مبعوث نہيں ہوسکتا کيوں کہ فرشتے زمين پر آباد نہيں ہوسکتے۔

قُلْ لَّوْ کَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا۔(بنی اسرائیل:96)

تُو کہہ دے کہ اگر زمين ميں اطمينان سے چلنے پھرنے والے فرشتے ہوتے تو يقينًا ہم ان پر آسمان سے فرشتہ ہي بطور رسول اُتارتے۔ قرآنِ کريم کي اس دليل اور اللہ تعاليٰ کي بيان کردہ اس سُنّت کي روشني ميں سيّدنا حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں:

‘‘انسان کا آسمان پر جا کر مع جسم عنصري آباد ہونا ايسا ہي سنّت اللہ کے خلاف ہے جيسے کہ فرشتے مجسم ہوکر زمين پر آباد ہوجائيں۔

وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبْدِيْلًا۔’’(الفتح:24)

(تذکرة الشہادتين،روحاني خزائن ،جلد20،صفحہ24)

رفع عيسيٰ عليہ السلام خدا کي طرف يا دوسرے آسمان کي طرف؟

‘‘پھر آيت ميں تو يہ صاف لکھا ہے کہ عيسيٰ کا رفع خدا کي طرف ہوا۔ يہ تو نہيں لکھا کہ دوسرے آسمان کي طرف ہوا۔ کيا خدائے عزّ وجلّ دوسرے آسمان پر بيٹھا ہوا ہے؟ ’’

(ليکچر سيالکوٹ ، روحاني خزائين جلد 20صفحہ 217)

آمدِ مسيح ۔ نزول يا رجوع؟

دنيا کي تمام زبانوں ميں ايک جگہ سے دوسري جگہ جانے والے کے لیے جو لفظ استعمال کيا جاتا ہے وہ اس لفظ سے مختلف ہوتا ہے جو اُس دوسري جگہ جاکر دوبارہ پہلي جگہ آنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اگر ايک شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک سفر کرے تواُردو زبان ميں اسے ايک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا کہتے ہيں۔ليکن اگر وہي شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک پہنچ کر دوبارہ نقطہ الف تک آئے تو اسے ايک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا نہيں بلکہ واپس آنے والا کہتے ہيں۔ اسي طرح عربي زبان ميں ايک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کو ‘‘نزول ’’جبکہ دوسرے مقام سے لوٹ کر پہلے مقام تک آنے کو ‘‘رجوع ’’کہتے ہيں۔حضرت عيسيٰ عليہ السلام کے متعلق يہ عقيدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ زمين سے آسمان پر تشريف لے گئے ہيں اور اب قُربِ قيامت ميں آسمان سے زمين پر تشريف لائيں گے۔ زبان و بيان کے مذکورہ بالا قواعد کي رُو سے حضرت عيسيٰ عليہ السلام کي آسمان سے زمين پر آمد کو اُردو زبان ميں ‘‘واپسي’’اور عربي زبان ميں ‘‘رجوع ’’کے لفظ سے ظاہر کيا جانا چاہیےتھا۔ ليکن اس کے برعکس احاديثِ نبويؐ ميں جس جگہ بھي مسیح ابن مريم ؑ کي قربِ قيامت ميں آمد کي خبر دي گئي ہے وہاں ‘‘رجوع’’ کي بجائے ‘‘نزول ’’کا لفظ استعمال کيا گيا ہے حالانکہ حضرت عيسيٰ عليہ السلام آسمان سے زمين پر محض آ نہيں رہے بلکہ واپس آرہے ہيں کيونکہ وہ آسمان پر زمين سے ہي گئے تھے۔نزول اور رجوع ميں فرق کي روشني ميں سيّدنا حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام نے حضرت عيسيٰ عليہ السلام کي وفات کو اس طرح ثابت فرمايا ہے:

‘‘حضرت مسيؑح کي آمد کے واسطے جو لفظ آيا ہے وہ نزول ہے اور رجُوع نہيں ہے۔ اوّل تو واپس آنے والے کي نسبت جو لفظ آتا ہے وہ رجُوع ہے اور رجُوع کا لفظ حضرت عيسٰيؑ کي نسبت کہيں نہيں بولا گيا۔دوم نزول کے معنے آسمان سے آنے کے نہيں ہيں۔ نزيل مسافر کو کہتے ہيں۔’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ5۔ تاريخ اشاعت 20 اگست1960ء)

‘‘أتظنون أنَّ المسيح ابن مريم سيرجع الي الأرض مِن السّماء ولا تجدون لفظ الرجوع في کَلِمِ سيّد الرسل و أفضل الأنبياء۔ أَ أُلْھِمْتم بھذا أو تنحِتون لفظ الرجوع مِن عند أنفسِکم کَالخَائينين

وَمِنَ الْمَعلُوم أن ھٰذا ھُو اللفظ الخَاص الذي يُستعمل لرَجُل يأتي بَعْد الذَّھاب۔ و يتوجّہ من السَّفر الي الاياب، فھذا أبعدُ مِن أبلَغِ الْخَلقِ و امام الأنبياء أن يترک ھٰھنا لفظ الرجوع و يَسْتَعْمل لفظ النزول ولا يتکلم کالفصحاء والبلغاء’’

(مکتوب احمد، روحاني خزائن جلد11، صفحہ150تا 151)

کيا تم يہ گمان کرتے ہو کہ المسيؑح ابن مريم آسمان سے زمين پر واپس آئيں گے؟ حالانکہ سيّدالرسل ؐ اور افضل الانبياءؐکے کلام ميں رجوع کا لفظ پايا ہي نہيں جاتا۔ کيا تمہيں يہ الہام ہوا ہے يا خيانت کرنے والوں کي طرح تم نے اس لفظ رجوع کو اپنے نفس سے گھڑ ليا ہے؟ اور معلوم ہونا چاہیے کہ يہ لفظ خاص طور پر اُس شخص کے لیے استعمال کيا جاتا ہے جو سفر کے بعد واپس آئے۔ پس يہ تمام مخلوقات ميں سب سے فصيح و بليغ شخص اور امام الانبياء ؐ سے بعيد ترين ہے کہ وہ رجوع کا لفظ ترک کرکے نزول کا لفظ استعمال کريں اور فصيح و بليغ لوگوں کي طرح کلام نہ کريں۔

حضرت عمرؓ کے درج ذيل بيان سے بھي ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کي وفات پر يہ نہيں کہہ رہے کہ رسول اللہ ﷺ موسيٰ ؑ کي طرح اپنے رب سے ملنے گئے ہيں اور پھر نازل ہوں گے بلکہ يہ کہہ رہے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ اُسي طرح واپس آئيں گے جس طرح حضرت موسيٰ ؑ واپس آئے تھے:

‘‘ان رجالا من المنافقين يزعمون أن رسول اللّٰہ ﷺ قد توفي، و ان رسول اللّٰہ ما مات، ولکنہ ذھب الي ربہ کما ذھب موسي بن عمران، فقد غاب عن قومہ أربعين ليلة، ثم رجع اليھم بعد أن قيل مات، وواللّٰہ ليرجعن رسول اللّٰہ ﷺ کما رجع موسي، فليقطعن أيدي رجال و أرجلھم زعموا أن رسول اللّٰہ ﷺ مات۔’’

(السيرة النبوية لأبن أسحٰق جلد 1-2، صفحہ713، السيرة النبويہ لأبن ہشّام جلد۔ 4، صفحہ۔306)

منافقوں ميں سے کچھ لوگ يہ دعويٰ کررہے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے ہيں۔حالانکہ وہ مرے نہيں بلکہ وہ اپنے رب کي طرف گئے ہيں جيسا کہ موسيٰ بن عمران گئے تھے۔پس وہ اپني قوم سے چاليس راتيں غائب رہے تھے پھر ان کي طرف واپس آگئے تھے پھر اس کے بعد مرے تھے۔ اللہ کي قسم رسول اللہ ﷺ بھي ضرور واپس آئيں گے جس طرح موسيٰ واپس آئے تھے۔اور ضرور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹيں گے جو يہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ مرگئے ہيں۔

حضرت عيسيٰ ؑکے مصلوب ہونے کا اقرار

‘‘چونکہ حضرت عيسيٰ عليہ السلام بالاتفاق عبراني النسل تھے اپنے زمانے کي قوم کے مطابق عبراني زبان رکھتے تھے چنانچہ مصلوب ہونے کے وقت بھي بلند آواز سے عبري زبان ميں رائج اس کلمہ کو ‘‘ايلي ايلي لما شبقتاني’’ اے ميرے خدا اے ميرے خدا تو نے کس وجہ سے مجھے چھوڑ ديا ہے‘‘ زبان پر لائے۔’’

(ازالة الاوھام جلد اول صفحہ۔114,113۔ از مولانا رحمت اللہ کيرانوي)

حيات و وفاتِ مسيح ؑکا اقرار يا انکار کفر تو کيا گمراہي بھي نہيں!

‘‘قادياني صدہا وجہ سے منکر ضرورياتِ دين تھا اور اس کے پس ماندے حيات و وفات سيدنا عيسيٰ رسول اللہ علي نبينا الکريم و عليہ صلوات اللہ و تسليمات اللہ کي بحث چھيڑتے ہيں، جو خود ايک فرعي سہل خود مسلمانوں ميں ايک نوع کا اختلافي مسئلہ ہے جس کا اقرار يا انکار کفر تو درکنار ضلال بھي نہيں۔’’

(الجراز الدياني علي المرتد القادياني۔مصنف احمد رضا خان بريلوي صفحہ5سن تصنيف 1340ھ)

بڑے بڑے علماء کا وفاتِ مسيح ؑکے قائل ہونے کا اقرار

‘‘آج ہم جس دور سے گزر رہے ہيں وہ بڑا ہي پُرفتن دور ہے، نسل انسانيت عموماً اور مسلمان خصوصاً قسم قسم کے فتنوں ميں گھرے ہوئے ہيں۔ مسلمان بحيثيت مسلمان آج جتنے خطرناک حالات سے دوچار ہيں شايد ماضي کي تاريخ ايسي مثالوں سے خالي ہو، ہر سمت سے قصر اسلام پر فتنوں کي ا يسي يلغار ہے کہ الامان و الحفيظ!طرح طرح کے فتنے ظاہر ہورہے ہيں، اعتقادي،عملي ظاہري اور باطني، ہر ايک دوسرے سے بڑھتا جارہا ہے، مگر سب سے خطرناک فتنے وہ ہيں جن کا تعلق اعتقاد سے ہو، ان اعتقادي فتنوں ميں سے ايک فتنہ عقيدۂ نزولِ مسيح عليہ السلام سے يکسر انکار کرنا يا کم از کم اس کي اساسي حيثيت تسليم کرنے سے اعراض کرنا اور اس کو غير ضروري ماننا بھي ہے حتيٰ کہ بعض ايسے اہل علم و قلم بھي جن کي رفعت شان کي طرف اگر ہم نگاہ اٹھا کر ديکھتے ہيں تو ان کے علم و عمل، فضل و کمال اور ان کي عظمت کو اپني بے پناہ بلندي کي وجہ سے ہماري نگاہيں سر نہيں کرسکتيں وہ بھي اس رو ميں بہ گئے ہيں…مولوي ابوالکلام آزاد صاحب، مولوي جاراللہ صاحب، مولانا عبيداللہ صاحب سندھي وغيرہ کي تحريرات ميں يہ چيز آئي اور مولانا آزاد نے تو يہاں تک لکھ ديا کہ‘‘اگر يہ عقيدہ نجات کے ليے ضروري ہوتا تو قرآن ميں کم از کم وَاَقِيْمُوْا الصَّلَاةَ جيسي تصريح ضروري تھي اور ہمارا اعتقاد ہے کہ کوئي مسيح اب آنے والا نہيں۔’’

(مقدمہ از سليمان يوسف بنوري ۔عقيدہ نزولِ مسيح عليہ السلام قرآن، حديث اور اجماع امت کي روشني ميں۔ مصنف يوسف بنوري)

ديوبندي عالم کا اقرار ۔ ‘‘توفي’’ کا مطلب روح کو پورا پورا واپس لے لينا

‘‘اس سلسلے ميں يہ نکتہ ياد رکھنے کے لائق ہے کہ ہم اپني بول چال ميں موت کے لیے جو ‘‘وفات’’ کا لفظ استعمال کرتے ہيں وہ قرآن کريم کے ايک لفظ ‘‘توفي’’سے ماخوذ ہے۔قرآن کريم سے پہلے عربي زبان ميں يہ لفظ ‘‘موت’’کے معني ميں استعمال نہيں ہوتا تھا۔عربي زبان ميں موت کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے تقريبًا چوبيس الفاظ استعمال ہوتے تھے ليکن ‘‘وفاة’’ يا ‘‘توفي’’کا اس معني ميں کوئي وجود نہ تھا۔ قرآن کريم نے پہلي بار يہ لفظ موت کے لیے استعمال کيا اور اس کي وجہ يہ تھي کہ زمانہ جاہليت کے عربوں نے موت کے لیے جو الفاظ وضع کیے تھے وہ سب ان کے اس عقيدے پر مبني تھے کہ موت کے بعد کوئي زندگي نہيں ہے۔قرآن کريم نے ‘‘توفي’’کا لفظ استعمال کرکے لطيف انداز ميں ان کے اس عقيدے کي ترديد کي کہ ‘‘توفي’’کے معني ہيں کسي چيز کو پورا پورا وصول کرلينا اور موت کے لیے اس لفظ کو استعمال کرنے سے اس طرف اشارہ کيا گيا ہے کہ موت کے وقت انسان کي روح کو اس کے جسم سے عليحدہ کرکے واپس بلاليا جاتا ہے۔اسي حقيقت کو واضح الفاظ ميں بيان کرتے ہوئے ‘‘سورة الزمر’’ ميں قرآن کريم نے ارشاد فرمايا۔‘‘اللہ تعاليٰ انسانوں کي موت کے وقت ان کي روحيں قبض کرليتا ہے اور جو لوگ مرے نہيں ہوتے ان کي روحيں ان کي نيند کي حالت ميں واپس لے ليتا ہے وہ پھر جن کي موت کا فيصلہ کرليتا ہے ان کي روحيں روک ليتا ہے اور دوسري روحوں کو ايک معين وقت تک چھوڑ ديتا ہے، بيشک اس ميں ان لوگوں کے لیے بڑي نشانياں ہيں جو غوروفکر کرتے ہيں۔’’

(سورةالزمر:42)

(دنيا کے اس پار صفحہ .26,25 از مفتي محمد تقي عثماني۔ ناشر ادارہ اسلاميات)

(انصر رضا۔ کینیڈا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button