حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 25)

ہر کام میں صحابہ ؓ کے شریک ہو تے

میں نے اس سے پہلے آنحضرت ﷺ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس سے آپؐ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر رو شنی پڑتی ہے اور انسانی قلب اس سے اعلیٰ سے اعلیٰ اصول طہارت نفس کے اور قومی ترقی کے نکال سکتا ہے۔اب میں ایک اَور واقعہ اسی پہلے واقعہ کی تا ئید میں درج کر تا ہوں لیکن چونکہ وہ نئے حالا ت اور نئے واقعات کو لیے ہوئے ہے اس لیے اس کا ذکر بھی کسی قدر تفصیل سے ہی منا سب ہے۔

یہ با ت تو تا ریخ دان لو گ جا نتے ہیں کہ آنحضرت ؐ سے جو مخالفت مکہ والوں کو تھی اس کی نظیر دنیا کی کسی اَور تا ریخ میں نہیں ملتی۔آپؐ کی مخالفت اور ایذا رسانی کے لیے جو تدا بیر انہوں نے کیں یا جو منصوبے انہوں نے با ندھے وہ اپنی نظیر آپ ہی تھے اور کبھی کسی قوم نے دنیاوی مخالفت میں یا دینی عداوت میں کسی انسان کی بلا وجہ ایسی بدخواہی نہیں کی جیسی اہل مکہ نے آنحضرتؐ سے کی مگر خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں آنحضرت ﷺ کو فتح دی اور آپؐ ہر دشمن پر فاتح رہے۔

گو چھوٹے چھوٹے حملے تو مدینہ میں ا ٓ تے ہی شروع ہو گئے تھے مگر دراصل جنگوں کی ابتدا اب جنگ بدر سے ہی سمجھنا چاہیے کہ جس نے ایک طرف کفار کے بڑے بڑے سرداروں کو خاک میں ملا دیا اور دوسری طرف مسلمانوںپر ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ کی تا ئید انسان کو ہر مشکل سے سلامت نکال سکتی ہے اور دشمن خواہ کتنا ہی بہا در اور تعداد میں زیا دہ ہو آسمانی تدابیر کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے۔قریش کو اپنے سرداروں کے مارے جا نے کا طیش ایک دم چین نہ لینے دیتا تھا اور وہ آئے دن مسلمانوں پر حملہ کر تے رہتے تھے جن میں سے مشہور حملہ احد کا بھی ہے۔ یہ حملے متواتر چھےسا ل تک ہوتے رہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جنگ بدر چھےسال تک متواتر جا ری رہی اور اس کا خاتمہ احزاب پر ہوا جبکہ دشمن نے آخری مرتبہ ہزیمت اٹھا کر پھر مسلمانوں کو دکھ دینے کا ارادہ نہ کیا بلکہ ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو گئے اور سمجھ گئے کہ ہم مسلمانوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتے۔
جنگِ احزاب جس کا ذکر قرآن شریف میں بار بار آیا ہے ایک نہایت خطر ناک جنگ تھی جس میں مسلمان ایسے مجبور ہو ئے تھے کہ انہیں قضائے حاجت کے لیے با ہر جا نے کو بھی رستہ نہ ملتا تھا اور کفار نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور دس ہزار کا لشکر مرنے مارنے کے ارادہ سےمُٹّھی بھر مسلمانوں کے سامنے پڑا ہوا تھا۔جو مشکلات کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے۔

جب مسلمانوں کو اس لشکر کی آمد کی خبر ہو ئی تھی تو آنحضرتؐ نے سب صحابہؓ کو بلا کر مشورہ کیا کہ کیا کیا جا ئے؟ حضرت سلمانؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! ایسے موقع پر ہمارے ملک میں تو خندق کھود لیتے ہیں اور اس کے پیچھے بیٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔آپؐ نے یہ بات سن کر خندق کھودنے کا حکم دیا اور اسی وجہ سے جنگِ احزاب کو غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں۔

چالیس چالیس ہا تھ زمین دس دس آدمیوں کو کھود نے کے لیے بانٹ دی گئی اور کام زورو شور سے جا ری ہو گیا مگر آنحضرتﷺکہاں تھے؟آپؐ بھی ان لو گوں میں کام کر رہے تھے جو اِدھر سے اُدھر مٹی ڈھو رہے تھے کیونکہ کچھ لوگ زمین کھودتے تھے اور کچھ وہاں سے مٹی اٹھا کر ایک طرف کر دیتے تھے حتّٰی کہ آپؐ کا بد ن مٹی سے بھر گیا تھا۔

حضرت براء ؓسے روایت ہے۔

قَا لَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْاَحْزَابِ یَنْقُلُ التُّرَابَ وَ قَدْ بوَارَی التُّرَابُ بَیَاضَ بَطْنِہٖ وَھُوَ یَقُوْلُ : (لَوْ لَا اَنْتَ مَا اھْتَدَ یْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا فَاَنْزِلِ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقَیْنَا، اِنَّ الْأُلٰی قَدْ بَغْوَا عَلَیْنَا، اَذَااَرَادُوْاِفِتْنَۃً ابَیْنَا۔)

(بخاری کتاب،الجھاد باب حصر الخندق)

ترجمہ : فر ما یا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جنگِ احزاب میں اس حالت میں دیکھا ہے کہ آپؐ بھی مٹی ڈھورہے تھے اور آپؐ کے گورے گورے پیٹ پر مٹی پڑی ہو ئی تھی اور آپؐ یہ فرماتے جا تے تھے۔الٰہی اگر تیرا فضل نہ ہو تا تو ہمیں ہدایت نصیب نہ ہو تی اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نمازیں پڑھتے۔پس ہم پر اپنی طرف سے تسلی نا زل فرما اور اگرجنگ پیش آئے تو ہمارے پاؤں کو ثبات دیجئے وہ دشمن کے مقابلہ میں بالکل نہ ڈگمگائیں۔الٰہی یہ کا فر ہم پر ظلم اور زیا دتی سے حملہ آور ہو گئے ہیں اور ہمارے خلاف انہوں نے بغاوت کی ہے کیونکہ جب انہوں نے ہمیں شرک وکفر میں مبتلا ہو نے کی دعوت د ی ہے ہم نے ان کی با ت کے قبول کر نے سے انکار کر دیا ہے۔

اللہ اللہ! وہ کیا ہی پیا ری مٹی ہو گی جسے آپؐ اٹھا تے تھے اور وہ مٹی کروڑوں من سو نے سے زیا دہ قیمتی تھی جسے اٹھا نے کےلیے خاتم النّبیین ﷺ کے ہا تھ اٹھتے تھے اور جسے آپؐ کے پیٹ پر گر نے کا شرف حاصل ہو تا تھا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے کہ عذاب شدید کو دیکھ کر یَقُوْلُ الْکٰفِرُ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا(النبا:41)کا فر کہہ اٹھیں گے کہ کا ش ہم مٹی ہو تے اور شریر و بد معاش لو گ جب سزا پا تے ہیں تو ایسے ہی جملے کہا کر تے ہیں اور اپنی حالت پر افسوس ہی کیا کر تے ہیں مگر خدا گواہ ہے وہ مٹی جو آنحضرت ؐ کے پیٹ پر گر تی تھی اس کی نسبت تو ایک مومن کا دل بھی للچا جا تا ہے کہ وہ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا کہہ اٹھے اور یہی وجہ معلوم ہو تی ہے کہ براء ؓ اس واقعہ کا بیان کرتے ہو ئے اس مٹی کا بھی ذکر کرتے ہیں جو آپ ؐ کے پیٹ پر گر تی تھی۔معلوم ہو تا ہے کہ وہ اس مٹی کو بھی عشق کی نگا ہوں سے دیکھتے تھے اور لالچ کی نگا ہیں ادھر پڑ رہی تھیں اسی لیے تو مدتوں کے بعد جب وہ جنگِ احزاب کا ذکر فر ما تے ہیں تو وہ مٹی جو آنحضرت ﷺ کے جسم ِاطہر پر پڑتی تھی ان کویاد آجاتی ہے۔

میں حیرا ن ہو ں کہ صحابہ ؓ کس محبت اور کس شوق سے اس وقت آنحضرتؐ کی طرف دیکھتے ہوں گے۔خدا یا وہ مزدورکیسا ہوگا اورکس شان کاہوگاجس کے سرپر نبوت کا تاج تھا اوردوش پر مٹی کاڈھیر،صحابہ ؓ کے قدموں میں کیسی تیزی اور کیسی پھرتی پیدا ہو گئی ہو گی ہر ایک ان میں سے اپنے دل میں کہتا ہو گا کہ خدا کے لیے جلد جلد اس مٹی کو صاف کرکے جس قدر ہوسکے آنحضرتؐ کا کام کم ہو اور وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بو جھ اٹھا تے ہوں گے تا کہ جلد اس بو جھ کو ختم کریں اور آنحضرتﷺ کو آرام دیں۔
میری عقل چکرا تی ہے جب میں صحابہ ؓکے ان جذبات کا نقشہ اپنے دل میں کھینچتا ہوں جو اس وقت ان کے دلوں میں پیدا ہو تے ہوں گے میری قوتِ متخیلہ پر یشان ہو جا تی ہے جب میں ان خیالات پریشاں کو اپنے سامنے حاضر کر تا ہوں جو اس وقت صحابہ ؓ کے دل و دماغ میں گشت لگا رہے ہوں گے۔ اُف ایک بجلی، ایک سٹیم ہو گی جو اس وقت ان کے اندر کام کر رہی ہو گی۔ نہیں بجلی اور سٹیم کی کیا حقیقت ہے عشق کی گر می ان سے کام لے رہی تھی اور وہ مٹی جو وہ اپنی گردنوں اور کندھوں پر رکھتے تھے انہیں ہر ایک قسم کی نعمت سے زیا دہ معلوم ہوتی تھی وہ بوجھ انہیں سب غموں سے چھڑا رہا تھا اور وہ مٹی انہیں ہیروں اور جواہرات سے زیادہ قیمتی معلوم ہو تی تھی جسے نبیوں کے سر تا ج کے کندھوں پر رکھے جا نے کا فخر حاصل تھا۔

کیا کو ئی مسلمان با دشاہ ایسا ہے جسے اس مٹی کے اٹھا نے میں عذر ہو! نہیں اس وقت کے اسلام سے غافل بادشاہ بھی اسے اٹھا نے میں فخر سمجھیں گے پھر نیکو کار گروہ اسے اپنی کیسی کچھ عزت نہ خیال کر تا ہوگا۔

اور یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ آنحضرت ﷺ ان کو ایک گھوڑے پر کھڑے ہو ئے حکم نہیں دے رہے تھے بلکہ دوسروں کو حکم دینے سے پہلے آپ خود اپنےکندھوں پر مٹی کا ڈھیر رکھتے تھے پھر جو لوگ اپنے محبوب و آقا کو مٹی ڈھوتے دیکھتے ہوں گے وہ جس شوق سے بھی اس کا م کو کر تے با لکل مناسب اور بجا ہوتا یہ ایک ایسی اعلیٰ تدبیر تھی جس سے اگر ایک طرف آنحضرتؐ کی محبتِ الٰہی ظاہر ہو تی ہے تو دوسری طرف یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ فطرت انسانی کو خوب سمجھتے تھے اور آپؐ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر ما تحتوں میں رو ح پھونکنی ہو تو اس کا ایک ہی گر ہے کہ خود ان کے سا تھ مل کر کام کر و پھر ان میں خود بخود جوش پیدا ہو جا ئے گا اور اس طرح آپؐ نے ایک نا قابلِ فتح لشکر تیار کر دیا جو ہر زمانے کے لیے ما یۂ ناز ہے۔

اس حدیث سے ہمیں کئی با تیں معلوم ہو تی ہیں۔اول تو یہ کہ آنحضرت ؐنے صرف ایک دفعہ ہی صحابہ کے ساتھ مل کر کام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کرتے تھے کیونکہ پہلا واقعہ جو میں نے بیان کیا ہے وہ آپؐ کی مدنی زندگی کا ابتدا ئی واقعہ ہے اور یہ چھےسال بعد کا ۔جس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ آپؐ کی عادت تھی کہ کو ئی کام کسی کو نہ دیتے مگر خود اس میں شامل ہو تے تاکہ خود بھی ثواب سے حصہ لیں اور دوسروں کو اَور بھی رغبت اور شوق پیدا ہو کہ جب ہمارا آقاخود شامل ہے تو ہمیں اس کام سے کیا عار ہو سکتا ہے۔دوسرے یہ کہ انہیں چستی سے کام کر نے کی عادت ہو اور وہ آپؐ کے شمول کی وجہ سے جس تیزی سے کام کر تے ہوں گے اسے ان کی عادت میں داخل کر دیا جا ئے۔

دوسرے یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ جس وقت آپؐ مدینہ تشریف لا ئے تھے اس وقت آپؐ بالکل نووارد تھے اور ابھی آپؐ کی حکومت قائم نہ ہو ئی تھی اور گو سینکڑوں جاں نثار موجود تھے جو اپنی جان قربان کر نے کے لیے حاضر تھے مگر پھر بھی دنیا کے لحاظ سے آپؐ کے ماتحت کو ئی علا قہ نہ تھا مگر غزوۂ احزاب کے وقت گو آپؐ کےلشکر کی تعداد کم تھی مگر بار ہا کھلے میدانوں میں کفار کو شکست دے چکے تھے۔یہودیوں کے دو قبیلے جلا وطن ہو کر ان کی املاک مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی تھیں ۔مدینہ اور اس کے گردونواح میں آپؐ کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔بقیہ یہودی معاہدہ کی رو سے مسلمانوں سے دب کر صلح کر چکے تھے اس لیے اب آپؐ کی پہلی حالت اور اس حالت میں بہت فرق تھا اور اب آپؐ ایک ملک کے حاکم یا بادشاہ تھےپس اس وقت آپؐ کاصحابہؓ کے سا تھ مل کر کام کر نا جبکہ آپؐ کی عمر بھی چھپن سال کی ہوچکی تھی ایک اَور ہی شان رکھتا ہے او ریہ واقعہ پہلے واقعہ سے بھی زیاد ہ شاندار ہے۔

اس واقعہ سے اس با ت کی بھی مزید تا ئید ہو جا تی ہے کہ آپؐ کسی وقت نصیحت سے غافل نہ ہو تے تھے کیونکہ اب بھی آپؐ نے جو شعر پڑھنے کے لیے چنے ہیں وہ ایسے با محل ہیں کہ ان میں مسلمانوں کو اپنے کام میں دل لگا نے کے لیے ہزاروں ترغیبیں دی ہیں کس طرح انہیں اللہ تعالیٰ کا احسان بتا یا ہے کہ یہ خدا کا ہی فضل ہے کہ تم مسلمان ہو ئے او رخدا تعالیٰ پر احسان نہ جتا نا کہ اس کے دین میں کو شش کررہےہو بلکہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اسلام کی تو فیق دی اور تمہیں ہدایت کی را ہوں پر چلا یا۔پھر کس طرح اشارہ فرمایا کہ یہ جنگ کو ئی دنیاوی جنگ نہیں بلکہ ایک مذہبی جنگ ہے اور اس کا اصل با عث کیا ہے؟صرف یہ کہ ہم خدا کو کیوں مانتے ہیں شرک کیوں نہیں کر تے اور کیوں کفار کی بات نہیں مان لیتے۔اس میں یہ بھی بتا یا ہے کہ جنگ کی ابتداکفار کی طرف سے ہو تی ہے اور ہمارا کا م تو یہی رہا ہے کہ ہم ان کی شرارتوں کے قبول کرنے سے انکارکر تے رہے ہیں۔

میں مانتا ہوں کہ یہ شعرکسی اَور کے کہے ہو ئے ہیں اور آپؐ شعر نہیں کہتے تھے مگر موقعہ پر ان شعروں کوچُن لینا یہ بتا تا ہے کہ آپؐ کس طرح نصیحت کے پہلو کو ہمیشہ اختیار کر تے تھے۔ عرب ایسے موقعوں پر شعر کہنے اور پڑھنے کے عادی ہیں او رصحابہؓ بھی شعر کہتے تھے مگر سب اشعار میں سے ان کو چن لینا یہ حکمت سے خالی نہ تھا اور واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ انتخاب بے معنی نہ تھا بلکہ مسلمانوں کو بہت سے ضروری مسائل کی طرف متوجہ کر نا تھا۔

غرض کہ آنحضرتؐ کی زندگی پر ایک سر سری نظر ڈالنے سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ خدا کی را ہ میں ہر ایک کام میں صحابہ ؓ کے شریک رہتے تھے اور یہ بات دنیا کے کسی بادشاہ میں اس حد تک نہیں پا ئی جاتی۔

(باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button