متفرق مضامین

خلفائے احمدیت کی اہالیانِ ربوہ سےتوقعات

(فراست احمد راشد۔ ربوہ)

اللہ تعالیٰ نے اپنی منشاء کے مطابق حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت کو بے انتہا برکتوں سے نوازا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اس حقیقی اسلام کی علم بردار جماعت کو خلافت جیسی نعمت عظمیٰ عطا کی گئی وہیں خلفائے سلسلہ کی معاونت کے لیےنئے راستے بھی عطا کیے جاتے رہے۔ جن میں ہر دور کے مطابق نئے مرکز کا عطا ہونا بھی ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓنے الٰہی منشاء کے مطابق قادیان دارالامان سے ہجرت کے بعد “ربوہ”کو نیا مرکز بنایا۔آپ ؓ نے اس کی بنیاد ہی ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ خدمت و اشاعت دین کی غرض سےرکھی اور اس کو ایک مثالی شہر بنانے کے لیے کئی تحریکات بھی فرمائیں۔اسی طرح بعد میں آنے والے خلفاء بھی اس بابت ہدایات عطافرماتے رہے۔ یہی وہ پاک خزانے ہیں جن کی بدولت آج ربوہ ایک شہرِتمنا ہے۔جس کے دیدار کی خواہش نہ صرف ایک احمدی کے دل میں ہر دم رہتی ہے بلکہ غیر بھی دبے لفظوں اس کو اپنے بچوں کے لیے سب سے موزوں جائے رہائش قرار دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

ذیل میں ہم خلفائے سلسلہ کی اہلیانِ ربوہ سے توقعات کے ضمن میں مرکز کے رہائشیوں کے فرائض کا جائزہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت احمدیہ کی طرف سے جاری ہونے والی ہر ہدایت پر عمل کرنے اور ہر توقع پر کما حقہ پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ربوہ کی بنیاد کی غرض۔ دین کی اشاعت

ربوہ کی بنیاد ہی اشاعت اسلام کے مشن کو جاری رکھنے کی غرض سے ڈالی گئی تھی ۔ چنانچہ اس بابت حضرت مصلح موعود ؓاپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍مئی 1954ء میں فرماتے ہیں:

‘‘ربوہ کی بنیاد کی غرض یہ تھی کہ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کرنے والوں کو اس غرض سے بسنا چاہیے کہ وہ یہاں رہ کر دین کی اشاعت میں دوسروں سے زیادہ حصہ لیں گے۔ ہم نے اس مقام کو اس لیے بنایا ہے کہ تا اشاعت دین میں حصہ لینے والے لوگ یہاں جمع ہوں اور دین کی اشاعت کریں اور اس کی خاطر قربانی کریں۔ پس تم یہاں رہ کر نیک نمونہ دکھاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔ تم خداتعالیٰ سے تعلق قائم کرلو۔ اگر تم اس کی رضا کو حاصل کرلو تو ساری مصیبتیں اور کوفتیں دور ہوجائیں اور راحت کے سامان پیدا ہو جائیں۔’’

(تاریخ احمدیت جلد13 صفحہ172)

ربوہ میں مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کو ہدایت

اشاعت دین کے مشن کو جاری رکھنے کی خاطر آپ ؓنے ربوہ میں زمین خرید کر مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کو ہدایت فرمائی کہ ہم اس مرکز کو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت کا ایک نمونہ بنانا چاہتے ہیں ۔اس لیے جو لوگ بھی مکان بنا کر مستقل طورپر یہاں رہنا چاہیں گے انہیں بعض شرائط اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرنی ہوگی۔

مثلاً ہر شخص کو خواہ اس کی تجارت کا نقصان ہو یا اس کے کاروبار پر اس کا اثر پڑے سال میں ایک ماہ خدمت دین کے لیے ضرور وقف کرنا ہوگا۔ہر بچے اور بچی کو سکول میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ ہر فرد بشر کے لیے اسلامی اخلاق کو اس درجہ اپنانا ضروری ہوگا کہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بن سکے۔ مثلاً نماز باجماعت کی پابندی ، داڑھی رکھنا وغیرہ وغیرہ۔

(الفضل 20؍اپریل 1949ء صفحہ4)

حضورؓ نے ربوہ کے رہائشیوں کے لیےخدمت دین کے لیے وقف کرنے کی شرط کو لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا :

“…یہ شرط ہوگی کہ صرف ایسے ہی لوگوں کو ربوہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی جو اپنی زندگی عملی طور پر دین کی خدمت کے لیے وقف کرنے والے ہوں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہاں رہنے والا کوئی شخص دکان نہیں کرسکتا یا کوئی اور پیشہ نہیں کرسکتا۔ وہ ایسا کرسکتا ہے مگر عملاً اسے دین کی خدمت کے لیے وقف رہنا پڑے گا جب بھی سلسلہ کو ضرورت ہوگی وہ بلاچون و چرا اپنا کام بند کرکے سلسلہ کی خدمت کرنے کا پابند ہوگا …صحابہؓ بھی دنیا کے کام کرتے تھے…سارے کے سارے پیشہ ور تھے…مگر رسول کریمﷺجب جنگ کے لیے نکلتے تو وہ سب کے سب آپؐ کے ساتھ چل پڑتے تھے ۔اس زمانہ میں جنگ تھی اس زمانہ میں تبلیغ کا کام ہمارے سپرد ہے۔ آپﷺصحابہؓ سے فرماتے چلو تو وہ سب چل پڑتے تھے وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری دکانیں بند ہوجائیں گی۔ پھر یہ بھی نہیں کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے۔ آج کل لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر ہم دین کی خدمت کے لیے جائیں تو ہمارے بیوی بچوں کو کون کھلائے گا؟ سوال یہ ہے کہ آیا صحابہؓ کے بیوی بچے تھے یا نہیں۔ اگر تھے جنگ پر جانے کے بعد انہیں کون کھلاتا تھا؟”

(خطبہ جمعہ 21؍ستمبر1949ء)

خدا سے مانگنا ہے کسی بندے سے نہیں مانگنا

اہلیان ربوہ کو اس بات کی نصحیت کرتے ہوئے کہ وہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے انسان سے امید نہ لگائیں حضرت مصلح موعودؓ نےاپنے خطبہ جمعہ فرمودہ21؍ستمبر 1949ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
“اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لیے بسائیں پس اس موقع پر ہمیں بھی اور یہاں کے رہنے والے سب افراد کو بھی یہ عزم کرلینا چاہیے کہ انہوں نے خدا سے مانگنا ہے کسی بندے سے نہیں مانگنا تم اپنے دل میں ہنسو۔ تمسخر کرو کچھ سمجھو حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے معزز روزی وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مانگی جائے۔’’

نیز فرمایا: “پس اس مقام کے رہنے والوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ توکل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلند رکھیں…یہ جگہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے۔ ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنے اعزہ اور اقارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کرے…اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اعلیٰ مقام دے تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس مقام کو دین کا مرکز بنائے رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لیے وہ اپنی زندگیاں وقف کرتے چلے جائیں ۔”

(الفضل 6؍اکتوبر 1949ء صفحہ 3تا 5)

اہل ربوہ نیکیوں میں سب سے آگے بڑھیں

مرکز کے رہائشی ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ ذمہ داری اہلیان مرکز کی ہوا کرتی ہے کہ وہ نیکیوں میں سب سےزیادہ بڑھے ہوئے ہوں۔ چنانچہ 22؍ مارچ 1968ء کومسجد مبارک ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒنے اہلیانِ ربوہ کو ان کے فرائض کی طرف آگاہ کرتےہوئے فرمایا:

“اس لیے آج میں چاہتا ہوں کہ اہل ربوہ کو اپنا پہلا مخاطب بناؤں (ویسے تو سارے احمدی ہی میرے مخاطب ہیں)اور ان کو اس طرف متوجہ کروں کہ دوسروں کی نسبت آپ پر زیادہ ذمہ داری ہے دوسروں کی نسبت اللہ تعالیٰ نے دنیوی سہولتیں آپ کو زیادہ دی ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ سب سے زیادہ نیکیوں میں آپ آگے بڑھیں لیکن آپ تو بہتوں سے پیچھے رہ رہے ہیں اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ربوہ کو بڑی قربانیاں دینے کی توفیق دی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جہاں اکثریت مالی قربانیوں میں آگے ہی آگے بڑھنے والی ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی آمد کی صحیح تشخیص نہیں کرتے اور خصوصاً دکاندار ربوہ کے ماحول میں مہنگی اشیاء بیچتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں لیکن اپنے ربّ کی راہ میں زیادہ اموال خرچ کرنے کی طرف وہ متوجہ نہیں ہوتے اگر وہ خدا کی راہ میں، خدا کے لیے غلبہ اسلام کی خاطر ان اموال کا ایک بڑا حصہ خرچ کر دیتے تو ان کی بہت سی کمزوریاں بھی وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ کے ماتحت خداتعالیٰ کی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ دی جاتیں لیکن وہ اس طرف متوجہ نہیں۔

بچوں کی تربیت کی طرف بعض باپ اور مائیں متوجہ نہیں بہت سی رپورٹیں آتی ہیں کہ راستوں پر بچے گالیاں دیتے سنے گئے۔ احمدی بچہ، ربوہ کے ماحول میں تربیت یافتہ، اگر گلیوں میں گالیاں دیتا ہے تو اس کے ماں باپ کو یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔ ماؤں کو خصوصیت کے ساتھ میں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ بعض کمزوریاں ان میں ایسی ہیں کہ ان کو مردوں کی نسبت زیادہ توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو مال دیتا اور اولاد دیتا ہے اور ہزار قسم کی سہولتیں آپ کے لیے پیدا کرتا ہے تو ہزار قسم کی ذمہ داریاں بھی آپ پر عاید کرتا ہے۔ محض ربوہ کی رہائش محض جماعت احمدیہ کا رُکن ہونا کافی نہیں ہے۔

پھر میں ربوہ میں جو ہمارے کارکن ہیں ان کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ ہیں (بہت سے ہیں جو بڑی دیانتداری کے ساتھ، بڑے خلوص کے ساتھ دفتر کے جو اوقات ہیں ان سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں دین کے کاموں کے لیے لیکن کچھ ایسے بھی تو ہیں) جو پورا وقت نہیں دیتے ان کو یہ سوچ کر شرم آنی چاہیے کہ انہوں نے دوسروں کے لیے ایک نمونہ بننا تھا اس مسابقت کے میدان میں لیکن ان سے زیادہ وقت دیتے ہیں کراچی کے بعض احمدی جو دفاتر وغیرہ میں سات آٹھ گھنٹے لگانے کے بعد چھ سات گھنٹے جماعت احمدیہ کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں اور ہمارے بعض کلرک ربوہ میں رہتے ہوئے گزارہ لے کے چھ گھنٹے کام نہیں کرتے اور ان کا بھائی کراچی میں جن سے گزارہ لیتا ہے ان کا آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے اور جس ربّ کریم کے پیار میں وہ اپنی زندگی گزار رہا ہے اس کے لیے اس کے علاوہ چھ سات گھنٹے وہ کام کرتا ہے ہمارے اس کلرک سے زیادہ وقت دے رہا ہے…

بعض نوجوان ایسے بھی ہیں (چند ایک ہی سہی مگر ہیں تو) جو قصداً اور عمداً مسجدوں میں نماز کے لیے نہیں آتے اگر کوئی سستی کے نتیجہ میں نہیں آتا اگر کوئی غفلت کے نتیجہ میں نہیں آتا اگر کوئی مسجد میں اس لیے نہیں آتا کہ اس کی ماں بیوقوف ہے نماز کے وقت وہ سویا ہوا تھا اور اس نے اسے جگایا نہیں تو وہ اور بات ہے لیکن وہ نوجوان جو عمداً نماز کو چھوڑتا ہے وہ ربوہ میں کیا کر رہا ہے؟ اور آپ کیوں اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ اسی طرح دوسری نیکیاں ہیں ایک نیکی ربوہ سے تعلق رکھنے والی خاص طور پر یہ ہے کہ یہاں کسی قسم کی لڑائی اور جھگڑا نہ ہو احمدیوں میں کہیں بھی نہیں ہونا چاہیے مسلمانوں میں کہیں بھی نہیں ہونا چاہیے انسانوں میں یہ کہیں بھی نہیں ہونا چاہیے لیکن وہ تو علیحدہ بات ہے خاص طور پر ربوہ میں کوئی لڑائی اور جھگڑا اور گالی گلوچ نہیں ہونا چاہیے اگر گول بازار یا غلہ منڈی یا کسی اور بازار میں یہاں لڑائی ہوتی ہے تو سارا ربوہ خاموش کیوں رہتا ہے؟ کیا بھڑوں جیسی غیرت بھی تمہارے اندر نہیں ہے! کہ جب بھڑ کے چھتہ کے قریب سونٹی کریں تو ساری بھڑیں اس چھتہ کی بڑے غیض اور بڑے غصہ کا اظہار کرتی ہیں اور ایک آواز پیدا ہوتی ہے ان کی غصہ سے۔ تو جتنی غیرت بھڑوں کے چھتہ میں ہے کیا اتنی غیرت بھی اہل ربوہ میں باقی نہیں رہی؟ یہ امن کا ماحول تھا اور امن کا ماحول قائم رکھنا چاہیے میرے پاس رپورٹ کیوں آئے؟ مجھے کسی قسم کا اقدام کرنے کی ضرورت کیوں پیش ہو؟ اگر سب لوگوں کو یہ پتہ ہو کہ ربوہ ان چیزوں کو برداشت نہیں کرتا ربوہ میں برسرعام سگریٹ نہیں پیا جا سکتا ربوہ کے بازاروں میں گالی نہیں دی جا سکتی ربوہ کے بازاروں میں لڑائی جھگڑا نہیں کیا جا سکتا ربوہ کے مکانوں میں نمازوں کے اوقات میں مسجدوں کو معمور کرنے کی بجائے ٹھہرا نہیں جا سکتا تو پھر ہمارا ماحول جنت کاماحول ہوجائے اور جنت ہی پیدا کرنے کے لیے ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔
پس اے میرے عزیز ربوہ کے مکینو! اپنے سستوں کو چست کرو اور کمزوروں کو مضبوط بنائو اور غافلوں کو بیدار کرو کیونکہ اس قسم کی کمزوریاں ربوہ میں برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مذکورہ چار صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)”

(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 29؍ مارچ 1968ء صفحہ2تا6)

خلافت اور عبادت کا تعلق ۔قیام نماز کی تحریک

اپنے فرائض کی احسن ادائیگی کے لیے روحانی اور اخلاقی پاکیزگی کا التزام کرنا ایک ضروری امر ہے۔ اور سب سے اول خلافت سے تعلق اور عبادت کا قیام ہے۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ 13؍اپریل 2007ء میں خلافت اور عبادت کا تعلق بیان کرتے ہوئے اہل ربوہ کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘ہمیشہ یاد رکھیں کہ خلافت کے ساتھ عبادت کا بڑا تعلق ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ نماز ہی ہے۔ جہاں مومنوں سے دلوں کی تسکین اور خلافت کا وعدہ ہے وہاں ساتھ ہی اگلی آیت میں اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ (النور:57)کا بھی حکم ہے۔ پس تمکنت حاصل کرنے اور نظام خلافت سے فیض پانے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ عبادت اور نماز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوگی۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس انعام کے بعد اگر تم میرے شکر گزار بنتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ نہیں دو گے تو نافرمانوں میں سے ہو گے۔ پھر شکر گزاری نہیں ناشکرگزاری ہو گی اور نافرمانوں کے لیے خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ مومنوں کے لیے ہے۔ پس یہ انتباہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اپنی نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ نظام خلافت کے فیض تم تک نہیں پہنچیں گے۔ اگر نظام خلافت سے فیض پانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرو کہ یَعْبُدُوْنَنِیْ (النور:56) یعنی میری عبادت کرو۔ اس پر عمل کرنا ہو گا۔ پس ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا، جو خلافت کی صورت میں جاری ہے، فائدہ تب اٹھا سکیں گے جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔

گزشتہ دنوں پاکستان سے آنے والے کسی شخص نے مجھے لکھا کہ میں ربوہ گیا تھا وہاں فجر اور عشاء پر مسجدوں میں حاضری بہت کم لگی۔ یہ وہاں والوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ ربوہ تو ایک نمونہ ہے اور گزشتہ چند سالوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرف بہت توجہ ہو گئی تھی۔ آنے جانے والوں کی بھی بڑی رپورٹس آتی تھیں کہ ربوہ میں مسجدوں کی حاضری بڑھ گئی ہے بلکہ بازاروں میں بھی کاروبار کے اوقات میں دکانیں بند کرکے نمازیں ہوا کرتی تھیں۔ گو کہ مجھے اس شخص کی بات پر اتنا یقین تو نہیں آیا۔ مَیں تو ربوہ کے بارے میں حسن ظن ہی رکھتا ہوں لیکن اگر اس میں سستی پیدا ہو رہی ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو اس طرف خود توجہ کرنی چاہیے۔ ایک کوشش جو آپ نے کی تھی، نیکیوں کو اختیار کرنے کا جو ایک قدم بڑھایا تھا وہ قدم اب آگے بڑھتا چلا جانا چاہیے۔’’

(الفضل انٹرنیشنل4؍مئی2007ءصفحہ7)

مرکز بطور نمونہ ہوتا ہے

زندہ جماعتوں کا رخ ہمیشہ اپنے مرکز کی جانب ہوتا ہےاور مرکز کا ہونا ان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کی بقا کا ضامن ہے۔ پس مرکز کی اہمیت اور اس سے وابستہ توقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:

“مرکز میں اگر نمازوں کی سستی یا چستی پیدا ہوجائے تو باہر سے جب کوئی مہمان آئے گا تو وہ یہاں سے کچھ باتیں اخذ کرے گا اور اپنے گاؤں جاکر کہے گا کہ میں نے ربوہ میں دیکھا ہے کہ لوگ نمازوں کے بہت پابند ہیں آپ کیا کر رہے ہیں؟ اس طرح بہت حد تک اس جماعت کے لوگ پابند ہو جائیں گے۔ لیکن اگر وہ مہمان مرکز سے برا اثر لے کر گیا تو جب کوئی اٹھ کر لوگوں کو نماز کی پابندی کی تلقین کرے گا تو وہ شخص کہے گا میں ربوہ گیا تھا وہاں بھی لوگ نماز کے پابند نہیں۔ اس طرح جماعت میں سستی پھیل جائے گی…جب باہر سے لوگ آئیں گے وہ دیکھیں گے بھی وہ سنیں گے بھی۔ اور وہ اپنے اپنے گاؤں جا کر باتیں بھی کریں گے۔ پس ربوہ پر ویسی ہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جیسی ذمہ داریاں پہلے قادیان پر تھیں اور اب بھی ہیں۔ بلکہ اب ربوہ کا جماعت پر زیادہ وسیع اثر ہے۔

(الفضل 15؍ستمبر 1951ء )

سلام کو رواج دیں

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 7؍جون 2003ء کی چلڈرن کلاس میں بچوں سے خطاب کرتے ہوئے ربوہ کے اطفال کے نام حسب ذیل پیغام دیا:

“ربوہ کے بچے ماشاء اللہ آپ لوگوں کی طرح بہت ہی پیارے بچے ہیں۔ ان کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ احمدیوں کو سلام کو رواج دینا چاہیے یعنی ہر احمدی کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ ہر ملنے والے کو سلام کہے …عمومی طور پر حضرت صاحب نے سارے بچوں کو اور بڑوں کو یہ کہا تھا کہ جب آپس میں ملیں تو سلام کہیں، خوش اخلاقی سے ملیں، لیکن ربوہ کے بچوں کو خاص طور پر کہا تھا کہ وہاں کا ماحول ایسا ہے کہ سلام کی عادت ڈالیں۔ تو ربوہ کے بچوں کے لیے یہی میرا پیغام ہے کہ ربوہ کے ماحول کو ایسا بنادیں کہ ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آرہی ہوں، بڑے بھی چھوٹے بھی بچے بھی۔ بعض دفعہ بڑوں سے سستیاں ہو جاتی ہیں تو بچے اس کی پابندی کریں کہ انہوں نے بہرحال ہر ایک کو سلام کہنا ہے اور سلام کرنے میں پہل کرنی ہے تو اس طرح ربوہ کے ماحول پر بڑا خوشگوار اثر پڑے گا، انشاء اللہ ۔ایک تو یہ بات ہے۔

دوسرے مساجد کو آباد کرنے کے لیے…ربوہ کے ماحول میں جو خالصتاً احمدیت کا ماحول ہے بچوں کو چاہیے کہ اپنے بڑوں کو بھی توجہ دلائیں اور خود بھی خاص توجہ کریں اور مساجد میں زیادہ سے زیادہ جائیں اور مساجد کو آباد کریں تاکہ احمدیت کی فتح کے نظارے جو دعاؤں کے طفیل ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ ملنے ہیں، وہ ہم جلدی دیکھیں۔”

(روزنامہ الفضل ربوہ 12؍جون 2003ء)

اسی طرح حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 3؍ستمبر 2004ء زیورک (سوئٹزرلینڈ) میں ربوہ کے بچوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے ان کی ذمہ داری کی بابت فرمایا:

“پاکستان میں تو ہمارے سلام کہنے پر پابندی ہے، بہت بڑا جرم ہے…لیکن جہاں احمدی اکٹھے ہوں وہاں تو سلام کو رواج دیں خاص طور پر ربوہ، قادیان میں اور بعض اور شہروں میں بھی اکٹھی احمدی آبادیاں ہیں اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج دینا چاہیے۔ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ ربوہ کے بچوں کو کہا تھا کہ اگر بچے یاد سے اس کو رواج دیں گے تو بڑوں کو بھی عادت پڑ جائے گی پھر اسی طرح واقفین نو بچے ہیں ہمارے جامعہ نئے کھل رہے ہیں ان کے طلباء ہیں اگر یہ سب اس کو رواج دینا شروع کریں اور ان کی یہ ایک انفرادیت بن جائے کہ یہ سلام کہنے والے ہیں تو ہر طرف سلام کا رواج بڑی آسانی سے پیدا ہوسکتا ہے ’’۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 30؍نومبر 2004ء)

مسکراتے چہروں سے ملاقات کرنا

حسن خلق اور بشاشت قلبی ایسے ہتھیار ہیں جو دشمنوں کو بھی شکست دے دیا کرتے ہیں ۔ اس پاک ہتھیار کے عمدہ استعمال کی بابت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نےجماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
“پس میری یہ نصیحت ہے کہ کبھی بھی نہ لڑو۔ ایک دوسرے سے مسکراتے چہروں سے ملاقات کرو۔ کسی کاحق نہ مارو۔ غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے جہاں تک طاقت میں ہو اپنے حقوق چھوڑ دو۔”

(روزنامہ الفضل ربوہ8؍اگست1981ء)

ہمارے موجودہ امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“خدا کرے کہ ہم آپس میں جوچھوٹی چھوٹی باتوں میں رنجشیں ہیں اور لڑائیاں ہوتی ہیں ان کو جلد ختم کرنے والے ہوں ہر کوئی جلد صلح کی طرف بڑھنے والاہو…بہت سی لڑائیاں صرف اس لیےچل رہی ہوتی ہیں کہ دلوں کے کینےدور نہیں ہوتے۔ پس صلح کرنے کی ضرورت ہے ،دلوں کوصاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہرایک کو کینوں سے اپنے آپ کو صاف کرناچاہیے۔”

(الفضل انٹرنیشنل یکم اکتوبر2004ءصفحہ7)

جن گھروں میں نگران نہیں ان کی دیکھ بھال

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے مورخہ 4؍رمضان بمطابق25؍جنوری 1996ء کے درس القرآ ن میں اہلیان ربوہ کو نہ صرف اپنی اصلاح کرنے بلکہ دوسرے گھرانوں کا بھی خیال رکھنے کی بابت فرمایا:

“ربوہ میں مَیں نے ہدایت کی ہوئی ہے کہ ایسے لوگ جن کے نگران گھر میں نہ ہوں ان کی دیکھ بھال کرنے والے معمر بزرگ انصار کی ان کو ڈیوٹی لگانی چاہیے، نظامِ جماعت کی طرف سے کہ ان گھروں کی دیکھ بھال کیا کریں، کبھی پوچھ لیا کریں کہ کوئی ضرورت ہے کہ نہیں اور بچیوں کے حالات اور صحت وغیرہ کے اوپر اور دوسرے بچوں کے بھی نظر رکھا کریں ۔ یہ نہ ہو کہ آپ کی نظر سے یہ معاملہ اوجھل رہے اور محض اس وجہ سے کہ کوئی سرپرست نہیں ہے ان کے اندر بعض ایسی خرابیاں پیدا ہوجائیں جو بعد میں ان کے لیے بھی اور معاشرے کے لیے بھی تکلیف کا موجب بنیں۔ تو یہ نگرانی ایک فریضہ ہے۔”

جادو۔ ٹونے ٹوٹکے سے بچنے کی تحریک

خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکنے والے کسی اور کے آگے کس طرح اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے رجوع کر سکتے ہیں؟ ایسے احباب جو تعویز وغیرہ کرتے ہیں کے بارہ میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اکتوبر 2004ء میں فرماتے ہیں:
‘‘حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ‘‘پیر بنیں۔ پیر پرست نہ بنیں’’…پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی، بعض جگہ ربوہ میں بھی کہ بعض احمدیوں نے اپنے دعا گو بزرگ بنائے ہوئے ہیں اور وہ بزرگ بھی میرے نزدیک نام نہاد ہیں جو پیسے لے کر یا ویسے تعویذ وغیرہ دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں…یہ سب فضولیات اور لغویات ہیں۔ میرے نزدیک تو وہ احمدی نہیں ہیں جو اس طرح تعویذ وغیرہ کرتے ہیں۔ ’’

(الفضل انٹرنیشنل5؍نومبر2004ء صفحہ6تا7)

سگریٹ نوشی ترک کرنے کی تحریک

خطبہ جمعہ 10؍اکتوبر 2003ء میں سگریٹ نوشی ترک کرنے کی تحریک کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے فرمایا:

“آج کل یہی برائی ہے حقہ والی جو سگریٹ کی صورت میں رائج ہے۔ تو جو سگریٹ پینے والے ہیں ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ سگریٹ چھوڑیں۔ کیونکہ چھوٹی عمر میں خاص طور پر سگریٹ کی بیماری جو ہے وہ آگے سگریٹ کی کئی قسمیں نکل آئی ہوئی ہیں جن میں نشہ آور چیزیں ملا کر پیا جاتا ہے۔ تو وہ نوجوانوں کی زندگی برباد کرنے کی طرف ایک قدم ہے…ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ کوشش کریں کہ سگریٹ نوشی کو ترک کریں”

(الفضل انٹرنیشنل 5؍دسمبر2003ءصفحہ6)

“وہ لوگ جو اس لغو عادت میں مبتلا ہیں کوشش کریں کہ اس سے جان چھڑائیں اور والدین خاص طور پربچوں پر نظر رکھیں کیونکہ آج کل بچوں کو نشوں کی باقاعدہ پلاننگ کے ذریعہ عادت بھی ڈالی جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ ہوجاتا ہے کہ بے چارے بچوں کے بُرے حال ہوجاتے ہیں۔”

(الفضل انٹرنیشنل 3؍ستمبر2004ءصفحہ8)

کھیلوں کا منظم نظام ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍مارچ 1972ء میں بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

“چند دن ہوئے بچوں کے ایک اجتماع میں مَیں نے ایک اعلان کیا تھا۔ مَیں آج اسے دُہرانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ساری جماعت کی ذمہ واری ہے۔میں نے اُس اعلان میں بچوں سے یہ کہا تھا کہ تم ربوہ میں کھیلوں کو منظم کرنے کا کام سنبھالو کیونکہ اس انتظام میں اکثر نوجوان ہی آگے آئیں گے …ربوہ کا ہر شہری روازنہ ورزش کیا کرے۔ورزش کے لیے باسکٹ بال کھیلنا ہی ضروری نہیں ہے۔ سب سے اچھی اور سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ کی جانے والی ورزش تو سیر ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنّت بھی ہے۔اس لیے ربوہ کے دوست روزانہ سیر کے لیے چاروں طرف نکل جایا کریں۔”

(روزنامہ الفضل ربوہ 7؍ اپریل 1972ء صفحہ2تا4)

ظاہری صفائی

ایک مومن جہاں اپنے دل کو پاک رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے وہاں وہ اپنی ظاہری صفائی کا بھی خیال رکھتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بھی صاف رکھتا ہے اور اپنے ماحول کو بھی آلودگی سے بچاتا ہے۔ اپنے گھر، اپنی گلی، اپنے محلہ اور اپنے شہر کو صاف رکھنا اس کے لیے اہم فرائض میں سے ہے۔ خلفائے احمدیت نے بھی اہلیانِ ربوہ کوصفائی کی بابت بارہا تاکید فرمائی ہے۔ چند ایک اقتباسات نمونتہ پیش ہیں۔

صفائی اور شجرکاری

ربوہ کی صفائی اور پودے لگانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا:

‘‘شہر کی صفائی کی طرف توجہ کرو اور درخت اورپھول اور سبزیاں لگاؤ۔ جن لوگوں نے گھروں میں درخت لگائے ہوئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر دل بہت خوش ہوتا ہے۔ گلی میں سے گزریں تو لہلہاتے درخت نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ کام میونسپل کمیٹی اور لوکل انجمن کا ہے۔ اگر سارے مل کر کوشش کریں تو وہ شہر کو دلہن بنا سکتے ہیں۔ … اب بھی جب میں تصور کرتا ہوں تو یورپ کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ہر گھر میں دروازوں کے آگے چھجے بنے ہوئے ہیں اور ان پر بکسوں میں بھری ہوئی مٹی پڑی ہے اور اس میں پھول لگے ہوئے ہیں۔ جس گلی میں سے گزروپھول ہی پھول نظر آتے ہیں اور سارا شہر ایک گلدستہ کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ ربوہ بھی اسی طرح بنایا جاسکتا ہے۔ بڑی محنت کی ضرورت نہیں تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔

(الفضل ربوہ ؍14 دسمبر 1955ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍مارچ 1972ء میں فرمایا:

“پوری جدوجہد سے تم ربوہ کی شکل اس نیت سے بدل دو کہ باہر سے آنے والے دوست اسے دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ صفائی اور نفاست کے لحاظ سے اسلام نے کسی شہر کا جو معیار مقرر کیا ہے ربوہ اس پر پورا اترتا ہے اور ساتھ ہی یہ نیت بھی ہونی چاہیے کہ ہم اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد ہونے والی بڑی عظیم اور بڑی بھاری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ آخر غلبہ اسلام کی ذمہ داری کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے ۔”

(خطبات ناصر جلد4صفحہ118)

اسی طرح آپ ؒنے خطبہ جمعہ فرمودہ12؍اپریل1974ء میں درختوں او رپودوں کی حفاظت کے تعلق میں فرمایا:

“اپنے بچوں کی تربیت کریں کہ وہ درختوں کی حفاظت کریں اور ان کی ہلاکت کا باعث نہ بنیں۔ آپ خود بھی خیال رکھیں۔ وقت پر پانی دیں اسی طرح ان کی اور بہت سی حفاظتیں ہیں وہ کرنی پڑتی ہیں اگر مثلاًدرخت کے ساتھ گھاس پُھوس اُگ آیا ہے تو محلے والے اس کو صاف کریں درخت کے اردگرد ایک دائرہ کے اندر زمین کو نرم کریں وقت پر اس کو کھاد دیں اور جو گرمی اور سردی کے مطالبات ہر درخت کے ہیں ان کو پورا کریں ۔”

(روزنامہ الفضل ربوہ 15؍مئی1974ء صفحہ2تا6)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شجرکاری سے متعلق ربوہ کے بچوں کے نام ایک پیغام میں فرماتے ہیں:

‘‘حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ میں نے رؤیا میں دیکھا تھا۔ ربوہ کی زمین کے متعلق کہ باقی جگہ تو یہی لگتی ہے لیکن یہاں سبزہ نہیں ہے، Greenery نہیں ہے وہ امید ہے انشاء اللہ ہو جائے گی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بارے میں ربوہ کے لوگ بہت کوشش کررہے ہیں، خاص طور پر اطفال اور خدام نے بہت کوشش کی ہے انہوں نے وقارعمل کرکے، ربوہ کو آباد کرنے کی کوشش کی ہے۔ لوگ آکے حیران ہوتے ہیں۔ آپ جیسی چھوٹی عمر کے بچوں نے وقارعمل کرکے وہاں پودے لگائے ہیں اور ان کو سنبھالا ہے۔ تو اب میری بچوں سے یہی درخواست ہے یہی میں کہوں گا یہی نصیحت ہے کہ جو پودے آپ نے لگائے ہیں ان کی حفاظت کریں اور مزید پودے لگائیں۔ درخت لگائیں پھولوں کی کیاریاں بنائیں اور ربوہ کو اس طرح سرسبز اور Green Lush (شاداب) کردیں جس طرح حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان پر عمل کریں ایک تو یہ کہ ربوہ کے ماحول کو سرسبز کریں گے تو ماحول پر ایک خوشگوار اثر ہوگا۔ عمومی طور پر لوگوں کی توجہ ہوگی اور ایک نمونہ نظر آئے گا کہ یہاں کے بچے اور بڑے محنت سے اس شہر کو آباد کررہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں باقی جگہوں پہ جب تک حکومت مدد نہ کرے کوئی اتنا سبزہ نہیں کرسکتا۔ بلکہ باوجود مدد کے بھی نہیں کرسکتا۔

(روزنامہ الفضل ربوہ10؍جون 2003ء)

ہر گھر کے سامنے صفائی کا ایک اعلیٰ معیار نظر آنا چاہیے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 23؍اپریل2004ءکو مسجد بیت الفتوح میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:

“احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ کوئی ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ گھروں کے باہر گند نظر نہ آئے۔ ربوہ میں، جہاںتقریباً 98 فیصد احمدی آبادی ہے، ایک صاف ستھرا ماحول نظر آنا چاہیے۔ اب ماشاء اللہ تزئین ربوہ کمیٹی کی طرف سے کافی کوشش کی گئی ہے۔ ربوہ کوسرسبز بنایا جائے اور بنا بھی رہے ہیں۔کافی پودے، درخت گھاس وغیرہ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے ہیں اور نظر بھی آتے ہیں…کافی سبزہ ربوہ میں نظر آتا ہے۔ لیکن اگر شہر کے لوگوں میں یہ حس پیدا نہ ہوئی کہ ہم نے نہ صرف ان پودوں کی حفاظت کرنی ہے بلکہ ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف رکھناہے تو پھر ایک طرف تو سبزہ نظر آ رہا ہو گا اور دوسری طرف کوڑے کے ڈھیروں سے بدبو کے بھبھاکے اٹھ رہے ہوں گے۔ اس لیے اہل ربوہ خاص توجہ دیتے ہوئے اپنے گھروں کے سامنے نالیوں کی صفائی کا بھی اہتمام کریں اور گھروں کے ماحول میں بھی کوڑ اکرکٹ سے جگہ کو صاف کرنے کا بھی انتظام کریں۔ تاکہ کبھی کسی راہ چلنے والے کو اس طرح نہ چلنا پڑے کہ گند سے بچنے کے لیے سنبھال سنبھال کر قدم رکھ رہا ہو اور ناک پررومال ہو کہ بو آ رہی ہے۔اب اگر جلسے نہیں ہوتے تو یہ مطلب نہیں کہ ربوہ صاف نہ ہو بلکہ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا کہ دلہن کی طرح سجاکے رکھو۔ یہ سجاوٹ اب مستقل رہنی چاہیے۔ مشاورت کے دنوں میں ربوہ کی بعض سڑکوں کو سجایا گیا تھا…بہت خوبصورت سجایا گیا لیکن ربوہ کا اب ہر چوک اس طرح سجنا چاہیے تاکہ احساس ہو کہ ہاں ربوہ میں صفائی اور خوبصورتی کی طرف توجہ دی گئی ہے اور ہر گھر کے سامنے صفائی کا ایک اعلیٰ معیار نظر آنا چاہیے۔ اور یہ کام صرف تزئین کمیٹی نہیں کر سکتی بلکہ ہر شہری کو اس طرف توجہ دینی ہو گی۔”

(الفضل انٹرنیشنل 7؍مئی 2004ء صفحہ 5)

پس جہاں ربوہ کی صفائی اس کی خوبصورتی کو بڑھانے والی ہے وہیں یہ ایک اہم ذمہ داری بھی ہے ۔ اس قابل فخر شہر کو ہمیشہ کے لیے قابل رشک بنائے رکھنے کی خاطرایک دفعہ حضرت مصلح موعودنے فرمایا:

“شہر کی صفائی کا باقاعدہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے جو شہر کی بدنامی ہوتی ہے اس سے سلسلہ کی بدنامی ہوتی ہے۔ربوہ ایک مشہور شہر ہے۔جو لوگ پاکستان آئیں گے وہ اب یہاں بھی آئیں گے اگر یہاں صفائی کا معیار دوسرے شہر وں کی صفائی سے بلند نہ ہوگا تو وہ کہیں گے کہ احمدیوں کی تنظیم تو بہت اچھی ہے،لیکن ان کا شہر بہت گندا ہے۔پس شہر کی صفائی کی طرف توجہ کرو اور درخت اور پھول اور سبزیاں لگاؤ ۔اگر سارے مل کر کوشش کریں تو وہ شہر کو دلہن بنا سکتے ہیں…پس تم شہر کو خوبصورت بناؤ۔تا تمہارے دل بھی خوبصورت ہو جائیں۔”

(الفضل14؍دسمبر1955ء)

جماعتی عمارات کی صفائی کی تحریک

جہاں انفرادی اور محلہ کی سطح پر صفائی ایک ضروری امر ہے وہاں اس بات کا بھی خیال رہے کہ جماعتی دفاتر اور ادارہ جات بھی گندگی سے پاک ہوں۔ ہمارے پیارے امام نےخطبہ جمعہ 23؍اپریل 2004ء میں فرمایا:

“صفائی کے ضمن میں ایک انتہائی ضروری بات جو جماعتی طور پر ضروری ہے وہ ہے جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنا…اس کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے …اور اس میں سب سے اہم عمارات مساجد ہیں مساجد کے ماحول کو بھی پھولوں، کیاریوں اور سبزے سے خوبصورت رکھنا چاہیے، خوبصورت بنانا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی مسجد کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہیے۔”

(الفضل انٹرنیشنل 7؍مئی 2004ء صفحہ 8)

اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے خلفاء کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا ہر عمل خلیفہ ٔوقت کے تابع ہو اور ہر سوچ خلافت کی غلام رہے اور ہر سانس خلیفۂ وقت کے لیےچلے ۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button