کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام

اس اقتباس کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

’’آج دو قسم کے شرک پیدا ہو گئے ہیں ۔جنہوں نے اسلام کو نا بُود کرنے کی بے حد سعی کی ۔اور اگر خدا تعا لیٰ کا فضل شامل نہ ہو تاتو قریب تھا کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پسندیدہ دین کا نام و نشان مِٹ جاتا۔مگر چو نکہ اُ س نے وعدہ کیا ہوا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:10)یہ وعدہ حفا ظت چا ہتا تھا کہ جب غارت گری کا موقعہ ہو تو وہ خبر لے۔چوکیدار کاکام ہے کہ وہ نقب دینے والوں کو پو چھتے ہیں ۔اور دُوسرے جرا ئم والوں کو دیکھ کراپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے ہیں۔اسی طرح پر آج چو نکہ فتن جمع ہوگئے تھے اور اسلام کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کر نے کو تیار ہو گئے تھے اس لیے خدا تعا لیٰ چا ہتا ہے کہ منہاج نبّوۃ قائم کرے۔یہ مواد اسلام کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے ۔اور آخر اب پھُوٹ نکلے۔جیسے ابتدا میں نُطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ ّ بن کر نکلتا ہے۔ اسی طرح پر اسلام کی مخالفت کے بچہ ّکا خُروج ہو چکا ہے اور اب وہ با لغ ہو کر پورے جوش اورقوّت میں ہے ۔اس لیے اس کو تبا ہ کر نے کے لیے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حربہ نازل کیا ۔اور اس مکروہ شِرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھا ۔دُ ور کر نے کے لیے اور پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کر نے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے ۔یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور مَیں بڑے دعوے اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بے شک یہ خدا کی طرف سے ہے ۔اس نے اپنے ہاتھ سے اس کو قائم کیا ہے جیسا کہ اس نے اپنی تا ئیدوں اور نُصرتوں سے جو اس سلسلہ کے لیے اس نے ظاہر کی ہیں ،دکھا دیا ہے ۔ ……اللہ تعا لیٰ کا ہر صدی کے سرپر مُجدّدکے مبعوث کر نے کا وعدہ الگ ہے۔ اور قرآن شریف اور اسلام کی حفاظت اور نُصرت کا وعدہ الگ۔زمانہ بھی حضرتؐ کے بعد مسیح ؑکی آمد کے زمانہ سے پوری مشابہت رکھتا ہے ۔جو نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موعود کے آنے کے مقرر کیے ہیں وُہ پُورے ہو چکے ہیں تو پھر کیا اب تک بھی کو ئی مُصلح آسمان سے نہیں آیا ؟آیا اور ضرور آیا ۔ اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق عین وقت پر آیا ۔مگر اس کی شناخت کر نے کے لیے ایمان کی آنکھ کی ضرورت ہے ۔

یہ جماعت مثیل صحابہؓ ہو

پھر عقلمند کو ماننے میں کیا تامّل ہو سکتا ہے۔ جب وہ ان تمام اُمور کو جو بیان کیے جا تے ہیں ،یکجا ئی نظر سے دیکھے گا۔اب میرا مدّعا اور منشا اس بیان سے یہ ہے کہ جب خداتعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تا ئید میں صدہا نشان اس نے ظاہر کیے ہیں ۔اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہؓ کی جماعت ہو اور پھر خیر القُرون کا زمانہ آجا وے۔جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چو نکہ وہ آخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں داخل ہو تے ہیں ،اس لیے وہ جھو ٹے مشاغل کے کپڑے اُتاردیں اور اپنی ساری توجہّ خدا تعالیٰ کی طرف کریں۔ فَیْجِ اَعْوَج(ٹیڑھی فوج ) کے دشمن ہوں۔اسلام پر تین زمانے گزرے ہیں ۔ایک قُرون ثلاثہ۔ اس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ جس کی بابت رسُول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمادیا کہ لَیْسُوْا مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْھُمْ۔یعنی نہ وُہ مجھ سے ہیں اورنہ مَیں اُن سے ہوں۔اور تیسرازمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کا زمانہ ہے۔ فیج اعوج کا ذکر اگر رُسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نہ بھی فرما تے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اورآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ :4)صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہ کے مشرب کے خلاف ہے اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت ہی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے ۔معدُودے چند کے سواسب نے اسلام کو چھوڑدیا اوربہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے ہیں۔

ہم کو اس بات کا اعتراف ہے کہ کو ئی زمانہ ایسا نہیں گُزرا کہ اسلام کی برکات کا نمونہ موجود نہ ہو۔ مگر وہ ابدال اور اولیاء اللہ جو اس درمیا نی زمانہ میں گُزرے ان کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ ان کروڑوں انسانوں کے مقابلہ میں جو صراطِ مستقیم سے بھٹک کر اسلام سے دُور جا پڑے تھے ۔کچھ بھی چیز نہ تھے ۔اس لیے رسُول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے نبوت کی آنکھ سے اس زمانہ کو دیکھا اور اس کا نام فیج اعوج رکھ دیا۔مگر اب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک اَور گروہِ کثیر کو پیدا کرے جو صحابہ کا گروہ کہلا ئے ۔مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا قانونِ قُدرت یہی ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ میں تدریجی ترقی ہوا کر تی ہے اس لیے ہماری جماعت کی تر قی بھی تدریجی اور کَزَرْعٍ (کھیتی کی طرح ) ہو گی ۔اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جا تا ہے ۔وہ مراتب اور مقاصدِ عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دُور ہیں۔ وہ حاصل نہیں ہو سکتے ہیں جبتک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے ۔توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو۔تبتّل اِلی اللہ ایک خاص رنگ کاہو۔ذکرِ الٰہی میں خاص رنگ ہو ۔حقوق ِاخوان میں خاص رنگ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ 92۔95جدید ایڈیشن)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button