دورہ یورپ ستمبر؍ اکتوبر 2019ء

دنیا کے امن اور فردِ واحد کے ذہنی سکون کا سادہ اور آسان طریق اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلّق میں ہے

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

امام جماعت احمدیہ عالمگیر، امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ ہالینڈ کے موقع پر مہمانوں سے بصیرت افروز خطاب

(جلسہ گاہ جلسہ سالانہ ہالینڈ، 28؍ ستمبر 2019ء۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) جلسہ سالانہ ہالینڈ کے دوسرے روز غیر از جماعت مہمانوں کے ساتھ پروگرام تھا۔ جلسہ سالانہ کے اس اجلاس میں دو سو کے قریب مہمان حضورِ انور کے منتظر تھے جن میں ہالینڈ اور جرمنی سے ایک سو کے قریب احباب، 65؍ عرب اور دیگر افریقی اور پاکستانی احباب شامل تھے۔

امام جماعت احمدیہ عالمگیر، امیر المومنین حضرتخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (فائل فوٹو)

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مقامی وقت کے مطابق 4بج کر 33 منٹ پر جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے اور تمام حاضرین کو ’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرمایا۔
حضورِ انور کے کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہونے کے بعدپروگرام کا آغاز ہوا۔ مکرم اظہر نعیم صاحب(سیکرٹری امور خارجہ ہالینڈ)نے میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔مکرم عطاءاللطیف صاحب نے سورۃ الحجرات کی آیت 14کی تلاوت کرنے اور اس آیت کا ڈچ زبان میں ترجمہ پڑھنے کی سعادت پائی۔اس کے بعد تین مہمانوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔

٭…مکرم Dhr. L. KLappe صاحب (کونسل آف Ermeloکے ممبر)نے جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہیں مدعو کیا گیا۔ اور کہا کہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ اُن کی کونسل میں جماعت احمدیہ کے آتے رہتے ہیں ۔ افراد جماعت امن پسند ہیں، فراخ دل ہیں۔ افراد جماعت نہ صرف شہر کی صفائی کے لیے آتے ہیں بلکہ ہم آہنگی، دوستی اور پیار پیدا کرنے کے لیے بھی آتے ہیں۔ ہم اس بات کی بہت قدر کرتے ہیں۔ ہم افراد جماعت کو اپنے شہر میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

٭…مکرم Dhr. Harry van Bommelصاحب (سابق ممبر آف پارلیمنٹ )نے السلام علیکم سے اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک بین الاقوامی کمیٹی کے ممبر ہیںجس نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ وہ احمدی جو پاکستان سے تھائی لینڈ اور ملائیشیا مہاجرین کے طور پر گئے ہیں اُن کے لیے وہاں رہنے کے کیا حالات ہیں۔موصوف نےکمیٹی کے جائزے کے نتائج پڑھ کر سنائے۔جن کا خلاصہ یہ ہے کہ احمدی اچھے حالات میں نہیں رہ رہے۔ نیز یہ کہ مغربی ممالک کو انہیں اپنے پاس بلانے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔

٭…مکرم Dhr. B. van de Weerd صاحب (میئرآف نن سپیت)نے تمام احمدیوں کو نن سپیت میں خوش آمدید کہا۔ انہوںنے کہا کہ افراد جماعت شہر کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کررہے ہیں۔ آپ وہ لوگ ہیں جومعاشرے میں پیار اور محبت پھیلا رہے ہیں۔ یہ ایسا کام ہے جس کی اس زمانہ میں اشد ضرورت ہے۔ آج ہم ایک خاص مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ معاشرے میں بہتری اور پیارے محبت پیدا کرنے کے لیےہر مذہب میں تعلمات ہیں۔ ان کے مطابق ہمیں معاشرے میں بہتر کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بعد ازاں 4 بج کر 53 منٹ پر حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منبر پر رونق افروز ہوئے اور حاضرینِ مجلس سےخطاب فرمایا۔

خطاب حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تشہد و تعوّذ کے بعد حضورِ انور نے تمام مہمانوں کو السلام علیکم کا تحفہ پیش کیا اور فرمایا:
سب سے پہلے میں آپ تمام مہمانوں کی تشریف آوری پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ گو کہ اسلام اور بانی اسلام ﷺکے خلاف ماضی قریب میں بہت کچھ کہا گیا اور کوشش کی جاتی ہےکہ ان کے خلاف نفرت کے جذبات پھیلائے جائیں، لوگوں کو انگیخت کیا جائے۔ اس پس منظر میں آپ لوگوں کا ایسی تقریب میں شامل ہونا جو کہ ایک مسلمان جماعت یعنی جماعت احمدیہ نے منعقد کی قابل ستائش ہے اور آپ کے دلوں کی کشادگی کا پتہ دیتی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم احمدی مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے، اس کے دل کا معاملہ ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی دوسرے کے عقیدے کے خلاف کیچڑ اچھالےیا اسے تضحیک کا نشانہ بنائے۔ اگر ایسا ہو گا تو معاشرے میں نفرتیں پنپنے لگیں گی۔
یہ وہ باتیں ہیں جو اسلام کی بنیاد میں ہیں اور ان ہی کے نتیجے میں ایک خوش گوار معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
بانیٔ اسلام، آنحضرتﷺ کی ذاتِ بابرکات کو ایک لمبےعرصے سے تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہالینڈ میں بھی لوگوں نے اسلام اور قرآنِ کریم اور نبی اکرمﷺ کے متعلق غلط اور جھوٹی باتیں پھیلانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

حضورِ انور ے فرمایا کہ اس مختصر وقت میں مَیں اسلامی تعلیمات اور نبی اکرمﷺ کی سیرت پر کچھ کہوں گا۔ لیکن اس طرف آنے سے پہلے میں عمومی بات کہنا چاہوں گا کہ امن و سکون اور اس کی اہمیت اور افادیت کیا ہے؟
حضورِ انور نے فرمایا کہ

Peace is something we all desire.

کہ امن و سکون ایک ایسی چیز ہے جس کے حصول کی ہر شخص تمنا کرتا ہے۔ چاہے بات انسان کی ذاتی زندگی کی ہو یا قوموں کے یا معاشروں کے درمیان اس کے فروغ کی ہو۔ لیکن امن و سکون ہے کیا؟ اور ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے؟
حضورِ انور نے فرمایا کہ میری رائے میں امن و سکون دو طرح کا ہے۔ ایک باطنی یا اندرونی امن و سکون اور ایک ظاہری امن و سکون۔ ظاہری طور پر تو لوگ اپنے آپ کو خوش و خرّم دکھا سکتے ہیں لیکن اندرونی طور پر وہ پُرسکون نہیں ہوتے۔
بڑی بڑی اقوام کے لیڈر جو بہت امیر کبیر بھی ہوتے ہیں اور ان کے پاس ہر قسم کی مادی سہولت بھی موجود ہوتی ہے، وہ بھی اندرونی امن و سکون سے خالی ہوتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ سادے الفاظ میں ایک چیز جو دولت نہیں خرید سکتی وہ ذہنی سکون ہے۔
مثلاً ایک امیر کبیر ماں کا بچہ گم جائے تو چاہے دنیا کی جو بھی آسائش اسے میسّر ہو، وہ بے چین ہی رہے گی اور اسے اس وقت تک سکون نہیں آئے گا جب تک کہ اس کا بچہ اسے نہ مل جائے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی ذہنی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح معاشرے کے نسبتاًکمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں جو اپنی بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے اندرونی سکون نہیں۔ اس لیے وہ مایوسی اور پریشانیوں کے شکار ہیں۔
ایک جانب امیر لوگ ہیں جو دنیا میں میسّر ہر آسائش رکھتے ہیں لیکن پھر بھی امن و سکون سے عاری ہیں، اسی طرح دوسری جانب انتہائی غریب لوگ بھی ہیں جو بنیادی نعمتوں سے محروم ہیں اور وہ بھی ذہنی سکون سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
ہر کسی کی خواہشات اور ٹارگٹس اپنے اپنے ہو سکتے ہیں لیکن امیر ہو یا غریب آج کے دور میں ہر کوئی قناعت سے عاری دکھائی دیتا ہے، اور بجا طور پر ذہنی سکون اسے میسّر نہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ایسے لوگ جو ان پریشانیوں اور مصائب میں مبتلا ہیں ان کا مذہب سے کوئی خاص تعلق بھی نہیں لیکن پھر بھی آج کل لوگ مذہب کو عموماً اور اسلام کو خصوصاً کسی بھی بات کا ذمہ دار ٹھہرانے میں دیر نہیں لگاتے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک مذہبی رہنما ہونے کے ناطے میں یقین رکھتا ہوں کہ کجا یہ کہ مذہب کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہوں، مذہب ہی ہمیں ان مسائل سے بچنے کے لیے راہ دکھلاتا ہے اور اسلام تو ان کا سادہ اور آسان حل دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
اسلام کہتا ہے کہ ذہنی سکون اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ خدا ہی ہے جو ’سلام‘ ہے، امن اور سکون کا سرچشمہ ہے۔
نبی اکرمﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے، وہ تمام انسانوں کو پیدا کرنے والا اور قائم رکھنے والا ہے۔ وہ صرف مسلمانوں کا رب ہی نہیں بلکہ مسیحیوں،ہندوؤں، یہودیوں اور لادین لوگوں کا بھی ربّ ہے۔
آنحضرتﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنانے کی کوشش کریں۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ان کے پیروکاروں کو دوسروں کا ہم درد رحم دل ہونا چاہیے۔ آپؐ نے جو سنہری اصول دیا وہ یہ ہے کہ ایک سچا مسلمان دوسروں کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ اصول اکیلا ہی معاشرے میں پائیدار امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہے۔
اسلام لوگوں کو بے لوث اور بے نفس ہو کر ہر قسم کی خود غرضی سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام کہتا ہے کہ انسان کو کشادہ قلب اور وسیع النظر ہونا چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے اس زمانے میں ہم اس کی بالکل برعکس صورت حال دیکھتے ہیں۔ لوگ اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ آج معاشرے میں لالچ، طمع اور حرص کا دور دورہ ہے۔ اور ہر قسم کا عدل و انصاف مفقود ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے ممالک کی خارجہ پالیسیاں اس بات کی غماز ہیں۔ بہت سارے ممالک اپنے فوجی مختلف ممالک میں بھجواتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس تمام تر کارروائی کے پیچھے ان کا اپنا مفاد کارفرما تھا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ان کا اگر ایک فوجی مارا جائے تو بدلہ لینے کی آگ بھڑکتی ہے اور وہ بیان بازی کرنے لگتے ہیں لیکن اگر ان ہی کے بموں سے ہزاروںبے گناہ اور پُر امن اور نہتّے شہری جن میں بچے اور خواتین شامل ہوتے ہیں مارے جاتے ہیں تو ان کی طرف سے مکمل خاموشی ہوتی ہے اور کوئی دکھ اور افسوس نہیں کرتے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس قسم کی کارروائیوں کے نتائج پھر بہت ہولناک اور دور رس ہوتے ہیںکیونکہ مقامی لوگوں کو اپنی زندگی کی حیثیت بہت کم دکھائی دینے لگتی ہے۔
طاقت ور ممالک کی جانب سے دوہرے معیار اختیار کیے جانے پر معاشرے میں مایوسی، اور غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
حضور فرماتے ہیں کہ مغربی ممالک کے لوگ سمجھتےہیں کہ وہ اپنی ان کارروائیوں کے بعد اپنے ممالک میں پُر امن رہیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ ان کے ممالک میں بھی ان کاموں کے بد اثرات ضرور پہنچیں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر ہم واقعی امن کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اسلام کے بیان فرمودہ اس سنہری اصول پر عمل کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی ذات، اپنے معاشرے ،اپنے ملک اور بین الاقوامی طور پر انصاف کو قائم کرتے ہوئے دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرنا ہو گا جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ دنیا میں حقیقی امن اور سلامتی کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے کیونکہ وہ امن کا سرچشمہ ہے۔ آج اس دور میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کی بنیادی وجہ ہر سطح پر خود غرضی سے کام لینا ہے۔ ہر حکومت اور ہر سیاسی رہنما چاہے اس کا تعلق امریکہ سےہو، چین سے ہو، روس سے ہو یا یورپ یا کسی اسلامی دنیا سے ہو وہ جنگ کے خلاف بات تو کرتا ہے لیکن ان کے کام اور ان کے عمل اس کےبرعکس نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے ہی لوگوں، اپنی ہی قوم کے مفاد کے لیے آواز اٹھاتا ہےاور ان کی پالیسیاں خود غرضی پر مبنی ہوتی ہیں۔
بعض ممالک میں دوسروں کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں اور ناانصافیوں کے نتیجے میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کا امن تباہ ہو رہا ہے۔
اور اگر دو اقوام مل بیٹھ کر خلوص کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کرتی ہیں تو بڑی طاقتیں اس میں بھی اپنا فائدہ سوچتے ہوئے ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ معصوم لوگوں کو ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اور گھروں کے گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔ شہر، گاؤں، قصبے ملیامیٹ کر دیے جاتے ہیں۔ اور اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ یہ کہ مقامی لوگوں میں سخت مایوسی اور پھر بےچینی پیدا ہو تی ہے۔ اور ایسی ہی صورت حال ہم نے مسلمان ممالک میں دیکھی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ماضی قریب میں کیے جانے والے فیصلے یا اقدامات دنیا کو امن و سلامتی کی طرف لے جا رہے ہیں؟ کیا اسلام کو دنیا کے حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرانے والے اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ آج دنیا کے حالات کا ذمہ دار اسلام ہے؟ کیا وہ آج ہونے والی ناانصافیوں کا ذمہ دار نبی اکرمﷺ کی ذاتِ بابرکات کو ٹھہرا سکتے ہیں؟

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج دنیا جن بے چینیوں اور مسائل میں گھر چکی ہے چاہے وہ مسلمان ممالک میں ہو یا غیر مسلم ممالک میں اس کا تعلق قطعاً اسلام سے نہیں۔ ان حالات کی ذمہ داری مغربی ممالک پر بھی عائد ہوتی ہے اور ان غریب ممالک پر بھی جہاں پر ایک طرف حکومتیں غیر منصفانہ ہیں تو دوسری جانب باغیوں کے جتھے۔ہر کوئی طاقت کے حصول کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہے جس کے نتیجے میں حالات پیچیدگی کی طرف مائل ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج کوئی بھی شخص انصاف کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام یا اسلامی تعلیمات آج کے حالات کی ذمہ دار ہیں، یا اسلامی تعلیمات نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ہوا دی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ نے تو یہ تعلیم دی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہی سلامتی کا منبع اور تمام بنی نوع انسان کا ربّ ہے۔ قرآنِ کریم کی پہلی صورت ہی اللہ کو ’ربّ العالمین‘ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام دنیا میں بدامنی کو فروغ دینے کی تعلیم دے۔ اسلام تو بین المذاہب تبادلہ خیال اور امن اور رواداری کو فروغ دینے کی بات کرتا ہے۔ مقامی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔بانیٔ اسلامﷺ نے جب دنیا کو امن کا پیغام دیا تو اس پر عمل کر کے بھی دکھایا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر شخص انسانی اقدار کو پہچانے اور ان کا پاس کرے۔ نبی اکرمﷺ کو جنگوں کا شوق نہیں تھا۔ سب سے پہلے مسلمانوں کو مکہ میں تکالیف سہنی پڑیں۔ اور کئی سال شدید تکالیف سہنے کے بعد انہوں نے پہلے حبشہ ہجرت کی جہاں کے بادشاہ تک رابطہ کر کے اسے مسلمانوں کی مدد سے باز رہنے سے کہا گیا۔ نیز اس کے سامنے بھی اسلام کے خلاف باتیں کی گئیں۔ بادشاہ کے پوچھنے پر اسلام کے نمائندے نے بھی یہی کہا کہ وہ ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں اور معاشرے میں رواداری اور امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کے حامی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ امیر غریب کے، مضبوط کمزور کے حقوق کو غصب نہ کرنے والا نہ ہو اور غریب امیر سے حسد نہ کرے۔
شاہ نے پوچھا کہ کیا مسلمان عہدوں کو توڑتے ہیں یا جھوٹ بولتے ہیں؟ تو کفارِ مکہ نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ان تمام کارروائیوں کے باوجود تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے نہ کبھی جھوٹ بولا، نہ کسی پر ظلم کیا اور نہ ہی کبھی بے انصافی سے کام لیا۔ آپؐ نے ہر موقعے پر صبر کیا۔ آپؐ نے مکی دور میں بھی انتہائی صبر سے کام لیا۔ ان مظالم کے باوجود آپؐ نے کبھی ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائی اور نہ ہی مکہ کی انتظامیہ کے خلاف بغاوت کی۔ بلکہ مسلمان تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت کہ ُعبادالرحمٰن تو وہ ہیں جو زمین پر وقار کے ساتھ چلتے ہیں۔ اور جب کوئی جاہل ان سے کلام کرتا ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے ’سلام‘ اپنے کردار کو پیش کرتے رہے۔اسی طرح مسلمان بدلے کے جذبات بھی دباتے تھے اور کبھی اپنے دشمنوں سے بدلے کی آگ میں نہ جلتے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ’اللہ تعالیٰ تمہیں امن کی طرف بلاتا ہے‘۔ یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے مسلمان امن کے خواہاں تھے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ جب یہ مظالم انتہائی شدّت اختیار کر گئے تو مجبوراً مسلمانوں کو مکّہ سے مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ اور پھر بھی کفّارِ مکہ نے مسلمانوں کو امن کے ساتھ نہیں رہنے دیا اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کو ختم کرنے کا ارادہ کیا۔ اس وقت مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دفاع کرنے کی اجازت دی گئی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کو صرف اپنا دفاع کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ قرآنِ کریم کی آیت یہ واضح کرتی ہے کہ تمہیں جنگ کے لیے جو اجازت دی گئی ہے وہ اس لیے ہے تا کہ مذہب کی حفاظت کی جائے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس بات کو یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی تھی کہ جنگ کے موقعے پر بہت ساری باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ مثلا جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک کرنا ہے۔ کسی بچے، عورت، بوڑھے مریض پر حملہ نہیں کرنا۔ کسی عبادت گاہ کو مسمار نہیں کرنا۔پھر نبی اکرمﷺ کا یہ حکم تھا کہ اگر فریقِ مخالف کی طرف سے کسی بھی قسم کی دوستی کاہاتھ بڑھایا جائے تو اسے قبول کیا جائے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ پھراسلام پر یہ جو الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ خون خرابے کا دل دادہ تھا اور اسلامی جنگوں کی وجہ سے بے دریغ انسانوں کو قتل کیا گیا۔ اگر ہم اسلامی جنگوں کے مقتولین کی تعداد مستشرقین کے لکھے ہوئے تجزیے کے مطابق بھی دیکھیں تویہ بات واضح ہو جائے گی کہ اُس زمانے میں جنگوں میں مرنے والے لوگوں کی تعداد آج کے زمانے میں ہونے والی جنگوں میں کام آنے والوں کے مقابلے پر انتہائی حقیر ہے۔ اس لیے اسلام کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دینا مناسب نہیں۔ اسلام تو مختلف لوگوں، مختلف اقوام اور معاشروں کے درمیانی خلیج کو محبت سے پُر کرنے کا قائل ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم کی پہلی صورت میں ہی فرماتا ہے کہ ‘تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔’ جب اسلام کا خدا تمام جہانوں کا ربّ ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس کے ماننے والے کسی کے لیے نفرت اور بغض کے جذبات رکھتے ہوں۔اس لیے بطور مسلمان ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سب کا ربّ ایک ہی ہے۔
بطور مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے خدا کے حضور جھکیں اور اسی کی عبادت کریں۔ اور تمام مخلوق سے محبت کے جذبات اپنے اندر رکھیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ مذہب کا اختیار کرنا ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ قرآنِ کریم کی متعدّد آیات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں سے محبت اور رواداری کی توقع رکھتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایسی تعلیمات دینے والے مذہب کا بانی اپنے ہی مذہب کی تعلیمات کے خلاف کام کرنے والا ہو۔ دیانت دار مورخین اس بات کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے کبھی بھی کسی پر ظلم نہیں کیا۔ اور کبھی بھی اپنی جانب سے کیے گئے امن کے معاہدوں کونہیں توڑا، کبھی دوسروں کے حقوق سلب نہیں کیے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم نبی اکرمﷺ کو رحمۃ للعالمین کا درجہ عطا فرماتا ہے۔ اس لیے ہم احمدی مسلمان آپؐ کے وہ پیروکار ہیں جو ’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آج کے مشکل دور میں اسلام کے خلاف تعصّب کو ہوا دینے کی بجائے ضروری ہے کہ انصاف کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا جائے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ کچھ مسلمان ایسے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے نا آشنا ہیں ، ایسا صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ ہر معاشرے میں ایسا طبقہ پایا جاتا ہے۔ جہاں کہیں بھی ایسے نوجوان ہیں جو مایوسی کا شکار ہیں تو وہ لوگ بڑی آسانی سے شدّت پسندوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر ہم معاشرے میں امن کو برباد کرنے والے عوامل کا انصاف کے ساتھ جائزہ نہیں لیں گے تو دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ دنیا کو ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی بجائے اپنے اختلافات کو بھلا کر، باہمی احترام کے ساتھ اور مل جل کر اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو ایک بہترین مستقبل مہیا کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ ایسے معاشرے کو قائم کیا جاس کے جو متحد ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی رواداری پر مبنی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس معرکہ آرا خطاب کے بعد حضور کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہوئے اور 5 بج کر 30 منٹ پر دعا کروائی۔ بعد ازاں حضور انور نے مکرم امیر صاحب ہالینڈ سے مختصر کفتگو فرمائی اور معزز مہمانوں کو جنہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کیا تھا شرف مصافحہ بخشا اور اُن کی تشریف آوری پر ان کاشکریہ ادا فرمایا۔
بعد ازاں حضور پُر نور اور تمام مہمان بیت النور کے لان میں تشریف لے گئے جہاں مارکی میں ان کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔ کھانے کے بعد تمام مہمانوں کو حضورِ انورسے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ حضورِ انور نے ہر ایک سے تعارف حاصل کیا اور گفتگو فرمائی۔ اس تقریب میں شامل ہونے والے معزز مہمانوں میں سے بعض کے اسماء حسب ذیل ہیں:

حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شام سات بج کر دس منٹ تک وہاں رونق افروز رہے اور پھراندرونِ خانہ تشریف لے گئے۔

اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف آواز اٹھانے میں اپنی پہچان رکھنے والے اس ملک سے نبی اکرمﷺ کے بابرکت اسوے اور اسلام کی بے مثال امن پسند تعلیمات کا پرچار ایک انتہائی خوش آئند بات تھی۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے پیارے خلیفہ کی اس بابرکت موجودگی کے مثبت اثرات پیدا فرمائے اور دنیا کو پریشانیوں سے نجات دلاتے ہوئے حقیقی امن و سکون کی نعمت سے مالامال فرما دے۔

کوریج:
یہ خطاب ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ پوری دنیا میں براہِ راست سنا اور دیکھا گیا۔ مزید برآں سیرالیون کے ٹی وی چینلز SLBC, AYV اور FTN نے حضورِ انور کا یہ خطاب براہِ راست نشر کیا۔

(رپورٹ: عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برائے دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر 2019ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button