متفرق مضامین

عالَم احمدیت کاپہلا ریڈیو اسٹیشن

(نعیم احمد باجوہ۔ مربی سلسلہ برکینا فاسو)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

’’بس ایک جنون تھا ۔ایک پاگل پن تھا۔ یہی سوچ تھی کہ کسی طرح یہ کام کرنا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے کر دکھا یا‘‘

مکرم محمود ناصر ثاقب صاحب امیر جماعت احمدیہ برکینافاسو ، پہلے ریڈیو اسٹیشن کے قیام کی تاریخ بتا رہے تھے۔ یہ ماہ مئی کے ایک گرم دن کے بعد آنے والی نسبتاً ایک خنک شام بلکہ رات تھی۔ میں امیر صاحب کے پا س بیٹھا تھا اور قصہ چھیڑ لیا تھا پہلے ریڈیو اسٹیشن کے قیام کا۔

جماعت کا اپنا ریڈیو اسٹیشن ہو۔ پہلے ہم اس دیرینہ خواہش کی تفصیلات جانتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس خواہش کا اظہار بہت شدت سے فرمایا۔آپ نے خطبہ جمعہ 9؍ جنوری 1970ء میں دو چیزوں کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی۔ نمبرایک بہت اچھا پریس اور نمبر2جماعت کا اپنا ریڈیو اسٹیشن ۔

چنانچہ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:“اب وقت آگیا ہے کہ ایک طاقت ور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن دنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو ۔اس ٹرانسمٹنگ اسٹیشن کو بہرحال مختلف مدارج سے گزرنا پڑے گا لیکن جب وہ اپنے انتہا کو پہنچے تو اس وقت جتنا طاقتورروس کا شارٹ ویو اسٹیشن ہے …اس سے زیادہ طاقت ور اسٹیشن وہ ہو جو خدا کے نام اور محمد ﷺ کی شان کو دنیا میں پھیلانے والا ہو اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو۔”

(خطبات ناصرجلد3صفحہ26)

ریڈیو اسٹیشن کہاں قائم کیا جائے

اس ریڈیو اسٹیشن کا قیام کس ملک میں ہو اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا:

“امریکہ میں تو ہم آج بھی ایک اسٹیشن قائم کر سکتے ہیں وہاں کوئی پابندی نہیں ہے…لیکن امریکہ اتنا مہنگا ہے کہ ابتدائی سرمایہ بھی اس کے لیے زیادہ چاہیے اور ا س پر روز مرہ کا خرچ بھی بہت زیادہ ہوگا ۔ دوسرے نمبر پر افریقہ کے ممالک ہیں۔ نائجیریا ہے ، غانا ہے اور لائبیریا سے بعض دوست یہاں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے ۔غانا والوں سے تو میں نے اس کے متعلق بات نہیں کی لیکن باقی دونوں بھائیوں سے میں نے بات کی تو انہوں نے آپس میں بات شروع کر دی کہ ہمارے ملک میں یہ لگناچاہیے اوروہاں اجازت مل جائے گی۔جس کا مطلب یہ کہ …ان ممالک میں کسی نہ کسی ملک میں اس کی اجازت مل جائے گی۔”

(خطبات ناصرجلد3صفحہ26تا27)

ریڈیو کے قیام کے لیے مغربی افریقہ کا انتخاب

مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جائزہ لے کر یہ فیصلہ فرما لیا تھا کہ کس جگہ یہ ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جاسکتا ہے ۔ا س کے لیے آپ کی نظر انتخاب مغربی افریقہ کے ممالک پر پڑی۔ آپؒ نے واضح فرمایا:

“پاکستان میں اس اسٹیشن کی اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ ہمارا قانون ایسا ہے کہ یہاں کسی پرائیویٹ ادارہ کو ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں لیکن بعض ممالک ایسے ہیں جن میں اس پر قانونی پابندی نہیں ۔ جیسے امریکہ اور بعض ایسے ممالک ہیں جن میں گویا قانونی پابندی تو ہے لیکن اس کی اجازت آسانی اور سہولت کے ساتھ مل جاتی ہے جیسے مغربی افریقہ کے ممالک میں سے نائیجیریا ، گیمبیا ، غانا ، سیرالیون ہیں امید ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک ملک میں ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت مل جائے گی۔”

(خطبات ناصر جلد 3صفحہ26تا27)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خواہش

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس اعلان کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

“…میر ےدل میں جو خواہش اور تڑپ پیدا کی گئی ہے اس سے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبو رہو ں کہ اللہ کے علم میں دنیا کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ اگر اللہ اور اس کے محمد ﷺ کا نام ان کے کانوں تک پہنچایا جائے تو وہ سنیں گےاور غور کریں گے۔ورنہ یہ خواہش میرے دل میں پیدا ہی نہ کی جاتی۔دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان جلدی پیدا کر دے۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسی سال کے اندر اندر یہ کام جلد سے جلد ہو جائے لیکن ہر چیز وقت چاہتی ہے ۔ بہرحال جب بھی خدا چاہے یہ کام جلد سے جلد ہو جائے۔ اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھیں کہ کام ہو گیا ہے اور ہمارے کان چوبیس گھنٹے عربی میں اور انگریزی میں اور جرمن میں اور فرانسیسی میں اور اردو وغیرہ وغیرہ میں اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے والے ہوں…”

(خطبات ناصر جلد 3صفحہ 27تا28)

ریڈیو پر کس قسم کے پروگرام نشر کیے جائیں گے

آپؒ کے ذہن میں ریڈیو کے خدو خال اس قدر واضح تھے کہ جیسے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں ۔اسی لیے آپ ؒنے اسی مبارک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ ہمارے ریڈیو پر کس قسم کے پروگرام نشر کیے جائیں گے۔ گویا آپ نے ایک لائحہ عمل عطافرمایا۔چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں :

“…‘‘علم ’’اسلام کا ورثہ ہے کسی اَور کا نہیں ا س لیے علمی باتیں تو وہاں ہوں گی مثلاً (ایگری کلچر Agriculture)زراعت کے متعلق ہم بولیں گے اسی طرح دوسرے علوم ہیں ان کے متعلق ہم بولیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ تمام علوم سے خادمانہ کام لے سکےسارے علوم ہی ہمارے خادم ہیں …اور ہم ان خادموں سے بھی خدمت لیں گےاور اس طرح سب علوم کی باتیں آجائیں گی۔ فلسفہ کی غلطیاں بھی ہم نکالیں گے ۔ (ایگری کلچرAgriculture)زراعت کے متعلق بھی ہم لوگوں کو کہیں گے کہ یہ یہ کام کرو تا دُنیا میں بھی خوشحالی تمہیں نصیب ہو”

(خطبات ناصر جلد 3صفحہ28)

کن زبانوں میں پروگرام ہوں گے

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنےاس خطبہ جمعہ میں ریڈیو پر جن متفرق زبانوں میں پروگرام نشر کرنے کی بات کی ان میں سے خاص طور پر پانچ زبانوں کے نام لیے 1)عربی 2)انگریزی 3)جرمن 4)فرانسیسی 5)اردو
آپ کا ان زبانوں کا نام لینا اور پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر کا اسی رنگ میں ظاہر ہونا کہ انہیں زبانوں میں سے ایک زبان احمدیت کے پہلے ریڈیو کی مرکزی زبان بنے اور بیان کردہ باقی زبانوں میں بھی اس ریڈیو پر پروگرام ہوں ایک معجزہ سے کم نہیں۔ تفصیل اس اجمال کی آگے آئے گی۔

ہمارا ریڈیو لغویات سے پاک ہو گا

آپ ؒنے ریڈیو کی تفصیلات بتاتے ہوئے ا س طرف بھی توجہ دلا دی کہ جماعت احمدیہ کا ریڈیو بےہودگیوں اور لغویات سے پاک ہو گا۔ وہاں سے جھوٹ کی بات پیش کی جائے گی نہ گانا بجانا ہو گا ۔ان نشریات کی تاثیر آپ ا س قدردیکھ رہے تھے کہ دنیا خود پکار اٹھے کہ ا س جیسا اور کوئی ریڈیو نہیں ہے ۔ یہ صاف ستھرا اور پاک تعلیمات دینے والا ریڈیو ہے۔ آپؒ نے فرمایا:

“ان شاءاللہ یہ کام تو ہم کریں گےلیکن گانے او رڈرامے اور اس قسم کی دوسری جھوٹی باتیں وہاں نہیں ہوں گی اور اس طرح ایک ریڈیو دُنیا میں ایسا ہوگا جہاں اس قسم کی کوئی لغو بات نہیں ہوگی اور شاید بعض لوگ اس ریڈیو اسٹیشن کو ھُم عَنْ اللغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المومنون:4)کہنا شروع کردیں۔ ’’

(خطبات ناصر جلد 3صفحہ28)

اس خطبہ جمعہ کے تین سال بعد جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سفر یورپ پرتشریف لے گئے تو منعقدہونےوالی پریس کانفرنس کی رپورٹنگ اخبار “کویت ٹائمز’’نےاس طرح کی:

“جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیاں افریقہ میں پورے زور و شور سے جاری ہیں ۔ مزید برآں بہت سے یورپی ممالک میں بھی اس جماعت نے چھوٹے چھوٹے تبلیغی مشن قائم کر رکھے ہیں۔ حضرت مرزا ناصر احمد (صاحب )نے بتایا کہ جماعت احمدیہ اگلے موسم سرما میں مغربی افریقہ میں اپنا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔”

(الفضل 6؍اکتوبر1973ءبحوالہ کویت ٹائمز بابت 27؍ اگست 1973ءصفحہ اوّل)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی پاکیزہ سیرت پر ایک کتاب “حیات ناصر”کے نام سے مرتب کی گئی ہے ۔ اس کتاب میں ریڈیو کے حوالے سے بطور تائید ایک گواہی پیش کرتے ہوئے مؤلف کتاب ھٰذا تحریرکرتے ہیں:

“چوہدری عبدلغفور صاحب ایس۔ ڈی ۔او ۔جام شورو (سندھ)کا بیان ہے کہ انہوں نے حضور کی خدمت میں ریڈیو اسٹیشن کا نام “وائس آف قرآن ’’تجویز کر کے بھیجا تھا جسے حضور نے منظو رفرمایا تھا۔”

(حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 490)

مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہے کہ

٭…حضور ؒکو ریڈیو کے قیام کی شدید خواہش تھی۔

٭…آپؒ نے ریڈیو کے خدوخال واضح فرمائے اور ا س کے لیے ایک لائحہ عمل عطا فرمایا۔

٭…ریڈیو لگانے کے لیے مغربی افریقہ کاانتخاب فرمایا۔

٭…ا س کی نیک شہرت کو محسوس کیا اور اسے ایک مقبول ریڈیو کے طورپر دیکھا ۔

٭…علمی اور ترقیاتی کاموں میں اس ریڈیو کے کردار کو واضح کیا۔

٭…اس ریڈیو کو قرآن کریم کی آواز قرار دیا ۔

یقیناً آپ کی خواہش کہ جماعت کا اپنا ریڈیو ہواور پھر یہ ریڈیو مغربی افریقہ میں لگایا جائے ، اتفاقاًپید انہیں ہوئی بلکہ علام الغیوب خد انے ہی یہ منصوبہ آپ کے ذہن میں ڈالا تھا۔

الٰہی نوشتوں کے مطابق ریڈیو سے بڑھ کرموثر ذریعہ تبلیغ ایم ٹی اے بھی جماعت کو عطا ہو گیا۔ لیکن آج اکیسویں صدی میں بھی ٹی وی اور دیگر سہولیات کے باوجود ریڈیو کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے اور خاص طور پر افریقہ میں آج بھی اطلاعات و نشریات کا سب سے موثر ذریعہ ریڈیو ہی ہے۔
خدا تعالیٰ کی تقدیر نے غیر معمولی حالات اور بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے پیارے او رمحبوب بندے کی دلی خواہش کو کس طرح پورا فرمایا اور اس ریڈیو کا قیام آپ کے ا رشاد کے عین مطابق مغربی افریقہ کے اسی علاقے میں کروا دیا جس کا آپ نے ذکر فرمایا تھا ۔ آئیے تفصیلات جانتے ہیں۔

ریڈیو نشریات کا ابتدائی منصوبہ اور مشکلات

مکرم محمود ناصر ثاقب صاحب بتاتے ہیں :

میری تقرری برکینا فاسو میں ہوئی تو میں نے سوچا کہ کس طرح تبلیغ کے کام کو وسعت دی جائے۔ ایک آئیڈیا میرے ذہن میں آیا کہ مقامی ریڈیو پر وقت لے کر جماعت کے پروگرام کیے جائیں ۔ چنانچہ میں نے ا س کے متعلق ایک تجویز پیش کردی لیکن اس پر بہت سے سوالا ت اٹھے ۔ کہ یہ کام کیسے ہوگا ۔ پروگرام تیار کون کرے گا ۔اس کے لیے ضروری ہوگا کہ پہلے پروگرام تیا رہو پھر اس مسودے کو ایک کمیٹی چیک کرے اور پاس ہونے کے بعد اس کی آڈیو کیسٹ بنے۔ پھراس آڈیو کیسٹ کو سنا جائے اور فائنل ہونے کےبعد ریڈیو پر نشر کی جائے۔ بہرحال ان تفصیلات میں پڑنےاور وسائل ایسے نہ ہونے کی وجہ سے اس تجویز پر کام شرو ع نہ ہو سکا ۔یہ 1999ءکی بات ہے۔

اس کے کچھ عرصے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس عاجز کو برکینا فاسو کا امیر مقرر فرما دیا ۔ چنانچہ میں نے دوبارہ اس پروجیکٹ پر کام کرنے کامنصوبہ بنایا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ جس طرح پہلی تجویز پر لوکل جماعت کی رائے تھی اگر اسی طرح دوبارہ بات پیش کی جاتی تو پھر وہی سوالات سامنے تھے۔ اس مشکل کا ایک حل اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈال دیا ۔

پروگراموں کا آغاز

خاکسار نے عربی میں شائع ہونے والا رسالہ ‘‘التقویٰ’’لیا اور اس میں سے جماعت کے تعارف والا حصہ اپنے ایک معلم مکرم دارابو عبدالمجید صاحب کو دیا کہ اسے اچھی طرح تیار کر کے ایک کیسٹ ریکارڈ کریں ۔ انہوں نے چند دن لگا کر اس مضمون کا ایک اچھا ترجمہ لوکل زبان “مورے ’’میں کر کے ایک کیسٹ ریکارڈ کر لی ۔

میں نے اس کیسٹ کی کاپیاں تیار کروائیں اور مجلس عاملہ کے ممبران کو دیں کہ ہم نے ریڈیو کے لیے ایک پروگرام تیار کیا ہے اسے سن کر رائے دیں۔ چنانچہ جس کسی نے بھی وہ کیسٹ سنی یہی رائے دی کہ یہ تو بہت اچھا پروگرام ہے ۔ ریڈیو پر چلنے کے لیے بالکل ایسا ہی پروگرام بننا چاہیے تھا۔ چنانچہ خاکسار نے معلم صاحب سے “التقویٰ ’’کے چند اَور مضامین ریکارڈ کروائے اور لوکل احباب سے چیک کروائے۔ سب نے ان پروگراموں کے بارے میں بہت اچھی رائے دی۔ ا س پر ہم نے برکینا فاسو کے دارلحکومت Ouagadougou کے ایک مقامی ریڈیوSalankolotoسے معاہدہ کرلیا او ر ہمارے پروگرام مقامی ریڈیو پر نشر ہونا شروع ہو گئے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔

کچھ عرصے کے بعد ہم نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات جمعہ کا ترجمہ کرنا شروع کیا اور اسے مختلف ریڈیو پر چلایا۔ تھوڑے ہی عرصے میں دارلحکومت سے باہر دوسرے ریڈیو پربھی ہمیں وقت مل گیا اور ہمارے پروگرام چلنا شرو ع ہو گئے۔کام کا آغاز ہو گیا خدا تعالیٰ نے نصرت فرمائی اور ہماری جھجھک دو رہو گئی ۔ ان پروگراموں پر بہت اچھا فیڈ بیک ہمیں موصول ہونے لگا ۔

اپنا ریڈیو لگانے کی تجویز

عمدہ فیڈ بیک ملنے اور جھجھک دور ہونے کی وجہ سے ہمارے حوصلے بڑھے اور ہم اپنا ریڈیو لگا نے کا سوچنے لگے ۔ لیکن ہمیں کوئی معلومات تھیں نہ ا س کام کا تجربہ۔ یہ کام کیسے ہو گا اور کس محکمے سے اجازت وغیرہ لینا ہو گی اس میں کتنی دیر لگے کی اور کیا خرچ ہو گا کچھ بھی علم نہ تھا ۔تاہم رحیم و کریم خدا نے اس کا بندوبست بھی کر دیا ۔ ہوا یوں کہ ایک احمدی خادم دفاتر میں پھر کر جماعتی کتب فروخت کیا کرتا تھا ۔ ا س کے ذریعہ ہمیں متعلقہ دفتر کے بارے میں معلومات ملیں ۔پھر ایک آفیسر سے تعلقات بنے اور ان کے ذریعہ ریڈیو کی ڈیمانڈ کی فائل مکمل کر کے جمع کروا دی گئی۔

مسلمانوں کو ریڈیو فریکوئنسی دینے سے صاف انکار

ہماری درخواست پر کافی دیر گزرنے کے بعد بھی کارروائی نہیں ہو رہی تھی اور کوئی جواب نہیں دیا جا رہا تھا ۔ ہم کوشش کرتے رہے اور یاددہانی کرواتے رہے بالآخر سپریم کونسل آف کمیونیکیشن کے صدر نے جماعت کے وفد کو بلالیا۔ ان کے ساتھ کافی لمبی میٹنگ ہوئی ۔ تفصیل سے جماعت کا تعارف کروایا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا اور کوئی امید نہیں دلائی جارہی تھی کہ واقعی ہمیں ریڈیو لگانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ کونسل کے صدر صاحب شریف آدمی تھے بالآخر انہوں نے واضح بتادیا کہ ہم مسلمانوں کو فریکوئنسی دینا ہی نہیں چاہتے ۔ مسلمانوں کے بارے میں ہمیں بہت سے تحفظات ہیں ۔

اُس وقت ملک بھر میں عیسائیوں کے سترہ ریڈیوز چل رہے تھے جبکہ مسلمانوں کا ایک بھی ریڈیو نہیں تھا ۔ ہم نے بہت تسلی کرانے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں کو اجازت نہ دینے کے بارے میں وہ بہت واضح تھے ۔ جب کوئی بات نہیں بن رہی تھی تو بالآخر میں نے انہیں کہا کہ آپ ہمیں ایک بار ریڈیو لگانے کی اجازت دے دیں۔ہم آپ کو گارنٹی دیتے ہیں کہ اگر ہمارا ایک بھی پروگرام ملکی قوانین کے خلاف یا معاشرے کے خلاف یا فساد پھیلانے والا ہوا تو ہماری طرف سے آپ کو اجازت ہو گی کہ ہمارا ریڈیو بند کر کے دفتر سیل کر دیں ۔ہم کبھی آپ کے پاس دفتر کھلوانے کے لیے درخواست لے کر نہیں آئیں گے۔اس پر ہماری میٹنگ ختم ہو گئی۔اور ایک ماہ بعد ہمیں ریڈیو لگانے کا اجازت نامہ مل گیا ۔

اجازت ہے پر بجٹ نہیں

اس وقت تک ابھی ریڈیو کے بجٹ کی منظوری لی گئی تھی نہ ہمیں اخراجات کا کوئی اندازہ تھا۔اب اگلا مرحلہ ریڈیو لگانے کے لیے بجٹ کی منظوری کا تھا۔ ہم نے دعا کے ساتھ ڈرتے ڈرتے پانچ ہزار پونڈ کا ایک بہت محتاط بجٹ منظوری کے لیے مرکز کو بھجوا دیا ۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے شفقت فرمائی اور کچھ ہی دنوں بعد مرکز سے منظوری کا خط آگیا ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت ہمارا تجویز کردہ نام “ریڈیو اسلامک احمدیہ ’’منظور فرمایا۔ اور ریڈیو کی اجازت ملنے کے حوالے سےفرمایا : الحمد للہ۔ جزاکم اللہ احسن الجزا۔

(بحوالہ خط ،ایڈیشنل وکیل التبشیر صاحب لندن ،22؍ نومبر 2002ء )

ہم نے پانچ ہزار پونڈ کا اندازہ اس لیے لگایا تھا کہ اس رقم میں ہم کم از کم ریڈیو آن ایئر کر لیں گے۔ بجٹ کی منظوری کے بعد Ouagadougouمیں ایک اٹالین بزنس مین سے ریڈیو کا سامان خریدا ۔اس نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا اور بجٹ کے مطابق ریڈیو کے آلات ہمیں دے دیے۔ ہمیں 300 واٹ کا ایمپلی فائر اور 25واٹ کا ریڈیوٹرانسمیٹر مل گیا۔ ریڈیو اینٹینا بنوانے کا کام ہم نے ایک لوکل ویلڈر کو گھر بلا کر کرا لیا۔ ا س نے ہمیں تیس پینتیس میٹر ز کا اینٹینابنا دیا ۔ اس طرح ایک پرانا ٹیپ ریکارڈر لے کر اور کچھ دیگر آلات لے کرہم ریڈیو آن ائیر کرنے کے قابل ہوگئے۔اور اکتوبر 2001ء میں بوبو جلاسو شہر میں ریڈیو کی انسٹالیشن مکمل ہوگئی ۔ اس سارے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مکرم بشارت نوید صاحب نے بہت محنت کی اور ریڈیو کی انسٹالیشن مکمل کروائی۔

ریڈیو نشریات کا آغاز

31؍دسمبر 2001ءوہ بابرکت دن تھا جب پہلی بار ہمارے اپنے ریڈیو سے نشریات کا آغاز ہوا ۔ ا س سال ہمارے خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر غانا سے مکرم نورمحمد بن صالح صاحب اور لندن سے مکرم عبدالغنی جہانگیر صاحب بطو رنمائندہ تشریف لائے تھے۔ ان دونوں شخصیات کی موجودگی میں ریڈیو کی افتتاحی نشریات کا آغاز ہوا۔

ریڈیو اسلامک احمدیہ کی مقبولیت

خدا تعالیٰ کے فضل سے اس ریڈیو نے بہت جلد ترقی کی اور تھوڑے ہی عرصےمیں ریڈیو بہت مقبول ہو گیا ۔ اس پر ہم تبلیغی ، تربیتی، اخلاقی، معاشرتی ، تعلیمی پروگرام کرتے، تلاوت قرآن کریم اور اذان نشرکرتے، خبرنامہ اور اعلانات نشر کرتے،بچوں کے پروگرام ہوتے، عورتوں کے مسائل، معاشرتی مسائل پر پروگرام ہوتے۔ الغرض مختلف النوع پروگراموں نے اس ریڈیو کو ایک مفید اور قابل اعتماد ریڈیو بنا دیا ۔ ہمارے ریڈیو نے اس قدر شہرت پائی کہ سرکاری سروے کے مطابق ریجن میں پہلے نمبر پر آگیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ریڈیو احمدیہ میں آمد
2004ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برکینا فاسو کے دورہ کے دوران بوبو جلاسو بھی تشریف لے گئے ۔ آپ نے ازراہ شفقت ریڈیو اسٹیشن کا بھی معائنہ فرمایا۔ اور چند منٹ لائیو گفتگو فرما کر اور ریڈیو کے سامعین کوسلام اور دعاؤں کا تحفہ دے کر عالمگیر جماعت احمدیہ کے اس پہلے ریڈیو کو اعزاز بخشا ۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سادہ اور مختصر ریڈیو کو پسند فرمایا۔

قدرت ثانیہ کے پانچویں مظہر نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد یورپ سے باہر پہلے دورےسے کامیاب مراجعت کے بعد خطبہ جمعہ میں اس بابرکت سفر کے حالات اورخدا تعالیٰ کی تائیدات کا ذکر فرمایا ۔ آپ نے ازراہ شفقت برکینا فاسو میں بوبو جلاسو اور ریڈیو اسلامک احمدیہ کا ذکر بھی ان الفاظ میںفرمایا :“بورکینا فاسو کا ایک شہر بوبو جلاسو جہاں سے ایک خطبہ بھی نشر ہوا تھا یہاں ہماری جماعت کا ایک ریڈیو اسٹیشن ہے۔ جو تقریبا 70، 80، کلومیٹر کی رینج میں سنا جاتا ہے ، یہاں جمعہ پر بھی کافی حاضری یعنی 4، 5 ہزار کے قریب حاضری ہوگئی تھی، احباب و خواتین آگئے تھے، ا س جگہ 90 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ یہ سب ریڈیو کے پروگرام پسند کرتے ہیں ، بلکہ مجھے بتایا گیا کہ ہمارے ریڈیو پر جو نظمیں نشر ہوتی ہیں وہ بھی بہت مقبول ہیں ۔ غیر احمدی بھی یہ نظم اکثر پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ “میرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں ۔”

(خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍ اپریل 2004ء)

ریڈیو اسلامک احمدیہ کے پروگراموں کی زبان

جیسا کہ الٰہی منشاکے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے فرمایا تھا کہ “اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھیں کہ کام ہو گیا ہے اور ہمارے کان چوبیس گھنٹے عربی میں اور انگریزی میں اور جرمن میں اور فرانسیسی میں اور اردو وغیرہ وغیرہ میں اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے والے ہوں۔”
یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ پہلے ریڈیو کی بنیادی زبان اوپربیان کردہ انہیں پانچ زبانوں میں سے ایک بنی ۔یعنی فرنچ۔ اور پھر عربی ، انگریزی ، اور اردو میں بھی پروگرام چلے اور اب تک چلتے ہیں ۔ جرمن زبان میں پروگرام تو نہیں ہوئے تاہم جرمنی سے آنے والے مہمان ضرور ا س ریڈیو پر پروگرام کر چکے ہیں ۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے برکینا فاسومیں اس وقت ہمارے چار ریڈیو زچل رہے ہیں ۔ جن کا قیام 2005ء اور 2007ءمیں ہوا۔ان میں سے :

٭…ایک بوبو جلاسو(Bobo Dioulasso)میں ہے ۔

٭…دوسرا ڈوری(Dori) میں ہے ۔ جہاں زیادہ تر فُل فُل دے (Fulfulde) زبان میں پروگرام کیے جاتے ہیں۔

٭…تیسرا Leoمیں ہے۔ یہ علاقہ غانا کے بارڈر کی طرف ہے ۔ یہاں مورے (More)او ر دوسری لوکل زبان میں پروگرام ہوتے ہیں ۔

٭…چوتھاDedougouمیں ہے جہاں جولا زبان بولی جاتی ہے ۔

اب خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی دیگر ممالک میں بھی جماعت کے اپنے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن بن چکے ہیں ۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ بہتری اور مزید اضافہ ہو تا چلا جائے گا۔ ان شا ءاللہ۔لیکن پہلا ریڈیو اسٹیشن الہٰی نوشتوں کے مطابق خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے بابرکت الفاظ کے عین مطابق مغربی افریقہ میں لگا اور اسی ریجن میں لگا جس کا ذکر آپ نے فرمایا تھا ۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

گر نہ بخشد خدائے بخشندہ

ریڈیو اسلامک احمدیہ بوبو جلاسو آج بھی باقاعدگی سے مصروف کار ہے۔ اس وقت ا س کی روزانہ اٹھارہ گھنٹے کی نشریات ہیں ۔ رمضان المبارک میں یہ نشریا ت چوبیس گھنٹے کی ہو جاتی ہیں ۔ بہت سارے پروگرام لائیو کیے جاتے ہیں۔ ماہانہ پانچ صد سے زائد فون کالز موصول ہوتی ہیں ۔بعض لائیو پروگراموں میں اس قدر فو ن کالز موصول ہوتی ہیں کہ پروگرام کے دورانیے میں سب کو سننا بھی مشکل ہو جاتا ہے اورمجبوراً فون بند کرنا پڑتا ہے۔ یہ ریڈیو پیاسی روحوں کے لیے تسکین کے سامان کرتا اور علمی ، روحانی ، اخلاقی، معاشرتی مسائل میں رہ نمائی کرتا ہے۔ گمشدگان کو اپنے پیاروں سے ملانے والا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر خلیفہ وقت کی آواز بن کر اسلام احمدیت کے پیغام کو دور دراز پہنچانے میں ممد و معاون ہے۔

اللہ تعالیٰ ا س ریڈیو کو مزید ترقیات عطا کرے۔اس میں کام کرنے والے ہر کارکن کو اجر عظیم سے نوازتا چلا جائے۔ اور خلافت احمدیہ کی راہنمائی میں خدمت کے نئے نئے سنگ میل طے کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے ۔ آمین۔

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button