متفرق مضامین

لجنہ اماء اللہ ۔اغراض و مقاصد اور ذمہ داریاں

(امۃ الباری ناصر)

لجنہ اماء اللہ ۔اغراض و مقاصد اور ذمہ داریاں ۔ خلفائے سلسلہ کی ہدایات کی روشنی میں

لجنہ اماء اللہ کے قیام کے اغراض و مقاصد وہی ہیں جو اسلام احمدیت ایک عورت سے تقاضا کرتا ہے ۔ خالقِ کائنات کا حقیقی عرفان اور اس پر زندہ ایمان پیدا کرنا۔معبود اور عبد کے درمیان فاصلے کم کرتے کرتے ایک زندہ تعلق پیدا کرنا۔ قرآن پاک کو امام،نور اور ہدایت سمجھنا۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے سچا عشق اورآپؐ کی کامل اتباع کرنا قرآن مجید میں مذکورنیک عورتوں کی صفات پیدا کرنے کی دعا اور کوشش کرنا (مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ(التحریم:6)مسلمان، ایمان والیاں، فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزے رکھنے والیاں)۔

حضرت مسیح موعود مہدی معہود ؑکے ہاتھ پر اسلام کے احیائے نَو کے لیے جمع ہونا اور جمع کرنا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنا جماعت کو متحد یک جان رکھنے کی کوشش کرنا تاکہ کما حقہ ٗ خیر امت کہلاسکیں ۔
ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے عورت کو دورِجاہلیت کے قعر مذلت سے نکال کر تعلیم و تربیت سے سنوار کرمعاشرے کا قابلِ قدر وجود بنایا تھا ۔ مگر اسلام کے انحطاط کے ساتھ عورت کو پھر اس کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ۔ اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں صاحبِ کوثر ؐکی بیٹیوں کی قسمت چمکی۔ ایک جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ان کی زندگی میں انقلاب لے آئے ۔ آپ ؑکی حیات بخش دعاؤں،تعلیم اور تربیت نے ایسے ایسے قابل رشک ہیرے تراشے جن کی روشنی نے نئے آسمان اور نئی زمین میں اُ جالا کردیا ۔آپ ؑکی قوتِ قدسیہ نے بے داری کی لہر پیدا کی ۔عورتیں جو اپنی پیدائش کی غرض سے بے خبر ہوکر صرف گھر داری میں جاہل غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہی تھیں اپنے اللہ سے تعلق بڑھانے کے لیے دین سیکھنے کی شیدائی ہوگئیں۔ اس ضمن میں دوایمان افروز واقعات پیش ہیں جن سے لجنہ اماء اللہ کے قیام کا پس منظربھی واضح ہوگا۔

حضرت ام طاہرکی والدہ بیگم حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحبؓ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:

حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی مگر ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں ہم پر کچھ رحمت ہونی چاہیے کیونکہ اس غرض کے لیے آئے ہیں کہ فیض حاصل کریںحضور ؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا

‘‘جو سچے طلبگار ہیں ان کی خدمت کے لیے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں۔ ہمارا یہی کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں’’

اس سے پہلے حضورؑ نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھامگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرمادی۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ882)

دوسرا واقعہ ایک تیرہ سال کی بچی کا ہے جس کےسر سے والد محترم کا سایہ 13؍ مارچ 1914ء کو اُٹھا اور وہ 14؍ مارچ 1914ء کو نو منتخب خلیفہ کوایک خط لکھتی ہے ۔

‘‘گزارش ہے کہ میرے والد صاحب نے مرنے سے دو دن پہلے مجھے فرمایا کہ ہم تمہیں چند نصیحتیں کرتے ہیں ۔ میں نے کہا فرمائیں میں انشاء اللہ عمل کروں گی تو فرمایا بہت کوشش کرنا کہ قرآن آجائے اور لوگوں کو بھی پہنچے ۔ میرے بعد اگر میاں صاحب خلیفہ ہوں تو ان کو میری طرف سے کہہ دینا کہ عورتوں کا درس جاری رہے اور میں امیدوار ہوں آپ قبول فرمائیں گے ۔ میری بھی خواہش ہے اور کئی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی خواہش ہے کہ میاں صاحب درس کرائیں ۔ آپ برائے مہربانی درس صبح ہی شروع کرادیں میں آپ کی نہایت مشکور رہوں گی۔امۃ الحئی بنت حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ’’

یہ ذہین و فطین تعلیم کی لگن رکھنے والی بچی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حرم میں آئیں ۔ آپ ؓعورتوں کی تعلیم و تربیت کی زبردست لگن رکھتی تھیں۔ آپ ؓ ہی کی تحریک پر حضور ؓنے 15؍ دسمبر 1922ء کو ایک مضمون تحریر فرمایاجس کی اولین مخاطب قادیان کی مستورات تھیں لیکن در حقیقت یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیادی دستاویز تھی۔ اس سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے زمانے میں جو تحریکیں ہوئی تھیں سب مردوں کے لیے تھیں ۔ یہ عورتوں کے لیے پہلی علمی دینی تمدنی تحریک تھی ۔ اس مضمون کے حرف حرف سے خدمت اسلام کا توانا عزم و حوصلہ جھلکتا ہے ۔ آپؓ نے طبقۂ اناث کو ایک لائحہ عمل دیا :
‘اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے۔ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ عورتوں میں اب تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہےہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیے جس سے ہم اللہ تعالیٰٰ کے فضلوں کے وارث بن سکیں’

ضرورت اس بات کی ہےاس مقصد کے حصول کے لیے سترہ ضروری اموراس اولوالعزم ہستی نے تجویز فرمائے ان میں علم حاصل کرنا اور دوسروں تک علم پہنچانا ۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات جاننا اور ان پر عمل کرنا ۔ جماعت میں اتفاق اور وحدت کی روح قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہنا۔ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی ہمہ وقت سعی کرنا۔بچوں میں خدا اور رسولِؐ خدا ، حضرت مسیحِ موعودؑ اور خلفائے کرام کی محبت پیدا کرنا ۔ خلافت کی اطاعت کا درس دینا اور سب سے اہم یہ دعا کرنا کہ ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں جو ہماری پیدائش میں خالقِ حقیقی نے مد نظر رکھے ہیں۔آخر میں آپ نے لکھا تھا کہ جو اس تحریک کے مندرجات سے متفق ہیں وہ دستخط کردیں۔اس پر چودہ خواتین نے دستخط کیے پہلا نام یہ تھا ‘حضرت ام المؤمنین ام محمود نصرت جہاں بیگم ’، یہ دستخط کنندگان حضور ؓکے ارشاد پر 25؍دسمبر 1922ءکو حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ؓ کے گھر جمع ہوئیں۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓنے بھی خطاب فرمایا اس میں لجنہ کا قیام عمل میں آیا ۔ تنظیم کا نام لجنہ اماءِ اللہ ،اللہ کی لونڈیوں کی انجمن تجویز فرمایا۔آپؓ نے لجنہ کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کرکے کئی مشورے دیے اور نصیحتیں کیں۔

حضرت اماں جان ؓ لجنہ کی پہلی پریزیڈنٹ منتخب ہوئیں ۔ منتخب ہونے کے بعد آپؓ نے حضرت سیدہ اُم ناصر صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر کرسیٔ صدارت پر بٹھا دیا۔

(الفضل 8؍ فروری 1923ء)

(تاریخ لجنہ اماء اللہ حصہ اول صفحہ66تا72)

لجنہ کو یہ سعادت حاصل رہی کہ حضرت سیدہ محمودہ بیگم ام ناصر صاحبہ ؓ1922ء سے 1958ءتک چھتیس سال لجنہ کی صدر رہیں (ان میں دو سال بیماری کی رخصت رہی )۔

پہلی سیکرٹری حضرت سیدہ امۃ الحئیؓ منتخب ہوئیں جو شاندار مثالی خدمات ادا کرتے ہوئے 1924ء میں وفات پاگئیں ۔حضرت صاحبؓ کو ان کی وفات کا بہت صدمہ ہوا فرمایا‘‘میرے نز دیک کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کی عورتوں میں تعلیم نہ ہو…میں نے ان سے جو شادی کی اس وقت میری نیت یہ تھی کہ ان کے ذریعہ بآسانی عورتوں کو تعلیم دے سکوں گا ۔(الفضل 3جنوری 1925ء)مرحومہ فوت ہوگئیں میرے دل کا ایک کونہ خالی ہوگیا میری وہ سکیم جو مستورات کے متعلق تھی یوں معلوم ہوا کہ ہمیشہ کے لیے تہ کرکے رکھ دی گئی ہے …امۃ الحئی مرحومہ کی وفات کے بعد مجھے سلسلہ کی مستورات کی تعلیم کی فکر پیدا ہوئی ۔(الفضل 18؍ اپریل1925ء)

(ان کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ چھوٹی آپا سیکرٹری منتخب ہوئیں جن کو سترہ سال اس عہدے پر خدمت کا موقع ملا ۔حضرت سید ہ ام ناصرؓ کی رحلت کے بعد 1958ءمیں آپ کو صدر منتخب کیا گیا۔آپ نے تا حیات 1999ء تک غیر معمولی خوبیوں اور قابلیت کے ساتھ صدرلجنہ کے فرائض ادا کیے )

لجنہ کے قیام کے ساتھ ہی مجوزہ قواعد و ضوابط کے مطابق سرگرمی سے کام شروع ہوگیا۔حضور ؓنے لجنہ کے امیر کے انتخاب میں درجِ ذیل امور کا خیال رکھنے کا ارشاد فرمایا:

‘‘طبیعت غصے والی نہ ہولیکن افراد پر حکومت کرسکے ۔ کام کرنے والی ہوصرف رعب ہی رعب نہ ہو ۔ اپنے منشا کو منواسکے اور خود بھی ماننے والی ہو۔ کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے حکومت پائی جائے رُعب نرمی، حلم ، علم اور محبت سے ہوا کرتا ہے ۔ سخت الفاظ بالکل استعمال نہ ہوں۔’’ (استفادہ از تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 71-72)

لجنہ میں تعلیمی انقلاب

قادیان میں تعلیم کے لیے اولیت حضرت اقدس مسیح موعو دعلیہ السلام کےبتائے ہوئے طریقِ تعلیم کو دی گئی ۔آپ ؑنےفرمایا تھا:

‘‘علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے (اور اس سے… ناقل)خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا یخْشَی اللّٰه مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ۔(الفاطر: 29)اگر علم سےاللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو وہ علم ترقی کا ذریعہ نہیں ’’

(الحکم جلد 7نمبر 21 مورخہ 10؍ جون 1903ء)

لجنہ کی پہلی رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 1924ء کے مطابق قادیان میں چار درس گاہیں کھولی گئیں دو حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر کے اندر جہاں حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہؓ اور حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہؓ پڑھاتی تھیں۔ تیسری درس گاہ محترمہ صالحہ بیگم صاحبہؓ اہلیہ سید میر محمد اسحق صاحب ؓاور چوتھی درسگاہ میں محترمہ مریم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ؓپڑھاتی تھیں۔

ان مدرسوں میں کیا پڑھایا جاتا تھا اس کی ایک جھلک اسی رپورٹ سے ملتی ہے۔

‘‘عربی کی پہلی کتاب ختم ہو گئی ہے اور دوسری ہونے والی ہے۔ قرآن مجید اسباق القرآن کے طریق پر پڑھایا جاتا ہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓاور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے درسوں کے نوٹ بھی پڑھائے جاتے ہیں اور یاد کروائے جاتے ہیں ۔کتاب الصرف بھی پڑھائی جاتی ہے فقہ احمدیہ کے مسائل یاد کراتی ہوں ۔ کشتی نوح اور اربعین ختم ہو گئی ہے ۔ نزول المسیح اور عمدۃ الاحکام ختم ہونے والی ہے۔ قرآن مجید کا تیسرا پارہ شروع ہے۔

(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 129)

پھر ان درسگاہوں میں پڑھنے والی آگے پڑھانا شروع کردیتیں ۔ اس طرح قادیان میں ایک تعلیمی انقلاب آگیا ۔ گھر گھر میں قرآن پاک تو پہلے بھی پڑھایا جارہا تھا اب باقاعدہ تعلیمی کوائف جمع کیے گئے۔ بڑی عمر کی عورتوں کو بھی اردو پڑھنا اور دستخط کرنا سکھایا گیا ۔ اس طرح تعلیم بالغاں کے لیےایک ایک ممبر کے ذمے ایک خاتون کو پڑھانے کا کام سونپ دیا گیا ۔ پھرخلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے 17؍ مارچ1925ء کو دارِمسیح میں باقاعدہ سکول کا افتتاح فرمایا۔ آپؓ نےفرما یا:

‘‘یہ مدرسہ میراایک علمی درخت ہے۔مجھے مدرسہ خواتین سے خاص طور پر محبت ہے اور میں اس مدرسہ کے لیے تڑپ رکھتا ہوں کہ جس غرض کے لیے جاری کیا گیا ہے وہ پوری ہو یعنی استانیاں تیار ہوں جو اعلیٰ نسلوں کی تربیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کر سکیں۔’’

(الازہار لذوات الخمار صفحہ 191)

پہلے یہ سکول پرائمری تھا ۔ پھر مڈل تک بڑھایا دیا گیا ۔ 1931ء میں پہلی دفعہ لڑکیاں انٹر نس کے امتحان میں شریک ہوئیں۔ 1936ء میں اس سکول میں عام مروجہ تعلیم رکھ کر اس کے بعد دو طرح کے نصاب رائج کیے گئے۔ ایک میں مروجہ تعلیم دوسرے میں دینیات اور سلسلہ کا لٹریچر پڑھایا جاتا۔

(استفادہ از سلسلہ احمدیہ صفحہ 380)

خواتین میں علم کی لگن لگانے کے لیے حضور ؓ نے فروری، مارچ 1923ء میں لجنہ میں تین لیکچرز دیے جن میں علم کی 82 اقسام گنوائیں۔ یہ محیر العقول تفصیل اس غرض کے لیے تھی کہ خواتین اپنے ذوق کے مطابق مضمون کا انتخاب کرلیں ۔

حضور ؓطالبات کا بہت خیال رکھتے اور خاص شفقت سے پیش آتے ۔ ان کی تعلیمی کاوشوں کو سراہتے ۔ آپؓ بنفس نفیس ان کو پڑھاتے اور سلسلے کے جید علما ئے کرام کو معلم مقرر فرماتےتھے جو ان طالبات کو پڑھا کر مستقبل کی معلمات تیار کر رہے تھے ۔آپؓ کے ذہن میں عورتوں کو تعلیم دینے کے بہت سے منصوبے تھے ۔ جن میں حضرت سیدہ امۃ الحئی ان کی خاص مدد کر رہی تھیں کہ1924ء میں جواں عمری میں ان کی وفات ہوگئی جس کا آپ ؓکو بہت صدمہ ہوا۔

خواتین کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو جلا دینے کے لیے ایک رسالہ مصباح 15؍ دسمبر 1926ءکو جاری کیا گیا ۔ 16؍ستمبر 1927ءکو امۃ الحئی لائبریری قائم کی گئی ۔ حضرت سیدہ ام طاہؓر اس کی انچارج تھیں۔ خواتین کو باہنر بنانے کے لیے ، دستکاری کی طرف توجہ دلائی گئی تاکہ وقت ضائع نہ ہو اور آمد کا ذریعہ بھی بنے ۔پھر اس کے لیے نمائشیں لگانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ جلسہ سالانہ میں خواتین کے جلسے الگ کیےجانے لگے جن کا تمام تر انتظام عورتیں خود سنبھالتیں ۔ اسی طرح خدا کی راہ میں مالی قربانی کے لیے مسجد برلن کے لیے چندہ جمع کرنے کا کام لجنہ کے سپرد کیا گیا ۔

مختلف وجوہ سے مسجد برلن نہ بن سکی اس جمع شدہ رقم میں مزید شامل کرکے مسجد فضل لندن بن گئی جو لجنہ کی مالی قربانیوں کی مستقل گواہ بن گئی۔ لجنہ نے ہر آواز پر سرفروشی سے اپنا تن من دھن قربان کیا ۔وہ شدھی کی تحریک ہو، الیکشن کا کام ہو یا کشمیر کے لیے چندہ، خواتین جان کی بازی لگانے کے لیے تیار رہتیں۔

ماہِ اپریل 1944ءکو حضرت مصلح موعود ؓکو الہام ہوا

‘‘اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی’’

(الفضل 29؍ اپریل 1944ءصفحہ 3)

قادیان سے دوسرے شہروں میں اور پھر دوسرے ملکوں میں لجنہ کی تنظیم قائم ہوتی رہی تقسیم بر صغیر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ایک پورا باغ ایک جگہ سے دوسری جگہ لگادیا ۔ ربوہ کو حضرت چھوٹی آپا کی صدارت میں لجنہ مرکزیہ کی حیثیت حاصل رہی۔

لجنہ اماء اللہ کا عہد

14؍ فروری 1955ءکو لجنہ اماء اللہ کا عہد نامہ منظور ہوا

اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ

و اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ

میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان و مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لیے تیار رہوں گی نیز سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی

1956ء میں اس میں ایک جملے کا اضافہ کیا گیا ‘‘اور خلافتِ احمدیہ کے قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہوں گی ’’

( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 401)

لجنہ حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جوتینتالیس سال تک اپنے بانی کی نگہداری میں پھلا پھولا آپؓ اس کی روز افزوں افزائش دیکھ کر بہت خوش ہوتے مزید بار آوری کے لیے رہنمائی فرماتے کوئی بھی تفصیل لجنہ کی سو سال کی کارکردگی کا نقشہ نہیں کھینچ سکتی ۔

غیر ممکن ہے کہ کسی بھی حسابی قاعدے سے لجنہ کی کارکردگی کا کوئی جائزہ سمیٹ کر ایک مضمون میں پیش کیا جاسکے۔ کوئی بھی میدان لے لیں لجنہ کی مساعی قابل رشک ہیں تعلق باللہ اور عشق رسول اللہ ﷺ میں ایسی ایسی دل گداز مثالیں ملتی ہیں کہ اگر قبول کرنے والے دل ہوں تو یہی حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت کا بڑا ثبوت ہے کہ یہاں عورتیں بھی صاحب رؤیاو کشوف و الہام ہیں ۔ قرآن پاک سے محبت کا عنوان ہو تو کسی کٹیا میں بیٹھی محلے کے احمدی غیر احمدی بچوں کو قرآن مجید پڑھانے والی احمدی خاتون سے لے کر قرآن پاک کے دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے والی کوئی قانتہ تفسیر کرنے والی کوئی کفیلہ خانم سب اس جماعت میں مل جائیں گی۔ تعلیم القرآن کلاسز تو جماعت کی روایت بن گئی ہیں توکل علی اللّٰہ کی مثال میں ان ہاجرہ صفت خواتین کو دیکھیے جو اپنے والد، بھائی، شوہریا بیٹے کو تبلیغ کے لیے اَن دیکھے ملکوں میں بھیجتے ہوئے حوالہ بخدا کرتی ہیں اور صبر کا اعلی ٰنمونہ پیش کرکے اپنے اللہ کو راضی کرتی ہیں۔ تعلیم وتربیت کے میدان میں احمدی خواتین ایک ممتاز مقام پر نظر آتی ہیں مگر ایک خاتون جس کی تعلیم اور تربیت سے جماعت کو سب سے زیادہ فیض پہنچا ہے جو لجنہ کی سب سے بڑی محسنہ ہیں وہ نذرِ الٰہی حضرت مریم صدیقہ چھوٹی آپاؒ ہیں ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خواہش کہ ان کی بیگمات معلمات بنیں سب سے زیادہ حضرت چھوٹی آپا کے وجود میں پوری ہوئی ۔ خود علم حاصل کیا اور دوسروں تک پہنچایا ۔ آپ کی تنظیمی قابلیت ، فن تحریر اور فن تقریر سے ایک عالم فیضیاب ہوا ۔حضرت مصلح موعود ؓنے قرآن کے تفسیری نوٹس آپ سے لکھوائے جو بہت بڑی سعادت ہے ۔ دنیا بھر میں حضرت سیدہ نصرت جہاں ؓکی بیٹیاں ‘نصرت ’نام سے منسوب اداروں نصرت گرلز سکول، جامعہ نصرت ، نصرت گرلز کالج سے دینی و دنیوی تعلیم میں نمایاں مقام حاصل کررہی ہیں ۔ احمدی خواتین کےتعلیم میں نمایاں مقام کی شاہد جلسہ ہائے سالانہ پر خلیفۂ وقت سے انعام وصول کرنے والی لمبی قطاریں ہیں ۔ دنیا کے کئی ملکوں میں تعلیمی اداروں کا قیام اور تعلیمی وظائف بڑا کام کر رہے ہیں۔ یہ احمدی مائیں ہیں جنہوں نے حضرت چودھری سرمحمد ظفر اللہ خان ؓ اور ڈاکٹر عبد السلام جیسے ہیرے پیدا کیے ۔

جرأت ، دلیری اور بہادری میں احمدی عورت کا نمایاں مقام اس کے قادرو مقتدر خدا سے سچے تعلق کی وجہ سے ہے پھر حضرت رسولِ کریم ﷺ کے زمانے کے واقعات سے وابستگی اور اس زمانے کی صحابیات کی بہادری کے قصے جو ہمارے خلفائے کرام اپنی تقریروں میں سناتے ہیں ایک کردار بنادیتے ہیں جس میں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں رہتا۔ ہماری جماعت کو مخالفت کا سامنا رہتا ہے۔ عورتوں نے ہر قسم کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ زخمی ہوئیں ۔ شہید ہوگئیں لیکن مداہنت نہیں دکھائی۔لاہور کے درد ناک سانحہ کے بعد ایک احمدی ماں کے بہادری کے جذبات کو انصر رضا صاحب نے اس طرح پیش کیا ہے

نماز جمعہ کو پچھلے جمعے جہاں گئے تھے تمہارے بابا

اسی جگہ پہ نماز پڑھنا جہاں کھڑے تھے تمہارے بابا

نشان منزل نہیں ہے بیٹا نشان راہ ہیں یہ سرخ چھینٹے

وہاں سے آغاز تم کروگے جہاں رکے تھے تمہارے بابا

ہمارے مردوں کی قربانیوں میں بھی عورتوں کا حصہ ہے اگر عورتیں ہمت نہ دلائیں تو اکیلے مرد قربانیاں نہیں کر سکتے ۔

لجنہ نے دعوت الی اللہ میں بھی اپنا کردار خوب ادا کیا ہے ہیں۔ اپنی پڑوسنوں اور ملنے جلنے والیوں سے تعارف کرانا ۔ لٹریچر دینا۔ پمفلٹ تقسیم کرنا ۔ آڈیو وڈیو کیسٹس دینا ۔ امن سیمینارز کرانا۔ لائبریریوں میں کتب اور بروشر رکھوانا ۔ سیرت النبی ﷺ کے جلسے کرانا ۔ بک سٹال اور نمائشیں لگانا ۔ معمولات میں شامل ہیں۔ دعوت الی اللہ کی ایک مثال انڈونیشیا کی لجنہ نے قائم کی ۔تین کلو میٹر سڑک وقار عمل سے بنائی جس سے جماعت کا تعارف ہوا اور500سے زائد لوگوں نے احمدیت قبول کرلی۔

لجنہ کے شوق تبلیغ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بہت اُبھارا۔ آپ کا ایک خواب تھا جس میں آپ کولجنہ کا تیر کہا گیا تھا ۔ لجنہ ربوہ کے سالانہ اجتماع 1982ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

‘‘میں لجنہ کے ان تیروں میں سے ہوں جو خاص اہم وقت کے لیے بچا کے رکھے جاتے ہیں اور اپنے وقت پر انہوں نے استعمال ہونا ہے لیکن بعض اوقات ایسی ہنگامی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ ان کے بعد کے بچائے ہوئے تیروں کو وقت سے پہلے بھی استعمال کرنا پڑتا ہے آج ایک ایسا ہی وقت ہے…بنیادی طور پر میں سمجھتا ہوں ، سب سے اہم مطلب جو اس کا ہے وہ یہی ہے کہ لجنہ کو یعنی احمدی مستورات کو جہاد میں حصہ لینا پڑے گا …ہر احمدی خاتون کو خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی تبلیغ میں جھونک دیں’’

انفاق فی سبیل اللہ بھی احمدی عورتوں کا بے مثال ہے۔ مال و دولت کے لیے حریص دنیا میں رہتے ہوئے مال دینے کے لیے بےقرار رہنا صرف احمدی جانتے ہیں۔

لجنہ کو جب بھی کوئی تحریک کی گئی اپنی جمع پونجی ، زیور، پسندیدہ اشیاء اللہ کی راہ میں دے کرآخرت کما لی ۔ کیا الفضل کبھی بھول سکتا ہے کہ ایک غریب شہزادہ اپنی بیوی اور بیٹی کے سونے کے کڑے لے کر قادیان سے لاہور جاتا ہے اور انہیں بیچ کر اخبار کے لیے ابتدائی سرمایہ حاصل کرتا ہے اور پھر وہ اللہ پاک کا شکر کرتے ہوئے اس قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے:

‘‘کیا ہی سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے ۔’’(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلداوّل صفحہ16)

مالی قربانیوں میں لجنہ کی سرگرمی کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد ؓنے اس طرح سراہا:

‘‘حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے زمانے میں حضور کی ہدایت اور نگرانی کے تحت احمدی مستورات نے ہر جہت میں ترقی کی ہے اور بعض کاموں میں تو وہ جوش و خروش دکھاتی ہیں کہ مردوں کو شرم آنے لگتی ہے اور مالی قربانیوں میں ان کا قدم پیش پیش ہے ’’

(سلسلہ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 190)

مساجد اور دیگر تحریکوں اور جماعتی ضرورتوں میںمشرقی برلن میں بننے والی خدیجہ مسجد کے ماتھے پرجلی حروف میں لکھا جائے گا‘‘احمدی خواتین کی طرف سے نو مسلم بھائیوں کے لیے یہ مسجد بنائی گئی’’
لجنہ کا وقف اولاد کا جذبہ بھی بے نظیر ہے۔ وقف نَو کی تحریک پر لبیک کہنے والی مائیں احمدیت کا مستقبل سنوار رہی ہیں ۔ پھر ایم ٹی اے ہے جہاںشب و روز محنت رضاکارانہ خدمت بے مثال ہے اب کئی جگہ ایم ٹی اے سٹوڈیوز بن گئے ہیں جہاں لجنہ کی سینکڑوں ممبرات بڑی قربانی سے خدمات بجا لا رہی ہیں۔

سلطان القلم کی مجاہدات نے دینی کتب لکھنے اور شعرو ادب میں بھی مقام حاصل کیا ۔ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ کی پُر معارف شاعری وجد طاری کردیتی ہے اسی طرح صاحبزادی امۃ القدوس بیگم صاحبہ کا کلام پاکیزہ مضامین اور خوب صورت انداز بیان کا نمونہ ہے ۔ تصنیف و اشاعت میں لجنہ راولپنڈی، لاہور اور کراچی نے بہت کام کیا ہےلجنات کئی رسائل اور نیوز لیٹر کامیابی سے نکال رہی ہیں۔

لجنہ اماء اللہ کو قدم قدم پر خلفائے کرام کی رہنمائی، حوصلہ افزائی اور دعائیں ملتی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنےجامعہ نصرت کے سائنس بلاک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘اے میری عزیز بچیو! بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے آپ پر۔آپ نے پوری کوشش سے دنیوی علوم حاصل کرنے ہیں اور کسی سے بھی علم میں پیچھے نہیں رہنا ۔ مگر آپ کی ہر کوشش کی جہت ایسی ہونی چاہیے جو آپ کو خدا کے قریب کردے نہ کہ اس سے دور لے جانے کا موجب ہو ۔ آپ کا زاویہ نگاہ درست ہونا چاہیے۔ اگر آپ کی نگاہ کے شیشے میں کوئی نقص نہ ہوگا تو آپ خدا تعالیٰ کی ہر خلق اور ہر چیز میںاس کے حسن و احسان کے جلوے دیکھ سکتی ہیں ۔ کیونکہ کل یوم ھو فی شان ہر دن جو چڑھتا ہے اس میں ہم اپنے خدا کے نئے سے نئے جلوے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے صرف خود ہی حقیقی علم و عرفان حاصل نہیں کرنا بلکہ دنیا کے بچوں کو بھی علم سکھانا ہے ۔ پس بڑی ذمہ داری ہے جو آپ پر عائد ہوتی ہے ۔ خدا کرے کہ آپ اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے کی توفیق پائیں ۔ پس اپنے زاویہ نگاہ کو درست رکھتے ہوئے علم سیکھو اور بڑھ چڑھ کر سیکھو اور پھر اسے دنیا میں پھیلاؤ اور اس طرح خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے وارث بنتے چلے جاؤ ’’

(تاریخ احمدیت جلد 28 صفحہ 43)

1984ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ لندن ہجرت فرماگئے ۔ پھر لجنہ کا بین الاقوامی مرکز لندن ہو گیا ۔ حضور ؒکے لندن میں قیام کی وجہ سے لجنہ کا ایک نیا دور شروع ہوا جس میں لجنہ نے جاں فروشی اور تندہی سے خدمت دین کرکے خلیفۃ المسیح الرابع سے خراجِ تحسین حاصل کیا:ساری نیکیوں کی بنا یہاں کی احمدی خواتین نے ڈالی ۔اگر یہ میرا سہارا نہ بنتیں تو میں نہیں جانتا کہ کس طرح میں سارے کاموں سے نبٹ سکتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ لجنہ کی مساعی کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘ایک کھلا چیلنج ہے تمام دنیا کی خواتین کے لیے احمدی خواتین سی کوئی اور خواتین تو لا کر دکھاؤ ۔ کتنی عظمت کی زندگی ہے۔ کتنے اعلیٰ مقاصد کے لیے وقف ہیں اور ان کی لذتوں کے معیار بدل چکے ہیں۔تمہیں جو لذت سنگھار پٹار میں ملتی ہے۔ دکھاوے نمائش اور ناچ گانوں میں ملتی ہے اس سے بہت بہتراور بہت اعلیٰ درجے کی لذتیں احمدی خواتین کی زندگی کو منور رکھتی ہیں اور ان کے دلوں میں ایسی باقی رہنے والی لذات ہیں جو اس زندگی میں بھی اس کا ساتھ دیتی ہیں اور اُس دنیا میں بھی جہاں تم سب نے مر کر پہنچنا ہے ……احمدی خواتین دنیا میں مثبت اقدام کے طور پر کیا کچھ کر رہی ہیں قوموں کی زندگی میں کتنا بھرپور حصہ لے رہی ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے دنیا بھر کی تمام خواتین سے مقابلہ کرکے دیکھ لیں کہ کسی قوم میں خواتین کی اتنی بھاری تعداد اتنے مثبت اور مفید کاموں میں مصروف دکھائی نہیں دیں گی جیسے کہ احمدی خواتین دکھائی دیتی ہیں اپنے خلفائے کرام کے زیر سایہ صبر و رضائے الٰہی ،توکل، زُہد اور تقویٰ کی دولت سے مالامال نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ چلتی جارہی ہیں بلکہ اولادوں کی اعلیٰ تربیت کرکے نئی نسلوں کے ذریعے جماعت کو ایک نئی اور عظیم قوت فراہم کرتی چلی جارہی ہیں۔آج میں احمدی عورت کو اپنے دائیں بھی لڑتے دیکھ رہا ہوں اور بائیں بھی اور آگے بھی اور پیچھے بھی ۔ آج احمدی خواتین بیدار ہوکر اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں احمدی خواتین نے ہر میدان میں میرا ساتھ دیا ہے۔ بگڑے ہوئے معاشرے کا بہترین جواب احمدی خواتین ہیں۔’’

( الفضل 30؍ جولائی 1999ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے جلسے کے دوسرے دن لجنات سےخطابات لجنہ میں نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ جماعتی دوروں میں لجنات کی عاملہ کے ساتھ میٹنگ کرتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جو مسائل سامنے آتے ہیں ان کا حل بتاتے ہیں۔ یوں تو خطوط کے ذریعے آپ جماعت کے انفرادی اجتماعی سب مسائل سےواقف ہوتے ہیںتاہم مجالس عاملہ سے میٹنگز بہت مؤثر رہتی ہیں بہترین نباض ہیں اور بہترین معالج ۔ فرماتے ہیں:

‘‘آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی بُرائیاں جنم لے رہی ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ماں باپ کے سامنے خاموشی سے چَیٹنگ ررہے ہوتے ہیں۔ پیغامات کا اور تصاویر کا تبادلہ ہورہا ہوتا ہے۔ نئے نئے پروگراموں میں اکاؤنٹ بنالیے جاتے ہیں اور سارا سارا دن فون، آئی پیڈ اور کمپیوٹر وغیرہ پر بیٹھ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اس سے اخلاق بگڑتے ہیں، مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہونے لگتا ہے اور بچے دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ ان ساری باتوں پر نظر رکھنے اور انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے آپ کو ان کے لیے متبادل مصروفیات بھی سوچنا ہوں گی۔ انہیں گھریلو کاموں میں مصروف کریں۔ جماعتی خدمات میں شامل کریں اور ایسی مصروفیات بنائیں جو ان کے لیے اور معاشرہ کے لیے مثبت اور مفید ہوں۔ یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جسے احمدی مستورات نے بجا لانا ہے۔’’

(پیغام برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 10؍جولائی 2016ء)

انٹر نیٹ پر اگر تبلیغی رابطے کرنے ہوں تو عورتوں کا تبلیغی رابطہ صرف عورتوں سے ہونا چاہیے ۔ فرمایا:

‘‘اگر کہیں مَردوں سے رابطہ ہو جائے تو انہیں پھر مَردوں کے پتے دے دیں۔ اپنے فورم میں صرف عورتوں کو لے کر آئیں۔ اور اگرکسی جگہ عورتیں پوری طرح جواب نہ دے سکتی ہوں اور کوئی مکس گیدرنگ(mix gathering) ہو تو اپنے ساتھ لائی ہوئی مہمان خاتون کو لے کرایک سائیڈ میں بیٹھیں اور پردے کا خیال رکھیں لیکن جب کھانے پینے کاوقت آئے تو اس وقت مکس گیدرنگ میں نہیں بیٹھنابلکہ علیحدہ انکلوژر(en-closure) میں چلی جائیں اور جو عورتیں اکٹھی مجالس میں ملیں ان کے پتے حاصل کر کے ان کو صر ف عورتوں کی مجالس میں بلائیں ۔ ’’

(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 9؍جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی 2006ء)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے مطابق ہمیں فرشتوں کی سی زندگی نصیب فرمائے ۔

آمین اللّٰھم آمین

آج حوّا کی بریت کے ہوئے ہیں ساماں

بیٹیاں جنت گم گشتہ کو لے آئی ہیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button