خطبہ جمعہ

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر تعمیر کرتا ہے‘‘ (الحدیث) ۔ خطبہ جمعہ 11؍ اکتوبر 2019ء

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 11؍اکتوبر 2019ء بمطابق 11؍اخاء 1398 ہجری شمسی مسجد مہدی، سٹراس برگ ، (فرانس)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰٓئِكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ۔ (التوبۃ:18)

ایک لمبے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ فرانس کو یہاں ایک اَور مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ یہاں اس شہر سٹراس برگ (Strasbourg)میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نومبائعین اور غیر پاکستانی احمدیوں کی بھی بڑی تعداد ہے بلکہ تقریباً 75 فی صد غیر پاکستانی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص اور وفا میں بڑھے ہوئے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہاں انہیں ایک مسجد عطا فرمائی ہے اور اب یہاں کے رہنے والے احمدی پہلے سے بڑھ کر جماعتی نظام سے منسلک ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق بھی عطا فرمائے۔

یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے جیسا کہ آپ نے سنا اس کا ترجمہ پڑھتا ہوں کہ اللہ کی مسجدوں کو تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم ِآخرت پر ایمان لاتا ہے اور نمازوں کو قائم کرتا ہے اور زکوٰة دیتا ہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ۔سو قریب ہے کہ ایسے لوگ کامیابی کی طرف لے جائے جائیں۔

اللہ تعالیٰ نے مساجد تعمیر کرنے والوں اور آباد کرنے والوں کی یہ خصوصیات بیان فرمائی ہیں کہ اللہ پر ایمان لانے والے ہیں یعنی اس بات پر کامل یقین کہ سب طاقتوں کا سرچشمہ اور مالک خدا تعالیٰ کی ذات ہے، باقی سب ہیچ ہے۔ پس اس ایمان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا اور اس کی عبادت انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے آگے جھکنے والوں کو بھی ایمان اور یقین میں بڑھاتا ہے۔ پھر یومِ آخرت پر یقین بھی اللہ تعالیٰ نے مسجد میں آنے والوں کی خصوصیت ،شرط بیان کی ہے کیونکہ آخرت پر یقین ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف مائل کرتا ہے ایسی عبادت جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کی جائے۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے ایک موقعے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ

ایمان بالآخرت کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ پس یاد رکھو کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اور خاتمہ بالخیر میں فتور پڑ جاتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 53-54)

یعنی خاتمہ بالخیر پھر یقینی نہیں رہتا، پھر یہ بات نہیں رہتی کہ انسان ایمان پر قائم رہے گا۔ پس حقیقی عابد اور مسجدوں کو آباد کرنے والا وہی ہے جس کے دل میں آخرت کے بارے میں کبھی وسوسہ نہ آئے اور انجام بخیر کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا رہے۔ پھر فرمایا کہ مسجدیں آباد وہی کر سکتے ہیں یا انھی کو مسجدوں کی تعمیر کرنے کا فائدہ ہے جو نمازیں قائم کرنے والے ہیں، اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم نے یہ مسجد صرف اس لیے نہیں بنائی کہ دنیا کو دکھا دیں کہ ہماری بھی ایک مسجد ہے بلکہ اس کو پانچ وقت آباد کرنا اب ہمارا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں نماز قائم کرنے والے فرمایا ہے اور قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو باجماعت نماز ادا کرنے والے ہیں۔ پھر زکوٰة کی طرف توجہ ہے، مالی قربانی کی طرف توجہ ہے تو مسجد آباد کرنے والوں کی یہ خصوصیت ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لیے قربانیاں کریں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کریں اور یہ سب اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت ہمارے دلوں میں بڑھے، اس کی رضا کے حصول کے لیے ہم بھرپور کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ سب کچھ کرنے والے ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں یا ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔

پس ہمیں ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہیے اور اس کے مطابق کوشش کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے یہ عرض کرنی چاہیے، نئے آنے والوں کو بھی اور پرانے احمدیوں کو بھی، بلکہ پرانے احمدیوں کی زیادہ ذمہ داری ہے اور خاص طور پر پاکستان سے آئے ہوؤں کی کہ وہ اس بات کا زیادہ خیال رکھیں کہ نئے آنے والوں کے لیے انہوں نے اپنے نمونے بھی قائم کرنے ہیں کہ ہمیں ہماری مسجد کی تعمیر کے بعد اس سوچ کے ساتھ اور اپنی عملی حالتوں کو اس فرمان کے مطابق کرتے ہوئے مسجد آباد کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما۔ مسجد آباد کرنے والوں کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے اس ارشاد پر اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے عمل نہ کر کے کہیں ہم اپنی دنیا و آخرت برباد کرنے والے نہ بن جائیں۔ ہم پر رحم کرتے ہوئے ہمیں بھٹکنے سے بچائے رکھنا اور ہمیں سیدھے راستے پر چلائے رکھنا۔ ہماری نیتوں کو ہمیشہ صاف اور نیک رکھنا۔ ہم تیرا حق ادا کرنے والے بھی ہوںا ور اس علاقے میں تیرے دین کا پیغام پہنچانے والے بھی ہوں۔ ہم اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ تیرے بھیجے ہوئے مسیح موعودؑ کے ارشاد کے مطابق اس مسجد کو اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بنانے والے ہوں اور اپنا فضل فرماتے ہوئے ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مورد بھی بنا جس میں آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر تعمیر کرتا ہے۔(صحیح البخاری الصلوٰۃ باب من بنی مسجداً حدیث 450)پس ہمیں حقیقی مومن بناتے ہوئے اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جا۔

پس ان باتوں کے حصول کے لیے سب سے پہلے تو ہر احمدی کو اپنے نمازوں کے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ان کی پانچ وقت باقاعدگی سے نماز پڑھنے کی طرف توجہ ہے اور پھر باجماعت نماز پڑھنے کی طرف توجہ ہے؟ صرف اتنا تو کافی نہیں کہ ہماری مسجد بن گئی۔ جنت میں گھر بنانے کے لیے تو اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ مسجد بنا لی، اس کے لیے ایمان کے ساتھ عمل کی بھی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی بھی ضرورت ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں ہونے کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہر سال ہزاروں مسجدیں مسلمان بناتے ہیں لیکن اگر ان میں فرقہ واریت کے درس دیے جاتے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بجائے ذاتی مفادات یا صرف اسی فرقے کے مفادات کی باتیں کی جاتی ہیں یا نئی نئی بدعات نام نہاد علماء پیدا کر رہے ہیں جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوئی تعلق نہیں تو وہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور اس کے رسولؐ کے نزدیک جنت میں لے جانے والی مسجدیں نہیں ۔ پس مسجد کا حق ادا کرنا اور اسے جنت لے جانے کا ذریعہ بنانا اور اس کی تعمیر سے جنت میں ایک گھر بنانا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہر احمدی کو سمجھ کر پھر اس پر عمل کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس زمانے میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ِصادقؑ نے ایک حقیقی مسلمان بننے اور عبادتوں اور اپنی مسجدوں کے حق ادا کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کے بارے میں جس طرح بتایا ہے اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر پختہ اور کامل ایمان لانے والے ہیں، یومِ آخرت پر کامل ایمان اور یقین رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی نمازوں کو قائم رکھنے والے ہیں اور اپنے مال قربان کر کے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی قائم کرنے والے ہیں اور اگر کسی ہستی کا ہمیں خوف ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت ہی ہمارے دلوں میں ہے کیونکہ ہم اس سے پیار کرنے والے ہیں۔ کسی دنیاوی چیز سے ہمیں خوف نہیں ہے، کسی دنیاوی چیز سے ہمیں وہ محبت نہیں جو ہمیں خدا تعالیٰ سے ہے۔ ہم اپنے دنیاوی مفادات کو اپنے ایمان اور اپنے دین کے لیے قربان کرنے والے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک حقیقی احمدی بننے اور خدا تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کے لیے جو نصائح ہمیں فرمائی ہیں ان میں سے بعض مَیں پیش کرتا ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں ہاتھ پاؤں اور باقی چیزیں، آنکھیں زبان ہر چیز جو ہمیں عطا فرمائی ہے وہ ضائع کرنے کے لیے نہیں ہیں، وہ ضائع کرنے کے لیے نہیں دیے گئے، ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوونما ہے، اس لیے کہ ان کی نشوونما ہو اور نشوونما کس طرح ہو گی کہ ان کا جائز استعمال ہو، ان کا غلط استعمال نہ ہو۔ اسی لیے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا ہے۔ یہ نہیں کہ آنکھوں سے بدنظری کرنی ہے تو اس لیے آنکھیں نکال دو بلکہ ان کا جائز استعمال چاہیے یا رجولیت کے قویٰ ہیں ان کو ختم کر دو یہ تو کوئی چیز نہیں بلکہ ان کو پاک کرنا، ان کا پاک استعمال کرنا اصل چیز ہے۔ فرمایاکہ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ اور ایسے ہی یہاں بھی بیان فرمایا کہ متّقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا ہے وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ متّقی کا نقشہ کھینچا پہلے فرمایا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ پھر فرمایا وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر قدم مارتے ہیں، ایمان بالغیب لاتے ہیں، نماز ڈگمگاتی ہے پھر اسے کھڑا کرتے ہیں یعنی مختلف خیالات نماز میں آتے ہیں پھر اللہ کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ خدا کے دیے ہوئے سے دیتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں دی ہیں اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ فرمایا کہ باوجود خطراتِ نفس بلا سوچے گذشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ نے کہا ہے کہ سب کتابوں پر ایمان لاؤ تو ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جوہدایت کے سر پر ہیں۔ وہ ایک ایسی سڑک پر ہے جو برابر آگے کو جا رہی ہے اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے۔ یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزلِ مقصود تک پہنچ گئے اور راہ کے خطرات سے نجات پا چکے ہیں۔ پھر فرمایا اس لیے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقویٰ کی تعلیم دے کر ایک ایسی کتاب ہم کو عطا کی ہے جس میں تقویٰ کے وصایا ہیں ۔ فرماتے ہیں سو ہماری جماعت یہ غم کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 35)

انسان کس طرح دیکھے کہ اس میں تقویٰ ہے یا نہیں اور متقی کون لوگ ہوتے ہیں اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ

‘‘خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں۔’’ بہت نرمی ہے بہت عاجزی ہوتی ہے ان میں ‘‘وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے۔’’ تکبر بالکل نہیں ہوتا ان میں۔ ‘‘ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔’’ حضورؑ نے فرمایا کہ ‘‘ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہیے جس سے ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں۔ وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے۔ جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا۔’’ فرمایا کہ ‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابراہیم علیہ السلام میں سے کسی نے وراثت سے تو عزت نہیں پائی۔’’ فرماتے ہیں ‘‘گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے لیکن اس نے نبوت تو نہیں دی ۔یہ تو فضلِ الٰہی تھا ان صِدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھے۔’’ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ ‘‘یہی فضل کے محرک تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابوالانبیاء تھے انہوں نے اپنے صدق و تقویٰ سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا۔ خود آگ میں ڈالے گئے۔ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھیے آپؐ نے ہر ایک قسم کی بدتحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پروا نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۔ (الاحزاب: 57)اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبیؐ پر۔’’

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 37)

پس ہمیں یہی حکم ہے کہ اگر دعا کی قبولیت چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور بغیر درود کے کی گئی دعائیں آسمان تک نہیں پہنچتیں، انسان کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتا۔ پس عبادتوں کے معیار بہتر کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے درود بھی ضروری ہے اور درود بھیجنے والا یقیناً پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوے کو سامنے رکھے گا۔ آپؐ نے کیا عبادت کے معیار قائم کیے، اپنی امّت کو اس کی تلقین فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔

(سنن النسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء حدیث 3391)

پھر مخلوق کے حق ادا کرنے کے لیے بھی آپؐ نے اپنے نمونے قائم فرمائے جس کی مثالیں ملنی مشکل ہیں۔ اپنی فکر بھی کبھی نہیں کی۔ جو کچھ تھا، وادی کے برابر بھی دولت تھی تو وہ بھی بانٹ دی۔ کوئی سوالی آیا اس کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی سخائہ حدیث (2312))

اس کے علاوہ پھر اور بھی آپؐ کا ہاتھ ہر وقت مخلوق کی خدمت کے لیے تیار رہتا تھا۔ پس درود بھیجنے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھ کر جب درود بھیجتا ہے تو پھر ہی اس کی توجہ بھی اس نمونے پر چلنے کی طرف ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائے۔ جب یہ حالت ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی، اپنے پیارے بندے سے ہماری محبت کے اظہار اور اس پر درود بھیجنے کی وجہ سے ہماری دعاؤں کو بھی قبولیت کا درجہ دیتا ہے اور تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پا کر حلیمی اور مسکینی دکھانے والے بن کر ان لوگوں میں شامل ہونے والے بن سکتے ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں، فلاح پانے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک موقعے پر فرماتے ہیں کہ

اگر ہم میں نری باتیں ہی باتیں ہیں تو یاد رکھو کہ کچھ فائدہ نہیں ہے۔ فرمایا کہ فتح کے لیے تقویٰ ضروری ہے۔ فتح چاہتے ہو تو متقی بن جاؤ اور یہی حقیقی تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حقیقی پہچان کرواتا ہے اور اس کے حکموں پر چلنے والا بناتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 232)

پھر نماز کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے کہ نماز کیا چیز ہے اور حقیقی نماز کیسی ہونی چاہیے آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘ بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر دہریت ہے کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا ۔وہ اس وقت حاصل ہو گا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے ۔گناہ سے بچنے کے لیے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔’’ دعا بھی ضروری ہے ،تدبیر بھی ضروری ہے۔ ‘‘اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو۔’’ خود ہم جائزے لے سکتے ہیں ہر کوئی، کون کون سی ایسی مجلسیں ہیں، کون کون سی ایسی محفلیں ہیں، کون سے ایسے پروگرام ہیں ٹی وی کے اور دوسری چیزوں کے جن سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو چھوڑنا پڑے گا، ترک کرو ‘‘اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو۔’’ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ چھوڑنے کی توفیق ملتی ہے اس لیے اس کی دعا بھی کرو۔ ‘‘اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضا و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔ نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اسے محفوظ نہ رکھے گا۔تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہ ہو گی۔ نماز کے معنےٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ نماز وہ شَے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانۂ الوہیت پر گر پڑے۔ جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرّع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں۔ اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفس امارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے۔’’ جو برائیوں کی طرف ابھارنے والا نفس ہے وہ آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ ‘‘جیسے اژدھا میں ایک سمّ ِقاتل ہے اسی طرح نفس امارہ میں بھی سمّ ِقاتل ہوتا ہے اور جس نے اسے پیدا کیا اسی کے پاس اس کا علاج ہے۔’’

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 123)

یعنی جو پیدا کرنے والا ہے اسی کے پاس اس کا علاج بھی ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کا علاج کر سکتا ہے اس لیے نفس کی برائیوں اور گناہوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہی اس کا فضل مانگنا چاہیے۔ پھر نماز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ نماز ہی عبادت کا مغز ہے۔ اس لیے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ نماز کے بغیر یا اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے بغیر عبادت کا حق ادا ہی نہیں ہو سکتا اور نماز کے کچھ لوازمات بھی ہیں، کچھ شرائط بھی ہیں، ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ نماز میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ مؤدب ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو۔ عاجزی ہو، پوری محویت ہو، اس کے فضلوںکو مانگ رہا ہو ۔ اس حالت کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰة میں اور دعا میں کیا فرق ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اَلصَّلٰوةُ ھِیَ الدُّعَاءُ۔ اَلصَّلٰوةُ مُخُّ الْعِبَادَة۔ یعنی نماز ہی دعا ہے ۔ نماز عبادت کا مغز ہے۔ جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لیے ہو تو اس کا نام صلوٰة نہیں۔’’ انسان دعا کرتا ہے، مسجدوں میں نماز کے لیے آتا ہے، پانچ وقت نمازیں پڑھنی شروع کر دیتا ہے، بڑی دعائیں کرتا ہے، بڑا روتا ہے صرف اس لیے کہ بعض دنیوی مسائل ہوتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ صرف دنیاوی باتوں کے لیے اگر نماز پڑھ رہے ہو تم تو اس کو صلوٰة نہیں کہتے ‘‘لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مدِّنظر رکھتا ہے اور ادب، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔’’ اپنی باتیں نہیں مانگتا رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ ‘‘تب وہ صلوٰة میں ہوتا ہے۔ اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے۔ یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔’’ یہی دعا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے ‘‘اور انسان کو نامعقول باتوں سے ہٹاتی ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الٰہی کو حاصل کرے اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے۔’’ پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی دعا کرو پھر دنیاوی ضروریات جو ہیں ان کے لیے بھی دعا کرو کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی ملتی ہیں ‘‘یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہو جاتے ہیں خاص کر خامی اور کج پنے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں۔’’ جو کمزوریاں ہوتی ہیں، دنیاوی معاملات ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ سے پہلے تعلق قائم کرو پھر دنیاوی معاملات کے لیے بھی دعا کرو۔ فرمایا کہ ‘‘صلوٰة کا لفظ پُرسوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہیے۔ جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کا نام صلوٰة ہوتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 367-368)

پس یہ ہے نماز کی حقیقی حالت جسے حاصل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

پھر ایک جگہ آ پ علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ یاد رکھو اگر ایمان کا دعویٰ ہے تو پھر نمازوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ تین نمازیں پڑھ کر یا چار نمازیں پڑھ کر جس طرح بعض لوگ کرتے ہیں پھر ایمان کا دعویٰ غلط بات ہے کیونکہ ایمان کی جڑ نماز ہے اور جس کی جڑ ہی نہیں ہے وہ ایک کھوکھلے درخت کی طرح ہے جس کو ذرا سی ہوا جو ہے زمین پر گرا دے گی۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔

‘‘جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہو جاتے ہیں اور بارش کا وقت آ جاتا ہے ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارتِ ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے۔ نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے۔ جب انسان بندہ ہو کر لاپرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے۔’’ اس کو بھی کوئی پروا نہیں ہوتی پھر۔ ‘‘ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الیٰ اللہ قائم رہتی ہے۔ ایمان کی جڑ بھی نماز ہے۔ بعض بے وقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے۔’’ فرمایا کہ ‘‘اے نادانو! خدا کو حاجت نہیں۔’’ اس کو ضرورت نہیں ہے ‘‘مگر تم کو تو حاجت ہے۔’’ تمہیں ضرورت ہے نمازوں کی ‘‘کہ خدا تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے۔ خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں۔ نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قربِ الٰہی ہے۔’’

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 378)

اور پھر صرف نماز پڑھنے تک ہی نہیں کہ اس سے قربِ الٰہی ملتا ہے، خطائیں معاف ہو جاتی ہیں اور بگڑے کام درست ہو جاتے ہیں بلکہ نیک نیتی سے مسجد میں آنے والے اور بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنے والے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ جب تک نماز کی خاطر یعنی اس کے انتظار میں، نماز پڑھنے کے انتظار میں کوئی شخص مسجد میں بیٹھا رہتا ہے نماز میں مصروف ہی سمجھا جاتا ہے۔ مسجد میں بیٹھنا بھی اور وہاں ذکرِ الٰہی کر رہا ہے تو وہ نماز میں مصروف سمجھا جائے گا اور فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ! اس پر رحم کر اور اس کو بخش دے۔ اس کی توبہ قبول کر۔

(صحیح مسلم کتاب المساجد باب فضل الصلاۃ المکتوبۃ فی جماعۃ …… الخ حدیث (649))

پس کتنا بڑا اجر ہے مسجد میں آ کر نماز پڑھنے والے کا کہ صرف نماز پڑھنے کا ہی نہیں بلکہ انتظار کا بھی ثواب مل رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور فرشتے اس کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔

پس ایسے مہربان خدا کی عبادت کا حق ادا کرنے کی ہمیں کس فکر کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے اور پانچوں وقت آ کر مسجد کو آباد رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ مذہب کا منشا ایک وحدت پیدا کرنا ہے، ایک قوم اور ایک امت بنانا ہے آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفسِ واحدہ کی طرح بنا دے جس کا نام وحدتِ جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالتِ مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے، بہت سارے جمع ہو جاتے ہیں تو ایک انسان بن جاتا ہے۔ مذہب سے بھی یہی منشا ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدتِ جمہوری کے ایک دھاگے میں سب پروئے جائیں۔ یہ نمازیں باجماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لیے ہیں تا کہ کُل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لیے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کم زور میں سرایت کر کے اسے قوت دے۔ حتٰی کہ حج بھی اس لیے ہے۔ اس وحدتِ جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اوّل یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلے والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلے کی مسجدمیں ادا کریں تا کہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انوار مل کر کمزوری کو دور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر انس پیدا ہو۔ تعارف بہت عمدہ شَے ہے کیونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے حتٰی کہ تعارف والا دشمن ایک ناآشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں انس پیدا ہو جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینے والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شَے ہوتا ہے وہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے۔ پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعے کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا مشکل ہوتا ہے اس لیے یہ تجویز ہے کہ شہر کے سب لوگ ہفتے میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں۔

اب یہاں فاصلے اگر زیادہ بھی ہوں تو سواریوں کی سہولت ہے جن کے پاس ان کا تو مسجد میں روزانہ آنا بھی کوئی ایسا مشکل نہیں ہے ،وہ آ سکتے ہیں۔ پھر اگر نیت ہو آنے کی تو آیا جا سکتا ہے مسجد کو آباد کرنے کے لیے لیکن فرمایا اگر بہت دور بھی رہ رہے ہیں لوگ اور مجبوری بھی ہے تب بھی جمعے کو تو ضرور آنا چاہیے ۔ آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جاویں گے۔ پھر سال کے بعد عیدَین میں بھی تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تا کہ تعارف اور اُنس بڑھ کر وحدتِ جمہوری پیدا ہو۔ پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لیے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں یعنی جن کو توفیق ہے حج کرنے کی وہ حج کو جائیں۔ غرضیکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آپس میں الفت اور انس ترقی پکڑے اور پھر آپؑ اپنے مخالفوں کے بارے میں بتا رہے ہیں، افسوس کہ ان کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکا ہے، جو اسلام کے مخالف ہیں ان کو پتا ہی نہیں جو عبادتوں پر اعتراض کرتے رہتے ہیں، پانچ وقت کی عبادتیں ان کا مقصد کیا ہے، ہر ہفتے کی عبادت کا کیا مقصد ہے، عیدوں کی، باقی باتوں کی تو آپؑ فرما رہے ہیں یہ فلسفہ ہے اور اس کو یاد رکھنا چاہیے۔ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں۔ فرماتے ہیں کہ افسوس علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکا ہے۔ دنیوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں ان میں تو انسان ہمیشہ کے لیے ڈھیلا ہو سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں۔ کون سا ایسا مسلمان ہے جو کم از کم عیدَین کی بھی نماز نہ ادا کرتا ہو۔ پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کر کے اسے قوت بخشیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 129-130)

آپس میں ملتے جلتے ہیں تو بہرحال اثر ہوتا ہے لیکن یہ تو ان لوگوں کے لیے جو بالکل ہی ایمان میں کمزور ہیں لیکن حقیقی ایمان یہی ہے کہ پانچ وقت نمازوں کے لیے مسجد میں آؤ ۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مسجد عطا کر دی ہے تو آپ لوگوں کو جمع ہو کر اس وحدت کا نظارہ بھی یہاں پیش کرنا چاہیے، جن کو سفر کی بھی سہولتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے آباد رکھیں پھر اللہ تعالیٰ بھی کس طرح مہربانی فرماتا ہے جیسا کہ ابھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس کے لیے دعاؤں پر لگا دیا جو پانچ وقت نمازوں کے لیے آتے ہیں اور پھر جو نماز باجماعت ہے اس کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ نے ستائیس گنا زیادہ رکھا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 645)

پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اس اظہار کے باوجود اگر ہم باوجود توفیق ہوتے ہوئے اس کی قدر نہیں کرتے تو یہ بدقسمتی ہے۔ ہر احمدی کے لیے یہ بہت سوچنے کا مقام ہے اور ایک کوشش سے مسجد کو آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ

‘‘اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو ،آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کیے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔’’ پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو ‘‘اور اپنے روزوں کو خدا کے لیے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ہر ایک جو زکوٰة کے لائق ہے وہ زکوٰة دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔ یقیناً یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے ۔ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے ۔جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا۔’’فرمایا ‘‘……جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے، نہ دشمن کے ہاتھوں سے۔ اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو ۔’’فرمایا ‘‘……تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہر ایک جو تم میں سست ہوجائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا ۔دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے ۔اگرچہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چنتا ہے ۔وہ اس کے پاس آ جاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے۔ جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے۔’’ یعنی انسان کو۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ان درد بھرے الفاظ کو سمجھتے ہوئے ایمان میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، عبادتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اس مسجد کو بھی ہمیشہ آباد رکھنے والے ہوں۔

اب مَیں مسجد کے بارے میں بعض کوائف بھی پیش کر دیتا ہوں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند سال پہلے اس مسجد کے لیے کوشش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر جگہ عطا بھی فرما دی جو کہ یہ سارا رقبہ 2640مربع میٹر پر مشتمل ہے اور اس میں پہلے بھی پندرہ کمروں پر مشتمل ایک تین منزلہ عمارت موجود تھی۔ ایک بڑا ہال تھا اور خریداری کے لیے کچھ حصہ مرکز سے قرضِ حسنہ کے طور پر اس وقت لیا گیا تھا اور امیر صاحب کہتے ہیں کہ اس میں سے سوائے پچاس ہزار یورو کے تقریباً سارا ادا ہو چکا ہے۔ پھر کونسل کے بعض اعتراضات تھے ان کو مختلف میٹنگ میں دور کیے۔ میئر کے ساتھ مختلف میٹنگز کر کے نقشہ جات جمع کرائے اور اللہ کے فضل سے یہ نقشے بھی پاس ہوئے۔ جو ان کا نقشہ تھا، پلان (plan)تھااس کی تعمیرکے سلسلے میں ان کی رپورٹ کے مطابق آرکیٹکٹ نے ایک ملین یورو کا اندازہ دیا تھا اور اس کو بھی مجلس خدام الاحمدیہ فرانس نے پورا کرنے کا وعدہ کیا اور اپنی ذمہ داری قبول کی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مسجد پانچ لاکھ تیس ہزار یورو میں مکمل ہو گئی۔ اب تک خدام الاحمدیہ کی طرف سے ساڑھے تین لاکھ یورو ملے ہیں، باقی جماعت نے ادا کیے ہیں اور خدام الاحمدیہ کہتی ہے کہ ہم باقی بھی ادا کر دیں گے لیکن خدام الاحمدیہ نے تو ادا کر دیے اور پورا کر بھی دیں گے شاید، ان شاء اللہ تعالیٰ، شاید کیا ان شاء اللہ تعالیٰ کر دیں گے لیکن باقی جماعت کیوں اس سے محروم رہ رہی ہے۔ اگر یہ مسجد اب بن گئی ہے تو لجنہ اور انصار کو چاہیے کہ ایک مسجد کی تعمیر کی ذمہ داری وہ لیں دونوں مل کے لیں اور اگلے تین سالوں کے اندر ایک اَور مسجد یہاں بنانی چاہیے جو انصار اور لجنہ کو مل کر بنانی چاہیے۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں مکرم اسلم دوبوری (Doobory) صاحب، شہباز صاحب، اور محمد عاصم صاحب، منصور صاحب نے ان کی رپورٹ کے مطابق بڑی محنت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔

اور اس مسجد میں قانونی طور پر 250افراد کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے جو کونسل نے اپنی کیلکولیشن (calculation)کی اس کے مطابق اور پچاس گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے بھی جگہ ہے۔ ایک جماعتی دفتر ہے، لجنہ کا دفتر بھی ہے، مرد اور خواتین کے لیے لائبریری بھی ہے اور اس طرح غسل خانے وغیرہ بھی کافی ہیں۔ بڑا کورڈ (covered)پارکنگ ہال ہے اور اگر کبھی ایمرجنسی ضرورت ہو تو اس میں بھی 125 افراد آ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے والی عمارت جو تھی اس میں پندرہ کمرے ہیں۔ اس کو دوبارہ مرمت کر کے تیار کیا گیا ہے اور یہ بھی اب قابلِ استعمال ہے۔

یہ مسجد اب سٹراس برگ شہر سے تقریباً پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ کوئی ایسا فاصلہ نہیں ہے کہ جو دور ہو، نمازی نہ آ سکیں۔ بڑے آرام سے آ سکتے ہیں۔ مسجد اور ہالوں کا کورڈ ایریا (covered area)تین سو تین مربع میٹر ہے اور اس میں مربی ہاؤس بھی ہے، چار کمروں کا گیسٹ ہاؤس بھی ہے۔ باقاعدہ مینار کی اجازت تو نہیں ملی لیکن مسجد کے دائیں حصے میں آٹھ میٹر کی بلندی پر ایک ڈوم (Dome) رکھنے کی اجازت مل گئی ہے اور وہ اچھاخوبصورت لگتا ہے وہ مسجد کا ہی حصہ ہے۔ اندر محراب بھی ہے سب کچھ ہے۔ اندر کی طرف بھی یہ گولائی میں لکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے مبارک فرمائے اور ان خدام کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں قربانی دی ہے اور پھر صرف مسجد کی مالی قربانی ہی نہیں اس مسجد کی آبادی کی روح کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور خدام کے عبادت کے معیار بھی بلند ہوں اور جماعت کے افراد کے معیار بھی بلند ہوتے چلے جائیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 01؍نومبر2019ء صفحہ 5تا8)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button