متفرق مضامین

ہجرت قادیان اور حضرت مصلح موعودؓ کی مدبرانہ قیادت

(لقمان نظام۔ ربوہ)

‘‘اے قادیان کی مقدس سر زمین!تو ہمیں مکہّ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پیاری ہے۔لیکن حالات کے تقاضہ سے ہم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہیں ۔ا س لیے ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں ۔’’

(الفرقان اگست ،ستمبر ،اکتوبر 1963 درویشان قادیان نمبر ۔ صفحہ6)

حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب آپ 16؍ نومبر 1947 ءکوآخری قافلہ میں قادیان سے ہجرت کر رہے تھے۔

ہجرت قادیان کے وقت ہرفرد جماعت کے یہی جذبات تھے۔ہجرت قادیان جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کے الہام‘‘داغ ہجرت’’کے تحت تھی اور جیسا کہ الہام کے ظاہری الفاظ اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ہجرت کا یہ وقت جماعت کے لیے نہایت تکلیف دہ اور سخت تھا۔یہ جماعت کے لیے بڑا مشکل وقت تھاکہ انہیں اپنا وطن مالوف چھوڑنا پڑ رہا تھا ۔ ایسا و طن جس کی مبارک مٹی نے مسیح پاکؑ کے قدم چومے تھے ،ایسا وطن جس کے لیے انہوں نے اپنے وطنوں کو خیرباد کہہ دیا تھا اور اپنے اعزہ و اقرباءکو چھوڑ دیا تھا ۔ایسا وطن چھوڑنا آسان کام نہ تھا مگر خدائی نوشتوں کو کون ٹال سکتا ہے ۔

ہجرت قادیا ن کےبعدحضرت سیدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ کوجماعت کی از سرِ نَوتنظیم سازی کے حوالے سے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسا کے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ
‘‘مَیں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔”

(الفضل31؍جولائی 1949ء)

حضرت مصلح موعود ؓکی اولوالعزم مدبرانہ قیادت کی بدولت جماعت نے مصائب کا نہایت جوانمردی اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں جماعت کی ترقی کی نئی راہیں متعین ہوئیں اور جماعت کی ترقی کی جڑیں جہاں زمین کے پاتال تک پہنچیں وہاں اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔

امام جماعت احمدیہ حضرت سیدنا مصلح موعودؓ کو ہجرت قادیان کے وقت جن چیلنجز کا سامنا تھا ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

٭ …جماعت کی ہر ممکنہ سخت حالات کے لیے تیاری

٭…قادیان سے بحفا ظت املاک و احمد ی آبادی کا انخلا

٭ …جماعت کی از سر نو تنظیم سازی

٭ …لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری

٭ …ہجرت کے بعد قادیان کی حفاظت کا انتظام

حضرت مصلح موعودؓ کو بعض منذر رؤیا کے ذریعہ خطے میں پھیلنے والی ابتری کے بارے میں بہت پہلے سے اطلاع مل چکی تھی نیز آپؓ کی دور اندیش نگاہیں مستقبل میں پیدا ہو نےوالی بھیانک صورتحال کو دیکھ رہی تھیں اس لیے اس حالت سے نبرد آزما ہونے کے لیے آپؓ نے بہت پہلے سے تیاری کا عمل شروع کر دیا تھا۔

دعاؤں کی تحریک

آپؓ نے جماعت کو روزے رکھنے اور بکثرت دعائیں کرنے کی تلقین فرمائی نیز اپنے خطبات و خطابات کے ذریعہ جماعت کو اپنے حقیقی ملجأ و مأوٰی اور مولائے حقیقی کے حضور جھکنے اور اسی کے حضور گڑگڑانے کی تلقین فرماتے رہے۔ ایک خطبہ جمعہ کے موقع پر فرمایا:

‘‘دعائیں کرو دعائیں کرو اور دعائیں کرو کیونکہ اس سے پہلےدنیوی طور پر نازک وقت ہماری جماعت پر کبھی نہیں آیا خدا ہی ہے جو اس گھڑی کو ٹلا دے ۔’’

(الفضل 11؍اگست 1947ء)

چندہ حفاظت مرکز کی تحریک

اولوالعزم حضرت مصلح موعودؓ نے جہاں باطنی اسباب کو پورا کیا وہاں ظاہری تدابیر کو بھی کمال تک پہنچایا۔ چنانچہ متحدہ ہندوستان کی آخری مجلس مشاورت میں جو کہ اپریل 1947ءمیں منعقد ہوئی آپؓ نے حفاظت قادیان کے لیے حفاظتِ مرکز کا چندہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی ۔ چنانچہ افرادِ جماعت نے اس پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے نہایت قلیل عرصہ میں ایک خطیر رقم کے وعدے لکھوائے۔ اس طرح وقف آمد اور وقف جائیداد کے لیےبھی تحریک فرمائی ۔

(خطبات شوریٰ جلد 3)

جماعت کو گندم جمع کرنے کی تحریک

حضورؓ نے مختلف جماعتوں کو گندم جمع کرنے کا بھی ٹارگٹ دیا۔ اس طرح قادیان میں مشکل حالات کے لیےگندم اور دیگر ضروریات زندگی کو بھی بڑی مقدارمیں ذخیرہ کر لیا گیا اور بعد میں پیدا ہونے والی مشکل گھڑی میں پس انداز کیا ہوایہ ذخیرہ ہی پناہ گزینوں کی بقائے حیات ثابت ہوا۔

جہازوں کی خرید

حضرت مصلح موعودؓ کی دور اندیشی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضورؓ کے ارشاد مبارک کی روشنی میں ایک احمدی پائلٹ لطیف صاحب کے ذریعہ بمبئی کی ایک کمپنی سے ایک جہاز خرید اگیا۔ نیز بعد میں جماعت نے ایک اَور جہاز بھی خرید لیا ۔ان جہازوں کا اس وقت بہت فائدہ ہوا جب سڑک کے ذریعہ سفر غیر محفوظ تھا ۔ جماعتی دستاویزات،خزانہ کی رقوم اور دیگر ڈاک ان جہازوں کے ذریعہ ہی منتقل کی گئی اس کے علاوہ یہ جہاز قادیان کے محصورین کے لیے ادویات اور دیگر ضروریات زندگی لانے کا بھی ذریعہ تھے۔ان امور کی سر انجام دہی کے لیے دواحمدی پائلٹ سید محمد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسماعیلؓ صاحب اور لطیف صاحب خدمات بجا لاتے رہے۔

(سلسلہ احمدیہ جلد دوم صفحہ 152)

سب سے قیمتی چیز

تمام اشیا سے اہم اور قیمتی چیز جو قادیان سے لاہور پہنچائی گئی اس کے متعلق سید محمد احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ آج میں اپنی سب سے قیمتی چیز لے جانے کے لیے دوں گا اورآپؓ نے انہیں انہی الفاظ کے ساتھ مکرم شیخ بشیر احمد صاحب(امیر جماعت لاہور)کے حوالہ کرنا ہے۔حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ایک چھوٹا کیس لے کر آئیں۔ اس کو کھولا تو اس کے اندر مختلف کاغذتھے ۔حضورؓ نے فرمایا یہ تفسیری نوٹس ہیں جو میں نے مختلف وقتوں میں لکھے ہیں اور آج تم نے انہیں لاہور پہنچا نا ہے۔

(سلسلہ احمد یہ جلد دوم صفحہ180)

جماعتی خزانہ کی منتقلی

حضورؓ کے ارشاد کی روشنی میں لائیڈز بینک(Lloyds Bank) امرتسر میں جماعت کے اکاؤنٹ سےرقم بذریعہ تار کراچی کے لائیڈز بینک میں منتقل کر وا دی گئی ۔قیام لاہور کے دوران جماعتی اخراجات مثلاً نئے مرکز کے لیے جگہ کی خرید،مہاجرین کے خوردو نوش کا انتظام اوردیگر ضروریات کے لیے یہی رقم مصرف میں لا ئی گئی۔

(سلسلہ احمدیہ جلد دوم صفحہ174)

امانت فنڈ کی تحریک

حضورؓ نے افراد جماعت کو اپنی رقوم صدر انجمن احمدیہ قادیان اور تحریک جدید کے امانت فنڈ میں جمع کروانے کی بھی تحریک فرمائی۔

(الفضل19؍ستمبر1950ء)

افراد جماعت نے اس تحریک پر لبیک کہتے ہو ئے اپنی رقوم امانت فنڈ میں جمع کروا دیں۔اس میں بعض دوسرے مسلمانوں نے بھی اپنی رقوم جمع کروائیں ۔چنانچہ جب مہاجرین لاہور پہنچے تو عندالمطالبہ انہیں رقوم واپس کر دی گئیں ۔

مندرجہ بالا اقدامات حضرت مصلح موعودؓ کی ژرف نگاہی اوردوراندیشی پر دلالت کرتے ہیں۔

ہجرت خواتین مبارکہ و حضرت مصلح موعودؓ

خطے کے حالات روز بروز خراب ہو تے جا رہے تھے اس لیےحضرت مصلح موعودؓ نے24؍صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ باہمی مشورہ کے بعد حضرت مسیح پاک ؑ کے خانوادۂ مبارک کی خواتین مبارکہ کو قادیان سے بھیجنے کا فیصلہ فرمایا۔ چنانچہ 25؍اگست1947ءکو قادیان سے پہلا کنوائے (convoy) روانہ ہوا ۔اس کے امیر حضرت نواب عبداللہ خانؓ صاحب تھے اور مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی جیپ بھی بسوں کے آگے آگے تھی۔ نیز جماعت کے ایک ہوا ئی جہاز کے ذریعہ اس کی فضائی نگرانی بھی جاری رہی۔اس قافلہ میں حضرت اماں جانؓ اور بعض دوسری خواتین مبارکہ سفر کررہی تھیں ۔اللہ کے فضل و کرم سے یہ قافلہ بخیر و خوبی لاہور پہنچ گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نےاحباب جماعت سے مشورہ کرنے کے بعد31؍اگست1947ءکو ہجرت کرنے کا ارادہ کر لیا۔ حضورؓ سوا ایک بجے قادیان سے روانہ ہوئے اور تقریباً ساڑھے چاربجے حضرت شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر لاہور پہنچ گئے۔

(الفضل31؍ جولائی 1949ء)

ہجرت قادیان میں مصلحت

اعلائے کلمہ اسلام اور جو مشن حضرت اقدس مسیح موعود ؑ لائے تھے اس کی تکمیل کے لیے قادیان سے ہجرت وقت کی ضرورت تھی اور ایسی مثالوں سے الہٰی جماعتوں کی تاریخ بھری پڑی ہے نیز حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات سے ہجرت کے واضح اشارے موجود تھے چنانچہ اس حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:

‘‘شروع میں میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتے ہوئے مارا جاؤں ورنہ جماعت میں بزدلی پھیل جائے گی اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چٹھیاں بھی لکھ دی تھیں لیکن بعد میں حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ امر منکشف ہوا کہ ہمارے لیے ایک ہجرت مقدر ہے اور ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے ۔ویسے تو لوگ اپنی جگہیں بدلتے رہتے ہیں مگر اسے کوئی ہجرت نہیں کہتا۔ ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے ۔پس میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت یہی ہے کہ قادیان سے باہر چلا جاؤں ۔حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کےمطالعہ سے میں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہیے۔’’

(الفضل 31؍ جولائی 1949ء)

رہائش کا انتظام

جماعت احمد یہ لاہور نے ہجرت سے قبل ہی احباب کے قیام کے لیے میو ہسپتال کی وسیع وعریض عمارت کے قریب چار کوٹھیاں رتن باغ،جودھا مل بلڈنگ،جسونت بلڈنگ،اور سیمنٹ بلڈنگ کا انتظام کیا ہوا تھا ۔ان کو ٹھیوں میں جودھا مل بلڈنگ میں دفاتر اور کارکنان کی رہائش تھی ،خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا قیام رتن باغ میں جب کہ باقی کی دو کو ٹھیاں دیگر افراد جماعت کی رہائش کے لیے مختص کی گئیں۔

صدرا نجمن احمدیہ پاکستان کا قیام

لاہور پہنچنے کے اگلے روز ہی آپؓ نے کام کا آغاز کر دیا اور جماعت کا مرکزی نظام قائم فرمایا۔جماعتی نظام کے بہترین نظم و نسق کے لیے آپ نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی بنیاد ڈالی اور مختلف نظارتیں قائم فرمائیں اور ان کے لیے سلسلہ کے بزرگان کا تقر ر فرمایا نیز آپؓ نے ہدایت فرمائی کہ انجمن کے اراکین روزانہ دس سے بارہ بجے تک رتن باغ میں میٹنگ کے لیے تشریف لا ئیں اور اپنے مفوضہ امور کے متعلق رپورٹس دیں نیز رابطہ کے لیے ریڈیو کے ذریعہ اعلانات کیے جاتے رہے۔

پہلی مجلس مشاورت

7؍ستمبر 1947ءکو ہجرت کے بعد پہلی مجلس مشاورت ہوئی اس میں طے پایا کہ احمدی عورتوں ، بچوں ،دفاترکے کارکنا ن اور سلسلہ کے علماء کو فوری طور پر قادیان سے نکالنے کا بندوبست کیا جائے۔حضورؓ نے اس اہم کام کے لیے ان تھک جدوجہد کا آغاز فرما دیا۔

دو سو ٹرکوں کی تحریک

آپؓ نے 11؍ستمبر 1947ءکے خطبہ جمعہ میں دو سو ٹرک اکٹھے کرنے کی تحریک فرمائی کہ ہمیں قادیان کی عورتوں اور بچوں کو نکالنے کے لیےکم از کم دو سو ٹرکوں کی فوری ضرورت ہے۔ جو دوست بھی ٹرک لے جا سکتے ہوں وہ اطلاع دیں تا کہ ا ن کو ایک انتظام کے ماتحت قادیان بھجوایا جا سکے۔

(الفضل 30؍ستمبر 1947ء)

اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کی تحریک میں برکت فر مائی اور افرادجماعت نے آپؓ کی اس تحریک پر والہانہ لبیک کہا ۔چنانچہ بچوں ،عورتوں اور بوڑھے افراد پر مشتمل افراد جماعت کے قافلوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ، یہ سلسلہ دو ماہ تک جاری رہا ۔یہ قافلے جودھا مل بلڈنگ اور رتن باغ کے سامنے آکر کھڑے ہوتے تھے۔قافلوں کی آمد ورفت کے دوران افرادِ جماعت کی خیریت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ اپنے خدا کے حضور گڑگڑاتے رہتے اور نوافل کی ادئیگی کے بعد جائے نماز آپؓ کے آنسوؤ ں سے تر ہو جاتی،روزانہ صدقہ دیتے اور پریشانی کے عالم میں ٹہلتے ٹہلتے قرآن کریم کی تلاوت فرماتے۔

رابطہ جماعت و اجراء الفضل

جماعت کے باہمی رابطہ اور دوسرے لوگوں سے رابطہ کے لیے خصوصی بلیٹن جاری کیے جاتے رہے نیز مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ریڈیو سے بھی اطلاعی خبریں نشر کرواتے رہے،تاہم باقاعدہ جماعتی اخبار کی ضرورت کے تحت شدید مالی مسائل کے باوجود حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے تحت مکرم مولانا روشن دین تنویر صاحب کی ادارت میں 15؍ستمبر1947ءکو الفضل کی اشاعت لاہور سے ہونے لگی نیز الفضل کے اداریہ میں حضورؓ کے بلند پایہ مضامین کی اشاعت کا بھی ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔

مرکزی تعلیمی اداروں کا قیام

ہجرت کے فوراً بعد ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قادیان کے مرکزی تعلیمی اداروں کو کھولنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حضور انور ؓکے ارشاد مبارک کی روشنی میں نہایت بے سرو سامانی کے باوجود جماعت کی مرکزی تعلیمی درس گاہوں کا آغاز کر دیا گیا۔

ہجرت کے بعد پہلا جلسہ سالانہ

حالات کی سختی اور نہایت تنگی کے باوجود ہجرت کے بعد پہلا جلسہ سالانہ 26؍اور 27؍دسمبر کو محدود پیمانہ پر مجلس مشاورت کے ساتھ ہی لاہور میں جودھا مل بلڈنگ متصل رتن باغ لاہور کے ایک وسیع میدان میں منعقد ہوا۔

نئے مرکز کا قیام

حضورؓ نے نئے مر کز احمدیت کے قیام کے لیے جگہ کی تلاش کے لیےکو شش کرنے کا ارشاد فرمایا ۔چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں نہایت تگ و دَو کے بعد چَک ڈھگیاں(ربوہ کی مقدس سرزمین کا پرانا نام)کی اراضی خرید لی گئی اور قیام ربوہ سےاحمدیت کے ایک نئے روشن اور تاب ناک دور کا آغاز ہوا۔

مہاجرین کی آبادکاری

حضرت مصلح موعودؓ نےمہاجرین کی رہائش کے انتظام کے لیے نظارت نَو آبادی مقرر فرمائی۔ اور ذریعہ معاش کے مسائل کے حل کے لیے نظامت تجارت بھی قائم فرمائی۔

عارضی رہائش

حضورؓ نے عارضی رہائش کے لیے لاہور میں جماعتی استعمال میں چار کوٹھیوں کے گرد و نواح اور ان کے متصلہ میدانوں میں سائبان لگانے کا ارشاد فرمایا اور ایک خطیر رقم خرچ کر کے مہاجرین کے خوردو نوش،ادویات اور ڈاکٹرز وغیرہ کا انتظام فرمایا۔

مستقل رہائش

مہاجرین کی مستقل رہائش کے لیے نظارت نَوآبادی کا عملہ دن رات کام کرتا ۔ نظارت ہذا نے مہاجرین کی آبادکاری کے حوالہ سے خصوصی طور پر خدمات سر انجام دیں۔

ذرائع معاش

نظامت تجارت کی طرف سے مہاجرین کے پیشہ کے حوالہ سے کوائف لیے گئے اور انہیں جلد اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے مہاجرین کے پیشہ کے مطابق ذریعۂ معاش کاا نتظام کیا جاتا رہا۔

کمبلوں اور لحافوں کی تحریک

موسم سرما کی شدت سے بچنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓنے جماعتوں کو مہاجرین کے لیے بستر بھیجنے کی تحریک کرتے ہو ئے فرمایا:

‘‘مَیں …احمدیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آج ان کے لیے ایثار اور قربانی کا جذبہ دکھانے کا وقت آگیا ہے اور سوائے ان بستروں کے جن میں وہ سوتے ہیں اور سوائے اتنے کپڑوں کے جو ان کے لیے اشد ضروری ہیں باقی سب بستر اور کپڑے ان لوگوں کی امداد کے لیے دے دیں جو باہر سے آ رہے ہیں۔’’آپؓ نے زمیندار افراد کومہاجرین کو بطور بستر استعمال کے لیے تالابوں سے کسیر ،گنوں کی کھوری اور دھان کے چھلکے بھی دینے کا ارشادفرمایا۔

(الفضل 19؍اکتوبر 1947ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10صفحہ100)

افراد جماعت نے حضورؓ کی تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور نہایت قلیل مدت میں ہزاروں ہزار مہاجرین کے لیے موسم کی شدت سے بچنے کا مناسب انتظام ہو گیا۔

مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے وفود

حضورؓ نے ایسے مہاجرین کے لیے جو ابھی پراگندگی کی حالت میں تھے اور مختلف مسائل سے دو چار تھے ماہ نومبر 1947ءمیں مختلف وفودروانہ کیے۔ان وفود نے جہاں مہاجرین کو امداد بہم پہنچائی وہاں ان کی جماعتوں کو اپنے مظلوم بھائیوں کی مد د کی توجہ دلائی۔(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ92تا104)
حضرت مصلح موعودؓکی متضرعانہ دعاؤں اور حسن انتظام کی بدولت لاکھوں احمدی مہاجرین کےلیے تھوڑے ہی عرصہ میں رہائش اور ان کے ذرائع معاش کا انتظام ہو گیا اوروہ اسلام کی ترقی کے لیے دیگر احمدیوں کے شانہ بہ شانہ قربانیاں کرنے لگے۔

حضرت مصلح موعودؓ کا بے مثال نمونہ

حضورؓ کو مہاجرین کے دکھ اور تکلیف کا اس قدر احساس تھاکہ آپؓ نے ان ایام میں اپنے لیے بھی کوئی آسائش گوارا نہ کی ۔ آپؓ نے چارپائی پر سونا ترک کر دیا ،نیچے زمین پر ہی سو رہتے۔ خاندان مبارک کے افراد کو بھی دیگر احباب جماعت کی طرح یہی ارشاد تھا کہ صرف ایک روٹی پر گزاراکریں۔جیسا کہ ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کی وفات پراپنے خطبۂ جمعہ میں ایک واقعہ بیان فرمایا تھا کہ حالات کی سختی کی وجہ سے جماعت کو ایک روٹی پر گزارہ کرنے کی ہدایت تھی تو مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمدصاحب(جو ابھی بچہ ہی تھے)نے زیادہ روٹی کھانے کا کہاتھا تو حضرت مصلح موعود ؓنےارشاد فرمایا کہ میرے حصہ کی آدھی روٹی ان کو دے دیا کریں اور میں خود آدھی روٹی کھا لوں گا۔

اے فضل عمرؔ تیرے اوصاف کریمانہ

یاد آ کے بناتے ہیں ہر روح کو دیوانہ

دَور درویشی کا آغاز

ما ہ اکتوبر 1947ءکے آخری عشرے میں حکومتی وفد قادیان آئے اور حکومتی افسران نے فیصلہ کیا کہ تین سو کے قریب افراد مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے قادیان رک جائیں اور باقی افراد جماعت قادیان سے چلے جائیں۔ چنانچہ حکومت کے اس فیصلہ کے تحت تین سو کے قریب احمدی مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے قادیان میں رک گئے۔

(سلسلہ احمدیہ جلد 2 صفحہ 218)

قادیان سے 16؍نومبر1947ء کو آخری قافلہ کی روانگی کے بعد مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے قادیان میں بسنے والے یا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحریک پر پاکستان اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے حفاظتِ مرکز کی نیت اور قربانی کے جذبے کے تحت قادیان میں آ جانے والوں کو تاریخ احمدیت میں ‘‘درویشان قادیان’’کے نام سے جانا جاتا ہے۔ان افراد نے یہ قابل فخر خطاب حضرت مسیح پاکؑ کے الہام ‘‘یہ (نان )تیرے لیے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے’’کے مطابق پایا ۔خاندان حضرت مسیح پاک کی نمائندگی میں مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے قادیان میں مستقل طور پر رہنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں ۔دَور درویشی کے آغازسے تاریخ احمدیت کے ایک نئے باب کا آغاز ہو ا۔ان درویشان نے حضرت مسیح پاکؑ کی بستی کو آباد اور قائم رکھنے کی خاطر اس دنیا یعنی دارالابتلا کی ہر مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔بعض اوقات انہیں زندہ رہنے کے لیے صرف ابلی ہو ئی گندم پر گزارا کر نا پڑا۔ان کی قربانیوں کے مطالعہ سے روح کانپ اٹھتی ہے، اور ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔درویشان کی یہ قربانیاں رہتی دنیا تک تابناک ستاروں کی مانند چمکتی اور دمکتی رہیں گی اورقادیان کی فضاؤں میں گونجنے والی صدائے نعرہ ہائے تکبیر تا قیامت انہیں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔

حضرت مصلح موعودؓ ،پیکرِ عزم و ہمت نے محض خدا کے فضل اور روح القد س کی تائید سے اپنی سخت ذہانت اور فہم کی بدولت نہ صرف جماعت کو بڑے نقصان سے بچا لیا بلکہ ہمارے مرکز قادیان دارالامان کی حفاظت اور تقدّس کا سامان کرنے کے ساتھ ساتھ ایک نئے مرکز میں جماعتی ترقی کی از سرِنَو بنیاد ڈال دی۔آپؓ کو مسیح پاک کی اس بستی سے از حد محبت تھی۔ قادیان کو یاد کرتے ہوئے حضورؓ اپنے منظوم کلام میں فرماتےہیں ؎

یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب

پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیان

خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا

سوتے سوتے بھی یہ کہہ اٹھتا ہوں ہائے قادیان

زمین وآسمان گواہ ہیں کہ برِ صغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت جب دوسرے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا اُس وقت احمدیوں کا واحد سہارا آستانہ خلافت ہی تھا جس کے ذریعہ انہوں نے نجات وبرکت پائی اور خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور اس کے رحم کی بدولت وہ برکتیں آج بھی ہم خوش نصیبوں میں خلافتِ خامسہ کے بابرکت وجود کی صورت میں موجود ہیں۔ اگر آج ہم اس دنیا کی ہولناک تباہیوں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے سارے دل اور ساری جان کے ساتھ آستانہ خلافت کے ساتھ وابستہ ہونا ہو گا ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button