کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

جس قدر رعایتیں اسلامی جنگوں میں دیکھو گے ممکن نہیں کہ موسوی یا یشوعی لڑائیوں میں اس کی نظیر مل سکے

’’اسلام کی بابت جب عیسائی لوگ کسی سے گفتگو کرتے ہیں ۔تو اسلامی جنگوں پر کلام کرنے لگتے ہیں۔حالانکہ خود اُن کے گھر میں یشوع اور موسیٰ کے جنگوں کی نظیریں موجود ہیں۔ اور جب وہ اسلامی جنگوں سے کہیں بڑھ کر مورد اعتراض ٹھہر جاتے ہیںکیونکہ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلامی جنگ بالکل دفاعی جنگ تھے۔ اور ان میں وہ شدّت اور سخت گیری ہر گز نہ تھی جو موسیٰ اور یشوع کے جنگو ں میں پائی جاتی ہے۔اگر وہ یہ کہیں کہ موسیٰ اور یشوع کی لڑائیاں عذاب الٰہی کے رنگ میں تھیںتو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جنگوں کو کیوںعذاب الٰہی کی صورت میں تسلیم نہیں کرتے۔ موسوی جنگوں کو کیا ترجیح ہے۔بلکہ ان اسلامی جنگوں میں تو موسوی لڑائیوں کے مقابلہ میں بڑی بڑی رعایتیں دی گئی ہیں ۔اصل بات یہی ہے کہ چونکہ وہ لوگ نوامیس الٰہیہ سے ناواقف تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کے مقابلہ میں بہت بڑا رحم فرمایا۔ کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے ۔پھر اسلامی جنگوں میںموسوی جنگوں کے مقابلہ میں یہ بڑی خصوصیت ہے ۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خادموں کو مکّہ والوں نے برابر 13 سال تک خطرناک ایذائیں دیںاور تکلیفیں دیں اور طرح طرح کے دُکھ اُن ظالموں نے دیے۔چنانچہ ان میں سے کئی قتل کیے گئے اور بعض بُرے بُرے عذابوں سے مارے گئے ۔چنانچہ تاریخ پڑھنے والے پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ بے چاری عورتوں کو سخت شرمناک ایذائوں کے ساتھ مار دیا۔ یہاں تک کہ ایک عورت کو دو اونٹوں سے باندھ دیا اور پھر ان کو مختلف جہات میں دوڑا دیا اور اس بیچاری کو چیر ڈالا ۔اس قسم کی ایذارسانیوں اور تکلیفوں کو برابر 13سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی پاک جماعت نے بڑے صبر اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا ۔اس پر بھی انہوں نے اپنے ظلم کو نہ روکا ۔اور آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کیا گیا ۔اور جب آپؐ نے خدا تعالیٰ سے اُن کی شرارت کی اطلاع پا کر مکّہ سے مدینہ کو ہجرت کی ۔پھر بھی انہوں نے تعاقب کیا۔ اور آخر جب یہ لوگ پھر مدینہ پر چڑھائی کر کے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے حملہ کو روکنے کا حکم دیا کیونکہ اب وہ وقت آگیا تھا۔ کہ اہل مکّہ اپنی شرارتوں اور شوخیوں کی پاداش میں عذاب الٰہی کا مزہ چکھیں۔چنانچہ خدا تعالیٰ نے جو پہلے وعدہ کیاتھا ۔کہ اگر یہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں گے ۔تو عذاب الٰہی سے ہلاک کیے جا ئیں گے۔ وہ پورا ہوا۔خود قرآن شریف میں ان لڑائیوں کی یہ وجہ صاف لکھی ہے۔

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا۔وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ۔ نِ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ۔(الحج:41-40)

یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جس کے قتل کے لیے مخالفوں نے چڑھائی کی۔ (اس لیے اجازت دی گئی )کہ ان پر ظلم ہوا۔ اور خدا تعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے ۔یہ وہ مظلوم ہیں جو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے ۔ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا ۔کہ انہوں نے کہا کہ ہمار ا رب اللہ ہے ۔یہ وہ آیت ہے جس سے اسلامی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔پھر جس قدر رعایتیں اسلامی جنگوں میں دیکھو گے ممکن نہیں کہ موسوی یا یشوعی لڑائیوں میں اس کی نظیر مل سکے ۔موسوی لڑائیوں میں لاکھوں بے گناہ بچوں کا مارا جانا،بوڑھوں اور عورتوں کا قتل، باغات اور درختوں کا جلا کر خاک سیاہ کر دینا تورات سے ثابت ہے ۔مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوصفیکہ ان شریروں سے وہ سختیاں اور تکلیفیں دیکھی تھیں۔جو پہلے کسی نے نہ دیکھی تھیں۔ پھر ان دفاعی جنگوں میں بھی بچّوں کو قتل نہ کرنے،عورتوں اور بوڑھوں کو نہ مارنے، راہبوں سے تعلق نہ رکھنے اور کھیتوں اور ثمر دار درختوں کو نہ جلانے اور عبادت گاہوں کے مسمار نہ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا ۔اب مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کس کا پلّہ بھاری ہے۔

غرض یہ بیہودہ اعتراض ہیں ۔اگر انسان فطرت سلیمہ رکھتا ہو تو وہ مقابلہ کر کے خود حق پا سکتاہے۔کیا موسیٰؑ کے زمانہ میں اَور خدا تھا ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کوئی اَور ۔اسرائیلی نبیوں کے زمانہ میں جیسے شریر اپنی شرارتوں سے باز نہ آتے تھے۔ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں بھی حد سے نکل گئے تھے ۔پس اسی خدا نے جو رئووف و رحیم بھی ہے۔ پھر شریروں کے لیے اس میں غضب بھی ہے اُن کو ان جنگوں کے ذریعہ جو خود انہوں نے ہی پیدا کی تھیں سزا دے دی ۔لوط ؑکی قوم سے کیا سلوک ہوا نوح ؑ کے مخالفوں کا کیا انجام ہوا پھر مکّہ والوں کو اگر اس رنگ میں سزادی تو کیوں اعتراض کرتے ہوکیا کوئی عذاب مخصوص ہے کہ طاعون ہی ہو۔ یا پتھربرسائے جائیں۔خدا جس طرح چاہے عذاب دے دے۔……جب کوئی مذاہب سے الگ ہو کر دیکھے گا ۔تو اسے صاف نظر آجائے گا کہ اسلامی جنگوں میںاوّل سے آخر تک دفاعی رنگ مقصود ہے ۔اور ہر قسم کی رعایتیں روا رکھی ہیںجو موسیٰ اور یشوع کی لڑائیوں میں نہیں ہیں …۔

مجھے پادریوں کے سمجھانے اور اُن سے سمجھنے والوں پر سخت افسوس ہے کہ وہ اپنے گھر میں موسیٰ ؑکی لڑائیوں پر تو غور نہیں کرتے اور اسلامی جنگوں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں اور سمجھنے والے اپنی سادہ لوحی سے اُسے مان لیتے ہیں ۔ اگر غور کیا جاوے۔ تو موسوی جنگوں کا اعتراض حضرت مسیحؑ پر بھی آتا ہے ۔کیونکہ وہ توریت کو مانتے تھے اور حضرت موسیٰ کو خدا کا نبی تسلیم کرتے تھے ۔اگر وہ ان جنگوں اور ان بچوں اور عورتوں کے قتل پر راضی نہ تھے تو انہوں نے اُسے کیوں مانا گویا وہ لڑائیاں خود مسیح نے کیں اوران بچوں اور عورتوں کو خود مسیح نے ہی قتل کیا ۔

اور اَصل یہ ہے ۔کہ خود مسیح علیہ السلام کو لڑائیوں کا موقع ہی نہیں ملا ورنہ وہ کم نہ تھے ۔انہوں نے تو اپنے شاگردوں کو حکم دیا تھا ۔کہ کپڑے بیچ کر تلواریں خریدیں۔ یہ بالکل سچی بات ہے ۔کہ اگر قرآن شریف ہماری رہ نمائی نہ کرتا تو ان نبیوں پر سے امان اٹھ جاتا ۔قرآن شریف کا احسان ہے تمام نبیوں پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ انہوں نے آکر ان سب کو اس الزام سے بری کر دکھایا ۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 102-99۔ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button