خطبہ جمعہ

آپ میں سے اکثر جو اس وقت یہاں موجود ہیں،وہ جو انصار اللہ کی عمر کے ہیں ؛وہ انصار بھی ہیں اور مہاجر بھی ہیں۔ اس لحاظ سے اپنے جائزے لیتے رہیں

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 13؍ ستمبر 2019ء بمطابق 13؍تبوک 1398 ہجری شمسی
برموقع اجتماع مجلس انصاراللہ و لجنہ اماءاللہ برطانیہ (بمقام کنٹری مارکیٹ، بورڈن، ہمپشئر،یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

بدری صحابہ کے بیان کا جو سلسلہ میں نے شروع کیا ہوا ہے وہی آج بھی بیان کروں گا لیکن اس سے پہلے انصار اللہ کو اجتماع کے حوالے سے یہ بھی بتا دوں کہ وہ صحابہ جن میں انصار بھی تھے اور مہاجر بھی تھے انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کیں اور نہ صرف قربانیوں کے بلکہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار کے اور اخلاص و وفا کے عجیب نمونے دکھائے۔ آپ میں سے اکثر جو اس وقت یہاں موجود ہیں ،جو انصار اللہ کی عمر کے ہیں ؛وہ انصار بھی ہیں اور مہاجر بھی ہیں۔ وہ اس لحاظ سے اپنے جائزے لیتے رہیں کہ ہمارے سامنے جو نمونے پیش کیے گئے تھے ان پر ہم کس حد تک چلنے والے اور عمل کرنے والے ہیں۔

اس تمہید کے بعد اب میں مضمون شروع کرتا ہوں۔ پہلا جو بیان ہے وہ حضرت نُعَیْمَان بن عَمروؓ کا ہے جو ذکر کیا جائے گا۔ حضرت نعمانؓ کا نام نعمان بھی ملتا ہے اور نُعَیْمَان بھی۔ اور ان کے والد کا نام عَمرو بن رِفاعہ اور والدہ کا نام فاطمہ بنتِ عمرو تھا۔ حضرت نُعَیْمَانؓ کی اولاد میں محمد، عامر، سَبْرَة، لُبَابَہ، کَبْشَہ، مریم اور اُمِّ حَبِیب، اَمَةُ اللّٰہ اور حَکِیمہ کا ذکر ملتا ہے۔ ابنِ اسحاق کے نزدیک حضرت نُعَیْمَان بیعت عقبہ ثانیہ میں ستر انصار کے ہم راہ شامل ہوئے تھے۔ حضرت نعمان غزوۂ بدر، احد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ شریک رہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نُعَیْمَان کے لیے سوائے خیر کے کچھ نہ کہو کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔حضرت نُعَیْمَانؓ کی وفات حضرت امیر معاویہؓ کے دور ِحکومت میں 60ہجری میں ہوئی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 257 وَمِنْ بَنِي غَنْمِ النعمان بن عمرو ۔داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الکامل فی التاریخ جلد 3 صفحہ 405 ذکر عدۃ حوادث۔ سنۃ 60 ،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2006ء )

حضرت اُمِّ سَلَمہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل بُصْریٰ جو ملک شام کا ایک قدیم اور مشہور شہر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے ہمراہ شام کے تجارتی سفر کے دوران اسی شہر میں قیام کیا تھا اور اسی طرح جب حضرت خدیجہؓ کا سامان شام کی طرف لے کر گئے تھے تو اس وقت بھی اسی جگہ پر قیام کیا تھا اور اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت خدیجہ کا غلام مَیْسَرَہ بھی تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ جب وفات سے ایک سال قبل تجارت کے لیے اس طرف گئے تو ان کے ساتھ نُعَیْمَان اور سُوَیْبِطْ بن حَرْمَلَہ نے بھی سفر کیا اور یہ دونوں جنگِ بدر میں بھی موجود تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اس سفر میں نُعَیْمَان زادِ راہ پر متعین تھے اور اسی سفر کا واقعہ ہے جب ان کے ساتھی نے حضرت نُعَیْمَانؓ کو ایک قوم کے پاس مذاق مذاق میں فروخت کر دیا تھا۔ یہ واقعہ مَیں حضرت سُوَیْبِطْؓکے ضمن میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال کچھ مختصر بیان کر دیتا ہوں۔سُوَیْبِطْؓجو ان کے ساتھی تھے ان کی طبیعت میں مزاح تھا بلکہ بعض روایات سے پتا لگتا ہے کہ دونوں ہی، حضرت نعمانؓ بھی اور حضرتسُوَیْبِطْؓ بھی آپس میں بڑے بے تکلف تھے، مذاق کیا کرتے تھے اور ان کی طبیعت میں مزاح تھا۔ تو انہوں نے سفر کے دوران نعمان سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب تک حضرت ابوبکرؓ نہیں آئیں گے،جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے ، کھانا نہیں دوں گا۔ سُوَیْبِطْ ؓ نے اس پر کہا کہ اگرتم نے مجھے کھانا نہ دیا تو پھر میں ایسی باتیں کروں گا جس پر تمہیں غصہ آئے۔ راوی نے کہا کہ ان کا اس دوران ایک قوم کے پاس سے گزر ہوا تو سُوَیْبِطْنے ان سے کہا کہ کیا تم مجھ سے میرا ایک غلام خریدو گے۔ بہرحال کچھ وقفے کے بعد چند دنوں کے بعد یا کچھ سفر میں چلتے چلتے ہی اس وقت یہ ذکر ہوگا۔تو اس قوم کو حضرت سُوَیْبِطْنے کہا کہ میرے سے غلام خریدو گے۔ قوم نے کہا ہاں خریدیں گے تو سُوَیْبِطْنے اس پر ان کو کہا کہ وہ بڑا بولنے والا ہے اور یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں اور جب وہ تمہیں یہ بات کہے کہ تم اس کو چھوڑ دو تو پھر یہ نہ ہو کہ تم میرے غلام کو خراب کرنا۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ہم اسے تجھ سے خریدنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اسے دس اونٹنیوں کے عوض خرید لیا۔ پھر وہ لوگ نُعَیْمَان کے پاس آئے اور ان کے گلے میں پگڑی یا رسی ڈالی تا کہ غلام بنا کے لے جائیں۔ نُعَیْمَانؓ ان سے بولے کہ یہ شخص تم سے مذاق کر رہا ہے میں تو آزاد ہوں۔ غلام نہیں ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس نے تمہارے بارے میں پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا۔ بہرحال وہ زبردستی انہیں ساتھ لے گئے۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور لوگوں نے اس کے متعلق بتایا تو پھر آپ ان لوگوں کے پیچھے گئے، اس قوم کے پیچھے گئے اور ان کو اونٹنیاں واپس دیں اور نعمان کو واپس لے آئے۔ راوی نے بتایا کہ جب یہ لوگ واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا تو راوی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ اس سے بہت محظوظ ہوئے۔ بڑا ہنسے اور ایک سال تک ان میں یہ لطیفہ بنا رہا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب المزاح حدیث 3719۔ معجم البلدان جلد2 صفحہ348 ’’بصریٰ‘‘۔ فرہنگ سیرت صفحہ 58 ’’بصریٰ‘‘)

بعض جگہ بعض کتابوں میں اس فرق کے ساتھ یہ واقعہ ملتا ہے کہ فروخت کرنے والے حضرت سُوَیْبٌطْ نہیں تھے بلکہ حضرت نعمان تھے۔

(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 354 سُوَیْبٌطْ بن حرملہ دارالفکر بیروت لبنان2003ء)

بہرحال دونوں کے بارے میں ہی یہ روایت آتی ہے۔ حضرت نُعَیْمَانؓ کے بارے میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ ان کی طبیعت میں بھی مزاح پایا جاتا تھا ۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی باتیں سن کر محظوظ ہوا کرتے تھے۔

رَبِیْعَہ بن عُثْمان سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بَدُّو آیا اور مسجد میں داخل ہو کر اس نے اپنے اونٹ کو صحن میں بٹھا دیا۔ اس پر بعض صحابہ نے حضرت نعمانؓ سے کہا کہ اگر تم اس اونٹ کو ذبح کر دو تو ہم اسے کھائیں گے کیونکہ ہمیں گوشت کھانے کا بڑادل کر رہا ہے۔ اور بہرحال یہ بدو کا اونٹ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب شکایت ہو گی تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تاوان ادا کر دیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت نعمانؓ نے ان کی باتوں میں آ کے اونٹ ذبح کر دیا اور جب بدو باہرنکلا اور اپنی سواری کو اس حالت میں دیکھا تو شور مچانے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میرا اونٹ ذبح ہو گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا نعمان نے۔ یہ کرنے کے بعد نعمان وہاں سے چلے گئے۔ کہیں جا کے چھپ گئےتو آپؐ ان کی تلاش میں نکلے۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ انہیں حضرت ضُبَاعَہ بنتِ زُبیر بن عبدالمطلبؓ کے ہاں چھپا ہوا پایا۔ جہاں وہ چھپے ہوئے تھے وہاں ایک شخص نے اپنی انگلی سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کہیں نظر نہیں آ رہا۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہاں سے نکالا اور فرمایا کہ یہ حرکت تم نے کیوں کی ہے؟ تو نعمان نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جن لوگوں نے آپؐ کو میرے بارے میں خبر دی ہے کہ میں نے یہ ذبح کیا، انہوں نے ہی مجھے اس پہ اکسایا تھا۔ انہوں نے ہی مجھے کہا تھا اور یہ بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں اس کا تاوان دے دیں گے، قیمت ادا کر دیں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کے نعمانؓ کے چہرے کو چھوا، اپنا ہاتھ لگایا اور مسکرانے لگے اور آپؐ نے اس بدو کو اس اونٹ کی قیمت ادا کر دی۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 4 صفحہ 332 نُعَیْمَان بن عمرو دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
(الفکاھۃ والمزاح از زبیر بن بکار صفحہ24-25 مطبوعہ 2017ء)

زُبیر بن بَکَّار اپنی کتاب اَلْفُکَاھَۃ و المِزَاحمیں حضرت نعمانؓ کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

مدینے میں جب بھی کوئی پھیری والا داخل ہوتا ، باہر سے کوئی تاجر کوئی چیز لے کر آتا تو حضرت نعمانؓ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی چیز خرید لیتے اور وہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور یہ عرض کرتے کہ آپؐ کے لیے میری طرف سے تحفہ ہے۔ جب اس چیز کا مالک حضرت نعمانؓ سے اس کی قیمت لینے کے لیے آتا۔ وہاں پِھر رہے ہوتے تھے۔ بتا دیتے تھے کہ میں وہاں رہتا ہوں۔ بعد میں قیمت بھی لے لیتے تھے۔ واقف ہوتے تھے۔ بہرحال جب وہ قیمت لینے آتا تو وہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے اور عرض کرتے کہ اسے اس کے مال کی قیمت ادا کردیں۔ یہ چیز جو میں نے خریدی تھی اور آپؐ کو دی تھی اس کی قیمت ادا کر دیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کیا تم نے یہ چیز مجھے بطور تحفہ نہیں دی تھی تو وہ کہتے یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میرے پاس اس چیز کی ادائیگی کے لیے کوئی رقم نہیں تھی تاہم میرا شوق تھا کہ اگر وہ کھانے کی چیز ہے تو آپؐ اسے کھائیں۔ رکھنے کی چیز ہے تو آپؐ اسے رکھیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگتے اور اس چیز کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنے کا حکم فرماتے۔

(ماخوذ از الفکاھۃ والمزاح از زبیر بن بکار صفحہ27،مطبوعہ 2017ء)

تو یہ عجیب پیار اور محبت اور مزاح کی مجلسیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ صرف خشک مجلسیں نہیں ہوتی تھیں۔
دوسرا ذکر جو آج ہو گا وہ حضرت خُبَیب بن اِسَافؓ کاہے۔ حضرت خُبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو جُشَم سے تھا اور حضرت خُبیبؓ کا نام ایک دوسرے قول کے مطابق حَبِیب بن یَسَاف بھی بیان ہوا ہے۔ ان کے والد کا نام اِساف ہے جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق یَسَافْ بھی بیان ہوا ہے۔ اسی طرح ان کے دادا کا نام عِتَبَہ کے علاوہ عِنَبَہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ467، الانصار و من معھم/ من بنی جشم ، دارالکتب العلمیۃ 2001ء)

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ275 ومن بنی جشم …… خُبیب بن یساف ،داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 683 حبیب بن یساف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

حضرت خُبَیبؓ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت ِمسعود تھا۔ ان کی اولاد میں سے ایک بیٹا ابو کثیر تھا جس کا نام عبداللہ تھا جو جمیلہ بنت عبداللہ بن أُبَی بن سَلُول کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام عبدالرحمٰن تھا جو ام وَلَد کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ ایک بیٹی اُنَیسہ تھی جو زینب بنت قیس کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد حضرت خُبیبؓ نے ان کی بیوہ یعنی حضرت ابوبکرؓ کی بیوہ حَبِیبہ بنتِ خارجہسے شادی کی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ275-276 ومن بنی جشم …… خُبیب بن یساف، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 3 صفحہ 153 خُبیب بن اساف دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)

حضرت خُبیب بے شک ہجرتِ مدینہ کے وقت مسلمان نہ تھے لیکن پھر بھی انہیں ہجرتِ مدینہ کے وقت مہاجرین کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ مسلمان نہیں تھے لیکن انہوں نے بڑی میزبانی کی، مہمان نوازی کی۔ حضرت طلحہ بن عبداللہ ؓاور حضرت صُہَیب بن سِنانؓ ان کے گھر ٹھہرے۔ البتہ ایک دوسرے قول کے مطابق حضرت طلحہ،حضرت اَسْعَد بن زُرَارہ کے گھر ٹھہرے تھے۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ338، منزل طلحہ و صھیب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

اسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ایک روایت کے مطابق انہوں نے حضرت خُبَیب کے ہاں قبا میں سُنْح کے مقام پر قیام کیا تھا ۔یہ سُنح ایک جگہ کا نام ہے جو مدینے کے اطراف بلند دیہات میں ہے۔ جہاں بنی حارث بن خزرج کے لوگ رہا کرتے تھے اس کو کہتے ہیں۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ حضرت خَارِجَہ بن زیدؓ کے گھر ٹھہرے تھے۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ348، منزل ابی بکر بقباء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء۔ لُغات الحدیث جلد2 صفحہ 373 ’’سنح‘‘)

غزوۂ بدر کے علاوہ غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور دیگر غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ شامل ہوئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ276 ومن بنی جشم …… خُبیب بن یساف ، داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)

ایک روایت کے مطابق خُبَیبؓ کا مدینے میں پڑاؤ تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہو گئے۔ تب یہ راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے اور اسلام قبول کیا۔

(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ المجلد الثالث صفحہ 152 خُبیب بن اساف دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)

صحیح مسلم میں حضرت خُبَیبؓ کے اسلام قبول کرنے کا ذکر یوں ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے یہ روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے۔ جب آپؐ حرَّۃُ الْوَبَرَۃ جو مدینے سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے وہاں پہنچے تو آپؐ کو ایک شخص ملا جس کی جرأت اور بہادری کا ذکر کیا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جب اسے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ جب وہ آپؐ سے ملا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپؐ کے ساتھ جانے اور آپؐ کے ساتھ مالِ غنیمت میں حصہ پانے کے لیے آیا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا۔ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ میں ایمان نہیں لاتا۔ مسلمان نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ واپس چلے جاؤ کیونکہ میں کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا۔ وہ فرماتی ہیں کہ وہ چلا گیا یہاں تک کہ پھر جب آپؐ شجرة پہنچے جو ذوالحلیفہ، یہ مدینہ سے چھ سات میل کے فاصلے پر مقام ہے اور شجرة اس کے پاس ہی ایک مقام ہے۔ بہرحال وہاں جب پہنچے تو وہ شخص پھر آپؐ کو ملا اور پھر ویسا ہی کہا جیسا پہلی مرتبہ کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ویسے ہی فرمایا جیسے پہلے فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَوٹ جاؤ ۔مَیں کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا۔ پھر وہ لوٹا اور آپ کو بَیدَاء جو ہے (ذُوالْحُلَیْفَہ،مدینہ سے چھ یا سات میل کے فاصلے پر ایک اَور مقام ہے۔ شجرة اس کے پاس ہی ایک مقام ہے اور بَیدَاءمقام بھی ادھر ہی ہے۔ یہ دونوں جگہ قریب قریب ہیں بہرحال) پھر وہاںملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا جیسے پہلے فرمایا تھا کہ مشرک سے ہم مدد نہیں لیں گے اور پھر آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ چلو اب تم میرے ساتھ جا سکتے ہو۔

(صحیح مسلم کتاب الجہاد باب کراھۃ الاستعانۃ فی الغزو بکافر …… الخ حدیث (1817))(معجم البلدان جلد3 صفحہ 142۔ اکمال المعلم بفوائد المسلم جزء 4 صفحہ 181 کتاب الحج باب امر اھل المدینہ …… دارالوفاء 1998ء)

اس روایت کی شرح میں ذکر کیا گیا ہے کہ جس شخص کے اسلام قبول کرنے کا ذکر اس روایت میں کیا گیا ہے وہ حضرت خُبیبؓ تھے۔

(البحر المحیط الثجاج فی شرح صحیح الامام مسلم بن الحجاج جلد 31 صفحہ 620 مطبوعہ دار ابن الجوزی ریاض 1434ہجری)

حضرت خُبیب بن اِسافؓ کے اسلام قبول کرنے اور غزوۂ بدر میں شرکت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نور الدین حلبی اپنی کتاب سیرةِ حلبیہ میں بیان کرتے ہیں کہ

مدینے میں حَبِیب بن یَسَافؓ نامی ایک طاقت ور اور بہادر شخص تھا۔ یہ حضرت خُبیب بن اِسَافؓ کا دوسرا نام ہے جو سیرت کی کتب میں لکھا ہوا ہے۔ بہرحال یہ شخص قبیلہ خزرج کا تھا۔ غزوۂ بدر تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر یہ بھی اپنی قوم خزرج کے ساتھ جنگ جیتنے کی صورت میں مالِ غنیمت ملنے کی امید میں جنگ کے لیے روانہ ہوا۔ مسلمان اس کے ساتھ نکلنے پر بہت خوش ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی جنگ میں جائے گا جو ہمارے دین پر ہے۔ ایک اور روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم واپس جاؤ ہم مشرک کی مدد نہیں لینا چاہتے۔ حَبِیب کو یا خُبیب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ واپس لوٹا دیا تھا۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا تُو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے؟ اس نے کہا ہاں اور اسلام قبول کر لیا۔ پھر اس نے نہایت بہادری کے ساتھ زبردست جنگ کی۔

(السیرة الحلبیہ الجزء الثانی صفحہ204 باب ذکر مغازیہﷺ/ غزوةبدر الکبریٰ، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)

مسند احمد بن حنبل میں حضرت خُبیبؓ اپنے اسلام قبول کرنے کے واقعہ کی تفصیلات یوں بیان کرتے ہیں کہ
میں اور میری قوم کا ایک اَور آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوے کی تیاری فرما رہے تھے اورہم نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ہم نے عرض کیا کہ یقیناً ہمیں شرم آتی ہے کہ ہماری قوم تو جنگ کے لیے جا رہی ہو اور ہم اس میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم دونوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ہم نے عرض کیا نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً ہم مشرکوں کے خلاف مشرکوں کی مدد نہیں چاہیں گے۔ مشرکوں کے خلاف جنگ ہو رہی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے ہم مشرکوں سے ہی مدد لیں۔ وہ کہتے ہیں یعنی حضرت خُبیبؓ کہتے ہیں کہ اس پر ہم نے اسلام قبول کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس غزوے میں شامل ہوئے۔ میں نے اس جنگ میں ایک شخص کو قتل کیا اور اس نے بھی مجھے چوٹ پہنچائی۔ پھر اس کے بعد جب میں نے اس مقتول شخص کی بیٹی سے شادی کر لی تو وہ کہا کرتی تھی کہ تم اس آدمی کو بھلا نہ سکو گے جس نے تمہیں یہ زخم لگایا ہے۔ اس پر میں کہتا تھا کہ تم بھی اس آدمی کو بھلا نہ پاؤ گی جس نے تمہارے باپ کو جلد آگ میں پہنچایا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5صفحہ411 ،حدیث 15855 جدّ خُبیب ،عالم الکتب بیروت-لبنان1998ء)

غزوۂ بدر میں حضرت خُبیب بن اِسافؓ نے قریشِ مکہ کے سردار اُمَیّہ بن خلف کو قتل کیا تھا جس کا اختصار کے ساتھ مقتول کے نام کا تذکرہ کیے بغیر مسند احمد بن حنبل کی روایت میں تذکرہ ہوا ہے شادی والا واقعہ جو ہے۔

اس واقعہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے علامہ نور الدین حلبی اپنی کتاب ‘سیرة حلبیہ ’میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ میدانِ بدر میں مجھے اُمَیّہ بن خلف ملا۔ وہ جاہلیت کے زمانے میں میرا دوست تھا۔ امیہ کے ساتھ اس کا بیٹا علی بھی تھا جس نے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ یہ علی ان مسلمانوں میں سے تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے۔ اس وقت ان کے رشتے داروں نے انہیں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہو گئے۔ اسلام قبول کیا تھا اور پھر اسلام سے پِھر گئے اور پھر یہ لوگ کفر کی حالت میں مر گئے۔ ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِيْ أَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْأَرْضِ (النساء:98)یقیناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ ان سے کہتے ہیں کہ تم کس حال میں رہے؟ وہ جواباً کہتے ہیں کہ ہم تو وطن میں بہت کم زور بنا دیے گئے تھے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں میں حَارِث بن رَبِیعہ، ابو قیس بن فَاکِہ، ابو قیس بن ولید، عاص بن مُنَبِّہ اور علی بن امیہ تھے۔ علامہ نورالدین حلبی لکھتے ہیں کہ کتاب سیرت ہِشَامِیَہ میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّے میں تھے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو ان لوگوں کو ان کے آباء اور رشتے داروں نے مکّے میں ہی روک لیا اور انہیں آزمائش میں ڈالا جس کے نتیجے میں یہ لوگ فتنے میں پڑ گئے اور اسلام سے پِھر گئے، اسلام چھوڑ دیا۔ پھر وہ غزوۂ بدر کے وقت اپنی قوم کے ساتھ نکلے اور یہ سب وہاں قتل ہوئے۔ اس سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے اپنے دین سے نہیں پھرے تھے جبکہ پہلی روایت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکّے سے ہجرت کرنے سے قبل کفر کی طرف لوٹ چکے تھے۔

بہرحال حضرت عبدالرحمٰنؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس کئی زرہیں تھیں جنہیں میں نے اٹھایا ہوا تھا۔ اس وقت جنگ کا واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ جب امیہ نے مجھے دیکھا تو مجھے میرے جاہلیت کے نام سے اے عبد عمرو! کہہ کر پکارا۔ میں نے اس کا جواب نہیں دیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میرا نام عبدالرحمٰن رکھا تھا تو فرمایا تھا کہ کیا تم اس نام کو چھوڑنا پسند کرو گے جو تمہارے باپ دادا نے رکھا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! تو امیہ نے کہا کہ میں تو رحمان کو نہیں جانتا۔ جب امیہ نے مجھے میرے نام سے پکارا ۔ جب دوبارہ عبدالرحمٰن کہا تو پھر میں نے جواب دیا۔ بہرحال بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جب امیہ نے انہیں ان کے پرانے نام سے پکارا تھا تو وہ سمجھ تو گئے تھے کہ اس کے مخاطب وہی ہیں مگر انہوں نے اس پکار پر اس لیے جواب نہیں دیا کہ پکارنے والے نے ان کو ایک بُت کا بندہ کہہ کر پکارا تھا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی بڑی حد تک امکان ہے کہ وہ سمجھے ہی نہ ہوں کہ کس کو پکارا گیا ہے کیونکہ وہ نام چھوڑے ہوئے کافی عرصہ ان کو ہو گیا تھا۔ پھر جب امیہ نے انہیں ان کے موجودہ نام سے پکارا تو وہ سمجھ گئے کہ وہی مراد ہیں اور وہ جواب دے کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ تب امیہ نے ان سے کہا کہ اگر تم پر میرا کوئی حق ہے تو میں تمہارے لیے ان زرہوں سے بہتر ہوں جو تیرے پاس ہیں۔ پرانی دوستی تھی، دوستی کا حوالہ دیا۔ کیونکہ اس وقت ایسی حالت تھی کہ ان کو شکست تو ہو چکی تھی تو بچاؤ کی صورت یہ کہا کہ یہ حق ہے تو میں بہتر ہوں ان زرہوں سے کہ میرے لیے تم انتظام کرو۔ میں نے انہیں کہا ٹھیک ہے۔ پھر میں نے زرہیں نیچے رکھ کر امیہ اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ امیہ کہنے لگے کہ میں نے زندگی بھر کبھی ایسا دن نہیں دیکھا جو آج بدر کے دن گزرا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ تم میں وہ شخص کون ہے جس کے سینے پر زرہ میں شتر مرغ کا پَر لگا ہوا ہے۔ میں نے کہا حمزہ بن عبدالمطلبؓ۔ تو امیہ نے کہا کہ یہ سارا کیا دھرا اسی کا ہے۔ ان کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہوئی ہے۔ بہرحال اس کے اپنے اندازے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ بات امیہ کے بیٹے نے کہی تھی۔ بہرحال حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مَیں ان دونوں کو لے کر چل رہا تھا۔ ہاتھ پکڑ لیا چل پڑا کہ اچانک حضرت بلالؓ نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا۔ مکّے میں امیہ حضرت بلالؓ کو اسلام سے پھیرنے کے لیے بڑا عذاب دیا کرتا تھا۔ حضرت بلال امیہ کو دیکھتے ہی بولے کہ کافروں کا سردار اُمَیّہ بن خلف یہاں ہے۔ اگر یہ بچ گیا تو سمجھو مَیں نہیں بچا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا تم میرے قیدیوں کے بارے میں ایسا کہہ رہے ہو؟ حضرت بلال نے بار بار یہی کہا کہ اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچا اور میں بھی ہر بار ایسا ہی کہتا، بار بار اس کو یہی جواب دیتا رہا۔ پھر حضرت بلالؓ بلند آواز سے چلّائے کہ اے اللہ کے انصار!یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے۔ بڑی زور سے انہوں نے پکارا کہ اے اللہ کے انصار! یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا اور بار بار ایسا کہا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر انصاری دوڑ پڑے اور انہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ پھر حضرت بلالؓ نے تلوار سونت کر اُمَیّہ کے بیٹے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ نیچے گر گیا۔ اُمَیّہ نے اس پر خوف کی وجہ سے ایسی بھیانک چیخ ماری کہ ایسی چیخ مَیں نے کبھی نہیں سنی۔ اس کے بعد انصاریوں نے ان دونوں کو تلواروں کے وار سے کاٹ ڈالا۔

(ماخوذ ازالسیرة الحلبیہ جلد 2 صفحہ232-233 باب ذکر مغازیہﷺ/ غزوة بدرالکبریٰ، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)

صحیح بخاری میں اُمَیّہ کے قتل کا واقعہ اس طرح مذکور ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُمَیّہ بن خَلْف کو خط لکھا کہ وہ مکّے میں، جو اس وقت دارالحرب تھا ،میرے مال اور بال بچوں کی حفاظت کرے اور میں اس کے مال و اسباب کی مدینہ میں حفاظت کروں گا۔ جب میں نے اپنا نام عبدالرحمٰنؓ لکھا تو امیہ نے کہا کہ میں عبدالرحمٰن کو نہیں جانتا ۔ تم مجھے اپنا وہ نام لکھو جو جاہلیت میں تھا۔ اس پر میں نے اپنا نام عبد عمرو لکھا۔ جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو میں ایک پہاڑی کی طرف نکل گیا جب کہ لوگ سو رہے تھے تا کہ میں اس کی حفاظت کروں یعنی حفاظت کی نیت سے ادھر گئے کہ دشمن کہیں ادھر سے حملہ نہ کرے تو بلال نے اس وقت امیہ کو وہاں کہیں دیکھ لیا ۔ چنانچہ وہ گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ اُمَیّہ بن خلف ہے۔ اگر بچ نکلا تو میری خیر نہیں ہے۔ اس پر بلال کے ساتھ کچھ لوگ ہمارے تعاقب میں نکلے۔ میں ڈرا کہ وہ ہمیں پا لیں گے۔ وہاں اس وقت تک لگتا ہے حضرت عبدالرحمٰنؓ کی اور امیہ کی بات ہو گئی تھی تو بہرحال کہتے ہیں مجھے شک ہوا میں نے انہیں کہا کہ میں تمہیں قیدی بناتا ہوں۔ اس لیے میں نے امیہ کے بیٹے کو، دونوں کو پکڑ تو لیا لیکن جب یہ مسلمان حملہ آور حضرت بلالؓ کے ساتھ آئے تو کہتے ہیں میں نے امیہ کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا، وہاں رکھ دیا تا کہ وہ حملہ آور اس کے ساتھ نبرد آزما رہیں۔ اس سے ہی لڑائی کرتے رہیں۔ اس کی لڑائی میں مشغول ہو جائیں اس کے ساتھ اور ہم آگے نکل جائیں۔ چنانچہ انہوں نے اسے مار ڈالا۔ امیہ کے بیٹے کو ان لوگوں نے مار ڈالا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا پیچھا کیا اور میر ا یہ داؤ کارگر نہ ہونے دیا کہ میں امیہ کو بچا لوں۔ امیہ چونکہ بھاری بھرکم آدمی تھا اس لیے جلدی اِدھر اُدھر نہ ہو سکا آخر جب انہوں نے ہمیں پالیا تو مَیں نے امیہ سے کہا کہ بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلواریں گھونپیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔ ان میں سے ایک نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں پر بھی زخم کر دیا۔ راوی ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہمیں اپنے پاؤں کی پشت پر وہ نشان دکھایا کرتے تھے جو اس وجہ سے ہوا تھا۔

(صحیح البخاری کتاب الوکالۃ باب اذا وکل المسلم حربیافی دارالحرب او فی دارالاسلام جاز حدیث 2301)

امیہ اور اس کے بیٹے کو کس نے قتل کیا ؟اس بارے میں مشہور ہے کہ امیہ کو انصار کے قبیلہ بنو مازن کے ایک شخص نے قتل کیا تھاجبکہ ابن ہشام کہتے ہیں کہ امیہ کو حضرت مُعَاذ بنِ عَفْرَاء، خَارِجَہ بن زید اور خُبیب بن اِسَاف نے مل کر قتل کیا تھا۔ جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے یہ بھی ان میں شامل تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بلالؓ نے اسے قتل کیا تھا تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ سب صحابہ امیہ کے قتل میں شریک تھے اور امیہ کے بیٹے علی کو حضرت بلالؓ نے حملہ کر کے نیچے گرا دیا تھا۔ بعد میں اسے حضرت عمار بن یاسرؓ نے قتل کیا تھا۔

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ 296 باب غزوۃ بدر الکبریٰ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

بعض واقعات کی جو تفصیل ہے ان کا براہ ِراست اس صحابی سے تعلق نہیں ہوتا لیکن اس میں تو ذکر ہے بھی لیکن مَیں اس لیے ذکر کر دیتا ہوں تا کہ ہمیں تاریخ کا بھی کچھ علم ہو جائے۔

خُبیب بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا حضرت خُبیبؓ کو غزوۂ بدر کے روز ایک زخم پہنچا تھا جس سے ان کی پسلی ٹوٹ گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور اسے اس کی معین جگہ پر کر کے اس کو صحیح اور درست کر دیا جس کے نتیجے میں حضرت خُبیبؓ چلنے لگے۔

ایک دوسری روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت خُبیبؓ نے بیان کیا کہ ایک جنگ کے موقعے پر میرے کندھے پر ایک بہت گہرا زخم لگا جو میرے پیٹ تک پہنچ گیا اور اس کے نتیجے میں میرا ہاتھ لٹک گیا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ اپنا لعابِ مبارک لگایا اور اسے ساتھ جوڑ دیا جس کے نتیجے میں وہ بالکل صحیح ہو گیا اور میرا زخم بھی ٹھیک ہو گیا۔

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد3صفحہ 152، خُبیْب بن اِساف، دارالکتب العلمیہ بیروت 2008ء)
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر جلد 3جزء6صفحہ166-167،سنہ11ہجری دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

وفات کے متعلق ایک قول کے مطابق یہ ہے کہ حضرت خُبیبؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے قول کے مطابق ان کی وفات حضرت عثمانؓ کے دور ِخلافت میں ہوئی تھی۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 224خُبیْب بن اِساف،دارالکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 276 ومن بنی جشم …… خُبیب بن یساف، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)

بہرحال اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرماتاچلا جائے۔

اب میں تین وفات شدگان کا بھی ذکر کروں گا اور ان کی نماز ِجنازہ بھی نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا۔

ان میں سے پہلا ذکر محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم سید محمد سرور صاحب ربوہ کا ہے جو 24؍ اگست کو 74؍ سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے آباؤ اجداد چار کوٹ کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور آپ کے والد محترم دین محمد صاحب ریلوے میں ملازم تھے جو آپ کی عمر جب پانچ سال تھی تو وفات پا گئے تھے۔ اس کے بعد ان کی والدہ محترمہ نے اکیلے ہی بڑی محنت اور مشقت سے اپنے بچوں کو پالا۔ مرحومہ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم فتح محمد صاحب کے ذریعے ہوا تھا جنہوں نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت قاضی محمد اکبر صاحبؓ کے ذریعے بیعت کی سعادت پائی تھی۔ قاضی صاحب نے 1894ء میں چاند اور سورج گرہن کا نشان دیکھ کر اپنے علاقے اور خاندان کے لوگوں کو بتایا تھا کہ اس نشان سے پتا لگا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو چکا ہے۔ حضرت قاضی محمد اکبر صاحب کے ساتھ اس خاندان کے خاندانی مراسم تھے اور رشتہ داری بھی تھی اور اس لحاظ سے پھر ان کے ذریعہ سے ان تک احمدیت کا پیغام بھی پہنچا اور بیعت بھی ہوئی۔ ان کے ایک بیٹے محمد زکریا صاحب لائبیریا میں مبلغ ہیں وہ کہتے ہیں کہ میری والدہ چندوں کو بڑی باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں اور بڑی فکر رہتی تھی اور پوچھتی رہتی تھیں کہ میرا چندہ ادا ہو گیا ہے کہ نہیں اور پھر اس کے علاوہ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی بڑی فکر تھی، بہت توجہ دیتی تھیں۔ بچوں کو غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتی تھیں تا کہ بچوں کو آوارگی کی عادت نہ پڑ جائے یا باہر جا کر کوئی خراب عادت نہ سیکھ لیں۔ کہتے ہیں کہ جب بچپن میں والد صاحب ہم بھائیوں کو مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے کہتے اور خاص طور پر جب نماز ِفجر کے لیے ہمیں جگاتے تو والدہ بچوں کو مسجد بھیجنے کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتی تھیں اور جب تک ہم مسجد چلے نہیں جاتے تھے چین سے نہیں بیٹھتی تھیں۔ خلافت کے ساتھ بڑی محبت، وفا اور پیار کا ان کا تعلق تھا۔ بڑی توجہ سے خطبات سنتی تھیں اور اس کے پوائنٹس نوٹ کرتی تھیں، نکات نکالتی تھیں اور پھر اپنے بچوں سے ڈسکس (discuss) کرتی تھیں۔ پھر مرحومہ کی جو بڑی بیٹی ہیں انہوں نے بتایا کہ آخری وقت میں بھی نماز کی طرف بڑی توجہ تھی اور بڑی لمبی نماز انہوں نے پڑھی۔ کوئی احساس نہیں ہونے دیا ۔ نماز پڑھنے کے فوراً بعد ہی ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ ہسپتال لے کے گئے لیکن وہاں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے، دل کی حرکت بند ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں۔ اللہ کے فضل سے 8/1 حصےکی موصیہ تھیں۔

ان کے پانچ بیٹوں کو بطور واقفینِ زندگی دین کی خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ دو بیٹے محمد محسن تبسم اور محمد مومن صاحب بطور معلم وقف جدید ربوہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ دو بیٹے داؤد ظفر صاحب اور زکریا صاحب بطور مربی سلسلہ اور ایک بیٹے آصف صاحب وقفِ نَو ہیں یہ خلافت لائبریری میں کمپیوٹر سیکشن میں ہیں۔ محمد زکریا صاحب اس وقت لائبیریا میں جیسا کہ میں نے بتایا مبلغ ہیں اور والدہ کی وفات پر وہ جنازے پر جا نہیں سکے، انہوں نے بھی بڑے اچھے صبر کا نمونہ دکھایا اور اپنی ڈیوٹی جو بیرونِ ملک تھی اس کو باقاعدگی سے انجام دیتے رہے اور کوئی اظہار اس طرح نہیں ہوا کہ مَیں کام نہیں کر سکتا، جا بھی نہیں سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے خاص طور پر یہ بیٹے جو لائبیریا میں مبلغ سلسلہ ہیں اور وفات کے وقت اپنی والدہ کو مل نہیں سکے اور اللہ تعالیٰ ان سب بچوں کو ان کی والدہ کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی والدہ کے درجات بلند فرمائے۔

دوسرا جنازہ ہے محترم محمد شمشیر خان صاحب جو ناندی فجی کے صدر جماعت تھے۔ ان کی بھی 5؍ستمبر کو وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1952ء کی ان کی پیدائش تھی اور 1962ء میں اپنے مرحوم والد کے ساتھ لاہوری جماعت سے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ پہلے یہ پیغامی تھے۔ فجی میں پیغامی یا لاہوری جماعت کے بہت سے افراد ہیں۔ بہرحال اپنے والد کے ساتھ انہوں نے بیعت کی۔ 1962ء میں احمدی ہوئے، غیر مبائع تھے، بیعت کر کے یہ خلافت کی بیعت میں آئے۔ اسی طرح آپ جماعت فجی کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لمبا عرصہ جماعتی خدمت کی توفیق ملی۔ جماعت احمدیہ مارو(Maru)، سووا(Suva)، ناندی (Nadi)اور لٹوکا (Lautoka)میں مساجد بنانے میں آپ کا اہم کردار تھا۔ 2010ء سے وفات تک بطور صدر جماعت ناندی خدمت کی توفیق پائی۔ لمبا عرصہ نیشنل سیکرٹری اشاعت کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے۔ دنیاوی لحاظ سے بھی آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن جماعتی کام ہر کام پر مقدم ہوتے تھے۔ علاوہ صدر جماعت اور نیشنل سیکرٹری اشاعت کے آپ احمدیہ مسلم پرائمری سکول لٹوکا کے مینیجر بھی تھے۔ انتہائی مخلص اور خلافت کے عاشق اور انتہائی اطاعت گزار انسان تھے۔ پس ماندگان میں اہلیہ راضیہ خان صاحبہ اور ایک بیٹی نادیہ نفیسہ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان بچوںکو بھی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تیسرا جنازہ ہے مکرمہ فاطمہ محمد مصطفیٰ صاحبہ کردستان حال ناروے کا۔ ان کی وفات 13؍جون کو ہوئی تھی لیکن کوائف تھوڑے لیٹ پہنچے ہیں اس لیے دیر سے جنازہ پڑھایا جا رہا ہے۔ 88؍سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہوں نے 2014ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ ان کے پس ماندگان میں تین بیٹیاں اور پانچ بیٹے شامل ہیں جن میں صرف ایک بیٹی مکرمہ بیریفان محمد سعید صاحبہ احمدی ہیں اور اس وقت ناروے میں مقیم ہیں۔ یہ بیٹی کہتی ہیں کہ میں 1999ء میں ناروے آئی جہاں مجھے بہت زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے میری والدہ مدد کرنے کے لیے کردستان سے ناروے شفٹ ہو گئیں۔ والدہ صاحبہ اگرچہ اَن پڑھ تھیں لیکن انہیںقرآن کریم کی بہت سی آیات اوربہت سی احادیث زبانی یاد تھیں۔ پڑھنے لکھنے کا شوق اس قدر تھا کہ 40؍سال کی عمر سے تجاوز کرنے کے باوجود انہوں نے بہت محنت کر کے پڑھنا لکھنا سیکھا۔ ان کی زندگی میں سب سے اہم کام نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا تھا۔ اسی طرح بہت زیادہ روزے بھی رکھا کرتی تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں ان لوگوں کے نام پر روزے رکھتی ہوں جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں پاتے۔ دوسروں کی مدد کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ عراق میں بعض اوقات والدہ صاحبہ پچاس میل کا سفر کر کے ان عورتوں کے ساتھ ہسپتال جاتیں جن کا علاج کروانے والا کوئی نہ ہوتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی مالی مدد بھی کیا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں کہ ان کی وفات پر مجھے مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے دسیوں افراد کے خطوط موصول ہوئے اور خصوصاً پاکستانی احمدی بہنوں نے روتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ والدہ صاحبہ ان سے خاص محبت کے رشتے میں بندھی ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں جب سے میں پیدا ہوئی والدہ کے ساتھ ہی رہی اور ان کے اعلیٰ اخلاق اور نیک سیرت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ کبھی کسی کے بارے میں کوئی منفی بات دل میں نہیں رکھتی تھیں۔ بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کرنے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ ہمیں بچپن سے ہی یہ اصول سکھایا کرتی تھیں کہ سچ کہو خواہ تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ نیز یہ کہا کرتی تھیں کہ اگر تمہاری آنکھ یا تمہارے ہاتھ نے کوئی غلطی کی ہے تو تم میں اتنی جرأت تو ہونی چاہیے کہ اپنی آنکھ یا ہاتھ کو خطا کار کہہ سکو۔ ہر کسی سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتیں۔ ان کی زبان ہر وقت دعاؤں سے تَر رہتی تھی۔ انہیں اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا اور کہتی ہیں کہ شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے مسیح الزمان کی بیعت کی توفیق عطا فرمائی۔
بیٹی یہ لکھ رہی ہیں 2007ء میں مجھے اچانک ایم ٹی اے ملا۔ پھر غائب ہو گیا۔ بڑی تلاش کے بعد کئی سال تک نہیں ملا ۔ ایک دن تین سال کے بعد 2010ء میں پھر ایم ٹی اے العربیہ دوبارہ مل گیا تو میں نے گھر میں شور مچایا ،والدہ صاحبہ کو بلایا کہ چینل مل گیا ہے اور پھر یہی کہا کہ اسی چینل کی مجھے گذشتہ تین سال سےتلاش تھی تو والدہ صاحبہ کو میں نے کہا کہ آئیںا ور سنیں کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ امام مہدی اور مسیح موعود ظاہر ہو چکے ہیں جس کا ہم انتظار کر رہے تھے اور ہمارے والد صاحب بھی یہی بتایا کرتے تھے۔ کہتی ہیں میری والدہ نے بھی میرے ساتھ ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا۔ کچھ دنوں کے بعد میری والدہ صاحبہ نے میرے بہن بھائیوں کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا لیکن ان کی طرف سے ایسی باتیں کہی گئیں جنہیں سن کر والدہ صاحبہ کے چہرے کا رنگ یک دم بدل گیا لیکن ان کی باتوںکی پروا کیے بغیر وہ مسلسل ایم ٹی اے دیکھتی رہیں۔ پھر جب وہ کردستان گئیں تو پھر کہتی ہیں میرے بھائیوں کی باتوں نے ان کے دل پر اثر کیا اور میرے خلاف ہو گئیں ۔پھر دوبارہ میرے پاس آئیں پھر کہتی ہیں مجھے بھی ایم ٹی اے دیکھنے سے روکنے لگیں۔ بہرحال کہتی ہیں جب میں نے بیعت کر لی تو مزید حالات خراب ہو گئے اور میری والدہ کو ان لوگوں نے کہا کہ تمہاری بیٹی کافر ہو گئی ہے اور کہتی ہیں جب میرے بھائیوں کے پاس جاتیں تو میرے خلاف ہوجاتیں ۔واپس آتیں تو پھر ایم ٹی اے دیکھنے لگ جاتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قصائد انہیں بہت پسند تھے اور اکثر انہیں سن کر رونے لگ جاتی تھیں۔ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ قصیدہ کہ؎

یَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانٖ

گنگنا رہی تھیں تو میں نے ان سے کہا کہ کیا ایسے شعر لکھنے والے کو کافر کہا جا سکتا ہے؟ بڑے غصّے سے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں کون ظالم ہے جو ایسے شخص کو کافر کہے گا تو میں نے انہیں کہا کہ آپ کی اولاد بھی اس میں شامل ہے۔ یہ سن کر چپ ہو گئیں۔پھر میں نے اپنی والدہ کو کہا کہ آپ اپنی قوتِ ایمان کی وجہ سے مشہور ہیں پھر آپ کس سے خائف ہیں، خدا سے یا اپنی اولاد سے؟ وہ میرے اس سوال سے بہت متاثر ہوئیں لیکن جواب نہیں دیا۔ اسی رات مجھے بلایا اور کہنے لگیں کہ جماعت کے مرکز کو فون کر کے کہہ دو کہ میں نے بیعت کرنی ہے ،تو پھر میں نے انہیں کہا کہ ابھی دوبارہ آپ سوچیں، غور کریں تا کہ پھر ثابت قدم رہیں۔ بہرحال کہتی ہیں ساری رات انہوں نے شاید غور کیا ،دعائیں کیں اور صبح اٹھتے ہی کہنے لگیں کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں نے بیعت کرنی ہے۔ اسی طرح انہیں جب 2016ء میں مَیں گیا ہوں مجھے ملنے کا بھی موقع ملا۔ بڑی خوش تھیں کہ خلیفۂ وقت سے ملاقات ہوئی ہے اور ہر ایک کو بتاتی تھیں خلافت سے بھی بڑا وفا کا تعلق تھا۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے۔ ان کی بیٹی کے بھی ایمان کو مضبوط رکھے اور ان کے بچوں کو بھی اور باقی جو بچے ابھی احمدی نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ ان کے بھی دل کھولے اور ان کی دعائیں ان کے حق میں قبول ہوں۔

(الفضل انٹرنیشنل 04؍اکتوبر 2019ء صفحہ 5تا 9)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button