ایڈیٹر کے نام خطوط

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اَور کا وقت

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

جناب ایڈیٹر صاحب!

شاہ عبداللطیف بھٹائی صاحب نے لکھا یا اللہ مجھےفالتو عقل نہ دینا کیونکہ میرے محبوب نے جتنے کرم مجھ پہ کیے ہیں وہ میری معصومیت کی وجہ سے کیے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جب ظہور ہوا اس وقت تو زمانہ عقل کے بارے میں ھل من مزید کے نعرے لگا رہا تھا۔ ہر چیز کے بارے میں حتیٰ کہ مذہب کے بارے میں بھی مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ کوئی Demonstrative Evidenceدیا جائے۔ اس ویرانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علم الکلام ابرِکرم بن کے اس طرح برسا کہ ہر گوشہ بساط باغبانِ کف ِگل فروش بن گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ثابت کیا کہ جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں۔ اس طرح آپ نے عبادات کے فلسفے اور مفہوم پر روشنی ڈالی کہ کس روح اور سچائی کے ساتھ عبادت کی جائے جو اندرونی حالت کو بدل کر سچی تبدیلی پیدا کرتی ہے۔

آپؑ نے فرمایا:‘‘ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا ۔ جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی ریاضتیں کرتے ہیں ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے ہیں اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے ۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہےاور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا’’۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ 420)

میر نے کہا تھا:

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

عرصہ ہوا ایک بار کچھ دوست جو کہ پاکستان میں CSSکا امتحان دینا چاہتے تھے اور نصاب میں مشہور جرمن ناول نگار Herman Heseکا ناول Sidartaبھی تھا۔

دوستوں نے خاکسار سے اس پر نوٹ لکھنے کے لیے کہا۔

ناول نگار کا ایک کردار Sidarta جو گوتم بدھ کی طرح دنیا چھوڑ کر جنگل میں چلا جاتا ہے اورروحانیت کے لیے بڑی سخت ریاضتیں کرتاہے۔ جسم سوکھ کر کانٹا بن گیا لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں کوئی اثر اس کی روحانیت پر نہیں پڑا ۔ ایک دن وہ مایوس ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی حالت پر غور کرنے لگا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی ریاضتوں میں اصل روح نہیں تھی۔ وہ مشقتیں اٹھا رہا تھا اور جسم اس کا سوکھ کر کانٹا بن گیا لیکن اندر سے انا (ego) موٹی ہوتی جا رہی تھی اس لیے وہ مقصد حاصل نہ کر سکا ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:‘‘غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں روح میں جب عاجزی پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے اس لیے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی پیدا ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 421)

؎ وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اَور کا وقت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button