حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 22)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

ہمارے ہادی اور رہنما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین ہو کر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کُل دنیا کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اس لیے آپؐ نے ہمارے لیے جو نمونہ قائم کیا وہی سب سے درست اور اعلیٰ ہے اور اس قابل ہے کہ ہم اس کی نقل کریں۔ آپؐ نے اپنے طریقِ عمل سے ہمیں بتایا ہے کہ جذباتِ نفس جو پاک اور نیک ہیں ان کو دبانا تو کسی طرح جائز ہی نہیں بلکہ ان کو تو ابھارنا چاہیے۔ اور جو جذبات ایسے ہوں کہ ان سے گناہوں اور بدیوں کی طرف توجہ ہوتی ہو ان کا چھپانا نہیں بلکہ ان کا مارنا ضروری ہے۔ پس اگر تکلف سے بعض ایسی باتیں نہیں کرتے جن کا کرنا ہمارے دین اور دنیا کے لیے مفید تھا تو ہم غلط کار ہیں۔ اور اگر وہ باتیں جن کا کرنا دینِ اسلام کے رو سے ہمارے لیے جائز ہے صرف تکلف اور بناوٹ سے نہیں کرتے ور نہ دراصل ان کے شائق ہیں تو یہ نفاق ہے۔ اور اگر لوگوں کی نظروں میں عزت و عظمت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو خاموش اور سنجیدہ بناتے ہیں تو یہ شرک ہے۔ آنحضرت ﷺکی زندگی میں ایسا ایک بھی نمونہ نہیں پایا جاتا جس سے معلوم ہو کہ آپ نے ان تینوں اغراض میں سے کسی کے لیے تکلف یا بناوٹ سے کام لیا بلکہ آپ کی زندگی نہایت سادہ اور صاف معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی عزت کو لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں سمجھتے تھے بلکہ عزت و ذلت کا مالک خدا کو ہی سمجھتے تھے۔

جو لوگ دین کے پیشوا ہوتے ہیں انہیں یہ بہت خیال ہوتا ہے کہ ہماری عبادتیں اور ذکر دوسرے لوگوں سے زیادہ ہو اور خاص طور پر تصنع سے کام لیتے ہیں تا لوگ انہیں نہایت نیک سمجھیں۔ اگر مسلمان ہیں تو وضو میں خاص اہتمام کریں گے اور بہت دیرتک وضو کے اعضاء کو دھوتے رہیں گے اور وضو کے قطروں سے پرہیز کریں گے۔ سجدہ اور رکوع لمبے لمبے کریں گے۔ اپنی شکل سے خاص حالتِ خشوع و خضوع ظاہر کریں گے اور خوب وظائف پڑھیں گے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اس کے کہ سب سے اتقٰی اور اَوْرَع تھے اور آپ کے برابر خشیتُ اللہ کوئی انسان پیدا نہیں کر سکتا مگر باوجود اس کے آپؐ ان سب باتوں میں سادہ تھے اور آپ کی زندگی بالکل ان تکلفات سے پاک تھی۔

ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا: إِنِّیْ لَأَقُوْمُ فِی الصَّلَاۃِ أُرِیْدُ أَنۡ أُطَوِّلَ فِیْہَا فَأَسۡمَعُ بُکَاءَ الصَّبِیِّ فَأَتَجَوَّزُ فِی صَلَاتِیْ کَرَاہِیَۃَ أَنۡ أَشُقَّ عَلٰی أُمِّہٖ یعنی میں بعض دفعہ نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور ارادہ کرتا ہوں کہ نماز کو لمبا کر دوں مگر کسی بچہ کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اپنی نماز کو اس خوف سے کہ کہیں میں بچہ کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں نماز مختصر کر دیتا ہوں۔

کس سادگی سے آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ ہم بچہ کی آواز سن کر نماز میں جلدی کر دیتے ہیں۔ آج کل کے صوفیاء تو ایسے قول کو شاید اپنی ہتک سمجھیں کیونکہ وہ تو اس بات کے اظہار میں اپنا فخر سمجھتے ہیں کہ ہم نماز میں ایسے مست ہوئے کہ کچھ خبر ہی نہیں رہی۔ اور گو پاس ڈھول بھی بجتے رہیں تو ہمیںکچھ خیال نہیں آتا۔ مگر آنحضرت ﷺان تکلفات سے بَری تھے۔ آپ کی عظمت خدا کی دی ہوئی تھی نہ کہ انسانوں نے آپ کو معزز بنایا تھا۔ یہ خیال وہی کر سکتے ہیں جو انسانوں کو اپنا عزت دینے والا سمجھتے ہوں۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اَنَّہٗ سُئِلَ أَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ نَعۡلَیۡہِ ؟قَالَ نَعَمۡ یعنی آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں پڑھ لیتے تھے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح تکلفات سے بچتے تھے۔ اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ وہ مسلمان جو ایمان اور اسلام سے بھی ناواقف ہیں اگر کسی کو اپنی جُوتیوں سمیت نماز پڑھتے دیکھ لیں تو شور مچا دیں اور جب تک کوئی ان کے خیال کے مطابق کُل شرائط کو پورا نہ کرے وہ دیکھ بھی نہیں سکتے مگر آنحضرت ﷺجو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں آپ کا یہ طریق نہ تھا بلکہ آپؐ واقعات کو دیکھتے تھے نہ تکلفات کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے طہارت اور پاکیزگی شرط ہے اور یہ بات قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ پس جب جوتی پاک ہو اور عام جگہوں پر جہاں نجاست کے لگنے کا خطرہ ہو پہن کر نہ گئے ہوں تو اس میں ضرورت کے وقت نماز پڑھنے میں کچھ حرج نہیں۔ اور آپ نے ایسا کر کے امتِ محمدیہ پر ایک بہت بڑا احسان کیا کہ انہیں آئندہ کے لیے تکلفات اور بناوٹ سے بچا لیا۔ اس اسوۂ حسنہ سے اُن لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے جو آج کل ان باتوں پر جھگڑتے ہیں اور تکلفات کے شیدا ہیں۔ جس فعل سے عظمتِ الٰہی اور تقویٰ میں فرق نہ آئے اس کے کرنے پر انسان کی بزرگی میں فرق نہیں آ سکتا۔

حضرت ابن مسعود انصاریؓ سے روایت ہے قَالَ کَانَ رَجُلٌ مِنَ الۡأَنۡصَارِ یُقَالُ لَہٗ أَبُوْ شُعَیۡبٍ وَکَانَ لَہٗ غُلَامٌ لَحَّامٌ فَقَالَ اصۡنَعۡ لِیْ طَعَامًا أَدۡعُوْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمۡسَۃٍ فَدَعَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمۡسَۃٍ فَتَبِعَہُمۡ رَجُلٌ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ إِنَّکَ دَعَوۡتَنَا خَامِسَ خَمۡسَۃٍ وَہٰذَا رَجُلٌ قَدۡ تَبِعَنَا فَإِنۡ شِئۡتَ أَذِنۡتَ لَہٗ وَإِنۡ شِئۡتَ تَرَکۡتَہٗ قَالَ بَلۡ أَذِنۡتُ لَہٗ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص انصار میں تھا۔ اس کا نام ابو شعیب تھا اور اس کا ایک غلام تھا جو قصائی کا پیشہ کرتا تھا۔ اسے اس نے حکم دیا کہ تُو میرے لیے کھانا تیار کر کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چار اور آدمیوں سمیت کھانے کے لیے بلاؤں گا۔ پھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہلا بھیجا کہ حضور کی اور چار اَور آدمیوں کی دعوت ہے۔ جب آپ اس کے ہاں چلے تو ایک اور شخص بھی ساتھ ہو گیا۔ جب آپؐ اس کے گھر پر پہنچے تو اس سے کہا کہ تم نے ہمیں پانچ آدمیوں کو بلوایا تھا اور یہ شخص بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے اب بتاؤ کہ اسے بھی اندر آنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اس نے کہا یا رسولَ اللہ! اجازت ہے تو آ پؐ اس کے سمیت اندر چلے گئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح بے تکلفی سے معاملات کو پیش کر دیتے۔ شاید آپؐ کی جگہ کوئی اَور ہوتا تو چپ ہی رہتا مگر آپؐ دنیا کے لیے نمونہ تھے اس لیے ہر بات میں جب تک خود عمل کر کے نہ دکھاتے ہمارے لیے مشکل ہوتی۔ آپ نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ سادگی ہی انسان کے لیے مبارک ہے اور ظاہر کر دیا کہ آپ کی عزت تکلف یا بناوٹ سے نہیں تھی اور نہ آپؐ ظاہر ی خاموشی یا وقار سے بڑا بننا چاہتے تھے بلکہ آپؐ کی عزت خدا کی طرف سے تھی۔

گھر کا کام کاج خود کر لیتے

میں نے پچھلی فصل میں بتایا ہے کہ آپ کس طرح سادگی سے کام لیتے اور تکلفات سے پرہیز کرتے تھے اور بناوٹ سے کام نہ لیتے تھے۔ اب میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ آنحضرت ﷺنہ صرف بے تکلفی سے سب کام کر لیتے اور اس معاملہ میں سادگی کو پسند فرماتے بلکہ آپؐ کی زندگی بھی نہایت سادہ تھی اور وہ اسراف اور غلو جو امراء اپنے گھر کے اخراجات میں کرتے ہیں آپ کے ہاں نام کو نہ تھا بلکہ ایسی سادگی سے اپنی زندگی بسر کرتے کہ دنیا کے بادشاہ اسے دیکھ کر ہی حیران ہو جائیں اور اس پر عمل کرنا تو الگ رہا یورپ کے بادشاہ شاید یہ بھی نہ مان سکیں کہ کوئی ایسا بادشاہ بھی تھا جسے دین کی بادشاہت بھی نصیب تھی اور دنیا کی حکومت بھی حاصل تھی مگر پھر بھی وہ اپنے اخراجات میں ایسا کفایت شعار اور سادہ تھا اور پھر بخیل نہیں بلکہ دنیا نے آج تک جس قدر سخی پیدا کیے ہیں ان سب سے بڑھ کر سخی تھا۔
جن کو اللہ تعالیٰ دولت اور مال دیتا ہے ان کا حال لوگوں سے پوشیدہ نہیں۔ غریب سے غریب ممالک میں بھی نسبتاً امراء کا گروہ موجود ہے حتّٰی کہ جنگلی قوموں اور وحشی قبیلوں میں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ امراء کا ہوتا ہے اور ان کی زندگیوں اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں جو فرق نمایاں ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔خصوصاً جن قوموں میں تمدن بھی ہو اُن میں تو امراء کی زندگیاں ایسی پُرعیش و عشرت ہوتی ہیں کہ ان کے اخراجات اپنی حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔
آنحضرت ﷺجس قوم میں پیدا ہوئے وہ بھی فخر و خیلاء میں خاص طور پر مشہور تھی اور حشم و خدم کو مایہ ناز جانتی تھی۔ عرب سردار باوجود ایک غیر آباد ملک کے باشندہ ہونے کے بیسیوں غلام رکھتے اور اپنے گھروں کی رونق کے بڑھانے کے عادی تھے اور عرب کے اردگرد دو قومیں ایسی بستی تھیں کہ جو اپنی طاقت و جبروت کے لحاظ سے اُس وقت کی کُل معلومہ دنیا پر حاوی تھیں۔ ایک طرف ایران اپنی مشرقی شان و شوکت کے ساتھ اپنے شاہانہ رعب و داب کو کُل ایشیا پر قائم کیے ہوئے تھا تو دوسری طرف روم اپنے مغربی جاہ و جلال کے ساتھ اپنے حاکمانہ دستِ تصرف کو افریقہ اور یورپ پر پھیلائے ہوئے تھا اور یہ دونوں ملک عیش و طرب میں دوسری حکومتوں کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے تھے اور آرائش و آرام کے ایسے سامان پیدا ہو چکے تھے کہ بعض باتوں کو تو اب اس زمانہ میں بھی کہ آرام و آسائش کے سامانوں کی ترقی کمال درجہ کو پہنچ چکی ہے نگاہِ حیرت سے دیکھا جاتا ہے۔ دربارِ ایران میں شاہانِ ایران جس شان و شوکت کے ساتھ بیٹھنے کے عادی تھے اور اُن کے گھروں میں جو کچھ سامانِ طرب جمع کیے جاتے تھے اُسے شاہنامہ کے پڑھنے والے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور جنہوں نے تاریخوں میں اُن سامانوں کی تفصیل کا مطالعہ کیا ہے وہ تو اچھی طرح سے ان کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ دربار ِشاہی کی قالین میں بھی جواہرات اور موتی ٹنکے ہوئے تھے اور باغات کا نقشہ زمردوں اور موتیوں کے صَرف سے تیار کر کے میدانِ دربار کو شاہی باغوں کا مماثل بنا دیا جاتا تھا۔ ہزاروں خدام اور غلام شاہِ ایران کے ساتھ رہتے اور ہر وقت عیش و عشرت کا بازار گرم رہتاتھا۔

رومی بادشاہ بھی ایرانیوں سے کم نہ تھے اور وہ اگر ایشیائی شان و شوکت کے شیدا نہ تھے تو مغربی آرائش اور زیبائش کے دلدادہ ضرور تھے۔ جن لوگوں نے رومیوں کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ رومیوں کی حکومتوں نے اپنی دولت کے ایام میں دولت کو کس طریق سے خرچ کیا ہے۔ پس عرب جیسے ملک میں پیدا ہو کر جہاں دوسروں کو غلام بنا کر حکومت کرنا فخر سمجھا جاتا تھا اور جو روم و ایران جیسی مقتدر حکومتوں کے درمیان واقع تھا کہ ایک طرف ایرانی عیش و عشرت اسے لُبھارہی تھی تو دوسری طرف رومی زیبائش و آرائش کے سامان اس کا دل اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ آنحضرت ﷺکا بادشاہِ عرب بن جانا اور پھر ان باتوں میں سے ایک سے بھی متأثر نہ ہونا اور روم و ایران کے دامِ تزویر سے صاف بچ جانا اور عرب کے بُت کو مار کر گرا دینا کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جسے دیکھ کر پھر بھی کوئی دانا انسان آپ کے پاکبازوں کا سردار اور طہارتُ النفس میں کامل نمونہ ہونے میں شک کر سکے؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔

علاوہ اس کے کہ آپ کے اردگرد بادشاہوں کی زندگی کا جو نمونہ تھا وہ ایسا نہ تھا کہ اس سے آپ وہ تأثّر حاصل کرتے جن کا اظہار آپ کے اعمال کرتے ہیں ۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا درجہ دے دیا تھا کہ اب آپ تمام مخلوقات کے مرجعِ افکار ہو گئے تھے اور ایک طرف روم آپ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اور دوسری طرف ایران آپ کے ترقی کرنے والے اقبال کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور دونوں متفکر تھے کہ اس سیلاب کو روکنے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جائے اس لیے دونوں حکومتوں کے آدمی آپ کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ شروع تھا ایسی صورت میں بظاہر ان لوگوں پر رعب قائم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ آپ بھی اپنے ساتھ ایک جماعت غلاموں کی رکھتے اور اپنی حالت ایسی بناتے جس سے وہ لوگ متأثر اور مرعوب ہوتے مگر آپ نے کبھی ایسا نہ کیا۔ غلاموں کی جماعت تو الگ رہی گھر کے کام کاج کے لیے بھی کوئی نوکر نہ رکھا اور خود ہی سب کام کر لیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کی نسبت لکھا ہے کہ اَنَّھَا سُئِلَتۡ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ مَا کَان یَصۡنَعُ فِیْ بَیۡتِہٖ قَالَتۡ کَانَ یَکُوْنُ فِیْ مِہۡنَۃِ أَہۡلِہٖ تَعۡنِیْ فیْ خِدۡمَۃِ أَہۡلِہٖ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کیا کرتے تھے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ آپ اپنے اہل کی محنت کرتے تھے۔ یعنی خدمت کرتے تھے۔ پس جب نماز کا وقت آ جاتا آپ نماز کے لیے باہر چلے جاتے تھے۔

اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کس سادگی کی زندگی بسر فرماتے تھے اور بادشاہت کے باوجود آپ کے گھر کا کام کاج کرنے والا کوئی نوکر نہ ہوتا بلکہ آپ اپنے خالی اوقات میں خود ہی اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ مل کر گھر کا کام کاج کروا دیتے۔ اللہ اللہ! کیسی سادہ زندگی ہے۔ کیا بینظیر نمونہ ہے۔ کیا کوئی انسان بھی ایسا پیش کیا جا سکتا ہے جس نے بادشاہ ہو کر یہ نمونہ دکھایا ہو کہ اپنے گھر کے کام کے لیے ایک نوکر بھی نہ ہو۔ اگر کسی نے دکھایا ہے تو وہ بھی آپ کے خدام میں سے ہو گا۔کسی دوسرے بادشاہ نے جو آپ کی غلامی کا فخر نہ رکھتا ہو یہ نمونہ کبھی نہیں دکھایا۔ ایسے بھی مل جائیں گے جنہوں نے دنیا سے ڈر کر اسے چھوڑ ہی دیا۔ ایسے بھی ہوں گے جو دنیا میں پڑے اور اسی کے ہو گئے۔ مگر یہ نمونہ کہ دنیا کی اصلاح کے لیے اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر بھی اٹھائے رکھا اور ملکوں کے انتظام کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھی مگر پھر بھی اس سے الگ رہے اور اس سے محبت نہ کی اور بادشاہ ہو کر فقر اختیار کیا۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خدام کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی۔ جن لوگوں کے پاس کچھ تھا ہی نہیں وہ اپنے رہنے کے لیے مکان بھی نہ پاتے تھے اور دشمن جنہیں کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے تھے کبھی کہیں اور کبھی کہیں جانا پڑتا تھا ان کے ہاں کی سادگی کوئی اعلیٰ نمونہ نہیں۔ جس کے پاس ہو ہی نہیں اس نے شان و شوکت سے کیا رہنا ہے مگر ملکِ عرب کا بادشاہ ہو کر لاکھوں روپیہ اپنے ہاتھ سے لوگوں میں تقسیم کر دینا اور گھر کا کام کاج بھی خود کرنا یہ وہ بات ہے جو اصحابِ بصیرت کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے بغیر نہیں رہ سکتی۔

عرب کے ملک میں اب بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں اور ان کے افسر یا امیر جس طرزِ رہائش کے عادی ہیں انہیں بھی جاننے والے جانتے ہیں۔ خود شریفِ مکہ جنہیں صرف حجاز میں ایک حد تک دخل و تصرف حاصل ہے انہی کے دروازہ پر بیسیوں غلام موجود ہیں جو ہر وقت خدمت کے لیے دست بستہ ہیں مگر آنحضرت ﷺسارے عرب پر حکمران تھے۔ یمن اور حجاز اور نجد اور بحرین تک آپ کے قبضہ میں تھے مگر باوجود تمام عرب اور اس کے اردگرد کے علاقوں پر حکومت کرنے کے آپ کا گھر کے کاروبار خود کرنا اس پاکیزگی کی طرف ہمیں اشارہ کررہا ہے جو آپ کے ہر عمل سے ظاہر ہورہی تھی ۔ اور اس طہارتِ نفس کی طرف متوجہ کر رہا ہے جو آپ کے ہر فعل سے ہویدا تھی۔

دنیا طلبی اور اظہارِ جاہ و جلال کی آگ اُس وقت لوگوں کے دلوں کو جلا رہی تھی اور امراء تو اس کے بغیر امراء ہی نہیں سمجھے جاتے تھے مگر اس آگ میں سے سلامت نکلنے والا صرف وہی ابراہیم کا ایک فرزندﷺ تھا جس نے اپنے دادا کا معجزہ اور بھی بڑی شان کے ساتھ دنیا کو دکھایا۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button