رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ ہالینڈ 2019ء (30؍ستمبر)

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ہالینڈاور نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی الگ الگ میٹنگز

واقفات نَو ہالینڈ کی حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ کلاس

……………………………
30؍ستمبر2019ء بروزسوموار
(حصہ دوم)

………………………………

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ہالینڈکی میٹنگ

بعدازاں پروگرام کے مطابق نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ہالینڈ کی حضورِانور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی۔ حضورِانور نے دعا کروائی۔

معتمد نے حضورِانور کے استفسار پر بتایا کہ ہماری دس مجالس میں 370 کی تجنید ہے۔ اور ہماری سب مجالس کی طرف سے رپورٹ آتی ہے۔

مہتمم تربیت سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کیا پلان بنایا ہے۔ ایک سال میں کیا ٹارگٹ حاصل کیا ہے۔ ایک سال میں کتنے باجماعت نمازی بنائے۔ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ 40 فیصد خدام ایک نماز باجماعت پڑھتے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا اپنی نیشنل عاملہ اور مقامی مجالس عاملہ کو باجماعت نمازی بنادیں تو باقی سب ٹھیک ہوجائے گا۔

حضورِانور نے فرمایا آپ کی نیشنل عاملہ اور مقامی مجالس عاملہ کے ممبران 100 ہوگئے۔ یہ سب باجماعت نماز پڑھنے لگ جائیں تو سو ہو جائیں گے۔ ان سو کو دیکھ کر پچاس ساٹھ اور بھی آجائیں گے۔ تب آپ چالیس فیصد کے قریب پہنچیں گے۔ پھر آہستہ آہستہ پچاس فیصد، ساٹھ فیصد تک جائیں گے۔

حضورِانور نے فرمایا جتنے بھی مبلغین ہیں سب خدام کو توجہ دلائیں کہ نمازوں پر آیا کریں۔ خدام سے تعلق بڑھائیں اور انہیں اپنے قریب لائیں۔

مہتمم تبلیغ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم سال میں چار تبلیغی کمپین (campaign) کرتے ہیں۔ ہمیں ایک بیعت بھی حاصل ہوئی ہے۔

حضورِانور نے فرمایا:۔ تبلیغ کرنا آپ کا کام ہے۔ دعا کرکے تبلیغ کرنی ہے اور تھکنا نہیں ہے۔ ہدایت دینا خداکا کام ہے۔ آپ کا کام ہے کہ ہر ایک کو پیغام پہنچادیں۔ نن سپیت کے لوگ بھی جماعت کو نہیں جانتے۔ شہر جا کر جماعت کا تعارف کروائیںتاکہ لوگوں کو پتہ ہو کہ احمدیت کیا ہے۔

مہتمم تبلیغ نے بتایا کہ نصاب میں کشتی نوح رکھی ہے۔ اس سے پہلے کتاب ‘‘گورنمنٹ انگریزی اور جہاد’’ تھی۔ اس کا ڈچ ترجمہ بھی ہے۔ ہم باقاعدہ امتحان بھی لیتے ہیں۔

مہتمم امورِطلباء نے حضورِانور کے استفسار پر بتایا کہ ہمارے طلباء کی تعداد 134 ہے جس میں سے 24 یونیورسٹی میں جاتے ہیں۔

مہتمم صحت جسمانی نے اپنا پروگرام پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم کرکٹ لیگ اور فٹبال لیگ کا پروگرام اپنی مقامی مجالس میں کررہے ہیں۔

مہتمم خدمت خلق نے عرض کیا کہ پیس کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ پیس کانفرنس کے انعقاد میں خدمت خلق کا کیا کام ہے۔ آپ کا کام ہے کہ غریبوں کی مدد کریں، چیرٹی واک آرگنائز کریں۔ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ ہم نے چیرٹی واک کی تھی اور آٹھ ہزار یورو جمع کیا تھا اور یہ رقم HFکو اور چیرٹی والوں کو دی تھی۔

محاسب نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا۔ ہر سہ ماہی آڈٹ کرتے ہیں اور سارا حساب چیک کرتے ہیں۔

مہتمم صنعت و تجارت نے بتایا کہ ہم نے چار پراجیکٹس پر کام شروع کیا ہے۔ ایک تعلیم کے لیے گائیڈ کرنا۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا تعلیم کے لیے گائیڈ کرنا امورِطلباء کاکام ہے۔ آپ کا کام ملازمت دلوانا ہے۔ ملازمت کے مواقع مہیا کرنا ہے۔

مہتمم عمومی نے حضورِانور کے استفسار پر بتایا کہ جلسہ پرپچاس خدام سیکیورٹی کی ڈیوٹی دے رہے تھے۔ اب بعض ایک دن کے لیے واپس گئے ہیں۔ دوبارہ آجائیں گے۔ حضورِانور نے فرمایا جرمنی سے بھی سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے پانچ خدام آئے تھے۔

مہتمم تربیت نومبائعین نے بتایا کہ اس وقت چھ نومبائعین ہیں جو زیرتعلیم ہیں۔ ان میں سے مقامی نوجوان کرسچن بیک گراؤنڈ سے بھی ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا جو مقامی ڈچ لوگ ہیں ان کو سورہ فاتحہ سکھائیں اور نماز بھی سکھائیں۔ سب کی تربیت کریں اور باقاعدہ نظام کا حصہ بنائیں۔

مہتمم تجنید نے بتایا کہ ہماری تجنید ڈبل ہونے کو ہے۔ ہماری نصف تعداد نئے خدام پر مشتمل ہے۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا جو پاکستان سے آئے ہیں ان کو اپنے سسٹم میں لے کر آئیں۔ اپنے قریب لائیں۔ نمازوں سے، جمعہ سے اٹیچ کریں اور قریب لائیں۔

مہتمم تحریک جدید نے بتایا کہ 13 ہزار یورو خدام نے جمع کرنے ہیں۔ ساڑھے سات ہزار ٹارگٹ گزشتہ سال تھا۔ اب امسال اس کو ڈبل کریں گے۔

نائب صدر نے شعبہ اشاعت کے حوالہ سے بتایا کہ خدام نے گزشتہ دو تین سالوں میں آٹھ کتب ڈچ زبان میں شائع کی ہیں۔ ان میں دعاؤں پر مشتمل کتب بھی ہیں۔

مہتمم اطفال نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جو جماعت کی تجنید ہے اس میں 121 اطفال ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا جو بھی نیا طفل آتا ہے آپ کاکام ہے کہ اس کو اپنی تجنید میں شامل کریں۔ آپ کی تجنید ساتھ کے ساتھ مکمل ہوتی رہنی چاہیے۔

مہتمم وقارِعمل نے بتایا کہ دوران سال ہم نے 371 وقارِعمل کروائے ہیں۔ زیادہ تر وقارِعمل مسجد بیت العافیت Almere کی تعمیر کے حوالہ سے کیے گئے ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا ایک تو وقارِعمل آپ نے سال کے شروع میں کروائے۔ میئر بھی آیاتھا اور تعریف کرکے گیا تھا۔

مہتمم مال نے حضورِانور کے استفسار پر بتایا کہ ہمارا سالانہ بجٹ 44 ہزار یورو کا ہے۔ 92 ایسے خدام ہیں جو نہیں کماتے۔ 170 خدام کمانے والے ہیں وہ صحیح چندہ ادا کرتے ہیں۔

حضورِانور نے فرمایا جو خدام اس وقت کیمپ میں ہیں۔ ان کی انکم کم ہے۔ وہ جتنا دے سکتے ہیں دے دیں۔

مختلف قائد مجالس بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔ سب ہی نے باری باری اپنی مجالس کی تجنید کے حوالہ سے بتایا۔

صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے عرض کیا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پانچوں نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلارہے ہیں۔ پچاس فیصد خدام باجماعت پڑھتے ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا جو کمزور ہیں ان کو پیارسے سمجھاتے رہیں۔ نوجوان مربیان پیچھے ہٹے ہوئے خدام کو قریب لائیں۔ جن خدام کا ان کمزور خدام سے دوستی کا تعلق ہے تو وہ ایسے خدام سے رابطہ کرکے قریب لائیں۔

حضورِانور نے فرمایا لوکل سپورٹس پروگرام میں اطفال کی حوصلہ افزائی کیا کریں۔ وہ اس میں شامل ہوں۔ صرف T.V پر ہی نہ دیکھا کریں بلکہ عملاً کھیلوں کے پروگرام میں شامل ہوں۔

مجلس عاملہ کے ایک ممبر نے عرض کیا کہ ہمارے گھر سے نماز سینٹر 13 کلومیٹر دور ہے۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا: ایک نماز وہاں جا کر باجماعت پڑھ سکتے ہو۔ حضورانور نے فرمایا مسجد کے لیے ایک دفعہ جاتے ہوئے پٹرول پر جو خرچ آتا ہے وہ رقم پٹرول کے لیے معین کرو۔ مہینہ میں تیس دن اور پانچ جمعے لگالو۔ چالیس دن کا حساب رکھ لو تو یہ 225 یورو بنتے ہیں۔ خدا کی خاطر یہ رقم مسجد جانے کے لیے نکالو۔ نماز کے لیے نکالو۔ برگر نہ کھاؤ۔ بیوی کو کہو گھر میں کھانا بناؤ۔ اس سے کچھ رقم بچے گی وہ نماز کی خاطر مسجد جانے کے لیے خرچ کرو۔

حضورِانور نے فرمایا اپنے ضمیر سے فتویٰ لو کہ گھر کتنا قریب ہے۔ مسجد، نمازسینٹر نہ جانا اور گھر رہ کر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں۔

مہتمم تبلیغ کو حضورِانور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر مجلس کو ٹارگٹ دیں کہ اتنے فیصد لوگوں کو جماعت کا تعارف پہنچ جانا چاہیے۔ کم از کم پچاس فیصد لوگوں کو پتہ ہو کہ جماعت کیا چیز ہے۔

حسابات رکھنے اور آڈٹ کے حوالہ سے متعلقہ شعبہ نے حضورِانور سے رہنمائی چاہی کہ ای میل کے ذریعہ صدر صاحب خدام الاحمدیہ کی طرف سے اخراجات کرنے کی منظوری یا کسی بل کی منظوری مل جاتی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک پیغام کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس پر صدر صاحب کا نام تو موجود ہوتا ہے لیکن دستخط نہیں ہوتے۔ جبکہ آڈٹ کے حساب سے دستخط ہونے ضروری ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا:۔ دستخط ہونے چاہئیں۔ یہ ضروری ہے۔ ایک ممبر نے سوال کیا کہ بعض دفعہ سکول میں بچوں کی برتھ ڈے کرتے ہیں اور دوسرے بچوں کو کہتے ہیں کہ کیک لاؤ۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا اگر سکول والے کہتے ہیں تو کیک لے جاؤ۔ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔
آپ اپنے بچوں کو گھر میں بتائیں کہ آج سکول میں اس طرح ہوا ہے۔ اس موقع پر تم غریبوں کے لیے آج کچھ دو۔ کچھ رقم چیرٹی میں ڈالو۔

حضورِانور نے فرمایا آپ کے اپنے گھر میں تین چار بچے ہیں یہ بچے آپس میں بیٹھ کر کیک کھالیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اصل یہ ہے کہ خاص اہتمام کرکے دوسروں کو نہ بلائیں۔ تحفے نہ لائیں، فنکشن نہ ہو۔

ایک ممبر نے یہ سوال کی اکہ اگر کوئی دوسری غیرمسلم فیملی اپنے بچے کے پروگرام پر بلا رہی ہے۔ اس پرحضورِانور نے فرمایا تو چلے جاؤ۔ ان کا رواج ہے۔ بچے کو کوئی تحفہ دینا ہے تو دے دو۔
حضورِانور نے فرمایا اگر سکول میں، کلاس میں کوئی ایسا پروگرام ہے تو وہاں بتانا چاہیے کہ اس موقع پر غریبوں کو کچھ دینا چاہیے۔ بہت سے غریب لوگ ایسے ہیں جن کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے۔ تعلیم نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے لیے چیرٹی میں کچھ دیں تاکہ ان کی مدد ہو سکے۔ اس موقع پر دعا کریں کہ ہم معاشرہ کا اچھا حصہ بنیں۔ خدمت کرنے والے ہوں۔

ایک ممبر نے عرض کیا کہ ایک سکھ دوست کی بچی کی عمر چھ ماہ ہوئی تھی اُس نے کھانا کیا تھا۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا۔ جا کر کھالیا کرو، کوئی حرج نہیں۔

حضورِانور نے فرمایا آپ کسی کے گھر گئے ہیں اور وہاں ختم ہورہا ہے اور ختم کا کھانا پکایا ہوا ہے۔ آپ ختم میں تو شامل نہیں ہوں گے ہاں جو کھانا ہے وہ کھانا سمجھ کر کھالو۔

چندہ کے حوالہ سے حضورِانور نے فرمایا کہ حکم یہ ہے کہ چندہ پاک مال سے دو۔ چندہ tax نہیں ہے۔ بلکہ یہ مالی قربانی خداتعالیٰ کی رضا کے لیے ہے اور اس لیے ہے تاکہ تمہارے مال میں برکت پڑے۔ جو مال غلط طریق سے کمایا جائے یا ناجائز طور پر حاصل کیا جائے، اس پر چندہ نہیں لینا۔
نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کی حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات ایک بج کر پچاس منٹ پر ختم ہوئی۔ آخر پر عاملہ کے ممبران نے حضورِانور کے ساتھ تصویر بنوانےکی سعادت پائی۔

اس کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

دوبج کر پندرہ منٹ پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر نمازِظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔

حضور انورایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی میٹنگ

پروگرام کے مطابق پانچ بجے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد بیت النور تشریف لائے اور نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی حضورِانور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی۔ اس میٹنگ میں عاملہ کی ممبرات کے ساتھ ریجنل صدرات اور لوکل مجالس کی صدرات بھی شامل ہوئیں۔

حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی۔

حضورِانور نے جنرل سیکرٹری صاحبہ سے دریافت فرمایا کہ لجنہ کی کتنی مجالس ہیں۔ کتنی مجالس رپورٹس بھجواتی ہیں اور ان رپورٹس پر فیڈبیک کون دیتا ہے۔ اس پر جنرل سیکرٹری نے عرض کیا کہ کل 17 مجالس ہیں اور اپنی رپورٹس بھجواتی ہیں۔ اور ان پر نیشنل صدرصاحبہ فیڈبیک دیتی ہیں۔ اس پر نیشنل صدرلجنہ نے بتایا کہ وہ نیشنل عاملہ کو فیڈبیک دیتی ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ نیشنل صدرلجنہ بھی لوکل مجالس کو فیڈبیک دیا کریں تاکہ ان کو پتہ ہو کہ نیشنل صدر کا بھی رابطہ ہے۔

اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری نے حضورِانور کے استفسار پر بتایا کہ وہ نیشنل جنرل سیکرٹری کی مدد کرتی ہیں۔

حضورِانور نے نائب صدر اول سے ان کی ذمہ داری کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ جس پر موصوفہ نے بتایا کہ ان کے پاس سیکرٹری محاسبہ مال کی ذمہ داری بھی ہے۔ حضورِانور نے آڈٹ کرنے کے حوالہ سے دریافت فرمایا جس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ وہ سالانہ آڈٹ کرتی ہیں۔

نائب صدر دوم نے حضورِانور کے استفسار پر بتایا کہ وہ سیکرٹری مال بھی ہیں۔ حضورِانور نے چندہ دہندگان اور کمانے والی خواتین کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ جس پر موصوفہ نے بتایا 411 چندہ دہندگان ہیں۔ جن میں سے 29کمانے والی ہیں۔ جو ایک فیصد کے حساب سے چندہ دیتی ہیں۔

اس کے بعد معاون صدرلجنہ مینجمنٹ نے اپنے سپرد ذمہ داری کے بارہ میں بتایا۔

نگران واقفاتِ نَو سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کتنی واقفات نو ہیں؟ موصوفہ نے بتایا کہ ان کی تعداد 83 ہے۔ اس کے بعد حضورِانور نے 15 سال سے بڑی واقفات کے بارہ میں دریافت فرمایا۔
معاونہ صدر نے حضورِانور کے استفسار پر بتایا کہ وہ سیکرٹری سلطان القلم اور سوشل میڈیا ہیں۔ اس پر حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ سوشل میڈیا میں، نیشنل اور لوکل اخبارات میں کتنے آرٹیکل لکھے ہیں اور کتنے تبلیغی آرٹیکل لکھے ہیں۔ اس پر سیکرٹری صاحبہ نے بتایا کہ ہم نے اپنی ویب سائٹ لانچ کی ہے اور ہم نے برقع پر لگنے والی پابندی کے متعلق آرٹیکل ڈالا ہے۔ جس پر حضورِانور نے فرمایا دوسروں کی ویب سائٹ پر بھی کمنٹ ڈال دیا کریں۔ آج کل جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف چیزیں چھپتی ہیں ان پر کمنٹ ڈالا کریں۔

معاونہ صدر برائے رشتہ ناطہ اور وصیت سے حضورِانور نے خواتین کی وصیت کے حوالہ سے دریافت فرمایا جس پر موصوفہ نے عرض کیا 225 لجنہ کی وصیت ہے۔

سیکرٹری تربیت نے حضورِانور کے استفسار پر اپنا تبلیغی پروگرام بتایا۔ حضورِانور نے کتاب عائلی مسائل، سوشل میڈیا اور پردہ کے متعلق نئی چھپنے والی کتب کا ڈچ ترجمہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔
حضورِانور نے سیکرٹری امورِطالبات سے ان کے کاموں کے بارہ میں دریافت فرمایا اور فرمایا کہ کیا سیمینارز میں دلچسپی لیتی ہیں؟ جس پر سیکرٹری صاحبہ نے عرض کیا کہ ابھی کلاسز ہورہی ہیں۔ ستر فیصد طالبات حصہ بھی لیتی ہیں۔

حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیکرٹری ناصرات سے ناصرات کی تعداد اور تربیت کے پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ جس پر سیکرٹری صاحبہ نے اپنے پروگرام کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ ناصرات کی تعداد 110 ہے۔ موصوفہ نے عرض کیا کہ پاکستان سے بہت سی بچیاں آئی ہیں۔ زبان اور بعض دوسری وجوہات کی بنا پر یہاں کی بچیوں کے ساتھ integrate ہونے میں مشکل پیش آرہی ہے۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا۔ نئی آنے والی بچیاں زبان تو سیکھ رہی ہیں۔ یہ مسئلہ ہونا نہیں چاہیے۔ یہاں رہنے والی بچیوں کے ساتھ دوستی کریں۔

سیکرٹری صاحبہ خدمت خلق نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ صدر صاحبہ نے بتایا کہ حضورِانور کی اجازت سے ہم نے ہیومینٹی فرسٹ سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے ہمیں آئیوری کوسٹ میں بننے والے ہسپتال کے بیڈز کے لیے عطیہ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ حضورِانور کے مزید استفسار پر صدرصاحبہ نے بتایا کہ ہم نے ہیومینٹی فرسٹ ہالینڈ کے انچارج سے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے ہمیں تمام معلومات دی ہیں۔

سیکرٹری تعلیم کی رپورٹ پر حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کیا نیشنل عاملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتی ہے؟ جس پر سیکرٹری تعلیم نے عرض کیا کہ مطالعہ کرتی ہے۔ امتحان کے حوالہ سے عرض کیا کہ 156 لجنہ کی ممبرز امتحان دیتی ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ نیشنل عاملہ بھی امتحان دیا کرے۔

سیکرٹری تجنید سے حضورِانور نے تجنید کے حوالہ سے دریافت فرمایا کہ کتنی تجنید ہے اور لوکل صدرات سے تجنید کس طرح لیتے ہیں۔ سیکرٹری نے عرض کیا کہ کل تجنید 475 ہے۔ ماہانہ لوکل رپورٹس سے تجنید اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے۔

سیکرٹری تبلیغ نے حضورِانور کے استفسار پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال دو ہوئی ہیں اور گزشتہ تین سالوں میں سات بیعتیں ہوئی ہیں۔

سیکرٹری اشاعت ڈچ اور سیکرٹری اشاعت اردو نے اپنا تعارف پیش کیا۔ جس پر حضورِانور نے فرمایا سیکرٹری اشاعت ایک ہی ہو، دو کی کیا ضرورت ہے۔وہ اپنی معاونہ رکھ سکتی ہیں۔ اس پر صدر لجنہ نے عرض کیا کہ حضور کی اجازت سے دو سیکرٹریان بنائی گئی ہیں۔

حضورِانور کے استفسار پر سیکرٹری اشاعت ڈچ نے بتایا کہ رسالہ شائع ہوتا ہے۔ حضورِانور نے فرمایا یوکے میں ایک رسالہ ‘‘مریم’’ وقف نو بچیوں کے لیے شائع ہوتا ہے۔ وہ مستقل لگوائیں۔ اس رسالے میں سے مضامین اپنے رسالہ میں ڈالا کریں۔ اچھے ترتیب دیئے ہوتے ہیں۔

سیکرٹری تربیت نومبائعات نے حضورِانور کے استفسار پر بتایا کہ سات نومبائعات کی ہفتہ وارکلاسز ہورہی ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ لوکل ڈچ لوگوں کی بھی بیعت کروائیں۔

سیکرٹری صنعت و دستکاری نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ حضورِانور کے استفسار پر موصوفہ نے اپنی آمدن بتائی۔

سیکرٹری صحت جسمانی سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ خود کھیلتی ہیں۔ باقاعدہ کھیلنے والی کتنی ہیں؟ موصوفہ نے عرض کیا کہ یورپین والی بال ٹورنامنٹ کے لیے جاتے رہے ہیں۔

سیکرٹری ضیافت سے ان کے کام اور بجٹ کے بارہ میں حضورِانور نے دریافت فرمایا۔ موصوفہ نے اپنے بجٹ کے بارہ میں بتایا۔

سیکرٹری تحریک جدید اور وقف جدید نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ 7 سے 15 سال کی ناصرات کو شامل کریں۔

اس کے بعد ریجنل اور لوکل صدرات نے باری باری اپنے کام کے بارہ میں بتایا۔

حضورِانور نے سب سے ان کی مجالس کی تجنید دریافت فرمائی۔

ایک لوکل صدر صاحبہ نے سوال کیا کہ آج کل کی دنیا میں مرد اور عورت کا کام کرنا ضروری ہے اور بعض لجنہ ممبرز کام کی وجہ سے جماعتی پروگراموں پر نہیں آسکتیں۔ ان کے بارہ میں حضورِانور رہنمائی فرمائیں۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا: یہ تو سچ ہے کہ آج کل مرد اور خواتین کام کیے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے۔ یہ شعبہ تربیت کا کام ہے کہ ان کو یاددہانی کرواتی رہیں۔ میرے خطبات کے ذریعہ لجنہ کو بچوں کی اچھی پرورش کرنی چاہیے۔ اگر مائیں نیک ہوں گی اور ان میں دنیاوی خواہشات نہیں ہوں گی تو وہ اپنی ذمہ داری سمجھیں گی۔ مثال کے طور پر امریکہ میں کچھ لجنہ ہیں جو کام بھی کرتی ہیں اور ان کی تربیت کا معیار بھی اچھا ہے۔ کام کرنے کی اجازت ہے اگر مجبوری ہے اور شوہر کی آمدنی اتنی اچھی نہیں ہے لیکن آپ کو اپنے عہد کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ پھر اس عہد کو دہرانے کا کیا فائدہ؟

ایک لوکل صدر نے سوال کیا کہ میری مجلس میں کچھ ممبرات کا کہنا ہے کہ ہم جماعت تک اپنا تعلق رکھنا چاہتی ہیں اور جماعتی چندہ بھی دیتی ہیں لیکن وہ لجنہ اماءاللہ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتیں اور نہ ہی لجنہ کا چندہ دیتی ہیں۔

اس پرحضورِانور نے فرمایا: جماعت کے نظام کی یہی خوبصورتی ہے کہ جو لجنہ قائم کی ہوئی ہے وہ براہِ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہے تو پھر یہ اپنے عہد بیعت کے ساتھ منافقت کرتی ہیں۔ چندہ دیں یا نہ دیں پہلے ان کو احمدی بنائیں۔ اگر چندہ نہیں دے سکتیں تو مجھ سے اجازت لے سکتی ہیں۔ ان کی یہ سوچ غلط ہے۔ خلیفہ وقت کی بنائی ہوئی تنظیم ہے۔ اس میں شامل ہونا پڑے گا۔ اگر خلیفہ وقت سے تعلق ہے اور احمدی ہیں تو پھر ممبر ہیں۔

ایک عاملہ ممبر نے سوال کیاکہ اگر کسی جماعتی یا ذیلی تنظیم کے عہدیدار کے بہت قریبی رشتہ دار کو اخراج ازنظام جماعت کی سزا ہو جائے تو اس عہدیدار کا رویہ اُس مخرج رشتہ دار سے کیا ہونا چاہیے۔

اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا: سزا یہ تو نہیں کہ جیل میں ڈال دیں۔ صرف مقاطعہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضور ﷺ کے زمانہ میں ہوا تھا۔ اصل مقصد یہ ہے کہ سزایافتہ شخص کو احساس دلایا جائے کہ اُس نے غلطی کی ہے۔ سزا بہرحال اس لیے دی جاتی ہے کہ بہتری ہو۔ قریبی رشتہ دار جیسے ماں باپ، بہن بھائی تعلق رکھ سکتے ہیں تاکہ اصلاح ہو۔ چاچی، مامی، پھوپھی نہ رکھے تاکہ غلطی کا احساس ہو اور اس کو سمجھائیں کہ تم نے غلطی کی ہے۔ اب یہ تو عہدیدار نے خود دیکھنا ہے کہ جماعتی مفاد مقدم ہے یا ذاتی رشتہ داری۔

ایک ممبر نے یہ سوال کیا کہ کیا ہم لجنہ کی تصاویر جو کہ معیاری پردہ میں ہوں اور دور سے کھینچی گئی ہوں، ان کو اپنے رسالہ میں شائع کر سکتے ہیں؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا۔ رسالوں میں نہیں لے کر آنی۔ شائع نہیں کرنی۔ دیکھنے والے مردوں کی نیت کا نہیں پتہ۔ بعض دفعہ نومبائع امریکی اور افریقی کی تصاویر آجاتی ہیں۔ ان کو چھوٹ ہے۔ لیکن پیدائشی احمدی کی نہیں ڈالنی۔

ایک ممبر نے سوال کیا کہ اکثر تبلیغی مہمان انگلینڈ یا جرمنی کے جلسہ پر لے جاتے ہیں لیکن جماعت کے پاس اتنا بجٹ نہیں ہوتا۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا: اپنی جماعت سے مدد لیں۔ یوکے والے تو پیسے نہیں لیتے۔ اگر جماعتی طور پر تبشیر کو اطلاع کردیں تو وہ انتظام کردیں گے۔

حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ کچھ عہدیدار ایسی ہیں جو مسجد اور پروگراموں میں تو پردہ کرکے آتی ہیں۔ لیکن اس سے باہر پردہ نہیں کرتیں۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا۔ ان کو عہدیدار نہیں بنانا۔ لیکن ان سے کام لے سکتے ہیں کچھ توتعلق رکھنا ہے۔ اگر مسجد میں کرتی ہیں تو کچھ تو حجاب ہے۔ کم ازکم مسجد میں تو پردہ کرکے آتی ہیں۔
ایک عاملہ ممبر نے سوال کیا کہ اگر نیشنل صدر یا لوکل صدر سے کوئی اختلاف رائے کرے یا اُس پر تنقید کرے تو صدر کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے اور اس ممبر کا اطاعت کا معیار کیسا ہونا چاہیے؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا :اگر باہمی مشورے ہورہے ہیں تو اس پر مثبت اختلاف رائے ہوتا ہے تو ٹھیک ہے۔ ٹانگیں کھینچنے والے نہ ہوں۔ کوئی مشورہ ہے تو لکھ کردیں۔ صدر کا فیصلہ ہوگا۔ ورنہ خلیفہ وقت کو لکھیں۔ خلیفہ وقت کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا۔

صدر صاحبہ لجنہ نے عرض کیا کہ ریجنل اور لوکل سطح پر مردوں سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن مردوں سے کام کروانا اکثر مشکل ہوجاتا ہے۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا: مردوں کو تعاون کرنا چاہیے۔ گھروں میں بہت سے مسائل آپ لڑجھگڑ کے حل کروالیتی ہیں تو یہاں بھی لڑا کریں۔

نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ میٹنگ چھے بج کر پانچ منٹ تک جاری رہی۔

کلاس واقفاتِ نَو

بعدازاں پروگرام کے مطابق چھے بج کر پندرہ منٹ پر واقفات نو بچیوں کی حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ ھدیٰ اکمل نے کی۔ بعدازاں اس کا اردو ترجمہ عزیزہ امۃ السبوح باجوہ نے پیش کیا۔

اس کے بعد عزیزہ تسنیم عودہ نے آنحضرت ﷺ کی حدیث کا عربی متن پیش کیا۔ اور اس کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیزہ نائلہ فرحان نے پیش کیا۔

‘‘حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! کوئی ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں لے جائے اور آگ سے دور کردے۔آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ، زکوٰۃ دے اور صلہ رحمی کریعنی رشتہ داروں سے پیار ومحبت سے رہ۔’’

(بخاری کتاب الادب باب فضل صلۃ الرحم)

اس حدیث کے بعد عزیزہ مناھل منصور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

‘‘نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو۔ بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ پیغمبروں کو معاف نہیں ہوئیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک جماعت آئی۔ انہوں نے نماز کی معافی چاہی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں اس لیے اس بات کو خوب یاد رکھو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اپنے عمل کرلو۔’’

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 263)

بعدازاں عزیزہ طاہرہ الحدوشی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درج ذیل منظوم کلام خوش الحانی سے پیش کیا:

وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو

جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اُس میں وہ کیا نہیں

بعد ازاں عزیزہ رمیزہ شبیر نے لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی پچاس سالہ جوبلی (1969-2019ء) کے حوالہ سے ایک تعارف پیش کیا:

اللہ کے فضل سے اس سال لجنہ اماء اللہ ہالینڈ اپنی پچاس سالہ جوبلی منا رہی ہے۔ آج ہم لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی تاریخ میں سے احمدیت قبول کرنے والی پہلی پانچ ڈچ خواتین کا مختصر تعارف کروائیں گے۔
اگر ہالینڈ میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا جائزہ لیں تو شروع میں یہاں کوئی مسجد یا مشن ہاؤس نہ تھا۔ اس وقت بھی ہالینڈ میں چند نیک فطرت وجود ایسے تھے جنہوں نے اسلام کے نور کو پہچانا اور اللہ کے فضل سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔

اس کے بعد عزیزہ عدیلہ ریحان نے پہلی احمدی ڈچ خاتون محترمہ شارلٹ ولبری بڈ صاحبہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا:

ان بابرکت وجودوں میں سب سے پہلے محترمہ شارلٹ ولبری صاحبہ کا نام آتا ہے۔ وہ قرآن کریم کے مطالعہ کے ذریعہ اسلام سے متعارف ہوئیں پھر انہوں نے امریکہ میں ہمارے مشن سے رابطہ کیا اور کتابیں منگوا کر پڑھیں۔ اس دوران حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب لندن سے ہالینڈ سیر کی غرض سے پہنچے اور مس بڈ سے مل کر انہیں تبلیغ کی۔

چنانچہ انہوں نے 1924ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت تحریراً کی۔ بعد میں اِن کو قادیان جانے اور لجنہ اماء اللہ میں شامل ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا، اس لحاظ سے وہ ہالینڈ کی پہلی ڈچ لجنہ ممبر ہیں۔

مس بڈ کا اسلامی نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ہدایت تجویز فرمایا تو موصوفہ نے لکھا: حضرت اقدس نے مجھے جو نام دیا ہے اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میرے ولندیزی کانوں میں یہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے اور اس نام (ہدایت) کے معنی خصوصاً میرے لیے ہمیشہ بڑی مدد ثابت ہوں گے۔

محترمہ ہندوستان آئیں۔ اس موقع پر کئی اخباروں نے ان کی آمد اور قبول اسلام کی 1929ء میں مس ہدایت بڈ کی خبریں شائع کیں۔ قادیان پہنچنے پر موصوفہ کا شاندار استقبال کیا گیا۔

(اخبار فاروق 21، 28 مئی 1929ء صفحہ 17، 18)

23 مئی 1929ء کو لجنہ اماء اللہ قادیان نے مس ہدایت بڈ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا اور انگریزی زبان میں ایڈریس پیش کیا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ آپ ہالینڈ میں حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے والوں میں سے سب سے اوّل ہیں اور اہل ہالینڈ میں پہلی فرد ہیں جو ہزار ہا میل کا سفر کر کے مرکز میں آئیں۔ ایڈریس میں ان کی استقامت کی دعا کی گئی جس کے جواب میں انہوں نے انگریزی میں تقریر کی۔

اس کے بعد عزیزہ بشریٰ زبیر نے دوسری احمدی ڈچ خاتون محترمہ رضیہ ڈین بور صاحبہ کے بارہ میں بتایا:

دوسری ڈچ احمدی خاتون محترمہ رضیہ ڈین بور صاحبہ ہیں۔ ہیگ میں مشن کے قیام کے بعد سب سے پہلے انہوں نے احمدیت قبول کی۔

مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب کے بطور مبلغ اسلام ہالینڈ آنے پر پریس میں جو خبریں شائع ہوئیں ان کو پڑھتے ہی انہوں نے حافظ صاحب سے رابطہ کیا۔ رضیہ صاحبہ کو خواب میں سبز روشنی میں اسلام لکھا ہوا نظر آتا تھا اور ان کی خواہش تھی کہ کوئی مسلمان ملے تو اس کے ذریعہ سے اسلام سے وابستگی اختیار کریں۔ یہ ہیگ سے بہت دور رہتی تھیں۔ انہوں نے بڑا لمبا سفر کر کے حافظ صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے محترمہ کو لٹریچر دیا اور انہوں نے چالیس دن کے اندر آ کر بیعت کر لی۔

ان کی بیعت کے بارہ میں حافظ قدرت اللہ صاحب فرماتے ہیں:

ہالینڈ کی دنیا میرے لیے بالکل نئی تھی۔ نہ زبان سے واقفیت تھی اور نہ کسی اور کے ساتھ وہاں کا تعارف تھا۔ ابتدائی کام تو حالات کا جائزہ لینا ہوتا ہے اور پھر اس کے ساتھ زبان کا سیکھنا اور پھر تبلیغی میدان کی تلاش وغیرہ۔ مگر تبلیغی جوش کے نتیجہ میں ان دنوں میرے دل میں خواہش موجزن ہوئی کہ کاش خدا تعالیٰ چالیس روز کے اندر اندر مجھے یہاں اسلام پر فدا ہونے والی کوئی روح عطا فرما دے تو کیا ہی اچھا ہو۔ چنانچہ میں نے اس کے لیے خصوصی طور پر دعا بھی کی۔

حافظ صاحب بیان کرتے ہیں کہ بیعت کے چند دن کے بعد ہی وہ ایک ہزار گلڈر لے کر حاضر ہوئیں اور خدمت اسلام کے لیے پیش کر دیے۔ میں نے اس کی مالی حالت کی وجہ سے سمجھانا چاہا کہ اتنی بڑی قربانی اس کے لیے مشکل ہو گی لیکن اس نے اصرار کیا کہ یہ رقم قبول کی جائے کیونکہ وہ ایک لمبا عرصہ اسلام کی روشنی سے دور رہی ہے اور جب اس نے اس کو پا لیا ہے اس کی خاطر وہ اپنا سب کچھ پیش کرنا چاہتی ہے۔

بعد ازاں عزیزہ طیبہ سعدیہ نے تیسری احمدی ڈچ خاتون محترمہ ناصرہ زمرمین صاحبہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

1945ء میں قرآن مجید کا ڈچ ترجمہ لندن میں مولانا جلال الدین شمس صاحب کی نگرانی میں کرایا گیا تھا۔ یہ کام محترمہ ناصرہ زمرمین نے کیا تھا۔

اسلام احمدیت کی طرف ان کا سفر ایسے شروع ہوا کہ لندن میں ایک ٹرانسلیشن بیورونے ان سے رابطہ کیا اور ان کو قرآن پاک کے آخری تین سو صفحات ڈچ میں ترجمہ کرنے کے لیے دیے۔ ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ پہلے حصہ کا ترجمہ بھی دیکھنا چاہیے۔ وہ دیکھا تو بہت قدیم اور مشکل ڈچ میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ اور قرآن کی تعلیمات ان کے اپنے عیسائی عقائد کے خلاف تھیں۔ انہوں نے یہ کام لینے سے انکار کر دیا۔ آخر بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے اس مبارک کام کو کرنے کا فیصلہ کیا اور ترجمہ کا سارا کام ہی اپنے ذمہ لے لیا۔ جب انہوں نے 30، 40 صفحات کا ترجمہ کر لیا تو اپنا کام دکھانے ڈائریکٹر کے پاس گئیں تو اس نے اور اس کے دفتر کے چند لوگوں نے قرآن کے لیے نہایت توہین آمیز کلمات استعمال کیے اور بعد میں جب وہ وہاں جاتیں، وہ قرآن مجید کی توہین کرتے رہتے۔ ایک بار وہ گئیں تو ڈائریکٹر کو سخت المناک حالت میں پایا، اس کی طبیعت شدید خراب تھی، اگلے دن ہی وہ فوت ہو گیا۔ اسی طرح اس دفتر میں سے جن جن افراد نے قرآن کی توہین کی تھی وہ مختصر عرصہ میں فوت ہو گئے جو اس گفتگو میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ سلامت رہے۔ ان واقعات کا ان کے دل پر گہرا اثر ہوا اور قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت کا سکہ بیٹھنا شروع ہوا اور اس کتاب کی عظمت کا ان کے دل پر اثر ہوا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے مسجد فضل لندن جانا شروع کیا اور احمدیت کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔

کچھ عرصہ بعد آپ اپنے ملک ہالینڈ واپس آ گئیں۔ یہاں ہالینڈ میں مشن کے قیام کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس وقت کے مبلغین کی مخلصانہ کوششوں سے آپ کو احمدیت کی نعمت حاصل ہوئی۔
اس کے بعد عزیزہ نائلہ طارق نے چوتھی احمدی ڈچ خاتون محترمہ عزیزہ والٹر صاحبہ کا تعارف کرواتے ہوئے کہا:

ہالینڈ کی تاریخ میں ایک انتہائی نیک اور مخلص خاتون محترمہ عزیزہ والٹر صاحبہ تھیں۔ بہت دعا گو اور صاحبِ رؤیا و کشوف تھیں۔ حضرت سر ظفر اللہ خان صاحب بھی یہاں قیام کے دوران اپنے کاموں کے لیے ان کو دعاؤں کا کہا کرتے تھے۔ نمازوں کی بے حد پابند تھیں اور مسجد سے بہت لگاؤ تھا۔ بسوں پر لمبا سفر کر کے باقاعدگی سے مسجد آیا کرتی تھیں۔ انہوں نے قرآن کریم سیکھنے کے لیے عربی سیکھی اور احادیث نبویہﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور جماعت کے لٹریچر کا وسعت سے ترجمہ کیا۔

محترمہ عزیزہ والٹر صاحبہ کی پینٹنگ اور فن خطاطی کا بہت شوق تھا اور اللہ اور قرآن کریم سے اپنی محبت کا اظہار بھی وہ ان کے ذریعہ کرتی تھیں۔ مسجد کے محراب کے لیے انہوں نے کیلیگرافی کی تھی۔ 1985ءمیں آگ کی وجہ سے بیشتر تباہ ہو گئی تھی۔ [محترمہ عزیزہ والٹر صاحبہ کی مسجد مبارک کے لیے بنائی گئی کیلی گرافی کا ایک نمونہ اور مسجد مبارک کی پینٹنگ کی تصویر دکھائی گئی۔]

اس کے بعد عزیزہ مریم نعیم نے پانچویں احمدی ڈچ خاتون محترمہ بحری حمید صاحبہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا:

محترمہ بحری حمید صاحبہ ایک انتہائی مخلص ڈچ احمدی خاتون ہیں جو آج کل امریکہ میں رہتی ہیں۔ 1957ء میں فوج میں اپنی نوکری کے دوران انہوں نے سیر کے لیے مڈل ایسٹ کا سفر کیا تو ان کا تعارف اسلام سے ہوا۔ ہالینڈ واپسی پر ان کا رابطہ ہماری مسجد سے ہوا۔ وہاں ان کو قرآن پاک دیا گیا جس کو پڑھ کر حضرت عیسیٰ کے مقام اور گناہوں کے کفارہ کے بارے میں ان کے شبہات دور ہوئے۔ یہ مسجد میں باقاعدگی سے آنے لگیں اور وہاں آنے والے غیر از جماعت مسلمانوں سے ان کی مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی تھی لیکن ان کو صرف مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب کے دلائل قرآن مجید کی تعلیمات کے عین مطابق نظر آتے تھے۔ انہوں نے 1962ء میں بیعت کی۔

محترمہ بحری حمید صاحبہ انتہائی مخلص اور محنتی خاتون ہیں۔ مالی قربانی اور تبلیغی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہیں۔ یہاں مختلف لائبریریز میں تبلیغی لیکچرز اور قرآن کریم کی نمائشیں کرواتی رہی ہیں۔ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی نیشنل صدر بھی رہی ہیں۔ نن سپیت میں بیت النور کے حصول میں کی جانے والی کوششوں میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں برکت ڈالے۔ آمین۔

بعد ازاں واقفات نو کے ایک گروپ عزیزہ ناجیہ اسلم، آصفہ ملک، درّ عدن، ہبۃ البصیر، کاشفۃ النور، عالیہ نتھو اور عزیزہ دانیہ احمد نے مل کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ پیش کیا۔

٭ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے استفسار فرمایا کیا کوئی ڈچ خاتون احمدی ہوئی ہے پچھلے 10 سال میں؟

اس پر ایک لجنہ نے عرض کیا کہ ایک لجنہ ہیں جو کافی active بھی ہیں اور تبلیغ بھی کرتی ہیں۔
حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے فرمایا یہاں کتنی واقفاتِ نو بیٹھی ہوئی ہیں؟ ہر ایک واقفہ نو یہ عہد کرے اور تبلیغ کا شوق پیدا کرے کہ اس نے ایک ڈچ عورت کو احمدی بنانا ہے۔
حضورانور کے استفسار پر لجنہ نے بتایاکہ اس وقت یہاں 83 لجنہ موجود ہیں۔ اس پر حضورانور نے فرمایاکہ پہلے 83 تو بناؤ۔ اگر کسی کو احمدی بھی نہیں بنانا تو آپ کے واقفاتِ نو ہونے کا کیا فائدہ ۔
٭ ایک لجنہ نے سوال کیا ہم کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت نیک ہوتی ہے تو اگر انسان کی فطرت نیک ہے تو ہمیں بری چیزیں attract کیوں کرتی ہیں اور ہمیں ان کی عادت اتنی جلدی کیوں ہو جاتی ہے؟

اس پر حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: انسان کی فطرت تو نیک ہے۔ بچہ کی فطرت نیک ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا؛

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج

جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

اس کا مطلب ہے کہ ساروں کی فطرت نیک تو نہیں ہو گی، جس کی فطرت نیک ہوگی وہ اچھائیوں کی طرف آئے گا۔ اور اس زمانہ کی اچھائی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہر بچہ نیک فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو اس کا ماحول ہے، environmentہے ، ماں باپ ہیں ، اس کو متاثر کرتے ہیں۔ کوئی مجوسی بن جاتا ہے، کوئی عیسائی بن جاتا ہے، کوئی یہودی بن جاتا ہے کوئی مسلمان بن جاتا ہے اور مسلمان بن کر اگر آج ہی کے مولوی کی طرح بن گیا تو پھر فطرت نیک کہاں ہوگی ، وہ تو زہرسے بھی زیادہ زہریلا ہے۔ تو اس لیے بچہ نیک فطرت ہوتا ہے۔ ہر انسان نیک فطرت نہیں ہوتا ۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حدیث یہ ہے کہ بچہ نیک فطرت ہوتا ہے۔ ہاں اس کا environment اس کو خراب کر دیتا ہے۔ اب یہ جوخاتون تھیں جو گلڈر لے کر آئی تھیں۔ انہوں نے 1000گلڈر( guilder) کی بات کی۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ ساری زندگی میں نے غلطیوں اور گناہوں میں گزاری اوراب میرے اندر کا اصل انسان جاگا ہے اورمجھے مذہب کی تعلیم کا پتہ لگاہے ۔ انہوں نے باوجود اس کے کہ مختلف وقتوں میں کی ہوئی savings تھیں ، وہ سارے گلڈر لیکر آگئیں۔ اب دیکھیں وہ جونیک فطرت لے کر پیدا ہوا تھا اس کو ماحول نے خراب کر دیا تھا ،اب دوبارہ اس کی فطرت نیک ہو گئی۔ اور جن کی فطرت ٹھیک ہو جائے گی وہ انجام کار آئیں گے۔ جن کی نہیں ہوگی وہ نہیں آئیں گے۔

٭ ایک لجنہ نے سوال کیا کہ حضور Swimming کے دوران یا sportsکرتے ہوئے یا lab میں بعض اوقات برقعہ نہیں پہن سکتے اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

اس پر حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:وہاں کا جو codeہے اس کی پابندی کرنی ہے اور جو swimming ہے وہ کوئی compulsory تو نہیں ہے۔ لیکن اگر لازمی ہو تو آج کل جو عورتوں کا پورا ڈریس نکلا ہوا ہےوہ پہن کر ایک کونے میں جا کر swimmingکر سکتی ہیں۔ اگر نہیں ہے تو ان سے کہو کہ ہمیں ایسا وقت دیں جس وقت عورتیں صرف swimmingکر رہی ہوں ۔ اگر پھر بھی مسئلہ ہے تو ان سے کہو کہ میں ایک حصہ میں چلی جاؤں گی ،اتنی پابندی میں مان لیتی ہوں کہ میں علیحدہ ہو کر اور dress پہن کرکروں گی ۔ ان کا جو dressہوتا ہے وہ نہیں پہننا۔

٭ لجنہ نے سوال کیاکہ جو باہر سے یورپ میں آتے ہیں انہیں سوشل ملتی ہے اور سوشل ملنے کے ساتھ black میں بھی کام کرتے ہیں ۔ جووہ انکم لیتے ہیں کیا وہ رزق حلال میں شامل ہوتی ہے؟ اور کیا وہ اس پر جماعت کو چندہ دے سکتے ہیں؟ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:جو قانون کے خلاف کر تے ہیں وہ رزقِ حلال کس طرح ہو سکتا ہے؟ وہ دھوکا دیتے ہیں۔وہ ایسا کام کرتے ہیں کہ پتا بھی نہ لگے اور پھر tax بھی نہیں دیتے۔ صرف ایک جرم نہیں کر رہے ہوتے، وہ دہرا جرم کرتے ہیں۔ سوشل بھی لیتے ہیں اور کام بھی کرتے ہیں۔ پھر کام کرنے کے بعد اسے چھپاتے ہیں اور گورنمنٹ کو جو tax دینا چاہیے وہ بھی نہیں دیتے۔ تو پھر ایسے لوگوں سے چندہ کیوں لیا جائے ؟ نہیں لینا چاہیے۔ یا تو ان سے کہیں کہ تم لوگ جو سوشل لیتے ہو کہ تمہاری انکم نہیں ہے اور پھر جتنا تم کماتے ہو اتنا تم tax دواور باقی سوشل والوں کو بتاؤ کہ میری اتنی انکم ہے اور جو میرا بقایا خرچ ہے اسے compensateکرو۔ دوسرے ملکوں میں یہی ہوتا ہے کہ جتنی انکم ہوتی ہے اس کے حساب سے وہ کاٹ لیتے ہیں۔ اگر ان کی انکم ایک لیول تک نہیں آتی تو باقی سوشل مل جاتی ہے تا کہ minimum wage اس کے مطابق پہنچ جائے۔ اس لیے بہت ساروں سے ہم چندہ نہیں لیتے ۔ ہاتھ جوڑ کرکہتے ہیں کہ جو ہمارا حلال رزق ہے، جس کا ہم tax دیتے ہیں اس پر توکم از کم چندہ لے لیں ۔ میں کہتاہوں کہ نہیں! سارے رزق کو پاک کرو۔ ہم نے چندہ نہیں لینا۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی جماعتوں کو ترقی کے لیے پیسہ تو چاہیے ہوتا ہے اوردنیا میں ہر ایک چیز پیسے سے چلتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ جو پاک رزق ہے وہ دین کے لیے خرچ ہونا چاہیے۔ اس لیے جو سؤر کا کاروبار کرتے ہیں، شراب کا کاروبار کرتے ہیں یا جو کلبوں کو چلاتے ہیں ان سے بھی ہم چندہ نہیں لیتے۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے کہ تم بھوکے مر رہے ہو تو سؤر کھا سکتے ہو۔ تم لوگ تو سؤر کا کام کر کے سؤر کھا سکتے ہو اس لیے کہ تم لوگوں کی مجبوری تھی کہ بھوکے مر رہے تھے لیکن جماعت تو بھوکی نہیں مر رہی کہ ضروران سے چندہ لے ۔

٭ ایک بچی نے سوال کیا کہ جب امام نماز پڑھاتے ہیں تو سورۃ فاتحہ کہ بعد امام آمین کیوں نہیں کہتے اور دوسرے بچے آمین کیوں کہتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تمہیں کس نے کہا کہ وہ آمین نہیں کہتے؟ آمین دو طرح ہوتی ہے۔ اونچی آواز میں بھی کہہ دیتے ہیں اور ہلکی آواز میں بھی۔ جو نمازی پیچھے کھڑے ہوتے ہیں وہ سارے اونچی آواز میں تو آمین نہیں کہتے۔ تم نے دیکھا ہوگاکہ تم بچے اونچی آواز میں آمین کہہ دیتے ہو یا بعض دفعہ بڑے جو آپ کے اماں ، ابا ہیں وہ ہلکے سے آمین کہہ دیتے ہیں۔ صرف آمین کہناچاہیے۔ دل میں بھی کہہ سکتے ہو جس طرح تم ظہر اور عصر کی نماز پڑھتی ہو تو اونچی تو نہیں پڑھتی ؟ اس وقت بھی دل میں ہلکی آواز میں ہونٹوں کے اندر ہی آمین کہتے ہیں۔ تو سارے آمین کہتے ہیں۔ بچوں کی طرح شور نہیں مچاتے بلکہ ہلکا سا کہہ دیتے ہیں۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کوئی بہرہ تو نہیں ہے کہ اونچی آواز میں ہی آمین کہا جائے ۔ اگر آپ ہلکا سا بھی کہو گے تو اللہ میاں کو آواز آجائے گی۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک دفعہ مسجد میں لوگ نماز پڑھ رہے تھے تو آپﷺ آئے اور دیکھا کہ کچھ لوگ اونچی اونچی آواز میں تلاوت کر رہے ہیں، اور دعائیں پڑھ رہے ہیں اور دوسرے لوگ آہستہ آہستہ کر رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایاکہ درمیان کا راستہ استعمال کرو ۔ اللہ تعالیٰ کوئی بہرہ نہیں ہے کہ تمہاری آواز نہ سن سکے اس لیے شور مچا کر دعائیں نہ کیا کرو بلکہ آرام آرام سے کیا کرو۔

٭ ایک بچی نے سوال کیا کہ آپ کو ہالینڈ کیسا لگتا ہے؟

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:ہالینڈ بہت اچھا ہے۔

٭ ایک لجنہ نے سوال کیا کہ حضور ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے کہ اگر ایک لڑکی کو depression ہے یا anxiety ہے تو کہتے ہیں کہ اس کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ اتنا مضبوط نہیں ہے۔تو آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:ڈپریشن تو دنیا داری کی وجہ سے ہے۔ بعض دفعہ حالات کی وجہ سے anxiety ہوجاتی ہے ، گھبراہٹ ہو تی ہے۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک گھبراہٹ ہے اور ایک depression ہے۔ڈپریشن مایوسی ہے کہ میں مرنے لگی ہوں اور دنیا ختم ہونے لگی ہے۔ یا اب کچھ نہیں ہو سکتا اور میرے لیے کوئی علاج نہیں ہے۔ اور اسے دنیا کی فکریں ہوتی ہیں کہ میرے پاس یہ نہیں، وہ نہیں۔ پس یہ ڈپریشن دنیا داری کی وجہ سے ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کہتا ہے، اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔کہ اللہ کہ ذکر سے تمہارے دلوں کو تسلی ہوتی ہے اور اطمینان ہوتا ہے۔ لیکن ایک گھبراہٹ ہے جو بزرگوں کو بھی ہوتی ہے۔ گھبراہٹ آنحضرت ﷺ کو بھی تھی۔ جب بدر کی جنگ ہورہی تھی تو آنحضرت ﷺ کی گھبراہٹ بہت شدیدتھی اور آپ ﷺ رو رو کر دعائیں کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ بچا لے کہ اگر یہ لوگ ختم ہو گئے تو پھر تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ کو بھی گھبراہٹ تھی، اسی لیے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے کہاکہ آپ کو کیوں گھبراہٹ ہو رہی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ فتوحات کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیا پتہ ہمارا کوئی قصور یا غلطی ایسی ہو جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے اور وہ وعدے آگے چلے جائیں یا ٹل جائیں، یا جس طرح موسیٰ کی قوم 40 سال تک دھکے کھاتی رہی۔
حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:پس ایک وہ گھبراہٹ ہوتی ہے جو نیک لوگوں کو ہوتی ہےاور اس کی وجہ اور ہوتی ہے۔ ایک depression ہے جو دنیا داری کی وجہ سے ہو جاتی ہے اور دنیا کی خواہشات اتنی ہوتی ہیں کہ وہ انتہا تک پہنچی ہوتی ہیں۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک فکر اپنے بچہ کی یہ ہوتی ہے کہ میرے بچوں کی اس ماحول میں تربیت ہو سکے گی یا نہیں؟ میں اس قابل ہوں بھی یا نہیں ؟ اس کے لیے انسان پھر اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا ہے اور کرنی بھی چاہیے اور اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ تسلی بھی کروا دیتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جو کہا ہے کہ میرا ذکر کرو، مجھے یاد کرو تو میں تمہارے دل کو تسلی دوں گا تو وہ تو یقیناً تسلی دیگا ۔ پھر اللہ تعالیٰ پر پورا trust کرنا پڑتاہے۔

٭ ایک لجنہ نے سوال کیا کہ ہم اگر روز کا ایک سکہ صدقہ میں دیں اور مہینہ کے آخر میں اسکی رسید بنوالیں ، تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہی سکہ پھر استعمال کریں یا انہی سکوں کو دینا ضروری ہے؟

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہو سکتا ہے۔ کیوں نہیں ہو سکتا؟ نیت کی بات ہے ۔ تم ایک جگہ پیسے ڈالتی گئی اور مہینہ کے آخر میں تم نے گنا تو وہ 30پاؤنڈ یا 40پاؤنڈ یا 100 پاؤنڈ یا یورو یا جتنے بھی بنتے ہیں،وہ نوٹ کی شکل میں صدقہ میں دے دیے۔ تو پھر تم وہی سکے دوبارہ بھی صدقہ میں ڈال سکتی ہو۔ اصل چیز تو تمہاری نیت ہے ۔

٭ ایک لجنہ نے سوال کیا کہ architecture کے لحاظ سے مسجد بناتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اور گنبد اور مینار کے لیے کیا ہدایت ہے؟

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:کوئی ہدایت نہیں۔ جس کا جو دل کرے وہ بنائے۔ ہم نے جو اسلام آباد میں مسجد مبارک بنائی ہے اس کا مختلف architectures نے design بناکر دیاتھا۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جو کپڑے ٹانگنے والا stand ہوتا ہے جو ٹوپیاں، کوٹ اور چھتری وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتاہے وہی مسجد مبارک کا ڈیزائن تھا۔ انگریز architectureنے اس سٹینڈ کو الٹا کرکے مسجد کا designبنا دیا۔ تو innovationہونی چاہیے ۔ بس یہ خیال رکھو کہ مینارہ اور گنبد وغیرہ ٹھیک ہیں۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت ﷺ نے جو مسجدنبویؐ بنوائی تھی اس میں کون سے گنبد یا مینارے بنوائے تھے۔ یہ سب بعد کی پیداوار ہے۔ اس وقت چھپڑی ڈال دی اور کھجور کی چھت بنائی تھی۔ اس لیے کوئی خاص ہدایت نہیں ہے۔

آپ جدید innovationکر سکتی ہیں اور کرتی رہیں۔ لیکن اچھی چیز ہونی چاہیے۔ یہاں کسی بھی جماعت احمدیہ کی مسجد میں اللہ تعالیٰ کے نام نہیں لکھے ہوئے لیکن اسلام آباد کی مسجد میں ہم نے بہت سارے لکھ دیے اور اس کے سینٹر میں گنبد آگیا اور اس کو چھتری کی طرح بنا دیا اور مینارے اس کے باہر نکال دیے۔ تو یہ آپ کی مرضی ہے ۔ بس ڈیزائن اچھا ہونا چاہیے۔

٭ ایک لجنہ نے سوال کیا کہ کشتی نوح میں حضرت مسیح موعود ؑ نے our lords prayer پر اعتراض کیا تھا تو کیا ہم مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ دعا کیا کرتے تھے یا یہ بعد میں عیسائیوں نے ایجاد کی ہے؟

اس پر حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا لکھا ہے وہ پورا فقرہ پڑھو، پھر میں بتاؤں گا ۔

اس پر بچی نے عرض کیاکہ اس میں لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ کا kingdomابھی زمین پر نہیں آیا۔
حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:سامنے فقرے ہوں تبھی میں بتا سکتا ہوں کہ ان کی تشریح کیا ہے۔ اس وقت تو مجھے یاد نہیں کہ وہ فقرے کیا ہیں۔ اگر حوالہ ہے تو سامنے لے کر آؤ یا پھر لکھ کر بھیج دینا تو میں بتا دوں گا۔ اس وقت زبانی تو مجھے بھی یاد نہیں کہ کیا فقرے تھے۔

٭ ایک لجنہ نے سوال کیا کہ اس وقت آپ کی سب سے بڑی کیا خواہش ہے؟

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تمام احمدی اور ہم سب اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے بن جائیں اور ویسے بن جائیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنانا چاہتے ہیں۔یہ دنیا ہمارے اوپر حاوی نہ ہو جائے۔

٭ ایک بچی نے سوال کیا کہ جب وقف کے لیے ماں باپ کی درخواست آتی ہے تو آپ ہر درخواست پر ہاں کرتے ہیں یا بعض دفعہ نہ بھی کرتے ہیں؟

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:میں نہ ہاں کرتا ہوں ، نہ انکار کرتا ہوں۔ میں اس درخواست کووقفِ نو دفتر بھیج دیتا ہوں کہ وہ اس کو processکریں ۔ ان کو یہی کہا ہوا ہے کہ تم ہر درخواست کو قبول کرلو ۔ اگر بعد میں بعض بچے یا ان کے ماں باپ ٹھیک نہ رہیں تو پھران کو listمیں سے نکال دیتے ہیں۔

٭ ایک بچی نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح فرماتا ہے کہ وہ کسی بھی جان سے بڑھ کر کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کے بہت سے لوگ بیماری یا معاشرے کی تنگی کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے آگے کیا لکھا ہوا ہے ۔ اسکے آگے بھی پڑھو کہ کیا لکھاہے۔ اس کے آگے لکھاہے کہ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ ۔جس نے جو حرکت کی اس کے مطابق اس کو بدلہ مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بوجھ نہیں ڈالتا لیکن انسان اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ وہ جو کماتا ہے اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اسی لیے آگے دعا سکھائی کہ ، جو ہم سے پہلے لوگ گزرے ہیں، ان پر جو مشکلات آئی ہیں وہ مشکلات ہم پر نہ آئیں اور ہمارے ایسے حالات نہ ہو جائیں اور ہم ایسی حرکتیں کرنے نہ لگ جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بن کر سزائیں ملنے لگ جائیں یا ہم سے ایسی باتیں نہ ہوں۔ اللہ ہمیں معاف کردے، ہم پر رحم کردے اور ان چیزوں سے ہمیں بچا۔ یہ دعائیں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسی لیے سکھائی ہیں۔ تم لوگ دعائیں کرتے رہو اور ان برائیوں سے بچتے رہو ۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:دیکھیں ایک قانون قدرت ہے یعنی law of nature ہے، اور ایک قانونِ شریعت یعنی law of shariat ہے۔ اگر کسی نے زہر کھا لیا ہے تو قانون قدرت نے اس کا نتیجہ نکالنا ہے اور اس نے مرنا ہے۔ یہ نہیں کہ میں مسلمان ہوں ،اس لیے میں زہر کھا کر نہیں مروں گا اور عیسائی مر جائے گایا یہودی مر جائے گا۔ جو اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا اور atheistہے اس نے محنت کی ہے تو ظاہر ہے وہ اچھے نمبر لے لے گا اور مسلمان کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں اور بغیر پڑھے میرے اچھے نمبر آجائیں گے تو وہ نہیں آئیں گے۔ پس جب انسان خودایسی حرکتیں کرے تو پھر اس کو اس کے بدلے میں بھگتنا پڑتا ہے ۔ باقی بیماری وغیرہ تو اللہ تعالیٰ نے رکھی ہوئی ہے۔ ہر چیز ساتھ ساتھ ہے۔ کیا نبی بیمار نہیں ہوتے تھے؟ آنحضرت ﷺ کو کسی نے ہاتھ لگایا توآپﷺ کا جسم بڑا سخت گرم تھا۔ اس پراس نے پوچھاکہ کیا آپ ﷺکو بھی بخار ہوتا ہے؟ اس پر حضورﷺ نے فرمایا میں بھی انسان ہوں ، مجھے بھی بخار ہوتا ہے اور بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ تم لوگ اتنا برداشت بھی نہیں کر سکتے۔ تو یہ چیزیں ، تکلیفیں بھی ساتھ ساتھ رکھی ہوئی ہیں اور ساتھ ساتھ دنیا کا قانون بھی چل رہا ہے ۔ ہاں انسان دعا کرتا رہے اور ان سے بچنے کی کوشش بھی کرے تو بہت سارے فائدے بھی ہیں اور یہ کہنا کہ کسی نے مرنا نہیں ہے یا کسی نے جانا نہیں ہے ٹھیک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کچھ لوگوں کو میں بچپن میں اٹھا لیتا ہوں، کچھ کو جوانی میں، کچھ کو بڑی عمر دیتا ہوں ، کچھ کو اتنی عمر دیتا ہوں کہ ان میں بچپن دوبارہ آجاتا ہے یعنی بھولنے لگ جاتے ہیں ۔ یہ بیماریاں اور بھولنے کی بیماری بوڑھے ہو کر ہو جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے فضل مانگتے رہنا چاہیے۔ پس اس کا یہی مطلب ہے کہ اگرغلط حرکتیں یا غلط کام کرو گے تو اس کا نتیجہ غلط نکلے گا۔

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں حکم دیے ہیں وہ ایسے حکم ہیں جو انسان کی طاقت سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ پہلے اللہ تعالیٰ کے حکم تلاش کرو اور پھر ان پر عمل کرو۔ اس کے بعد شکوہ کرنا کہ زیادہ بوجھ ہے یا نہیں۔

واقفات نو بچیوں کی حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ کلاس چھے بج کر پچپن منٹ تک جاری رہی۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button