حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 23)

میں نے پچھلےباب میں آنحضرت ﷺ کی سا دگی کا ذکر کیا ہے کہ آپ ؐکس طرح تکلفات سے محفوظ تھے اور آپؐ کا ہر ایک فعل اپنے اندر سادگی اور بے تکلفی کا رنگ رکھتا تھا اب میں آپ ؐکی سا دہ زندگی کا حال بیان کر نا چاہتا ہوں۔

کھجور اور پا نی پر گزارہ

جو لوگ اس زمانہ کے امراء اور دولت مندوں کے دیکھنے کے عادی ہیں وہ تو خیال کر تے ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ بھی انہیں کی طرح عمدہ عمدہ کھانے کھایا کر تے ہوں گے اور ایک شاہانہ دسترخوان آپؐ کے آگے بچھتا ہوگا لیکن وہ یہ معلوم کرکے حیران ہوں گے کہ واقعہ بالکل خلاف تھا۔اور اگر ایک طرف آنحضرت ﷺ سادگی کے کامل نمونہ تھے دوسری طرف سادہ زندگی میں بھی آپؐ دنیا کے لیے ایک نمونہ تھے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بھانجے حضرت عروہؓ سے فرمایا: یَاابْنَ اُخْتِیْ اِنْ کُنَّا لَنَنْظُرُ اِلَی الْھِلَالِ ثُمَّ الْھِلَالِ ثَلَاثَۃَ اَھِلَّۃٍ فِیْ شَھْرَیْنِ وَمَا اُوْقِدَتْ فِیْ اَبْیَاتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ یَا خَالَۃُ مَا کَانَ یُعِیْشُکُمْ قَالَتْ اَلْاَسْوَدَانِ اَلتَّمَرُ وَالْمَآ ءُ اِلَّا اَنَّہٗ قَدْ کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جِیْرَا نٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ کَانْتْ لَھُمْ مَنَا ئِحُ وَکَانُو ا یَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اَلْبَانِھَا فَیَسْقِیْنَا(بخاری کتاب الھبۃ و فضلھا)اے میرے بھانجے! ہم لوگ تو دیکھا کرتے تھے ہلال کے بعد ہلال حتی کہ تین تین ہلال دیکھ لیتے یعنی دو ماہ گزر جا تے مگر آنحضرت ﷺ کے گھر میں آگ نہ جلتی تھی۔حضرت عروہؓ فرما تے ہیں کہ میں نے کہا اے خالہ ! پھر آپ لوگ کیا کھاتے تھے۔حضرت عائشہ ؓنے جواب دیا کہ اَسْوَدَانِ یعنی کھجور اور پا نی کھا کر گزارہ کیا کر تے تھے۔ہاں اتنی بات تھی کہ رسول اللہﷺ کے ارد گرد انصارؓ ہمسایہ تھے اور ان کے پاس دودھ والی بکریاں تھیں وہ آپ ؐکو ان کا دودھ ہدیہ کے طور پر دیا کر تے تھے اور آپ ؐدودھ ہمیں پلا دیا کر تے تھے۔

اللہ !اللہ ! کیسی سا دہ زندگی ہے کہ دو دو ماہ تک آگ ہی نہیں جلتی اور صرف کھجور اور پا نی یا دودھ پر گزارہ ہو تا ہے اس طریقِ عمل کو دیکھ کر مسلمانوں کو شر مانا چاہیے کیونکہ آج کل اسی اکل و شرب کی مرض میں گرفتا رہیں۔اگر پو ری طرح تحقیقات کی جا ئے تو مسلمانوں کا روپیہ کھانے پینے میں ہی خرچ ہو جا تا ہے اور وہ مقروض رہتے ہیں۔وہ اس نبی ؐکی امت ہیں جو مقتدر ہو کر پھر سا دہ زندگی بسر کر تا تھا پھر کیسے افسوس کی بات ہے کہ ان کے پاس نہیں ہو تا اور وہ زبان کے چسکے کو پورا کرنے کے لیے قرض لے کر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالتے ہیں۔اگر وہ اپنے آپ کو آنحضرت ؐ کے اسوہ حسنہ پر چلا تے اور اسراف سے مجتنب رہتے تو آج اس بد تر حال کو نہ پہنچتے۔

اس جگہ یہ بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت ؐ اگر ایک طرف سا دگی کا نمونہ تھے تو دوسری طرف رہبانیت کو بھی ناپسند فر ما تے تھے۔اور اگر اعلیٰ سے اعلیٰ غذا آپ ؐکے سامنے پیش کی جا تی تھی تو اسے بھی استعمال فر ما تے تھے اور یہ نہیں کہ نفس کشی کے خیال سے اعلیٰ غذاؤں سے انکار کر دیں اور یہی کمال ہے جو آپ ؐکو دوسرے لو گوں پر فضیلت دیتا ہے کیونکہ آپؐ کل دنیا کے لیے آئے تھے نہ کہ صرف کسی خاص قوم یا خاص گروہ کے لیے اس لیے آپؐ کا ہر قسم کی خوبی میں کامل ہو نا ضروری تھا اور اگر آپؐ ایک طرف سا دہ زندگی میں کمال رکھتے تھے تو دوسری طرف طیّب اشیاءکے استعمال سے بھی قطعاً اجتناب نہ فرماتے تھے۔

وفات تک آپؐ کا یہی حال رہا

اس حدیث سے تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ کبھی ایسی بات بھی ہو جا تی تھی کہ دو ماہ تک آگ نہ جلے مگر اب میں ایک اورحدیث درج کر تا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ یہ واقعہ چند مہینوں یا سالوں کا نہیں بلکہ آپؐ کی وفات تک یہی ہو تا رہا اور صرف چند ماہ تک آپ نے اس مشقت کو برداشت نہیں کیابلکہ آپ ہمیشہ اس سادگی کی زندگی کے عادی رہے اور عسر ویسر ایک سا حال رہا۔اگر ابتدا عہد میں کہ آپؐ دشمنوں کے نرغہ میں گھرے ہو ئے تھے اور آپؐ کو اپنا وطن تک چھوڑنا پڑا تھا آپؐ اس سا دگی سے بسر کرتے تھے تو اس وقت بھی جبکہ روپیہ آپؐ کے پا س آتااور آپؐ ایک ملک کے بادشاہ ہو گئے تھے آپؐ اسی سا دگی سے بسراوقات کرتے اور کھا نے پینے کی طرف زیا دہ تو جہ نہ فر ماتے تھے۔

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اَنَّہٗ مَرَّ بِقَوْمٍ بَیْنَ اَیْدِ یْھِمْ شَاۃٌ مَصْلِیَۃٌ فَدَعَوْہُ فَاَبٰی اَنْ یَّاْکُلَ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الدُّنْیَا وَلَمْ یَشْبَعْ مِنْ خُبْزِ الشَّعِیْرِ(بخاری کتاب الا طعمۃ باب ما کان النبی ﷺ و اصحابہ یا کلون)یعنی حضرت ابو ہریرہؓ ایک جماعت پر گزرے اور اس کے سا منے ایک بھنی ہو ئی بکری پڑی ہو ئی تھی پس انہوںنے آپؓ کو بھی بلایا مگر آپؓ نے کھانے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے گزر گئے اور آپؐ نے پیٹ بھر کر جَو کی رو ٹی نہیں کھائی(اس لیے میں بھی ایسی چیزیں نہیں کھا تا) اس حدیث سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ایک دو دن نہیں بلکہ وفات تک آنحضرت ؐ نے ایسی ہی سا دہ زندگی بسر کی۔
اس بات کی تصدیق حضرت عائشہ ؓ بھی فرماتی ہیں۔آپؓ سے روایت ہے کہ مَا شَبِعَ اٰلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ مِنْ طَعَامِ الْبُرِّ ثَلَاثَ لِیَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ(بخاری کتاب الا طعمۃ باب ما کان النبیﷺو اصحابہ یا کلون) یعنی رسول اللہ ﷺکی آل نے اس وقت سے کہ آپؐ مدینہ تشریف لا ئے اس وقت تک کہ آپؐ فوت ہو گئے تین دن متواتر گیہوں کی رو ٹی پیٹ بھر کر نہیں کھا ئی۔

ان تینوں حدیثوں کو ملا کر روز رو شن کی طرح ثابت ہو جا تا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نہایت سادگی سے زندگی بسر کی اور باوجود اس محنت اور مشقت کے جو آپؐ کو کرنی پڑتی تھی آپؐ اپنے کھانے پینے میں اسراف نہ فر ما تےتھےاور اسی قدر کھا تے جو زندگی کے بحال رکھنے کے لیے ضروری ہو اور آپؐ کا کھانا عبادت اور قوت کے قائم رکھنے کے لیے تھا نہ کہ آپؐ کی زندگی دنیا کے بادشاہوں کی طرح کھانوں کی خواہش میں گزرتی تھی۔آپؐ ہی اس مصرع کے پورا کر نیوالے تھے۔

؎ خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است

اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ آپؐ کا کھانا بھی نہایت سا دہ ہو تا تھا اورجو کچھ کھا تے تھے اس میں بھی بہت تکلفات سے کام نہ لیتے تھے۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ مَاعَلِمْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکَلَ عَلٰی سُکُرَّ جَۃٍ قَطُّ وَلَا خُبِزَ لَہٗ مُرَقَّقٌ قَطُّ وَلَا اَکَلَ عَلی خِوَانٍ قَطُّ قِیْلَ لِقَتَا دَۃَ فَعَلٰی مَا کَانُوْ ایَاْکُلُوْنَ قَالَ عَلَی السُّفَرِ (بخاری کتاب الا طعمۃ باب الخَبزلمرقق والاکل علی الخوان)مجھے نہیں معلوم ہؤا کہ آنحضرت ؐ نے کبھی تشتریوں میں کھا یا ہو اور نہ آپؐ کے لیے کبھی چپاتیاں پکائی گئیں اور نہ کبھی آپؐ نے تخت پر کھا یا۔قتادہ رضی اللہ عنہ سے (جنہوں نے حضرت انس ؓسے روایت کی ہے)سوال کیا گیا کہ پھر وہ کس پر کھا یا کر تے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ دسترخوان پر۔

حضرت انس ؓ کی روایت اس لحاظ سے قریبًا اہلِ بیت کے برابر سمجھی جا نے کے قابل ہے کہ آپؓ ابھی بچہ تھے کہ آنحضرتﷺ کے سا تھ رہے کیونکہ ان کے رشتہ داروں نے انہیں آنحضرت ؐ کی خدمت کے لیے پیش کیا تھا اور یہ آنحضرت ؐ کے مدینہ میںتشریف لا نے کے وقت سے جو آپ کے سا تھ رہے تو وفات تک الگ نہ ہوئے اور آپؐ کی زندگی بھر خدمت میں مشغول رہے۔پس آپؓ کی روایت ایک واقف کار کی روایت ہے جو ہر وقت آپؐ کے سا تھ رہنے کی وجہ سے ایسے امور میں بہت سے دوسروں کی نسبت زیا دہ پختہ اور مضبوط را ئے دے سکتا تھا اس لیے نہایت وزن داراور واقعات کے مطابق ہے۔اب اس کی زندگی مجموعی حیثیت سے دیکھو کہ ایک انسان بادشاہ ہے اسے سب کچھ نصیب ہے۔اگر چاہے تو اچھے سے اچھے کھانے کھا سکتا ہے اور پُرتکلف دسترخوان پر بیٹھ سکتا ہے لیکن باوجود مقدرت کے وہ اسی بات پر کفایت کر تا ہے کہ کبھی تو کھجور اور پا نی سے اپنی بھوک کو توڑ لیتا ہے اور کبھی جو کی روٹی کھا کر گزارہ کر لیتا ہے اورکبھی گیہوں کی رو ٹی تو کھا تا ہے مگر وہ بےچھنےآٹے کی ہو تی ہے۔پھر نہ اس کے سامنے کو ئی بڑا دسترخوان بچھایا جا تا ہے نہ سینیوں میں کھا نا چنا جا تا ہے بلکہ ایک معمولی دسترخوان پر سا دہ کھا نا رکھ کر کھا لیتا ہے اور باوجود ایسی سادہ زندگی بسر کر نے کے دنیاکے اعلیٰ سے اعلیٰ کھا نا کھا نے والوں اور اپنے جسم کی پرورش کر نے والوں سے ہزار گنا بڑھ کر کام کر تا ہے۔آنحضرت ؐ نے اپنی زندگی میں یہ بھی نمونہ دکھا دیا ہے کہ ہر قسم کی اعلیٰ سےاعلیٰ غذائیں بھی استعمال فر ما لیتے تھے مگر دوسری طرف اس سادہ زندگی سے ہمارے ان امراء کے لیے ایک نمونہ بھی قائم کر دیا ہے جن کی زندگی کا انتہا ئی مقصد اعلیٰ خوراک اور پوشاک ہو تی ہے۔

(باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button