کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

دل کبھی تلوار سے فتح نہیں ہوتے

کلام امام الزمان کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

یاد رکھو کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر اسلام بھی جھوٹا ہے اور اگر اسلام بھی دوسروں کی طرح ایک مُردہ مذہب ہے تو پھر اسلام میں کیا بڑائی ہے اور اس کی کیا خصوصیت؟ توحید جس کا تم کو ناز ہے اس کے تو برہمو اور آریہ بھی دعویدار ہیں۔ ایک شخص نے اسی لاہور میں ایک دفعہ لیکچر دیا تھا کہ ہم لوگ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ کے قائل ہیں پھر ہمیں محمد رسول اللہ کی کیا حاجت ہے؟ جب یہ صورت ہے اور توحید کے اور مذاہب بھی قائل ہیں تو پھر تم میں اور تمہارے غیروں میں ما بہ الامتیاز ہی کیا ہوا؟ اگر یہی جہاد وغیرہ کے عقائد ہی مابہ الامتیاز ہیں تو پھر یاد رکھو کہ یہ سخت غلطی ہے اور اس طرح تم اسلام کے حامی نہیں بلکہ دشمن ہو، اسلام کو بدنام کرتے ہو۔ دیکھو اگر ہمیں اس بات کا علم ہوتا کہ واقعہ میں قرآن شریف کا یہی منشاء ہے تو پھر ہم اس ملک کے باہر چلے جاتے اور ایسی جگہ اپنی قیام گاہ بناتے جہاں سے ہمیں ان احکام کی ادائیگی میں ہر طرح کی سہولت اور آسانی ہوتی اور خوب دل کھول کر ان احکام کو بجا لاتے مگر میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن کا یہ منشاء نہیں جو بد قسمتی سے بعض نادان ملانوں نے سمجھا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس زمانہ میں بڑی بڑی مشکلات کا سامنا تھا۔ آپ کے بہت سے جان نثار اور عزیز دوست ظالم کفار کے تیروتفنگ کا نشانہ بنے اور طرح طرح کے قابل شرم عذاب ان لوگوں نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو پہنچائے حتٰی کہ آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا منصوبہ کر لیا۔ چنانچہ آپ کا تعاقب بھی کیا۔ آپ کے قتل کرنے والے کے واسطےانعام مقرر کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے۔ تعاقب کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی گئی۔ مگر یہ تو خدا تعالیٰ کا تصرف تھا کہ آپ کو ان کی نظروں سے باوجود سامنے ہونے کے بچا لیا اور ان کی آنکھوں میں خاک ڈال کر خود اپنے رسول کو ہاتھ دے کر بچا لیا۔ آخر کار جب ان کفار کے مظالم کی کوئی حد نہ رہی اور مسلمانوں کو ان کے وطن سے باہر نکال کر بھی وہ سیر نہ ہوئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد ہوا۔ اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ(الحج:40)خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو تلوار اُٹھانے کی اجازت دی اور اس اجازت میں یہ ثابت کر دیا کہ واقع میں یہ لوگ ظالم تھے۔ اور شرارت ان کی حد سے بڑھ چکی تھی اور مسلمانوں کا صبر بھی اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچ چکا تھا۔ اب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے تلوار سے مقابلہ کیا وہ تلوار ہی سے ہلاک کئے جاویں اور گو یہ چند اور ضعیف ہیں مگر میں دکھا دوں گا کہ میں بوجہ اس کے کہ وہ مظلوم ہیں ان کی نصرت کروں گا اور تم کو ان کے ہاتھ سے ہلاک کراؤں گا۔ چنانچہ پھر اس حکم کے بعد ان ہی چند لوگوں کی جو ذلیل اور حقیر سمجھے گئے تھے اور جن کا نہ کوئی حامی بنتا تھا اور نہ مددگار اور وہ کفار کے ہاتھ سے سخت درجہ تنگ اور مجبور ہو گئے تھے ان کی مشارق اور مغارب میں دھاک بیٹھ گئی اور اس طرح سے خدا نے ان کی نصرت کر کے دنیا پر ظاہر کر دیا کہ واقعی وہ مظلوم تھے۔ غرض ہر طرح سے، ہر رنگ میں اور ہر پہلو پر نظر ڈال کر دیکھ لو کہ واقع میں اس وقت مسلمان مظلوم تھے یا کہ نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ ایسے خطرناک اور نازک وقت میں بھی ان چند کمزور مسلمانوں کو اپنی حفاظت جان کے واسطے تلوار اُٹھانے اور دفاعی طور سے لڑائی کرنے کی اجازت نہ دیتا تو کیا ان کو دنیا کے تختہ سے نابود ہی کر دیتا؟ تو پھر اس حالت میں ان کا تلوار اُٹھانا جبکہ ہر طرح سے ان کا حق تھا کہ وہ تلوار اُٹھاتے کیا شرعاً اور کیا عرفاً۔ مگر وہ بھی آج تک نشانۂ اعتراض بنا ہوا ہے اور متعصب اور جاہل دشمن اب تک اس کو نہیں بھولتے تو کیا اب یہ لوگ خونی مہدی کا عقیدہ پیش کر کے ان کے ان اعتراضوں کو پھر تازہ کرتے اورمسلمانوں سے متنفّر کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھو مہدی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خود صاف فرمایا ہے کہ یضع الحرب وہ جنگ کا خاتمہ کر دے گا اور وہ جنگ ایک علمی جنگ ہو گی۔ قلم تلوار کا کام کرے گا اور اسرارِ روحانی، برکات سماوی اور نشانات اقتداری سے دنیا کو فتح کیا جاوے گا اورتازہ بتازہ غیبی پیشگوئیوں اور تائیدات خدائی سے سچے مذہب کو ممتاز کر کے دکھایا جاوے گا۔ یہ کہہ دینا کہ معجزات سابقہ ہمارے پاس موجود ہیں کافی نہیں۔ یاد رکھو کہ ہندوؤں کے پستکوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں کے قصّے کہانیوں سے بڑھ کر تمہارے پاس بھی کچھ نہیں۔ اگر تم قصّے پیش کرو گے تو وہ تم سے بڑھ چڑھ کر قصے پیش کر سکتے ہیں۔ اگر اسلام کی سچائی کا معیار بھی صرف قصے کہانیوں کی بناء پر رہ گیا ہے تو پھر یاد رکھو کہ یہ امر مشتبہ ہے۔

اسلام میں فرقان ہے۔ خدا نے ہمیشہ سے اسلام میں ایک امر خارق رکھا ہے اور تازہ بتازہ نشانات ہیں۔ نشان کا نام سُن کر آج کل کے فلسفہ پڑھنے والے کچھ کشیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے وجود کا پتہ لگانے کے واسطے نشانات اور انبیاء کے وجود کی کیا ضرورت ہے؟

مگر یاد رکھو کہ اس نظام شمسی اور اس ترتیب عالم سے جوکہ ایک ابلغ اور محکم رنگ میں پائی جاتی ہے۔ اس سے نتیجہ نکالنا کہ خدا ہے یہ ایک ضعیف ایمان ہے۔ اس سے خدا کے وجود کے متعلق پوری تسلی نہیں ہو سکتی، امکان ثابت ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یقیناً خدا ہے اگر اس میں یقینی اور قطعی دلائل ہوتے تو پھر لوگ دہریہ کیوں ہوتے؟بڑے بڑے محقق کتابیں تالیف کرتے ہیں مگر ان کے دلائل ناطقہ اور براہین قاطعہ نہیں ہوتے۔ کسی کا منہ بند نہیں کر سکتے اور نہ ان سے یقینی ایمان تک انسان پہنچ سکتا ہے۔ اگر ایک شخص ان امور سے خدا تعالیٰ کی ہستی کے دلائل بیان کرے گا تو ایک دہریّہ اس کے خلاف دلائل بیان کر دے گا۔
در اصل بات یہ ہے کہ اس طرح اتنا ثابت ہو سکتا ہے کہ خدا ہونا چاہیے۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہے۔ ہونا چاہیے اور ہے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہے مشاہدہ کو چاہتا ہے۔ مگر دوسرا حصّہ جو وجود باری تعالیٰ کے واسطے انبیاء نے پیش کیا ہے کہ زبردست نشانات معجزات اور خدا کی زبردست طاقت کے ظہور سے اس کی ہستی ثابت کی جاوے۔ یہ ایک ایسی راہ ہے کہ تمام سر اس دلیل کے آگے جُھک پڑتے ہیں۔ اصل میں بہت سے عرب دہریہ تھے جیساکہ قرآن شریف کی آیت ذیل سے معلوم ہوتا ہے۔ اِنۡ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا (المومنون:38) کیا عرب جیسے اجڈ اور بےباک، بے قید، بے دھڑک لوگ تلوار سے آپ نے سیدھے کئے تھے۔ اور ان کی آپ کی بعثت سے پہلی اور پچھلی زندگی کا عظیم الشّان امتیاز اور فرق اس وجہ سے تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تلوار کا مقابلہ نہ کر سکے تھے؟ یا کیا صرف سادہ اور نری اخلاقی تعلیم تھی جس سے ان کے دلوں میں ایسی پاک تبدیلی پیدا ہو گئی تھی؟ نہیں ہر گز نہیں۔ یاد رکھو کہ تلوار انسان کے ظاہر کو فتح کر سکتی ہے مگر دل کبھی تلوار سے فتح نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ انوار تھے جن میں خدا کا چہرہ نظر آتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ایسے ایسے خارق عادت نشانات دکھائے تھے کہ خود خدا ان لوگوں کے سامنے آموجود ہوا تھا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال اور جبروت کو دیکھ کر گناہ سوز زندگی اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی تھی۔

(ملفوظات جلد 10صفحہ 309تا313۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button