رپورٹ دورہ حضور انور

نن سپیت ھالینڈ سے روانگی اور فرانس میں ورودِ مسعود، جلسہ گاہ ’بیت العطاء‘ Trie-Chateau کی تقریبِ نقاب کشائی، دعا

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ ہالینڈ و فرانس 2019ء

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

……………………………

02؍اکتوبر2019ءبروزبدھ

……………………………

حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح ساڑھے چھے بجے مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نمازِفجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائشگاہ پرتشریف لے گئے۔

صبح حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اورہدایات سے نوازا۔

گیارہ بج کر بیس منٹ پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم امیر صاحب ہالینڈ ھبۃ النور فرحاخن صاحب اور مکرم حامد کریم محمود صاحب مبلغ نن سپیت ہالینڈ کو یاد فرمایا۔ دونوں نے حضورِانور سے دفتری ملاقات کی سعادت پائی۔ حضورِانور نے بعض ضروری امور کے حوالہ سے ہدایات فرمائیں۔
ہالینڈ کے مختلف علاقوں سے احباب جماعت مردوخواتین حضورِانور کو الوداع کہنے کے لیے صبح سے جماعتی مرکز بیت النور جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

گیارہ بج کر پچیس منٹ پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور دعا کروائی اور قافلہ نن سپیت (NunsPeet) سے فرانس کے لیے روانہ ہوا۔

نن سپیت (ہالینڈ) سے فرانس کے شہر Trie-Chateau (جہاں جماعت فرانس کا نیا خریدکردہ سینٹر ‘‘بیت العطاء ’’ہے)کا فاصلہ536کلومیٹر ہے۔ 130 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہالینڈ کا بارڈر عبورکرکے ملک بیلجیم میں داخل ہوئے۔

پروگرام کے مطابق جماعت فرانس نے بیلجئم کے شہرKorjrijkکے قریب واقع قصبہ Sint-Anna کے ایک ہوٹل ‘‘Hostellerie Klokhof’’میں نمازِظہروعصر کی ادائیگی اور دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ فرانس سے آنے والے وفد نے جس میں مکرم امیر صاحب فرانس اشفاق ربانی صاحب،مکرم فہیم احمد نیاز صاحب جنرل سیکرٹری،مکرم اسلم دوبوری صاحب نائب امیر جماعت فرانس،مکرم منصور احمدوینس صاحب نیشنل سیکرٹری تربیت،مکرم جمیل الرحمٰن صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ فرانس اپنی سیکیورٹی ٹیم کے ساتھ شامل تھے۔

ہالینڈ کا بارڈر کراس کرکےبیلجیم میں داخل ہونے کے بعد مزید 155 کلومیٹر کا سفر طے کرکے دو بج کر پندرہ منٹ پر قصبہ Sint-Anna کے ہوٹل Hostellerie Klokhofآمد ہوئی۔ جہاں امیر صاحب فرانس نے اپنے وفد کے ساتھ حضورِانور کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

یہاں نمازوں کی ادائیگی کے لیے ایک ہال میں انتظام کیا گیا تھا۔ حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو بج کر چالیس منٹ پر تشریف لا کر نمازِظہر وعصر جمع کرکے پڑھائیں۔

نمازوں کی ادائیگی اور دوپہر کے کھانے کے بعد آگے فرانس روانگی کا پروگرام تھا۔روانگی سے قبل حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ازراہِ شفقت ہالینڈ سے اس جگہ تک قافلہ کے ساتھ آنے والے وفد کو شرف مصافحہ سے نوازا۔ ہالینڈ سے مکرم ھبۃ النور فرحاخن صاحب امیر جماعت ہالینڈ، مکرم عبدالحمید درفیلدن صاحب نائب امیر ہالینڈ۔ مکرم نعیم احمد وڑائچ صاحب مبلغ انچارج ہالینڈ،مکرم زبیر اکمل صاحب نیشنل سیکرٹری تعلیم القرآن ووقف عارضی، مکرم ظل الرحمٰن صاحب انٹرنل آڈیٹر، مکرم ثمر احمد ناصر صاحب سیکرٹری جائیداد، مکرم چوہدری مبشر احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ،مکرم چوہدری لئیق احمد صاحب،مکرم صدر مجلس خدام الاحمدیہ ہالینڈ عثمان احمد صاحب اپنی خدام کی سیکیورٹی ٹیم کے ساتھ یہاں تک حضورِانور کو الوداع کہنے کے لیے آئے تھے۔ اب یہاں سے اس وفد کی ہالینڈ کے لیے واپسی تھی۔
تین بج کر پینتیس منٹ پر حضورِانور نے دعا کروائی اور قافلہ آگے فرانس کے لیے روانہ ہوا۔ اب یہاں سے فرانس کی گاڑی قافلہ کو Lead کررہی تھی۔ یہاں سے‘‘بیت العطاء’’(فرانس)کا فاصلہ251کلومیٹر ہے۔

قریباً تین گھنٹے پانچ منٹ کا سفر طے کرنے کے بعد ساڑھے چھے بجے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جماعت فرانس کے ایک نئے سینٹر بیت العطاء میں ورودِمسعود ہوا۔

بیت العطاء میں تشریف آوری کے بعد جونہی حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کار سے باہر تشریف لائے تو فرانس کی مختلف جماعتوں سے آئے ہوئے احباب جماعت مردوخواتین اور بچوں، بچیوں نے بڑے والہانہ اورپرجوش انداز میں اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا۔ فرط عقیدت اور محبت سے ہر طرف ہاتھ بلند تھے اوراھلاً وسھلاً ومرحبا کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔

ایک طرف احباب جماعت بڑے پُرجوش انداز میں اپنے آقا کو خوش آمدید کہہ رہے تھے تودوسری طرف خواتین شرف زیارت سے فیض پارہی تھیں۔ بچے اور بچیاں مختلف گروپس کی صورت میں خیرمقدمی گیت اور دعائیہ نظمیں پڑھ رہے تھے۔

پروگرام کے مطابق حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت فرانس کے اس نئے سینٹر ‘‘بیت العطاء’’کی تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔

دعا کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
اپنے پیارے آقاکا استقبال کرنے والے یہ احباب اور فیملیز پیرس، Epernay، سڑاس برگ اور Lyon سے آئے تھے۔ پیرس کی جماعتوں سے آنے والے 80کلومیٹر اور Epernay سے آنے والے یکصد کلومیٹر جب کہ سڑاس برگ سے آنے والے 441کلومیٹر اور Lyonسے آنے والے 449کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کرکے پہنچے تھے۔
اِس علاقہ کے میئر David Didierصاحب بھی حضورِانورکے استقبال کے لیے آئے ہوئے تھے۔ موصوف نے حضورِانور کو خوش آمدید کہا اور عرض کیا کہ حضور اس چھوٹے سے قصبہ میں تشریف لائے ہیں۔ حضورِانور کے دریافت فرمانے پر میئر نے بتایا کہ وہ تھوڑا سا نیچے رہتے ہیں۔ حضورِانور نے میئر کا شکریہ ادا کیا۔
نمازوں کی ادائیگی کے لیے یہاں ایک بیسمنٹ ہال کو بطور مسجد تیار کیا گیا ہے۔ جس میں چارصد کے لگ بھگ لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔
حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر تشریف لا کر نمازِمغرب وعشاء جمع کرکے پڑھائیں۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
جماعت احمدیہ فرانس کا یہ نیا سینٹر ‘‘بیت العطاء’’فرانس کےصوبہ Hauts-De-France کے ضلع (Department) Oise کے شہر Trie-Chateau میں واقع ہے۔ اس قطع زمین کا رقبہ 55700 مربع میٹر، قریباً پونے چھے ہیکٹر ہے۔ یہ جگہ سال 2014ء میں چھ لاکھ پچاس ہزار یورو کی لاگت سے خریدی گئی۔ یہ جگہ اونچائی پر واقع ہے اور پیرس کے موجودہ مشن ہاؤس سے 60 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے اور شہر Trie کے ریلوے اسٹیشن سے دو کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ یہ جگہ ایک رشین فیملی کی تھی جو گھوڑوں اور بڑے پرندوں کا کاروبار کرتے تھے۔
اس جگہ کا انتہائی کم قیمت پر عطا ہونا ایک معجزہ سے کم نہیں۔ حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اس جگہ کا نام رکھتے ہوئے، امیرصاحب فرانس کو فرمایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے تو پھر ‘‘بیت العطاء’’ نام رکھ لیں۔
اس جگہ میں بڑی وسیع وعریض عمارت، رہائشی حصے اور ہال وغیرہ پہلے سے تعمیر شدہ ہیں۔ یہ سب تعمیرات 1400مربع میٹر کے رقبہ پر موجود ہیں۔
ایک بڑی وسیع وعریض دو منزلہ عمارت ہے۔ اس کے اندر تین ہال موجودہیں۔ خواتین اپنے اجتماعات، رہائش، طعام اور دیگر پروگرام انہیں ہالوں میں کرتی ہیں۔
ایک بڑی عمارت، جس میںبیسمنٹ کے علاوہ تین منازل ہیں۔ اس کی دومنازل پر گیسٹ روم موجود ہیں۔ جن کی تعداد 9ہے اور چارغسل خانے بھی ہیں، لاؤنج ہے اور میٹنگ روم بھی ہے۔ گراؤنڈفلور پر بہت بڑا جماعتی کچن بھی ہے۔ جبکہ بیسمنٹ ابھی زیراستعمال نہیں ہے۔
اسی عمارت کے ساتھ ملحقہ عمارت میں شعبہ اشاعت اور ہیومینٹی فرسٹ کے دفاتر ہیں ،بُک سٹور بھی ہے اور ایک حصّہ میں غسل خانے اور وضوکرنےکے لیے جگہیں بنائی گئی ہیں۔
ایک دوسری عمارت میں رہائشی اپارٹمنٹس ہیں۔ اس عمارت سے ملحقہ ایک ہال کو مسجد کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ اس میں چارصد سے زائد لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔
تین مختلف عمارات کے درمیان جگہ کو فرش بنا کر پختہ کیا گیا ہے اور اس کے اوپر ایک شیڈ بنا ہوا ہے۔ اس شیڈ کے نیچے بھی بوقت ضرورت تین صد کے قریب لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں اور سینکڑوں لوگ کھانا وغیرہ بھی کھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس وسیع وعریض قطع زمین میں مختلف جگہوں پر بعض Huts بنے ہوئے ہیں۔
اس قطع زمین کے دائیں اور سامنے کی طرف کھیت ہیں۔ اور بائیں طرف ایک ہمسایہ کا گھر ہے۔ اس قطع زمین کے پچھلے حصہ میں جہاں جلسہ گاہ ہے، ایک بہت بڑا گھنا جنگل ہے۔ جس کا رقبہ تقریباً دو لاکھ پچاس ہزار مربع میٹر ہے اور اس کی قیمت ایک لاکھ یورو ہے۔ حضورِانور نے اس کی خرید کی بھی منظوری عطافرمائی ہوئی ہے۔ جماعت فرانس نے دس ہزار یورو کا بیانہ ادا کردیاہوا ہے۔ چونکہ اس جنگل کو راستہ صرف ہمارے قطع زمین سے ہی لگتا ہے اور اگر کسی نے جنگل میں جانا ہوتوہماری زمین سے گزرکرہی جانا ہوگا۔ اس لیے اس کو بھی خریدنے کا فیصلہ کیا گیا۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس (Paris)سے صرف 60کلومیٹر کے فاصلہ پر محض ساڑھے چھ لاکھ یورو میں اتنے بڑے قطعہ زمین کی خرید، جس پر کئی بڑی وسیع عمارات بنی ہوئی ہیں، ناقابل یقین ہے۔ اتنی رقم میں تو ایک تین چار بیڈروم کا مکان نہیں ملتا۔ کجا یہ کہ 14ہزار مربع فٹ کے رقبہ پر بڑی پختہ تعمیرات موجود ہیں اور بڑا وسیع وعریض قطعہ زمین جلسہ گاہ اور اس کےسارے انتظامات کے لیے ہیں۔ یہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا انعام ہے جو خلافت کی برکت سے عطا ہوا ہے۔
اس کی خرید میں کچھ مشکلات پیش آتی رہی ہیں لیکن حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی دعاؤں سے تمام مشکلات کافور ہوئیں اور بالآخر یہ جگہ جماعت کو عطا ہوگئی اور 22؍اپریل 2014ء کو اس جگہ کی جماعت کے نام رجسٹری بھی ہوگئی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک
امیر صاحب فرانس مکرم اشفاق ربانی صاحب اس جگہ کی خرید کے حوالہ سے بتاتے ہیں کہ حضورِانور کی منظوری کے بعد ایک وسیع جگہ کی تلاش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایک ایجنسی میں پونے چھ ایکڑ کا رقبہ جس پر عمارات بھی موجود ہیں۔ فروخت ہونے پر لگا ہوا ہے۔ رابطہ کرنے کے بعد مالک سے 6 لاکھ چالیس ہزار یورو میں سودا طے پاگیا۔
بعدازاں حضورِانور کی خدمت میں منظوری کے لیے لکھا گیا جس پر حضورِانور نے ارشاد فرمایا ‘‘لے لیں’’۔
ہم نے سترہزار یورو بیانہ دے کر منتقلی کے لیے قانونی کارروائی شروع کی تو جب اس بات کا علم کورٹ کو ہوا تو ہمیں اطلاع دی گئی کہ اِس عورت کو مکان یہ جگہ فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ بنک کرپٹ ہے۔ اس بات کا ذکر جب ہم نے اس عورت سے کیا تو اس پر وہ بدتمیزی پر اُتر آئی۔ اس نے جانور بھی پال رکھے تھے کہنے لگی کہ میں آپ پر اپنے کتے بھی چھوڑ دوں گی۔
دوسری طرف بنک نے عدالت سے نیلامی کی اجازت مانگی اور ہمیں نیلامی میں بیٹھنے کی اجازت نہ ملی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ پہلی نیلامی پر کوئی نہ آیا۔ چونکہ دوسری نیلامی پر قیمت کم کردی جاتی ہے۔ اس پر اس جگہ کی مالکن کو فکر ہوئی کہ قیمت کم ہونے پر اب مجھے تو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ تب اس نے عدالت کارُخ کیا کہ اگر ایسا ہو اتو مجھے کچھ نہیں ملے گا۔ میرے دو چھوٹے بچے ہیں۔ خاوند جیل میں ہے۔ عدالت میری مدد کرے۔
اب اس جگہ کی خرید میں مشکلات بڑھ رہی تھیں۔ میں نے بعض بزرگوں کو بھی دعا کا خط لکھا۔ ایک بزرگ کی طرف سے خط موصول ہوا کہ اب آپ یہ دعا کریں کہ اے اللہ! خلیفۃ المسیح تو کہتے ہیں کہ ‘‘لے لیں’’ لیکن یہ لوگ لینے نہیں دیتے۔ چنانچہ اس سے دعا میں اور بھی زیادہ درد پیدا ہوا۔
ایک دن جج نے اُس خاتون سے کہا کہ احمدیوں سے بات کرو۔ اس پر اُس مالکن خاتون نے جج سے کہا کہ احمدیوں سے میں نے بہت بدتمیزی کی ہے۔ میں کس طرح ان کے پاس جاؤں۔ اس پر جج نے کہا کہ اس کے علاوہ تمہارے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ خاتون ایک دن رات کو ہمارے پاس آئی اور معذرت کی اور اپنے کیے کی معافی مانگی اور کہنے لگی کہ آپ یہ جگہ ‘‘لے لیں’’۔ میں نے عدالت میں بات کرلی ہے۔
بعدازاں عدالت نے ایک نوٹس بھی جاری کیا کہ یہ جگہ ہم جماعت احمدیہ کو دینے لگے ہیں۔ اگر کسی کو اعتراض ہو تو ایک ماہ کے اندراندر عدالت سے رجوع کرے ورنہ یہ جگہ جماعت احمدیہ کو دے دی جائے گی۔ مگر کسی کی طرف سے کوئی اعتراض نہ آیا۔ چنانچہ عدالت نے رجسٹری کی تاریخ مقرر کردی۔
تاریخ مقرر ہونے کے بعد ہم نے اس خاتون سے کہا کہ رجسٹری والےدن گھر کی چابیاں لے کر آؤ۔ مگرا س نے کہا کہ میں اپنے دوبچوں کو لے کرکہاں جاؤں گی۔ اس پر ہم نے اس کو کرایہ پر جگہ لے کر دینے کا وعدہ کیا اور کرایہ کی رقم اس کی قیمت سے کاٹ لی گئی۔ مکان کو دیکھ کر کہنے لگی کہ اس کا رنگ اچھا نہیں۔ خدام نے اس کی پسند کا رنگ بھی کردیا۔ کہنے لگی کہ سامان اُٹھانے کے لیے گاڑی نہیں۔ خدام نے اس کا سامان بھی منتقل کردیا۔
امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ رجسٹری والے دن جب دستخط ہونے لگے تو میں نے کہا کہ میں تو کوئی کام بغیر دعا کے نہیں کرتا۔ دعا کروں گا اور پھر دستخط کروں گا۔ اس پر حکومتی افسر جج کہنے لگا کہ یہ حکومتی ادارہ ہے۔ اس کے لیے اجازت نہیں دی جاسکتی۔ میں نے کہا میں یہ جگہ بغیر دعا کے نہ لوں گا۔ اس پر مالکن پریشان ہوگئی اور بنک والے بھی پریشان ہوئے کیونکہ ان کی رقم بھی جاتی تھی۔ اس پر وہ خاتون مجھے فرنچ زبان میں باربار کہنے لگی کہ ‘‘لے لیں’’۔ ‘‘لے لیں’’۔ مہربانی کرکے ‘‘لے لیں’’۔ وہی الفاظ جو حضورِانور نے فرمائے تھے وہی الفاظ وہ باربار کہتی جارہی تھی۔ اُس وقت دفتر کے لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ مجھے کہنے لگے کہ آپ نے کیا دعا کرنی ہے اس پر میں نے کہا کہ مجھے یہ دعا کرنی ہے کہ یہ جگہ اسلام اور انسانیت کا سب سے بڑا مرکز بن جائے۔ اس پر جج نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں بھی یہ دعا کرتا ہوں۔
چنانچہ دستخط کردیے گئے اور یہ جگہ قانونی طور پر جماعت کے نام رجسٹر ہوگئی۔ خداتعالیٰ نے اپنے خلیفہ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ لفظ لفظ، حرف حرف پورے کردیے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ جگہ ہمیں عطافرمادی۔ حضورِانور نے اس کانام ‘‘بیت العطاء’’عطافرمایا۔
………………………………………………………………………
آج بدھ کے روز ہالینڈ کے ایک ریجنل ٹی وی ‘‘Omroep Flevoland’’نے درج ذیل خبر دی:
المیرے میں احمدیہ مسجد کا افتتاح
بروز منگل بیت العافیت کا افتتاح ہوا۔ یہ مسجد جماعت احمدیہ کی ہے۔ یہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک اسلامی جماعت ہے جن کا ایمان یہ ہے کہ ان کے بانی جماعت وہ موعود مسیح ہیں جن کی پیشگوئی محمد رسول اللہ ﷺ نے کی تھی۔ باقی مسلمان فرقے اس جماعت کو غیرمسلم قرار دیتے ہیں۔
مسجد کا افتتاح جماعت کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد نے کیا۔ یہ موجودہ عالمگیر جماعت کے سربراہ ہیں۔ احمدی اپنے خلیفہ کو دنیا کا سب سے اہم ترین انسان سمجھتے ہیں۔ یہاں کے احمدی بہت خوش ہیں کہ خلیفہ وقت ان سے ملنے آئے ہیں۔ اِس تقریب میں بہت سے غیرازجماعت مہمان شامل ہوئے تھے۔ جن کو عشائیہ بھی پیش کیا گیا۔ احمدی جماعت دوسری مذہبی جماعتوں سے ملنے کے لیے تیار ہے اور مذہبی رواداری کوفروغ دینا چاہتے ہیں۔
المیرے (Almere) میں تقریباً 80احمدی رہتے ہیں اور ملک میں تقریباًپندرہ صد۔
…………………………………………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button