الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

قرآن کریم سے صادقانہ محبت

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ اگست 2011ء میں جماعت احمدیہ میں قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے کی سچی لگن کے چند دلکش واقعات مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں جن میں سے انتخاب درج ذیل ہے:

٭………حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ قادیان میں خاکسار اُس کمرہ کے باہر سویا ہوا تھا جس میں حضرت مسیح موعودؑ تشریف رکھتے تھے۔ رات کو عاجز کی آنکھ کھلی تو حضورؑ اس طرح چلّاچلّاکر قرآن شریف کی تلاوت فرمارہے تھے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب سے عشق کا اظہار کرتا ہے۔ حضورؑ کے عشق کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔

٭………حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جنہوں نے حضور علیہ السلام کو تلاوت قرآن کرتے ہوئے سنا ہے وہ جانتے ہیں کہ آپؑ کے کلام میں ایک درد، رقّت اور محبت کی لہر ہوتی تھی، باوجودیکہ اس میں موسیقی کا رنگ نہ ہوتا تھا مگر اس میں بے انتہا جذب اور کیف آور لہر ہوتی تھی۔ آپؑ کے قرآن مجید پڑھنے کے کئی طریق تھے۔ بعض اوقات اس نیت سے پڑھتے تھے جبکہ آپؑ کو کوئی مضمون لکھنا ہوتا تھا۔ اس کا رنگ بالکل الگ تھا۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے محبت و عشق کی کیفیت میں ایک ہنگامہ خیز کیف پیدا کرنے کے لیے تلاوت کرتے تھے اور یہ علی العموم آپؑ رات کو فرمایا کرتے تھے جبکہ دنیا سوئی ہوتی تھی۔ اس وقت آپؑ گنگناکر قرآن مجید پڑھتے اور آپؑ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔

٭………حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں کہ تقریر کے لیے اثر پیدا کرنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پھر خداتعالیٰ اس شخص کی بات کو ضائع نہیں جانے دیتا۔ ایک شخص یہاں آیا جو میری محبت سے معمور نظر آتا تھا۔ اُس نے کہا کہ آپؓ نے ایک دفعہ درس میں فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص قُلْ ھُوَاللّٰہ جتنا قرآن ہر روز یاد کرے تو سات سال میں حافظ ہوجائے گا۔ مَیں نے اس پر عمل شروع کیا، اب ستائیسواں پارہ حفظ کرتا ہوں۔

٭………حضرت مصلح موعودؓ پر 1954ء میں قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد آپؓ کی صحت مسلسل گرتی گئی۔ 1956ء میں حضورؓ نے ایک بڑے لائق ڈاکٹر کو بلوایا اور اپنی کیفیت یوں بیان فرمائی کہ مَیں نے قرآن شریف کا ایک سیپارہ ہی پڑھا تھا کہ میری طبیعت گھبراگئی۔ وہ کہنے لگا ایک سیپارہ تو بڑی چیز ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اُس بے چارے کو تو قرآن شریف پڑھنے کی عادت نہیں تھی۔ مَیں نے کہا مَیں نے تندرستی میں بعض دفعہ رمضان شریف میں پندرہ سولہ سیپارے ایک سانس میں پڑھے ہیں۔ پس میری تو ایک سیپارہ پر گھبراہٹ سے جان نکلتی ہے کہ مجھے ہوکیا گیاہے۔

٭………حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1958ء کے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ اب یہ حالت ہے کہ کھڑا ہونا بھی میرے لیے مشکل ہوتا ہے، بیٹھنا بھی مشکل ہوتا ہے اور رات کو لیٹنا بھی میرے لیے مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ احسان رہاہے کہ باوجود بیماری کے حملہ کے اور اس پر ایک لمبی مدت گزر جانے کے مجھے قرآن کریم نہیں بھولا۔ جب بھی کوئی آیت پڑھتا ہوں تو اس کے نئے معارف میرے دل میں آتے ہیں۔ اور اس سال تو قرآن کریم کے کثرت سے پڑھنے کی اتنی توفیق ملی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ملی یعنی جون سے اب تک چوبیس پچیس دفعہ قرآن کریم ختم کرچکا ہوں۔

٭………روٹری کلب لاہور کے صدر جناب سعید۔ کے ۔حق کی دعوت پر حضرت مصلح موعودؓ نے کلب میں Service above Self کے موضوع پر قریباً ایک گھنٹہ نہایت پُراثر انگریزی میں خطاب فرمایا جس کو ہر ایک نے خوب سراہا۔ جنہوں نے حضورؓ کو مدعو کرنے کی مخالفت کی تھی وہ بھی کہنے لگے کہ حضور کو دوبارہ بھی بلائیں۔ غیرملکی مہمانوں میں سے کسی نے پوچھا کہ آپ کس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں؟ حضورؓ نے جواب دیا کہ مَیں قرآن کی یونیورسٹی سے پڑھا ہوں اور تمام علوم قرآن سے ہی حاصل کیے ہیں۔ کسی کالج یا یونیورسٹی کا پڑھا ہوا نہیں ہوں۔

٭………حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ لکھتے ہیں کہ حضرت مولوی غلام نبی صاحبؓ کو قرآن کریم سے عشق ہے۔ بیماریوں کی وجہ سے سارا قرآن حفظ نہ کرسکے تاہم بہت حد تک حافظ ہیں۔ اپنے طالب علموں کو فرماتے ہیں کہ ہر روز دو تین آیات حفظ کرکے اور ان کو سنن اور نوافل اور وتروں میں پڑھتے رہیں۔ جب خوب حفظ ہوجائیں تو آگے کی آیات حفظ کرلیں۔ جب مَیں بچہ تھا تو مَیں نے دیکھا کہ مولانا اپنی شادی کے دو تین دن بعد ہی اپنی بیوی کو قرآن کریم ترجمے سے پڑھانے لگ گئے تھے۔

٭………حضرت سیّد محموداللہ شاہ صاحبؓ حافظِ قرآن تھے اور بچپن میں حضرت مسیح موعودؑ کو قرآن کریم سناکر حضورؑ سے پیار بھی لے چکے تھے۔ جب آپؓ ہیڈماسٹر تھے تو ہر کلاس کو ترتیب سے قرآن کریم کا کچھ حصہ حفظ کرنے کے لیے دیا ہوا تھا اور اس طرح اگر سکول کے سارے طلباء جمع ہوں تو سارا قرآن مجید زبانی سنا جاسکتا تھا۔

٭………حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ کے بھتیجے مکرم عبدالشکور اسلم صاحب لکھتے ہیں کہ میٹرک میں زیرتعلیم رہتے ہوئے مجھے چھ ماہ کے قریب تایا جان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ آپؓ کو قرآن کریم سے عشق تھا۔ صبح تین بجے مجھے جگادیتے۔ نیم گرم پانی تیار ملتا۔ وضو کرکے آپؓ کے ساتھ نماز تہجد میں شامل ہوتا۔ پھر نماز فجر ادا کی جاتی جس کے بعد قرآن مجید کا دَور شروع ہوتا۔ آپؓ مجھے تفسیر سمجھاتے اور آیات کے باہم ربط پر روشنی ڈالتے۔ قرآن کریم کے مضامین بیان کرنا اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ جب مَیں ملازمت کے سلسلہ میں ربوہ سے باہر چلاگیا تو خط کے ذریعے قرآن کریم کے تازہ مضامین بھجواتے اور اس بات کا خیال رکھتے کہ مَیں علماء کے درسوں میں شامل ہوں اور نئے نکات بیان ہوں تو ان کا ذکر بھی آپؓ سے کروں۔

٭………حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی غلام حسن صاحبؓ کی عمر ستّر سال کے قریب تھی مگر جوش ایسا تھا کہ اگر کوئی کہہ دے کہ مَیں قرآن شریف یا حدیث یا عربی پڑھنا چاہتا ہوں تو خواہ اس کا مکان چار میل دُورہو، بِلاایک پیسہ معاوضہ لیے بلاناغہ اس کے مکان پر پہنچ جاتے تھے۔

٭………مکرم محمد شفیق قیصر صاحب کے والد محترم چودھری محمد حسین صاحب ضلع راجن پور کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ اپنے خاندان میں پہلا احمدی ہونے کی سعادت پائی اور آپ کی تبلیغ سے دیگر افرادِ خاندان احمدیت کی آغوش میں آئے۔ قرآن کریم کے عاشق تھے اور ایک چھوٹے سائز کا نسخہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتے۔ زمینداری کے دوران جب بھی وقت ملتا تو دوسروں کی طرح گپ شپ کرنے یا حقّہ پینے کی بجائے تلاوت میں مصروف ہوجاتے۔اگر ایسا وقت ہوتا جب روشنی کم ہونے کی وجہ سے قرآن کریم پڑھ نہ سکتے تو قرآن کریم کی مسنون دعائیں بلند آواز سے پڑھتے رہتے۔

………٭………٭………٭………

سیالکوٹ کا شہر

ماہنامہ ‘‘خالد’’ اپریل 2011ء میں مکرم مرزا عرفان بیگ صاحب کے قلم سے حضرت مسیح موعودؑ کے وطن ثانی سیالکوٹ شہر کا تعارف شائع ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ‘‘براہین کی تالیف کے زمانہ کے قریب اسی شہر میں تقریباً سات سال پہلے رہ چکا ہوں۔ … وہ زمانہ میرے لیے نہایت شیریں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی اور کثرت میں وحدت تھی اور شہر میں ایسا رہتا تھا جیسا کہ ایک جنگل میں۔

مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے کیونکہ اپنی اوائل زمانہ کی عمر کا حصہ مَیں اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت پھِر چکا ہوں۔’’

حضور علیہ السلام 1864ء میں پہلی بار سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے۔ دوسری بار 1878ء میں اور پھر ماموریت کے بعد 1892ء میں تشریف لے گئے۔ 1904ء میں ‘‘لیکچر سیالکوٹ’’ کی تقریب کی غرض سے اس شہر کا سفر اختیار فرمایا۔

کہتے ہیں کہ قریباً چار ہزار سال قبل اس شہر کی بنیاد راجا سل (یا سلا) نے رکھی تھی۔ اس نے ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا تھا اور اس بستی کا نام اپنے نام پر سلکوٹ رکھا۔ پھر بکرماجیت کے عہد میں راجا سالی واہن (سالباہن) نے اس پر قبضہ کیا۔ جدید نظریہ یہ ہے کہ سیالکوٹ ایک قدیم شہر ‘‘سکالا’’ کے کھنڈروں پر آباد ہے۔ یونانی بادشاہوں کے عہد میں یہ Euthydemus خاندان کا دارالحکومت رہا اور پھر ھنؔ قبائل نے اس پر قبضہ کرلیا۔ شہنشاہ اکبر کے دَور میں سیالکوٹ ایک ‘‘سرکار’’ کا صدرمقام تھا۔ سترہویں صدی کے نصف میں جموں کے راجپوت راجا اس پر قابض ہوگئے۔ یہاں بابانانک کا ایک گردوارہ بھی ہے جہاں سالانہ میلہ لگتا ہے۔ 1849ء میں باقی صوبہ پنجاب کے ساتھ ضلع سیالکوٹ پر بھی انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ 1857ء میں سیالکوٹ حرّیت پسندوں کے اہم مراکز میں سے تھا اور کچھ عرصہ انقلابیوں کا اس پر قبضہ بھی رہا۔ اس دوران یہاں کی مختصر انگریز آبادی پرانے قلعے میں پناہ گزین ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد ضلع گورداسپور کی تحصیل شکرگڑھ بھی اس ضلع میں شامل کردی گئی۔ 1965ء کی جنگ میں بھارتی فضائیہ نے یہاں کی شہری آبادی کو بڑی بے دردی سے بمباری کا نشانہ بنایا۔

………٭………٭………٭………

بیڈمنٹن

ماہنامہ ‘‘خالد’’ اپریل 2011ء میں مکرم شہریارطور صاحب نے بیڈمنٹن کی تاریخ اور قواعد و ضوابط پر روشنی ڈالی ہے۔

بیڈمنٹن کا کھیل اٹھارہویں صدی کے وسط میں برٹش انڈیا کے برٹش ملٹری آفیسرز نے ایجاد کیا۔ خیال ہے کہ یہ ایک برٹش کھیل Battledore & Shuttlecock کی جدید شکل ہے۔فرق یہ ہے کہ بیڈمنٹن میں اون کے گولوں کی بجائے شٹل کاک نے لے لی ہے۔ 1860ء میں Isaac Spratt نامی کھلونوں کے تاجر نے اس کھیل کے بارے میں پہلا کتابچہ شائع کیا لیکن اس کو پذیرائی نہ مل سکی اور1887ء میں یہ کھیل برٹش انڈیا کے قواعد کے مطابق ہی کھیلا گیا۔ پھر 13؍دسمبر 1893ء کو بیڈمنٹن ایسوسی ایشن آف انگلینڈ نے وہ ابتدائی قواعد بنائے جو آج بھی اس کھیل کا حصہ ہیں۔

1899ء میں آل انگلینڈ اوپن بیڈمنٹن چیمپئن شپ کا اجرا ہوا۔ انٹرنیشنل بیڈمنٹن فیڈریشن جو آجکل بیڈمنٹن ورلڈ فیڈریشن کہلاتی ہے اس کے ابتدائی اراکین میں کینیڈا، ڈنمارک، انگلینڈ، فرانس، ہالینڈ، آئرلینڈ، نیوزی لینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل تھے۔ جبکہ اس کھیل کو بہترین کھلاڑی دینے والے ممالک میں چین سرفہرست ہے البتہ ڈنمارک، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور ملائشیا بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

1992ء سے اسے اولمپک کھیلوں میں بھی شامل کرلیا گیا۔ اولمپک کا یہ واحد کھیل ہے جس میں مکسڈ ڈبلز کا مقابلہ ہوتا ہے۔ چین اس کھیل کے میڈلز جیتنے والوں میں سرفہرست ہے۔

ہر سال بیڈمنٹن کے دو عالمی ٹورنامنٹ بھی منعقد ہوتے ہیں۔ پہلا ‘تھامس کپ’ کے نام سے 1948-49ء سے جاری ہے۔ اس کو شروع کرنے کا خیال ایک معروف کھلاڑی Sir George Thomas کو آیا تھا۔ 1956-57ء میں اس ٹورنامنٹ میں Ubber Cup بھی شامل کردیا گیا جو خواتین کھلاڑیوں کے لیے مخصوص ہے۔ دوسرا عالمی ٹورنامنٹ Sudirman Cup کے نام سے 1981ء میں جکارتہ میں جاری ہوا جسے انڈونیشیا کے سابق کھلاڑی Sir Dick Sudriman کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس کے پہلے ٹورنامنٹ میں 28 ممالک نے حصہ لیا تھا جن کی تعداد اب پچاس سے تجاوز کرچکی ہے۔

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ کینیڈا جولائی 2012ء میں مکرم پروفیسر محمد اسلم صابر صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو کینیڈا میں خوش آمدید کہنے کے لیے کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

سنتے ہیں عنقریب ہے آمد حضور کی
اُڑتی سی اِک خبر ہے زبانی طیور کی
آ آ میرے امام کہ آنکھیں ہیں فرشِ راہ
آ کچھ تو کم ہوتیں دلِ ناصبور کی
اِک اِک چراغ گُل ہوا ظلمت ہے چھا گئی
محتاج ہے یہ دھرتی خلافت کے نُور کی
آگے قدم بڑھا امامت کے سائے میں
ساعت نہیں ہے دُور اب دیں کے ظہور کی
کہتے ہیں اس وجود پہ جلوۂ حق ہوا
صابرؔ چلو نہ ہم بھی کریں سیر طور کی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button