سیرت صحابہ کرام ؓ

انگلستان کا سفر کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ (قسط 1)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

اللہ تعالیٰ نے انگلستان کو یہ شرف بخشا ہے کہ پچھلے چھتیس سال سے یہ سر زمین خلیفہ وقت کی قیام گاہ ہونے کی وجہ سے جماعت احمدیہ کا عالمی مرکز ہے، اس سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ یہاں تشریف لا چکے ہیں۔ خلافت کے بعد اس ملک کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک معقول تعداد یہاں رونق افروز ہو چکی ہے، سر زمین عرب کے بعد اغلباً انگلستان کا پہلا نمبر ہے جہاں اتنی تعداد میں اصحاب احمد پہنچے ہیں۔

اس مضمون میں انگلستان آنے والے صحابہ کا ذکر اُن کی آمد کی ترتیب کے لحاظ سے کیا گیا ہےلیکن سب سے پہلے سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ذکر مقصود ہے، حضورؓ 1924ء اور 1955ء میں یعنی دو مرتبہ انگلستان تشریف لے گئے، حضورؓ کا پہلا سفر Wembleyکانفرنس میں شرکت کی غرض سے تھا، اسی سفر میں مسجد فضل لندن کی بنیاد رکھی گئی۔ دوسرا سفر بغرض علاج تھا جو 1955ء میں حضورؓ نے فرمایا۔
اب ذیل میں جن صحابہ کے متعلق معلومات مل سکیں ہیں اُن کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔

حضرت حافظ محمد سعید صاحب رضی اللہ عنہ آف بھیرہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے 313کبار صحابہ میں 246 نمبر پر‘‘حافظ محمد سعید صاحب بھیرہ حال لندن’’ کا نام شامل فرمایا ہے ۔ آپؓ کے بارے میں اس کے علاوہ اَور کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔

حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری

حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب ولد مکرم شیخ عبدالکریم صاحب قوم شیخ قانونگو اصل میں گجرات کے رہنے والے تھے لیکن اپنے کاروبار کے سلسلے میں لاہور میں سکونت پذیر تھے۔ لاہور میں بمبئی ہاؤس اور انگلش ویئر ہاؤس کے نام سے وسیع کاروبار تھا، ایک شاخ شملہ میں بھی تھی۔ آپ نے 29؍مئی 1891ء کو بیعت کی توفیق پائی اور اخلاص و وفا میں بہت ترقی کی، حضرت اقدسؑ نے اپنی کتاب ‘‘ازالہ اوہام’’ میں آپ کا محبت بھرا ذکر فرمایا ہے۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 537) آپ کے بارے میں لکھا ہے:

‘‘حضرت شیخ صاحب کو تجارت کے سلسلہ میں قریباً ہر سال انگلستان جانا پڑتا تھا اور شاید سترہ اٹھارہ مرتبہ آپ انگلستان گئے…..’’

(یاد رفتگان حصہ اول صفحہ 81۔ ناشر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور)

آپ کے ایک سفر انگلستان کا ذکر اخبار الحکم میں بھی محفوظ ہے، اخبار لکھتا ہے: ‘‘ہمارے مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب اس ہفتہ عازم سفر ولایت ہوکر روانہ ہوئے، اللہ تعالیٰ مع الخیر پہنچاوے اور کامیابی اور صحت اور تندرستی کے ساتھ واپس لاوے۔ ’’ (الحکم 19؍مئی 1899ء صفحہ 6 کالم 3) اور تقریباً تین سال کے بعد واپس ہندوستان تشریف لائے جس کی خبر بھی اخبار نے نقل کی ہے:‘‘اس ہفتہ ہمارے مخدوم و محسن جناب شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور جو پچھلے ہفتہ خیریت سے اپنے سفر انگلستان سے واپس آئے تھے، دارالامان بغرض حصول نیاز امام علیہ السلام حاضر ہوئے اور دو چار روز رہ کر مع الخیر لاہور واپس تشریف لے گئے۔’’

(الحکم 24؍ نومبر 1902ء صفحہ 14 کالم 3)

لندن میں آپ نے ایک انگریز عورت سے شادی بھی کی جس سے آپ کے ایک بیٹے کی خبر اخبار الحکم نے یوں دی ہے:

‘‘جناب شیخ رحمت اللہ صاحب پروپرائیٹربمبئی ہاؤس لاہور نے جو شادی انگلستان میں کی تھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ دارالامان میں اس بچے کا عقیقہ کیا گیا ۔ خدا تعالیٰ مولود مسعود کو دینی دنیوی نعمتوں سے بہرہ ور کرے۔ آمین۔’’

(الحکم 10 ؍جولائی 1902ء صفحہ 15 کالم 2)

21؍نومبر 1902ء بروز جمعہ آپ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے ، اس حاضری کا ذکر ملفوظات میں بھی محفوظ ہے ۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 537)حضورؓ آپ سے سفر انگلستان کے حالات دریافت فرماتے رہے۔

خلافت ثانیہ کے بعد آپ غیر مبائعین میں شامل ہوگئے مگر کبھی بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہ کی۔ آخری عمر میں جب آپ بیمار ہوگئے تھےتو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نہایت محبت بھرا عیادت کا خط حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آپ کو بھجوایا جس میں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی لکھا: ‘‘مجھے آپ سے محبت ہے ان خدمات کی وجہ سے جو آپ نے مسیح موعودؑ کی کیں اور ان قیود کی وجہ سے جو آپ نے میرے مقابلہ میں اپنے دل اور اپنی زبان پر عاید کیں….’’ (الفضل 14؍مارچ 1924ء صفحہ 1،2)
آپ نے 10؍مارچ 1924ء کو وفات پائی۔

حضرت ڈاکٹرعباد اللہ صاحب امرتسری رضی اللہ عنہ

حضرت ڈاکٹر عباد اللہ صاحب رضی اللہ عنہ ولد مکرم امیر الدین صاحب قوم کشمیری امرتسر کے رہنے والے تھے اور پرانے احمدی تھے۔ جماعت امرتسر کے سیکرٹری رہے۔ حضرت اقدسؑ کی زندگی میں قادیان میں آکر اعتکاف بیٹھنے کا ذکر اخبار الحکم میں محفوظ ہے۔ (الحکم 24؍دسمبر 1902ء صفحہ 7 کالم 1) کچھ عرصہ لاہور میں بھی کاروبار کیا جس کے بعد افریقہ چلے گئے۔ درمیان میں کچھ وقت انگلستان میں بھی گزارا، آپ لندن میں رہائش رکھتے تھے۔ آپ کی لندن تشریف آوری کا صحیح علم نہیں کہ کب ہوئی لیکن آپ جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے سفر انگلستان 1912ء سے پہلے لندن میں موجود تھے۔ حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
‘‘1912ء میں خواجہ کمال الدین صاحب لندن تشریف لائے، ان دنوں ڈاکٹر عباد اللہ صاحب امرتسر والے بھی لندن میں تشریف فرما تھے، خواجہ صاحب کے لندن پہنچنے پر وہ انھیں اس مکان پر لے گئے جہاں وہ خود رہتے تھے۔ چونکہ اس وقت اس مکان میں کوئی خالی کمرہ نہ مل سکا، انھوں نے اپنا کمرہ خواجہ صاحب کو دے دیا اور جب تک دوسرا کمرہ نہ ملا وہ خود زمین پر سوتے رہے۔’’ (تحدیث نعمت صفحہ 45)

اسی زمانے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے لندن آپ کے نام ایک خط بھی تحریر فرمایا تھا:

‘‘عزیز مکرم ڈاکٹر عباد اللہ حفظکم اللہ و سلم۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے بن جاؤ اور اللہ تعالیٰ تمھارا بن جاوے۔ لندن دار الابتلاء ہے، نماز کے پابند رہو اور جہاں تک ممکن ہو شرفا سے مجلس رکھو، آزاد لوگ اچھے نہیں، آزاد سے مراد مادر پدر آزاد ہیں۔ استغفار بہت کرو۔ دعائیں مانگتے رہو کہ تم خادم دین بنے رہو۔ وہاں ایک لڑکا شکراللہ کا بھائی ظفر اللہ خان ہے چوہدری نصر اللہ خاں کا بیٹا، وہ مخلص ہیں، اس کو کبھی ملنا، خط لکھ دینا آپ کو آکر ملے گا۔ والسلام

نور الدین 22؍ اکتوبر 1912ء’’

(الحکم 7؍نومبر 1912ء صفحہ 2 کالم 2 و اخبار بدر 31؍ اکتوبر 1912ء صفحہ 3)

اس خط کے ساتھ ہی حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے اخبار الحکم میں یہ نوٹ دیا ہے کہ ‘‘اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے لندن میں ہمارے تین بھائی موجود ہیں، ڈاکٹر عباد اللہ صاحب اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب…… اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایک موقعہ دے دیا ہے کہ لندن میں انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھ دی جاوے۔’’

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اگست 1913ء کے خطبہ ثانیہ میں فرمایا:

‘‘کچھ ہمارے بہت پیارے مصر میں بھی گئے ہیں، ان کے لیے بھی دعا کرو اللہ انھیں دین کا خادم بنائے، اللہ ان پر راضی ہو….. پھر تین،چھ، نو لنڈن میں بھی ہیں، اُن کے لیے دعا کرو …. ان لوگوں میں سے کچھ پڑھتے ہیں، کچھ کام کرتے ہیں، کچھ تبلیغ کے لیے ہیں، سبھی مجھے پیارے ہیں، خواجہ کا نام تو تم جانتے ہو، فتح محمد ہے، نور احمد ہے۔ یہ تو ایک جماعت ہے۔ ملک عبدالرحمٰن ہے، ظفر اللہ ہے، عباد اللہ ہے، محمد اکبر ہے…..’’

(خطبات نور صفحہ 603)

آپ کے ایک بھانجے بھی لندن میں طالب علم کے طور پر مقیم تھے، وہ احمدی تو نہ تھے لیکن جماعت کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔

(الفضل 7؍جولائی 1914ء صفحہ 8 کالم 2)

آپ کے قریبی دوست حضرت ملک مولا بخش صاحب امرتسری رضی اللہ عنہ (بیعت:1900ء ۔ وفات: اکتوبر 1950ء) نے آپ کے متعلق لکھا:

‘‘جن دنوں ڈاکٹر صاحب ولایت گئے، ان دنوں خواجہ کمال الدین صاحب ولایت میں تھے اور وہاں اپنے طریق پر تبلیغ کرتے تھے اور جماعت پر اُن کے کام کا اور ان کی مشتہرہ قربانی کا بہت اثر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے واپسی پر بتلایا تھا کہ ابتداء میں انھوں نے کچھ وقت خواجہ صاحب کے ساتھ مل کر بلکہ ان کی ماتحتی میں اُن کی ہدایات کے مطابق کام کیا لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے کام احمدیت کی روح اپنے اندر نہیں رکھتے بلکہ دیگر مقاصد اُن کا محور تھے تو اُن سے الگ ہوگئے۔’’

(الفضل 9؍دسمبر 1930ء صفحہ 7)

آپ 1913ء کے اواخر میں واپس ہندوستان آگئے تھے اخبار الفضل ‘‘آمد مہماناں’’ کے تحت لکھتا ہے : ‘‘…. ڈاکٹر عباد اللہ صاحب امرتسری جو لنڈن سے آئے ہیں ….. تشریف لائے۔’’ (الفضل 24؍ستمبر 1913ء صفحہ 1 کالم 2) حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ نومبر 1914ء میں جب انگلستان سے واپس تشریف لائے تو آپ لاہور ریلوے پلیٹ فارم پر ہی ملاقات کے لیے موجود تھے، حضرت چودھری صاحبؓ بیان کرتے ہیں:

‘‘….. مکرمی ڈاکٹر عباد اللہ صاحب بھی تھے ….. میں نے ڈاکٹر عباد اللہ صاحب سے کہا کہ قادیان چلیں، انھوں نے فرمایا میں امرتسر سے ایک ضروری کام کے لیے لاہور آیا ہوا ہوں، آج میں وہ کام کر لوں تو کل اکٹھے قادیان چلیں گے، میں ان کی رفاقت کی خواہش میں رضامند ہوگیا ….. دوسری صبح ڈاکٹر عباداللہ صاحب کے ساتھ قادیان گیا ….. امرتسر کے اسٹیشن پر انھیں کوئی واقف مل گیا، دکان کی چابی اس کے حوالے کی اور کہا یہ ہمارے ہاں پہنچا دینا اور کہہ دینا کہ میں ظفر اللہ خاں کے ساتھ قادیان جا رہا ہوں کل واپس آ جاؤں گا۔’’

(تحدیث نعمت صفحہ 113،114)

خلافت اولیٰ کے انتخاب کے موقع پر آپ قادیان میں ہی تھے، خلیفۃ المسیح الاوّل کے انتخاب کے متعلق چھپنے والے اعلان اور خلافت کی بیعت کنندگان میں آپ کا نام شامل ہے۔ (بدر 2؍جون 1908ء صفحہ 6 کالم 2) خلافت ثانیہ کے موقع پر بھی آپ قادیان میں ہی تھے، اخبار الفضل میں بیرونی جماعتوں کے لیے خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے انتخاب کی اطلاع کے لیے چھپنے والے اعلان میں اعلان کنندگان میں آپ کا نام ‘‘ڈاکٹر عباد اللہ امرتسر’’ بھی درج ہے۔ (الفضل 18؍مارچ 1914ء صفحہ 16)
آخری عمر میں آپ پھر افریقہ چلے گئے تھے جہاں 27؍ ستمبر 1930ء کو بمقام زنجبار وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ بفضلہ تعالیٰ ابتدائی موصیان میں سے تھے، وصیت نمبر 116تھا،یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔

حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ

پاکستان کے مایہ ناز سپوت حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ (پیدائش: 1893ء ۔ وفات: یکم ستمبر 1985ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ)کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں اور انعامات سے نوازا تھا، آپ پر ہونے والے الٰہی افضال میں سے سب سے بڑا فضل آپ کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آنا تھا۔ بر صغیر ہند اور پھر پاکستان میں بہت سے اہم عہدوں پر کام کرنے کا موقع پایا، آپ اپنے منصبی فرائض کی وجہ سے متعدد مرتبہ انگلستان تشریف لے گئے لیکن پہلی مرتبہ انگلستان کا سفر آپ نے بحیثیت طالب علم کیا تھا جو 1911ء میں ہوا۔ اس سفر کے لیے آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب فرمائی تھی، حضور نے استخارہ کا ارشاد فرمایا چنانچہ حسب ارشاد دعا، استخارہ اور اطمینان کے بعد آپ نے سفر کی تیاری شروع کر دی، آپ بیان کرتے ہیں:

‘‘….. رخصت ہوتے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے جو ہدایات خاکسار کو دیں ان میں سے جو خاکسار کو یاد رہ گئی ہیں درج ذیل ہیں، فرمایا: 1۔ اس دعا کا ورد رکھنا اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي جَلِيسًا‏ صالِحًا۔ 2۔ جب کسی سفر کے آخر میں منزلِ مقصود کے قریب پہنچو اور شہر یا بستی کی آبادی نظر آنا شروع ہو تو یہ دعا کیا کرو اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰاتِ السَّبْعِ ….. اے اللہ! جو رب ہے ساتوں آسمانوں کا اور اس کا بھی جو کچھ ان کے سائے میں ہے اور رب ہے ساتوں زمینوں کا اور ہر اس چیز کا جو اس پر قائم ہے۔ اور رب ہے ہواؤں کا اور ہر اس چیز کا جسے وہ لیے پھرتی ہیں۔ اور رب ہے سب سرکشوں کا اور ان کا جنھیں وہ گمراہ کرتے ہیں۔ میں طالب ہوں تجھ سے اس آبادی کی ہر بھلائی کا اور اس میں رہنے والوں کی طرف سے ہر بھلائی کا۔ اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کی طرف سے ہر بھلائی کا۔ اور تیری حفاظت کا طالب ہوں اس بستی کے ہر شر سے اور اس میں رہنے والوں کے ہر شر سے اور جو کچھ بھی اس کے اندر ہے اس کے ہر شر سے۔ یا اللہ! تو اس کی ہر خوشگوار چیز ہمیں عطا فرما اور اس کی ہر ضرر رساں چیز سے ہماری حفاظت فرما۔ اے اللہ! تو اس میں رہنے والوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈال دے اور اس میں رہنے والوں میں سے نیک بندوں کی محبت ہمارے دل میں ڈال دے۔
3۔ کہا جاتا ہے کہ انگلستان چونکہ ایک سرد ملک ہے اس لیےوہاںسردی کےدفاع کےلیےشراب کےاستعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم طبیب ہیں اور ہم جانتے ہیں یہ بات بالکل غلط ہے اگر تمھیں سردی کی مدافعت کی ضرورت محسوس ہو تو کو کو استعمال کریں اس میں خوراکیت بھی ہے اور سردی کے اثر کو بھی زائل کرتی ہے۔

4۔ ہمیں خط لکھتے رہنا ہم تمھارے لیے دعا کریں گے۔
5۔ انگلستان میں ہندوستانی طلبہ سے زیادہ میل جول نہ بڑھانا، وہاں کے شریف طبقہ سے میل جول رکھنا۔ ‘‘ (تحدیث نعمت صفحہ 22)

آپ کا بحری سفر اٹلی کے شہر ٹریسٹ (Trieste) تک تھا جہاں سے آگے پھر بذریعہ ٹرین سفر کیا اور وسط ستمبر 1911ء میں آپ لندن پہنچے ۔ لندن میں آپ کا قیام تین سال تک رہا، اس دوران آپ نے اپنی تعلیم بھی مکمل کی اور یورپ کی معلوماتی سیر و سیاحت کا بھی موقع پایا اور قابل ذکر بات یہ کہ اس قیام کے دوران آپ نے اسلامی شعار کی پابندی کا عمدہ نمونہ پیش کیااور احمدیت کی تبلیغ میں بھی مصروف رہے، خلیفۃ المسیح کو بھی دعاؤں کے لیے لکھتے رہتے، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بھی آپ کے نام بعض خطوط شائع شدہ ہیں، مثلًا ایک خط میں حضور نے تحریر فرمایا:

‘‘…… آپ توحید کی تبلیغ کر دیا کریں، پنجابی ہندوستانی طلباءکو بقدر طاقت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام پہنچا دیں، اتنا ہی غنیمت ہے۔ نمازوں میں غفلت مت کرو، قرآن کریم ضرور پڑھو، دعائیں بہت مانگو …..نور الدین 16؍ستمبر 1913ء’’ (بدر 25 ستمبر 1913ء صفحہ 2) محترم خواجہ کمال الدین صاحب کی غیر حاضری میں نماز جمعہ آپ پڑھاتےتھے۔ (بدر 24؍جولائی 1913ء صفحہ 6 کالم 3) خلافت ثانیہ کے موقع پر آپ نے بغیر کسی تردّدکے ‘‘و لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہ تبْدِیْلًا’’ پر یقین رکھتے ہوئے انگلستان سے بیعت کا خط لکھا۔

(الفضل 13؍مئی 1914ء صفحہ 23 کالم 3)

تین سال کے بعد نومبر 1914ء میں واپس قادیان حاضر ہوئے، اخبار الفضل نے لکھا:

‘‘چودھری ظفر اللہ خان ولایت سے تشریف فرما ہوئے۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب چودھری نصر اللہ خان صاحب وکیل سیالکوٹ کے خلف اکبر ہیں۔ آپ تین سال کے بعد انگلستان میں امتحان بیرسٹری پاس کر کے با مُراد واپس آئے ہیں۔ آپ صالح نوجوان ہیں۔ آپ نے لنڈن جیسے شہر میں اپنے نیک نمونہ کو قائم رکھا اور آپ وہاں تبلیغ کا کام بھی سر انجام فرماتے رہے۔ آپ سیدھے قادیان ہی تشریف لائے۔ آپ ان شاء اللہ تعالیٰ بڑے کامیاب بیرسٹر ثابت ہوں گے…..’’

(الفضل 3؍نومبر 1914ء صفحہ 1 کالم 1)

اس کے دس سال بعد 1924ء میں آپ نے پھر لندن کا سفر کیا، اسی دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے رفقاء کے ہمراہ لندن تشریف لائے تو حضورؓ کے اس سفر کے دوران آپ کو بھی خدمات کا موقع ملا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو پنجاب اور پھر ہندوستان و پاکستان اور پھر عالمی سطح پر اعلیٰ عہدوں سے سرفراز فرمایا جس کی نمائندگی میں آپ کو متعدد مرتبہ انگلستان جانے اور وہاں قیام کرنے کا موقع ملا۔ انگلستان کے ان دوروں اور قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت کی شاندار خدمت کی بھی توفیق عطا فرمائی ۔جزاہ اللہ احسن الجزاء۔

حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ ولد حضرت چوہدری نظام الدین صاحب رضی اللہ عنہ 1887ء میں بمقام جوڑہ کلاں ضلع قصور پیدا ہوئے۔ 1899ء میں اپنے والد صاحب کی معیت میں قادیان آئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔ حضور علیہ السلام نے 1907ء میں وقفِ زندگی کی تحریک فرمائی تو آپ اولین لبیک کہنے والوں میں سے ہوئے اور پھر ہمہ تن دینی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ جون 1913ء میں بطور مبلغ اسلام عاز م انگلستان ہوئے، پہلے جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے ساتھ ہی تھے لیکن خلافت ثانیہ کے آغاز میں ہی اُن کی خلافت سے علیحدگی کی وجہ سے ووکنگ چھوڑ کر لندن میں کرائے کا مکان لے کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا۔آپ مارچ 1916ء میں واپس قادیان تشریف لائے۔ آپ کے ہوتے ہی حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب رضی اللہ عنہ آپ کی معاونت کے لیے انگلستان پہنچے ۔ آپ نے سکاٹ لینڈ کا بھی کامیاب دورہ کیا۔

(الفضل 2؍ فروری 1916ء صفحہ 10 کالم 3)

اس کے بعد جولائی 1919ء میں آپ پھر حسب الحکم خلیفۃ المسیح حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ کی معیت میں تبلیغ اسلام کے لیے انگلستان گئے اور 6؍اگست 1919ء کو لندن پہنچ کر گذشتہ تجربہ و روابط کی بنا پر تبلیغ کا کام مزید وسعتوں کے ساتھ شروع کیا۔ آپ نے پیرس (فرانس)کا بھی کامیاب دورہ کیا۔ (الفضل 30؍ اگست 1920ء صفحہ 6) اگست 1920ء میں ہی لندن کے علاقے Putney, Southfields میں مسجد کے لیے زمین خریدی گئی جس میں علاوہ سکنی مکان کے ایک ایکڑ سے کچھ زائد رقبہ میں ثمرور درختوں کا باغ تھا۔ (الفضل 20؍ ستمبر 1920ء صفحہ 2 کالم 3) اس خوشی کی خبر ملنے پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جو کہ اُس وقت سفر ڈلہوزی پر تھے، ڈلہوزی کے مضافاتی خوبصورت علاقے Dainkund میں اس خوشی میں جلسہ کیا اور اپنی مشہور نظم ‘‘تیری محبت میں میرے پیارے ہر ایک مصیبت اٹھائیں گے ہم’’سے حاضرین کو محظوظ فرمایا۔ (الفضل 16؍ ستمبر 1920ء صفحہ 2)بہرحال حضرت چودھری صاحب ستمبر1921ء میں قادیان واپس آگئے۔ اس کے بعد حضورؓ کے سفر یورپ 1924ء میں آپ کو حضورؓ کا معیت کا شرف حاصل ہوا۔

حضرت شیخ نور احمد صاحب جالندھری

حضرت شیخ نور احمد صاحب ولد مکرم غلام غوث صاحب جالندھر شہر کے رہنے والے تھے۔ آپ نے یکم فروری 1892ء کو بیعت کی توفیق پائی۔ اسی دہائی میں آپ مشرقی افریقہ چلے گئے اور بعدہ ٹائم کیپری ملازمت کی، افریقہ میں احمدی جماعت کے فعال ممبر تھے۔ 313 صحابہ میں حضرت اقدس ؑ نے آپ کا نام 242 نمبر پر ‘‘شیخ نور احمد صاحب جالندھر حال ممباسہ’’ درج فرمایا ہے۔ افریقہ قریباً پانچ سال کا عرصہ گزار کر واپس ہندوستان آئے۔ ملفوظات جلدچہارم میں حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ذکر موجود ہے۔ نظام وصیت کا آغاز ہوا تو ابتدائی موصیان میں سے ہوئے، وصیت نمبر 11 تھا۔ ہندوستان میں آپ نے جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے ساتھ بطور منشی کام شروع کیا، جب محترم خواجہ صاحب انگلستان گئے تو وہاں جاکر انھوں نے آپ کو بھی بلایا چنانچہ آپ 1913ء میں حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ مبلغ اسلام انگلستان کی معیت میں ہی انگلستان روانہ ہوئے۔ (پیغام صلح 20؍جولائی 1913ء صفحہ 3 کالم 2)حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘….. خواجہ کمال الدین صاحب ….. نے لاہور سے اپنے منشی صاحب شیخ نور احمد صاحب کو بلوا لیا تھا جو بہت نیک سیرت بزرگ تھے اور گو انگریزی کی مہارت نہیں رکھتے تھے لیکن خواجہ صاحب کی ذاتی خدمت شوق سے ادا فرماتے تھے اور ان کے لیے بہت سہولت کا موجب تھے۔ ضعیف ہونے کی وجہ سے وہ دودھ ڈبل روٹی پر گذارہ کر لیتے تھے، جو لباس وہ اپنے ساتھ لائے تھے وہی انھیں کفایت کرتا رہا ۔’’

(تحدیث نعمت صفحہ 95)

آپ ووکنگ مسجد میں اذان کہا کرتے تھے۔ اخبار پیغام صلح میں آپ کی بعض چٹھیاں شائع شدہ ہیں۔ خلافت ثانیہ کی بیعت کے موقع پر آپ جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے زیر اثر رہے اور خلافت کی بیعت نہ کی۔ جنوری 1917ء میں واپس انڈیا آئے۔ خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ ‘‘اسلامک ریویو اینڈ مسلم انڈیا’’ بابت ماہ فروری و مارچ 1917ء میں آپ کی تصویر شائع شدہ ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیوی سے بڑے صاحبزادے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے گوعملاً بیعت 1928ء یعنی خلافت ثانیہ میں کی لیکن آپ شروع ہی سے حضرت اقدس علیہ السلام اور آپؑ کے دعاوی کو برحق تسلیم کرتے تھے۔ بہرحال آپ مئی 1914ء میں انگلستان کے لیے روانہ ہوئے۔ (پیغام صلح لاہور 21؍ مئی 1914ء صفحہ 1 کالم 2)

اور اغلباً جون کے مہینے میں لندن پہنچے، حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ نےاپنے ایک خط میں آپ کے لندن پہنچنے کی خبر دی ہے، وہ لکھتے ہیں: ‘‘مولوی صدر الدین صاحب مع مرزا سلطان احمد صاحب پہنچ گئے ہیں۔’’ (الفضل 7؍جولائی 1914ء صفحہ 8 کالم 1) انگلستان میں آپ کی مصروفیات اور وہاں سے واپسی کے متعلق کوئی علم نہیں ہوسکا۔

حضرت عبد المحی عرب صاحب

حضرت شیخ عبدالمحی عرب صاحب (اصل نام یہی ہے لیکن جماعتی لٹریچر میں بعض جگہ سہوًا عبدالحی بھی لکھا گیا ہے) ساکن بغداد شیعہ مسلک کے ایک عالم فاضل تھے، 1900ء میں آپ قادیان آئے اور چند ہفتے احمدیت کا قریبی مطالعہ و مشاہدہ کرکے احمدیت میں داخل ہوگئے۔

(بدر 28؍ نومبر و 5؍ دسمبر 1902ء صفحہ 42)

آپ کی بیعت کا اندراج اخبار الحکم 10؍دسمبر 1900ء صفحہ 6 کالم 3 میں درج ہے ۔ قادیان میں رہ کر آپ نے نہایت محنت سے بعض تحریری کام سر انجام دیے۔ آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کے عربی، فارسی و اردو الہامات جو اس وقت تک ہوچکے تھے اُن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا۔ (بدر 28؍ اگست 1903ء صفحہ 254 کالم 2)اسی طرح ایک کتاب ‘‘لغات القرآن’’بھی تالیف کی۔ (بدر 8؍اگست 1907ء صفحہ 9 کالم 3)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سفر ہندوستان 1912ء میں آپ بھی قافلہ کا حصہ تھے، اس موقع پر لکھنؤ میں لی گئی ایک تصویر میں آپ بھی حضرت مصلح موعودؓ کے بائیں کندھے کے پیچھے کھڑے ہیں۔ 1912ء میں ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے عازم مکہ ہوئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے آپ کو حضورؓ کی معیت میں روانہ فرمایا۔ آپ نے قادیان سے اخبار ‘‘مصالح العرب’’ نکالنا شروع کیا۔ مصالح العرب آٹھ صفحاتی پرچہ تھا جس کے دو کالم تھے ایک طرف عربی اور دوسرے کالم میں اسی عربی متن کا اردو ترجمہ درج ہوتا تھا۔ اخبار بدر 31؍ جولائی 1913ء کے ضمیمہ کے طور پر ‘‘مصالح العرب’’ کا پرچہ شائع شدہ ہے ۔

آپ ستمبر 1913ء میں حج کے ارادے سے قادیان سے روانہ ہوئے۔ (بدر 4 و 11ستمبر 1913ء صفحہ 4 کالم 2) 1914ء میں آپ انگلستان پہنچ گئے ، شروع میں آپ کا قیام جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے ساتھ رہا چنانچہ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ‘‘عبدالمحی عرب خواجہ صاحب کے ساتھ ہیں۔’’ (الفضل 10؍ جون 1914ء صفحہ 22 کالم 1) آپ جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ The Islamic Review میں تین چار صفحاتی عربی کالم بھی لکھتے رہے، آپ کے یہ کالم 1914ء کے آخری شماروں سے 1915ء کے آخری شمارے تک شائع شدہ ہیں، بعض کالموں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے اقتباسات ہیں لیکن حضرت اقدسؑ کا نام لکھنے کی بجائے ‘‘مِن تحاریر سیدی و مرشدی اعلیٰ اللہ مقامہ’’ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ کے لیے آپ کے حالات کا پتا نہیں چلتا، جب حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ انگلستان آئے تو چونکہ حضرت مفتی صاحب کے ساتھ قادیان کے زمانہ سے آپ کے دوستانہ تعلقات تھے اغلباًانہی کی کوشش سے آپ دوبارہ نظام جماعت کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور انگلستان میں احمدی مبلغین کے کاموں میں مدد دینے لگے یہاں تک کہ جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے ساتھ بھی گفتگو اور مباحثہ کے لیے اُن کو دعوت دیتے رہے، اخبار الفضل 9؍فروری 1918ء صفحہ 8 پر اور خبار الفضل 12؍فروری 1918ء صفحہ 1 پر اسی حوالے سے آپ کی رپورٹ شائع شدہ ہے۔ اسی طرح اخبار الفضل 28؍ستمبر 1918ء صفحہ 2اور الفضل 5؍جولائی 1919ء صفحہ 2 کالم 2پر بھی آپ کی رپورٹس شائع شدہ ہیں۔حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:‘‘مولوی فاضل عبدالمحی عرب صاحب نے لنڈن میں ایک ہوٹل کھولا ہے، احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس تجارت میں خیر و برکت اور نفع عطا کرے۔ گاہے ہم بھی ضرورتاً ان کے ہاں کھانا کھاتے ہیں….’’(الفضل 20؍اکتوبر 1917ء صفحہ 7 کالم 2) الفضل کے اسی شمارے کے پہلے صفحے پر حضرت عرب صاحب کی ایک تبلیغی رپورٹ بھی درج ہے۔

حضرت مفتی صاحبؓ لکھتے ہیں:‘‘برادرم عرب صاحب اگرچہ اپنے ہوٹل کے کام میں بہت مصروف رہتے ہیں تاہم وہ کوئی موقعہ تبلیغ کا جانے نہیں دیتے اور حضرت مسیح موعود کی آمد کی خبر سب لوگوں کو پہنچاتے رہتے ہیں۔ خدا کے فضل سے اپنی روزی خود کماتے ہیں، روپیہ پیسہ کے واسطے کسی غیر کے دست نگر نہیں اس واسطے حق کے اظہار میں انھیں کسی کا خوف نہیں، جتنے لوگ ان کے ذریعہ سے نو مسلم ہوئے وہ سب احمدی ہیں ….’’

(الفضل 18؍فروری 1919ء صفحہ 7 کالم 3)

حضرت قاضی محمد عبداللہ بھٹی صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت قاضی محمد عبداللہ بھٹی صاحب رضی اللہ عنہ بی اے بی ٹی ابن حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب رضی اللہ عنہ آف قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ نہایت ہی مخلص اور فدائی وجود تھے۔ آپ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ کی انگلستان میں موجودگی کے دوران ہی اُن کا ہاتھ بٹانے کے لیے مورخہ 6؍ستمبر 1915ء کو قادیان سے روانہ ہوئے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر آپ کو نصائح لکھ کر دیں جس میں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی لکھا:‘‘آپ تو ایک گھوڑے پر بھی سوار نہیں ہو سکتے لیکن ایک شیر پر سوار ہونے کے لیے جاتے ہیں …..آپ دعا سے کام لیں تا کہ یہ شیر آپ کے آگے اپنی گردن جھکا دے۔’’(الحکم 21؍اکتوبر 1915ء صفحہ 3 کالم2) آپ کولمبو (سری لنکا) سے روانہ ہوکر انگلستان پہنچے ۔ یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا، جرمنی کے حملوں کے ڈر کی وجہ سے راستہ بھی پُر خطر تھا اور آگے بھی حالات مشکل تھے۔ بہرحال آپ نے بڑے حوصلے اور محنت سے اپنا مفوضہ کام جاری رکھا۔ انگلستان میں آپ کی کارگزاری کی رپورٹیں اخبار الفضل میں شائع شدہ ہیں۔لنڈن میں آپ کا ایڈریس:41Great Russell St/WC درج ہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ انگلستان سے اپنے ایک خط میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ‘‘میرے رفیق قاضی عبداللہ صاحب اس موسم سرما میں نہ صرف سردی کی تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے بلکہ خوفناک ہوائی حملوں کے نیچے سر دیے صبر کے ساتھ لنڈن میں جمے رہے اور اپنے تبلیغی کام میں مصروف رہے۔’’

(الحکم 28؍جولائی 1918ء صفحہ 7 کالم2)

تبلیغ کے علاوہ انسانی ہمدردی اور خبر گیری میں بھی عمدہ نمونہ دکھایا۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ‘‘ایک ہندوستانی مسلمان پاگلوں کے ہسپتال میں پڑے ہیں۔ قاضی صاحب ان کی خبر گیری کے لیے گئے ہیں۔’’(الفضل 24؍اکتوبر 1916ء صفحہ 1)1918ء کے وسط میں آپ نے تقریباً چار ماہ پر محیط شمالی انگلستان کا کامیاب دورہ کیا اور South Shields ، Rothbury، Durham اور Morpeth وغیرہ شہروں میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ (الفضل 18؍ فروری 1919ء صفحہ 9-6) اسی طرح Hexham، Windermereاور Blackpoolکا بھی دورہ کیا۔ (الفضل 5؍نومبر 1918ء صفحہ 3)آپ نے کچھ عرصہ سمندر کے کنارے شہر Hastingsمیں بھی قیام رکھا۔

(الفضل 26 اگست 1919ء صفحہ 10 کالم 3)

آپ 28؍نومبر 1919ء کو بخیر و عافیت قادیان واپس پہنچے۔ پھر ساری زندگی سلسلہ کی مختلف حیثیات سے خدمت کی توفیق پاتے ہوئے 27؍دسمبر 1972ء کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ

سلسلہ احمدیہ کے درخشندہ گوہر حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بھیرہ کے رہنے والے تھے۔ 31؍جنوری 1891ء کو بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت قریب رہ کر بہت خدمت کا موقع پایا۔ حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہی بذریعہ خط انگلستان،امریکہ اور روس وغیرہ تک احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ آپ 10؍مارچ 1917ء کو قادیان سے تبلیغ اسلام کے لیے انگلستان کو روانہ ہوئے، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ دو میل تک آپ کی مشایعت کے واسطے تشریف لائے، بمبئی بندرگاہ سے آپ روانہ ہوئے، اسی بحری جہاز میں مشہور مستشرق پروفیسر مارگولیتھ بھی مسافر تھے جو اپنے دورہ ہندوستان (جس میں قادیان بھی شامل تھا) سے واپس جا رہے تھے۔ (فاروق 19؍اپریل 1917ء صفحہ 1،2)

آپ نے دعاؤں اور محنت سے اسلام احمدیت کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی ہر ممکن سعی کی۔ آپ Isle of Wightمیں واقع ایک قصبہ وینٹ نور (Ventnor)میں موسم سرما کی شدت کے باوجود تقریباً پانچ ماہ مقیم رہے۔ (الحکم 28؍جولائی 1918ء صفحہ 5 کالم 1) اکتوبر 1918ء میں آپ Torquay شہر میں نزیل ہوئے اور یہاں تبلیغ کا موقعہ پایا جس کا ذکر Torquay Times وغیرہ مقامی اخبارات میں ہوا۔ (الفضل 21جنوری 1919ء صفحہ 9-6) شہر Bournemouth میں بھی مقیم رہے۔

(الفضل 5 ؍اپریل 1919ء صفحہ 10 )

ایک دفعہ جناب خواجہ کمال الدین صاحب بیمار ہوگئے اور بیماری کے دنوں میں Wokingچھوڑ کر Harrogate چلے گئے اور کئی ہفتے وہاں رہنے کا پروگرام بنایا، حضرت مفتی صاحبؓ کو علم ہوا تو آپ نے بیمار پرسی کا خط لکھتے ہوئے یہ بھی لکھا: ‘‘اگر ضرورت ہو تو بندہ خدمت کے واسطے حاضر ہوجائے یا قاضی عبداللہ صاحب کو بھیج دیں….’’(الفضل 24؍ دسمبر 1918ء صفحہ 9 کالم 3) الفضل کے اسی پرچے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو افریقہ جانے کا بھی حکم ہوا تھا لیکن جنگی حالات کی وجہ سے آپ کو اجازت نہ ملی۔

انگلستان میں لیکچرز، مضامین اور ملاقاتوں کے علاوہ بذریعہ خط بھی آپ نے احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ کئی اہم عالی مرتبت شخصیات کو بھی پیغام حق پہنچایا۔ شاہ برطانیہ جارج پنجم کی اہلیہ ملکہ Mary of Teckکو مبارکبادی کا خط لکھا جس کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اور پیشگوئی بابت جنگ بھی ارسال کی جس پر ان کے سیکرٹری کی طرف سے شکریہ کا خط آیا۔ (الفضل 25؍ جنوری 1919ء صفحہ 7 کالم 3) اسی رپورٹ میں درج ہے کہ آپ نے جنگ میں انگلستان کے18 اتحادی ممالک (امریکہ، بیلجیم، اٹلی، چین، جاپان، برازیل ، مصر وغیرہ) کے سربراہان کو مبارک بادی کے خطوط اور کتاب ‘‘شہزادہ تحفہ ویلز’’ارسال کیں۔ آپ کو انگلینڈ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پولیٹیکل ڈیلیگیٹ (political delegate) کے طور پر خدمات سر انجام دینے کی توفیق ملی۔

(الفضل 26؍ اگست 1919ء صفحہ 10 کالم 2)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ 1920ء کے آغاز میں انگلستان سے امریکہ تشریف لے گئے اور وہاں مشن کی بنیاد رکھی۔ آپ کی دینی خدمات کے متعلق گواہی دیتے ہوئے ایک ہندوستانی محترم سید حسن دہلوی صاحب جو برطانیہ میں بیرسٹری کا امتحان دینے گئے تھے، نے اخبار ‘‘مشرق’’ گورکھپور میں ایک مضمون لکھا۔ (الفضل 10؍ اگست 1918ء صفحہ 9،10)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button