متفرق مضامین

مجلس انصاراللہ۔ اغراض و مقاصد اور ذمہ داریاں

(م م طاہر)

مجلس انصاراللہ۔اغراض و مقاصد اور ذمہ داریاں۔ خلفائے سلسلہ کی ہدایات کی روشنی میں

جماعت احمدیہ میںذیلی تنظیموں کا قیام سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکی خداداد ذہانت و فطانت اور علمی و انتظامی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔آپؓ نے افراد جماعت کے مرد و زن و بچوں کو اپنی عمر کے لحاظ سے ذیلی تنظیموں میں تقسیم کر کے ان کی روحانی ، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور جسمانی ترقی کے سامان منظم صورت میں پیدا فرما دیے۔

لجنہ اماء اللہ اور خدام الاحمدیہ کے قیام کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے26؍جولائی 1940ءکو اپنے خطبہ جمعہ میں مجلس انصاراللہ کے قیام کا اعلان فرمایا اور حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کو اس کا پہلا صدر مقرر فرمایا۔ ابتدائی طور پر قادیان کے انصار کی تنظیم سازی کی گئی اور پھر اس کو پورے ہندوستان اور بیرون ممالک تک پھیلا دیا گیا۔

ابتدائی طور میں مسجد مبارک قادیان میں تنظیم کے اجلاسات ہوتے تھے جن کا ریکارڈ محترم شیخ عبدالرحیم صاحب شرما(سابق کشن لعل)رکھتے تھے۔ جنوری 1943ءسے مجلس انصاراللہ کا دفتر گیسٹ ہاؤس دارالانوار کے ایک کمرے میں قائم کر دیا گیا۔ تقسیم ملک کے بعد مجلس کا دفتر جو دھامل بلڈنگ لاہور میں منتقل ہوا اور قیامِ ربوہ کے بعد یہ دفتر ربوہ میں قائم ہو گیا۔

مجلس انصار اللہ کے باقاعدہ دفاتر کا سنگ بنیاد حضرت مصلح موعود ؓنے 20فروری 1956ءکو ربوہ میں رکھا۔ان مرکزی دفاتر کی مختلف ادوارمیں توسیع ہوتی رہی۔

مجلس انصار اللہ کا پہلا دستوراساسی 1943ء کو منظور ہوا۔ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع 25؍دسمبر1944ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں ہوا۔ پاکستان میں پہلا سالانہ اجتماع نومبر 1955ء میں ہوا جس کا افتتاح حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا۔ سر زمین ربوہ میں آخری مرکزی اجتماع 28؍تا 30؍ اکتوبر 1983ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں ہواجس سے افتتاحی و اختتامی خطابات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمائے۔ 3؍نومبر1989ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے ذیلی تنظیموں کو ان کے ممالک تک محدود فرمایا ۔ اور اب دنیا بھر میں ذیلی تنظیمیں اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے ممبران کی تربیت و ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔

مجلس انصار اللہ کے قیام کے اغراض و مقاصد اور ذمہ داریوں کے حوالہ سے اس مضمون میں بانی تنظیم حضرت مصلح موعودؓ اور خلیفۂ وقت حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس کے الفاظ میں یا ان کے قریب رہتے ہوئے مافی الضمیر ادا کرنے کی ایک کاوش کی گئی ہے۔

مجالس کے قیام کی غرض

حضرت مصلح موعود ؓ ذیلی تنظیموں کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘ان مجالس کا قیام مَیں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے۔چالیس سال سے کم عمر والوں کے لیے خدام الاحمدیہ اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کے لیے انصار اللہ اور عورتوں کے لیے لجنہ اماء اللہ ہے۔ان مجالس پر دراصل تربیتی ذمہ داری ہے۔یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شعر لکھ رہے تھے۔ایک مصرعہ آپ نے لکھا کہ

ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

اسی وقت آپ ؑکو دوسرا مصرعہ الہام ہوا جو یہ ہے کہ

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر جماعت تقویٰ پر قائم ہوجائے تو پھروہ خود ہر چیز کی حفاظت کرے گا۔نہ وہ دشمن سے ذلیل ہوگی،اور نہ اسے کوئی آسمانی یا زمینی بلائیں تباہ کرسکیں گی۔اگر کوئی قوم تقویٰ پر قائم ہوجائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی…… پس مجلس انصاراللہ،خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کاکام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے پہلی ضروری چیز ایمان بالغیب ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ،ملائکہ،قیامت، رسولوں او ران شاندار عظیم الشان نتائج پر جو آئندہ نکلنے والے ہیں، ایمان پیدا کرنا چاہیے۔انسان کے اندر بزدلی اور نفاق وغیرہ اسی وقت پیدا ہوتے ہیںجب دل میں ایمان بالغیب نہ ہو۔اس صورت میں انسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے یہ بھی اگر چلاگیا تو پھر کچھ نہ رہے گا اور اس لیے وہ قربانی کرنے سے ڈرتاہے۔

( الفضل 26 ؍اکتوبر 1960ء)

نوٹ:حضر ت مصلح موعود ؓ نے تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ایمان بالغیب کے بعد اقامۃ الصلوٰۃ ، انفاق فی سبیل اللہ، ایمان بالقرآن، بزرگان دین کا احترام اور یقین بالآخرت کو ضروری قرار دیا۔

نظام جماعت کو بیدار رکھنے کے لیے ذیلی تنظیموں کا قیام

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ‘‘مَیں نے جماعت میں خدام الاحمدیہ او رانصار اللہ دو الگ الگ جماعتیں قائم کیں۔کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں،ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی حکومت کے افراد سُست ہوجائیں اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی عوام سُست ہوجائیں۔عوام کی غفلت اوران کی نیند کودور کرنے کے لیے جماعت میں ناظروغیرہ موجودتھے۔مگر چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ کبھی ناظر سُست ہوجائیں اور وہ اپنے فرائض کو کما حقہ ادا نہ کریں۔اس لیے ان کی بیداری کے لیے بھی کوئی نہ کوئی جماعتی نظام ہونا چاہیے تھا جو ان کی غفلت کو دور کرتا اور اس غفلت کا بدل جماعت کو مہیا کرنے والا ہوتا۔چنانچہ خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ او رلجنہ اماء اللہ اسی نظام کی دو کڑیاں ہیں اور ان کواسی لیے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں۔مَیں سمجھتا ہوں اگر عوام او رحکام دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں تو جماعتی ترقی کے لیے خداتعالیٰ کے فضل سے یہ ایک نہایت ہی مفید اور خوش کن لائحہ عمل ہوگا۔اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام ہیں عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ جوعوام کے قائم مقام ہیں،نظام کو بیدار کرتے رہیں۔تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کلّی طور پر گر جائے اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے۔جب بھی ایک غافل ہوگا دوسرا اسے جگانے کے لیے تیار ہوگا۔جب بھی ایک سُست ہوگا دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لیے آگے نکل آئے گا۔کیونکہ وہ دونوں ایک ایک حصہ کے نمائندے ہیں۔ایک نمائندہ ہیں نظام کے اور دوسرے نمائندہ ہیں عوام کے۔’’

(الفضل 17 ؍نومبر 1943ء)

حقیقی انصار اللہ بن جاؤ

حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:‘‘یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے۔اس لیے تم کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ابدیت کے مظہر ہوجائو۔تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لیے قائم رکھتے چلے جائو اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاًبعد نسلٍ چلتا چلا جاوے اوراس کے دو ذریعے ہوسکتے ہیں۔ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔اسی لیے مَیں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میںلایا گیا تھا۔یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں۔اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی۔تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو اگلی نسل انصاراللہ کی اعلیٰ ہوگی۔مَیں نے سیڑھیاں بنادی ہیں۔آگے کام کرنا تمہارا کام ہے۔پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے ۔ تیسری سیڑھی انصار اﷲ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔ تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خداتعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہوجائیں گی۔اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہوجائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرواور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو۔تو پھر تمہارے لیے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں اور جو عرش پر چلاجائے وہ بالکل محفوظ ہوجاتاہے۔دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دوسو فٹ پر حملہ کرسکتی ہے۔وہ عرش پر حملہ نہیںکرسکتی۔پس اگر تم اپنی اصلاح کرلوگے اور خداتعالیٰ سے دعائیں کروگے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے گا اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جائو اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اند ر خلافت بھی دائمی طور پررہے گی اوروہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی۔

(الفضل 21 ؍مارچ 1957 ءاور 24 ؍مارچ 1957ء)

انصار مدینہ جیسی محبت پیدا کریں

سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:

مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی۔وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ دشمن آپؐ کی ذات پر حملہ آور ہو۔اس لیے وہ بے جگری سے حملہ کرتے اور کفار کا منہ توڑ دیتے۔ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہوجاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

یہ سچی محبت تھی۔جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں۔جب آپ نے انصار کا نام قبول کیاہے توان جیسی محبت بھی پیدا کریں۔آپ کے نام کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہے اور خداتعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے۔اس لیے تمہیں بھی چاہیے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھو اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو۔کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اِس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی۔خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہوگی۔ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کرسکتا۔اکیلا نبی کوئی کام نہیںکرسکتا۔دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دیے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کی جماعت دی۔اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی۔تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ۔خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی۔کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کے لیے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پرمجبور ہوجاتے تھے۔اسی طرح دشمن ادھر کا رخ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔وہ سمجھے گا کہ اس کے لیے لاکھوں اطفال،خدام اور انصار جانیں دینے کے لیے تیار ہیں۔اس لیے اگر اس نے حملہ کیا تو وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا۔غرض دشمن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکانہیں کھائیگی۔’’

(الفضل 21 ؍مارچ 1957 ءاور 24 ؍مارچ 1957ء)

جماعت کی دماغی نمائندگی انصار اللہ کرتے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے 1955ء کے سالانہ اجتماع انصاراللہ مرکزیہ سے خطاب کرتے ہوئے انصاراللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصاراﷲ کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں۔ جب کسی قوم کے دماغ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ پس میں پہلے تو انصار اﷲکو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں، اس لیے جماعت میں نمازوں، دعاؤں اور تعلق باﷲکو قائم رکھنا ان کا کام ہے۔ ان کو تہجد، ذکر الٰہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہیے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں۔ اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے، جس میں تہجد، دعا اور ذکر الٰہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں لیکن اگر نوجوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے۔ پس ایک طرف تو میں انصار اﷲکو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلاً بعد نسلٍ اسلام کی روح زندہ رہے۔’’

(الفضل 15 ؍دسمبر 1955ء)

انصار کی تین اہم ذمہ داریاں

مجلس انصار اللہ جرمنی کے سالانہ اجتماع 2007ء کے موقع پر اپنے پیغام میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار اللہ کو ان کی تین اہم ذمہ داریوں 1۔ قیام نماز 2۔ قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے 3۔تربیت اولاد کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘انصاراللہ کی سب سے اہم ذمہ داری پنجوقتہ نماز وں کا قیام ہے۔قرآن کریم نے مومنوں کی سب سے پہلی یہی علامت بیان فرمائی ہے کہ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلوٰۃَ یعنی وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں۔اس کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نمازکی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ مومن اور کافر میں فرق کرنے والے شئے نماز ہے۔ایک حدیث میں اس طرح بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی انہوں نے نماز کی معافی کی درخواست کی۔آپ نے فرمایاکہ جس مذہب میں عمل نہیںوہ مذہب کچھ نہیں…… حضرت مسیح موعود ؑنے نماز کی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی ہے اور میں آپ کو ذَکِّرْفَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیۡنَ (الذاریات:56)کے تحت یاددہانی کرواتا ہوںکہ انصاراللہ نے نمازوں کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔خود بھی پنجوقتہ نمازوں پر قائم ہوں اور اپنی بیویوں اور اولادوں کو بھی اس کا عادی بنائیں۔پانچوں نمازیں وقت پرادا کریں اور انہیں ہرگز ضائع نہ کریں۔نمازیں باربارپڑھیں اور اس خیال سے پڑھیں کہ آپ ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑے ہیں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کرلیوے۔یہ آپ کی نسلوں کی روحانی پاکیزگی کی ضمانت ہے۔دنیا کے گند اور آلائشوں سے بچانے کا ذریعہ ہے۔یہ سیّئَاتکو دور کرتی ہے۔

دوسری اہم ذمہ داری انصار اللہ کی یہ ہے کہ وہ خود بھی قرآن کریم سیکھیں اور اپنی اولادوں کو بھی سکھائیں۔اور پھر ہر گھر میں تلاوت قرآن کا اہتمام اورالتزام ہو۔اگر آپ خود روزانہ اس کی تلاوت کریں گے تو آ پ کے بچے اس سے نیک اثر لیتے ہوئے تلاوت کے عادی بن جائیں گے۔میں نے واقفین نو بچوں کو یہ ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ روزانہ کم ازکم دو رکوع کی تلاوت کیاکریں۔آپ نے ان واقفین نو کی تربیت کرنی ہے تو آپ کو اپنا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔روزانہ کچھ رکوع تلاوت ضرور کیا کریںکوئی وقت اس کے لیے مقرر کریں سب سے اچھا وقت تو فجر کی نماز کے بعد ہے۔اس لیے کوشش کریں کہ فجر کے بعد اس کا التزام ہو۔

‘‘تیسری ذمہ داری جس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ بچوں کی تربیت ہے۔یہ بھی انصار اللہ کا کام ہے کہ وہ احمدی بچوں کی تربیت کی فکر کریں۔جیسا کہ میں نے نماز اور تلاوت قرآن کریم کا ذکر کیا ہے۔اگران دو امور پر احمدی بچے قائم ہوجائیںتو ان کی احسن تربیت ہوگی ۔وہ یورپ کے گند اور دنیاوی آلائشوں سے پاک ہوجائیں گے۔تربیت کے مضمون میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ماں باپ جتنی مرضی زبانی تربیت کریںاگر ان کا اپنا نمونہ اور کردار ان کے قول کے مطابق نہیں توبچوں کی تربیت نہیں ہوسکتی۔بچے کمزور پہلوکو لے لیں گے اورمضبوط پہلوکو چھوڑ دیں گے۔اس لیے آپ کو اپنا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا۔نمازوں پر قائم ہونا پڑے گا۔تلاوت قرآن کریم کا روزانہ اہتمام کرنا ہوگا۔گھروں میں پاکیزہ ماحول اور پاکیزہ باتیںرواج دینی ہوںگی۔گھروں میں نظام جماعت کے خلاف باتیں نہ ہوںجن سے بچوں کی تربیت پربُرااثر پڑے۔میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ گھر جن میں نظام جماعت کے خلاف باتیں ہوتیں ہیںان کے بچے جماعت سے دور ہوجاتے ہیںیہاں تک کہ دہریہ ہوجاتے ہیں۔پس اگر آپ نے اپنے بچوں کو احمدیت،حقیقی اسلام پر قائم رکھنا ہے تو ان کے دلوں میں خلافت احمدیہ اور نظام جماعت کی محبت اور احترام پیدا کریںاور یہ تبھی ہوگاجب یہ محبت اور احترام آپ کے دلوں اور آپ کے عملی نمونہ سے پھوٹ رہا ہوگا۔’’

(ماہنامہ الناصر جرمنی اگست ۔ستمبر 2007ء)

انصار اللہ سے خلیفۃ المسیح کی توقعات

ماہنامہ انصار اللہ ربوہ کی اشاعت کے50؍سال پورے ہونے پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام میں انصار بھائیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘جماعت کی ذیلی تنظیموں کے نظام میں انصاراللہ کی تنظیم ایسی ہے جس کے ممبران اپنی اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں جس میں انسان کو اپنی زندگی کے انجام کے آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور بڑی تیزی سے اس انجام کی طرف قدم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور اس انجام کا خوف اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور اس کا قرب چاہے۔ اس کا ایک ذریعہ نماز ہے جسے تمام عبادتوں میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ گزشتہ دنوں ہم رمضان کے مہینے سے گزرے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان دنوں میں کمزوروں میں بھی ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی ہو گی اور نمازوں کی طرف ہر کسی نے توجہ دی ہو گی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے۔ اس میں سب دُعائیں آ جاتی ہیں۔ اگر کلمہ طیبّہ مسلمان ہونے کا زبانی اقرار ہے تو نماز اس کی عملی تصویر ہے۔ پس میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ نمازوں میں باقاعدگی اختیار کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے نیک نمونہ قائم کریں۔

دوسری بات قرآن کریم کی تلاوت، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ ہے۔ ہر مرتبہ پڑھنے سے نئے نئے معنی کھلتے ہیں۔ یہ مطالعہ جہاں آپ کو معرفت میں بڑھائے گا وہاں اس سے آپ کے بچوں کے لیے بھی ایک نیک نمونہ قائم ہو گا اور آپ کا یہ علم دعوت الی اللہ کے میدان میں بھی آپ کا مددگار ثابت ہو گا۔

تیسری بات دین کی خاطر مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینا ہے۔ میں نے صف دوم کے انصار کونظامِ وصیت میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ہر مجلس کی سطح پر اس کے لیے کوشش ہونی چاہیے۔ اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دُعائیں کی ہیں۔ اسی طرح دوسری مالی تحریکات بھی ہیں۔ ان میں بھی حصہ لیں اور اس حوالے سے اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم انصاراللہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں؟

انصاراللہ کا ایک اور اہم کام خلافت سے وابستگی اور اُس کے استحکام کے لیے کوشش کرنا ہے۔ جماعت اور خلافت ایک وجود کی طرح ہیں۔ افراد جماعت اس کے اعضاء ہیں تو خلیفۂ وقت دل و دماغ کے طور پر ہیں۔ کیا کبھی ایسا ممکن ہوا ہے کہ انسانی دماغ ہاتھ کو کوئی حکم دے اور ہاتھ اُسے ردّ کر کے اپنی مرضی کے مطابق حرکت کرے۔ اگر آپ اس تعلق کو سمجھ جائیں اور اگر یہ سوچ ہر ایک میں پیدا ہو جائے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی فرد جماعت اپنے فیصلوں اور اپنے علمی نکتوں اور اپنے عملوں پر اصرار کریں۔ پس آپ کی ہر حرکت و سکون خلیفۂ وقت کے تابع ہونی چاہیے۔

انصاراللہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کے عملی نمونے اور پاک تبدیلیاں دوسری تنظیموں اور افراد جماعت سے بڑھ کر ہونی چاہئیں۔ ہمارے بڑوں نے انصاراللہ ہونے کا حق ادا کیا اور بے نفس ہو کر دین کی خاطر قربانیاں کیں تو آج ہمارا فرض ہے کہ ایک جُہد مسلسل اور دُعائوں کے ساتھ اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے نیکی کے راستے ہموار کرتے جائیں۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ :

‘‘بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں۔’’

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیاں اس نہج پر چلانے والے ہوں۔ آمین

(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ اکتوبر 2010ء صفحہ 8-9)

مغربی معاشرے میں بالخصوص انصار کا اپنے گھر میں سلوک مثالی ہو

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سالانہ اجتماع برطانیہ 2004ء کے آخری روز مورخہ 26؍ ستمبر کو اپنے خطاب میں انصاراللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

اس مغربی معاشرے میںرہتے ہوئے، جہاں ہر قسم کی آزادی ہے، انصاراﷲ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ جہاں آپ کو اپنے بچوں کی طرف ،اپنے گھروںکی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے ،بیوی کی طرف بھی توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ بیوی سے اگر حسنِ سلوک ہوگا تو وہ یک سوئی سے آپ کے بچوں کی صحیح تربیت کی طرف توجہ کرے گی۔ ورنہ تو وہ بچوںکی تربیت کی بجائے گھر میں ہر وقت ان بچوں کے سامنے ایسے خاوند، ایسے باپ جو صحیح طرح اپنے بیوی بچوں کی طرف توجہ نہیں دیتے،ان کے رویّوںکا ذکرہی ہوتا رہے گا،ان کی شکایتیں ہی ہوتی رہیں گی۔ بچے اور ماں ایک دوسرے سے اپنے باپوں کے بارے میں رونے ہی روتے رہیں گے۔ اور پھر ایسی صورت کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کے بچے آپ سے پیچھے ہٹتے چلے جائیں گے۔ چالیس سال کی عمر کے انصار جو ہیں ان کے بچے ابھی چھوٹی عمرکے ہوتے ہیں،اس سے بڑی عمر کے انصار ہیں ان کے بچوں کی نوجوانی میں شادیاں ہو گئیں، ان کے آگے بچے ہیں، تو ہر عمر کے انصار کے گھر کا جو ماحول ہے، اس میں اگر اس کا رویہّ اپنے گھر والوں سے ٹھیک نہیں تو وہ بعض دفعہ ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے۔ اورپھر آپ سے جب پرے ہٹیں گے توپھر دین سے بھی پرے ہٹتے چلے جائیں گے۔

نحن انصار اللّٰہ کے حوالہ سے ذمہ داریاں

اگر بچوں میں یہ احساس پیدا ہو گیاکہ ہمارا باپ یا ہمارا دادا یا ہمارا نانا دین کے بڑے خدمت گاروں میں شمار ہوتا ہے لیکن گھر کے اندر وہ اعلیٰ اخلاق جو ایک دیندار کے اندر ہونے چاہئیں ان کا اظہار نہیں کرتا،اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے جو نظارے ان بزرگوں میں نظر آنے چاہئیں وہ نظر نہیں آتے، تلاوتِ قرآن کریم کی طرف توجہ جس طرح ہونی چاہیے وہ توجہ نہیں ہوتی۔ پھر بچے یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہماری ماں کے ساتھ جو حسنِ سلوک اس گھر میں ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتا تو باہر جا کر جس دین کی خدمت کا ایسا شخص نعرہ لگاتا ہے بچے کے ذہن میں یہی رہے گا کہ وہ سب ڈھکوسلا ہے۔ تو پھر جیسا کہ میں نے کہا ایسے بچے دین سے بھی دُور ہو جاتے ہیں۔ اور معاشرے میں اس ماحول میں شیطان تو پہلے ہی اس تاک میں بیٹھاہوا ہے کہ کب کوئی ایسی ذہنی کیفیت والانظر آئے اور کب میں اس کو اپنے جال میں پھنساؤں۔ پھرایسے بگڑتے ہوئے بچے جب شیطان اپنے جالوں میں ان کو پھنسا لیتا ہے تو بعض اوقات خدا کی ذات کے بھی انکاری ہو جاتے ہیں، ان کو اﷲتعالیٰ کی ذات پہ بھی یقین نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے خدا کے نام پر اپنے باپوں کو اپنے بزرگوں کو دوہرے معیار قائم کرتے دیکھا ہوتا ہے ،دوعملی کرتے ہوئے دیکھا ہوتا ہے۔ جب ان کے بچوں کے ذہن میں شیطان یہ بات ڈال دے کہ اگر خدا ہوتا تو تمہارا باپ جو یہ دوعملیاں کر رہا ہے اس کو پکڑ نہ لیتا۔ تو دیکھیں اس کے بڑے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیںاگر انسان سوچے تو خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر احمدی کو اور خاص طور پر انصاراﷲکو جو عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اب صحت مزید کمزور ہونی ہے، قویٰ جو ہیں مزید کمزور ہونے ہیں اورکچھ ایسی عمر کے بھی ہیں، پتہ تو نہ جوان کا ہے نہ بچے کا،لیکن کسی وقت بھی خدا کی طرف سے بلاوا آسکتا ہے۔ تو اگر ہم نے اب بھی اپنے رویّوں کو بدلنے کی کوشش نہ کی، اگر اب بھی ہم نے اپنے گھر کے رَاعِیِْ بننے کا حق ادا نہ کیا ،اگر اب بھی ہم نے ان کی نگرانی اور حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو مرنے کے بعد خداتعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جب حاضر ہوں گے توخداتعالیٰ پوچھے گا نہیں کہ تم نے دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ، ہم اللہ کے انصار ہیں۔ کیا اللہ کے انصار ایسے ہوتے ہیں۔ تم اللہ تعالیٰ کے کاموں میں مددگار بننے کی بجائے اپنی اولادوں کو بھی اللہ تعالیٰ سے دور ہٹانے والے بن رہے ہو۔ جب تمہارے اپنے گھروں میں تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں بلکہ تمہارے نمونہ کی وجہ سے تمہاری اولادوںمیں نمازوں کی عادت نہیںپڑی،تمہاری اولادوں میں قرآن کریم پڑھنے کی عادت نہیں پڑی، تمہاری اولادوں میں دین کی غیرت نہیں ابھری،ایسی غیرت کہ وہ نوجوانی میں بھی اپنی ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کو قربان کرنے والے ہوں۔ اگر تمہاری بیوی ،تمہاری بہو ،تمہارے حسن سلوک اور عبادت گزاری کی گواہی نہیں دیتیں تو صرف مختلف مواقع پر یہ اعلان کر دینا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ۔اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

نحن انصار اللّٰہ کے معافی پر غور اور عبادتوں کو زندہ کریں

ہر ایک کو ہم میں سے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ لگانے سے پہلے غور بھی کیا ہے کہ یہ کتنا گہرا اور وسیع نعرہ ہے۔ کیا کیا قربانیاں دینی پڑیں گی اس کے لیے اور قربانیاں ہیں کیا، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کوئی جنگ ،توپ،گولہ نہیں ہے،کسی گولے کے آگے کھڑا ہونا نہیں ہے،کسی توپ کے منہ کے سامنے کھڑے ہونا نہیں ہے ،تیروں کی بوچھاڑ کے آگے کھڑے ہونا نہیں ہے۔ صحابہ کرام ،جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ تھے ان کی طرح گردنیںکٹوانا نہیں ہے۔ ہاں یہ قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کبھی کبھار اکّا دکّا لے لیتا ہے۔ نمونے قائم رکھنے کے لیے اس طرح کرتا ہے۔ لیکن قربانی جو اس زمانے میں کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ اپنے معاشرہ کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ اپنے مالوں کی قربانیاں دینی ہیں۔

پس انصار اللہ کا فرض بنتا ہے اور میں بار بار کہتا ہوں کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں ،اپنے لیے ،اپنی اولادوں کے لیے، اپنے معاشرہ کے لیے ،دکھی انسانیت کے لیے، غلبۂ اسلام کے لیے ایک تڑپ سے دعا مانگیں۔ آخرت کی فکر اپنے دلوں میں پیدا کریں جب آخرت کی فکر زیادہ ہو گی تو معاشرہ کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوگی، قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے کی طرف بھی توجہ کریں۔

( الفضل انٹرنیشنل 31 ؍دسمبر 2004ء)

پچاس فیصد انصار کے ہاں الفضل انٹرنیشنل آتا ہو

حضور انور کے ساتھ مجلس عاملہ انصار اللہ جرمنی کی میٹنگ منعقدہ 3؍ستمبر 2005ء میں قائد اشاعت کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا۔ ‘‘الفضل انٹر نیشنل کتنے انصار پڑھتے ہیں۔ کتنے انصار کے گھروں میں الفضل آتا ہے۔ آپ کی مجلس عاملہ، ریجنل عاملہ اور مقامی مجالس عاملہ کو بھی آنا چاہیے۔ پندرہ صد کی تعداد میں اس کی خریداری بڑھائیں، پچاس فی صد انصار ایسے ہونے چاہئیں جن کے ہاں الفضل آتا ہو۔

( الفضل انٹر نیشنل اکتوبر 2005ء)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ سال مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع سے مورخہ 30؍ستمبر 2018ء کو بصیرت افروز خطاب فرمایا اور انصار بھائیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قیام نماز کی بنیادی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

قیام نماز کی ذمہ داریاں

‘‘انصار اللہ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی اہمیت کو سمجھیں ۔ اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃِ کاحق ادا کرنے والے بنیں۔اپنے بچوں کو اپنے گھر والوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلائیں۔ اگر انصاراللہ کی عمر کے لوگوں میں سے جو اپنی متعلقہ مجالس کے عہدیدار بھی ہیں اگر وہ خود اس طرف توجہ کریں کہ انہوں نے قیام نماز کا حق ادا کرنا ہے ۔ہر سطح پر جو عہدیدار ہیں اور بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہوئے مساجدمیں لانے کی کوشش کرنی ہے اور اپنے احمدی ہمسایوں کو بھی نماز میں آتے جاتے اس طرف توجہ دلاتے رہنا ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ہماری مساجد حقیقت میںبارونق مساجد بن جائیں گی۔

اور اگر تمام انصار اس طرف توجہ کریں تو ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔پس اس طرف توجہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ ایک انسان کے ، مومن کے اس مقصد پیدائش کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ عبادتوں کے حق ادا کرو اور عبادت کا حق اسی وقت ادا ہوگا جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس کی عبادت کی جائے گی۔ یَعۡبُدُوۡنَ کا لفظ عبد سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ عبادت کا حق ادا کرنے والے اور کامل اطاعت کرنے والے ۔ پس عبد ہونے کا حق ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور اس کے حکموں کی کامل اطاعت کرنا ضروری ہے ۔

ٹی وی پر غلط قسم کے پروگرام نہ دیکھیں

فرمایا:گناہ سے بچنے کے لیے جہاںدعائیں کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلے کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ صرف دعا سے گناہ سے نہیں بچا جاتا تدبیریں بھی ضروری ہیں اور عام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو۔ ایک طرف تو انسان دعائیں مانگ رہا ہو۔اللہ تعالیٰ مجھے اپنی معرفت عطا کر اور اس میں مَیں ترقی کروں اور تیرا عبدبنوں دوسری طرف مجلسیں ایسی ہیں جن میں گناہ کی تحریک ہو رہی ہے۔ ٹی وی پر بیٹھے ہوئے ہیں غلط قسم کی فلمیں دیکھ رہے ہیں۔ بڑے انصار اللہ کی عمر کے لوگوں کی بھی رپورٹیں مجھے آتی ہیں۔ عورتوں کی طرف سے ، بچوں کی طرف سے اور غلط پروگرام دیکھ رہے ہیں یا بعض مجالس میں بیٹھے ہیں ، گپیں مار رہے ہیں اس قسم کے اعتراضات کر رہے ہیں بعض لوگ نظام پر اعتراض کر رہے ہیں ایک دوسرے کی چغلیاں کر رہے ہیں تو یہ ساری مجالس جو ہیں اگر ان میں بیٹھنا نہیں چھوڑو گے تو معرفت بھی حاصل بھی حاصل نہیں ہوگی۔

نیکیوں کا نمونہ دکھانا انصار اللہ کی ذمہ داری

ہم میں سے ہر ایک کا نمونہ جو ہے وہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے ضروری ہے اور یہ نمونہ دکھانا انصاراللہ کاکام ہے اور یہی حقیقی انصارا للہ ہونے کا حقیقی مقصد ہے۔ دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ جیسا کہ انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے اسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، کون قابل قدر ہیں وہ لوگ ہوتے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سچا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونے کو صاف رکھتے ہیں۔ اندر باہر ایک ہیں اپنے اندرونے کو بھی صاف رکھتے ہیں ایک حقیقی تعلق ہے خدا تعالیٰ سے۔

حقیقی انصار اللہ

فرمایا:آج کل دنیا جس تیزی سے خدا تعالیٰ کو بھُلا رہی ہے اس کی اصلاح صرف اورصرف حضرت مسیح موعود ؑکی جماعت ہی کر سکتی ہے جن کو اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے اگر پُرانے احمدی اس اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور یہاں آکر شکر گزاری کی بجائے دنیا میں ڈوب جائیں گے اپنے بچوں کے لیے مثالیں قائم نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ اور مخلصین حضرت مسیح موعودؑ کوعطا فرما دے گا اور عطا فرما رہا ہے دنیا میں ہر جگہ وہ وہی لوگ ہوں گے پھر جو دین کا علم اور جھنڈا اٹھانے والے ہوں گے حقیقی انصار اللہ ہوں گے۔ پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ان لوگوں میں شامل ہونا ہے اور اپنی نسلوں کو ان لوگوں میں شامل کرنا ہے جن کی اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے تو پھر اپنی نمازوں کی، اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(خطاب فرمودہ 30ستمبر2018ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل مورخہ یکم؍فروری2019ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. الحمدللہ ۔موقع کی مناسبت سے مجلس انصاراللہ۔ اغراض و مقاصد اور ذمہ داریاں (13 ستمبر 2019ء )مضمون بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ان دنوں اکثرمقامات پر سالانہ اجتماعات منعقدہورہے ہیں۔دنیابھرکے مجالس اس مضمون سے استفادہ کرسکتے ہیں۔جزاکم اللہ۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button