خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ ؓ کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍ اگست 2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن (سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ30؍ اگست 2019ء کو مسجد بیت الفتوح، مورڈن سرے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔اس خطبے کے متعدّد زبانوں میں تراجم بھی براہِ راست نشر کیے گئے۔ جمعے کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

بدری صحابہ کے ذکر میں جن صحابی کا آج میں پہلے ذکر کروں گا اُن کا نام ہے حضرت عتبہ بن مسعود ھذلّی۔ آپؓ حضرت عبداللہؓ بن مسعود کے حقیقی بھائی تھے۔ ابتدائی اسلام لانے والوں اور حبشہ کی طرف دوسری ہجرت کرنے والوں میں شامل ،حضرت عتبہ بن مسعود اصحابِ صفہ میں سے تھے۔
حضورِانور نے اصحابِ صفہ سے متعلق حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی رقم فرمودہ تفاصیل پیش فرمائیں۔ جس کے مطابق مسجدِ نبویؐ کے گوشے میں ایک چھت دار چبوترے کو صُفّہ کہا جاتاتھا۔ یہاں وہ غریب مہاجرین رہا کرتے جن کا کوئی گھر بار نہ تھا۔ یہ دن رات حضورﷺ کی صحبت میں رہتے، عبادات اور تلاوتِ قرآن کریم کیا کرتے۔ ان لوگوں کا چونکہ کوئی ذریعۂ معاش نہیں تھا سو رسول اللہ ﷺ خود ان کی خبرگیری فرماتے۔ انصار بھی ان کی مہمانی میں حتیٰ المقدور مصروف رہتے۔ لیکن اس سب کے باوجود اِن اصحاب کی حالت تنگ رہتی تھی۔ حضرت ابو ہریرہؓ ان ہی بزرگوں میں سے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اہلِ صفہ میں سے ستّر اشخاص کے کپڑے اُن کی رانوں تک بھی نہیں پہنچتے تھے۔ آنحضرتﷺ کے پاس جب صدقہ آتاتو اِن اصحاب کے پاس بھیج دیتے۔ جب دعوت کا کھانا آتاتو ان کو بلا لیتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔

مختلف روایات کے مطابق اہلِ صفہ کی تعدادمختلف وقتوں میں کم سے کم بارہ اور زیادہ سے زیادہ تین سو افراد تک بیان کی جاتی ہے۔ ایک روایت میں ان کی تعداد چھے سو صحابہ کرام بھی بیان کی گئی ہے۔

آنحضرتﷺ فرمایا کرتےکہ یہ لوگ میرے لیے میری باتیں سننے بیٹھتے ہیں اِس لیے ان کی صحیح طرح تعظیم کرنی چاہیے۔ ان بزرگوں کا مشغلہ یہ تھا کہ راتوں کو عموماً عبادت کرتے اورقرآن کریم پڑھتے تھے۔ جن کو پڑھنا نہیں آتا تھایا قرآن کریم یاد کرنا چاہتے تھے اُن کے لیے ایک معلّم اِن کو رات کے اوقات میں پڑھاتا تھا۔ اس بِنا پر ان میں سے اکثر قاری کہلاتے تھے۔ اشاعتِ اسلام کے لیے کہیں بھیجنا ہوتا تو یہی لوگ بھیجے جاتے۔ ان ہی میں سے بعد میں بہت سے اصحاب بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے، کئی علاقوں کے گورنر رہے۔ ان ہی میں سے سپہ سالار بھی تھے جنہوں نے فتوحاتِ اسلامیہ میں نمایاں کردار ادا کیا۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سےروایت ہے کہ ایک مرتبہ مَیں اصحابِ صُفہ کی جماعت میں جا بیٹھا ۔ یہ لوگ نیم برہنگی کے باعث ایک دوسرےسے ستر چھپا رہے تھے۔ ایک قاری ہمیں تلاوت سنا رہا تھا۔رسول اللہﷺ اصحابِ صفہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ شامل فرمائے جن کے ساتھ صبر کرنے کا حکم مجھے بھی دیا گیا ہے۔ آپؐ ہمارے درمیان بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اے تنگ دست مہاجرین کے گروہ! تمہیں بشارت ہو کہ قیامت کے روز تم نورِ کامل کے ساتھ امیر لوگوں سے نصف دن پہلے جنت میں داخل ہوگے اور یہ نصف دن پانچ سَو برس کا دن ہے۔

حضورِ انور نے سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کا ایک عربی الہام پیش فرما یا جس میں اصحابِ صفہ کا ذکر ہے۔ یہ الہام حضورؑ کو اپنے بعض ساتھیوں کے بارے میں ہوا تھا۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ جو اصحابِ صفہ آنحضرتﷺ کے زمانے میں گذرے ہیں یہ بڑی شان والے، اور مضبوط ایمان والے لوگ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی فرمایا ہےکہ تمہیں بھی بعض لوگ ایسے مَیں عطا کروں گا۔

حضرت عتبہ بن مسعودؓ کے متعلق حضورِ انور نے فرمایا کہ صحابہ کے حالات پر مشتمل بعض کتب میں آپؓ کے احد اور اس کے بعد والے غزوات میں شامل ہونے کا ذکر ہے تاہم صحیح بخاری میں آپؓ کا ذکر بدری صحابہ میں ملتا ہے۔ حضرت عتبہؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت 23؍ ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ امام زہری سے منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ صحبت اور ہجرت کے لحاظ سے اپنے بھائی حضرت عتبہ سے زیادہ قدیم نہ تھے۔ یعنی عتبہؓ زیادہ پرانے صحابی تھے۔

دوسرے صحابی جن کا ذکر حضورِ انور نے فرمایا ان کا نام حضرت عبادہ بن صامت انصاریؓ تھا ۔آپؓ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور ثانیہ میں شریک تھے۔ حضرت عبادۃقبیلہ خزرج کے خاندان بنو عوف بن خزرج کے سردار تھے جو قواقل کے نام سے مشہورتھے۔

حضورِ انور نے قوقل نام کی وجہ اور تفصیل بیان فرمائی۔ مدینے میں کسی سردار کے پاس کوئی شخص پناہ کا طلب گار ہوتا تو اس کو کہا جاتا کہ اب تُو امن میں ہے ۔ تجھے کوئی مشکل نہیں۔ وہ لوگ جو پناہ دینے والے تھے وہ قواقلہ کہلاتے تھے۔

حضرت عبادہ کے بھائی ،حضرت اوس بن صامت بدری صحابہ میں شامل تھے۔ حضرت ابو مرثد غنوی ہجرت کرکے جب مدینہ آئے تو رسول اللہﷺ نے حضرت عبادۃ کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم فرمائی۔ آپؓ غزوہ بدر، احد اورخندق سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ 34ہجری میں آپؓ کی وفات رملہ فلسطین میں ہوئی۔ وہیں تدفین ہوئی اور آج بھی آپؓ کی قبر معروف ہے۔ حضرت عبادۃ کی روایات کی تعداد 181 تک پہنچتی ہے۔ حضورِ انور نے حضرت عبادۃؓ سے مروی بعض روایات پیش بھی فرمائیں۔

جب حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ فتح دمشق کے بعد حمص آئے تو یہاں کےباشندوں نے اُن سے صلح کرلی جس کے بعد حضرت ابو عبیدہؓ نے حضرت عبادۃ بن صامتؓ کو حمص پر نگران مقرر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے ذریعے بہت سے علاقے مسلمانوں کو عطا کیے۔

ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے حضرت عبادۃ بن صامتؓ کو بعض صدقات کا عامل بنایااور نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم اونٹ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہو اور وہ بلبلاتا ہو اسی طرح گائے یا بکری کی نسبت بھی نصیحت فرمائی کہ کہیں امانت میں خیانت نہ ہوجائے۔ اس پر حضرت عبادۃ بن صامتؓ نے عرض کی کہ میری حالت تو یہ ہے کہ میں کسی کا کوئی بوجھ برداشت نہیں کرسکتا اس لیے مجھے عامل نہ بنائیں تو ٹھیک ہے۔

حضورﷺ کے زمانۂ مبارک میں انصار میں سے پانچ آدمیوں نے قرآن کو جمع کیا تھا جن میں حضرت عبادۃ بن صامتؓ بھی شامل تھے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت عبادۃؓ کے حوالے سے باتیں اور اُن کی روایتیں ان شاء اللہ آئندہ خطبے میں بیان ہوں گی۔

آخر میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم طاہر عارف صاحب کا ذکر ِ خیراور نمازِجنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ مرحوم 26؍ اگست کو بڑی صبر آزما بیماری کے بعد یوکے میں وفات پاگئے تھے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

آپ 13؍ فروری 1952ءکو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مکرم چوہدری محمد یار عارف صاحب مبلغِ سلسلہ تھے۔ جنہیں نائب امام مسجد لندن کے طور پر بھی خدمات کی توفیق ملی۔

طاہر عارف صاحب بڑے علمی ذوق والے کہنہ مشق ادیب و شاعر تھے۔ان کے دو شعری مجموعے، ایک اردو اور ایک پنجابی میں ہیں۔ انہوں نے آنحضرتﷺ پر انگریزی میں بھی ایک کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بارے میں ایک کتاب ‘‘پاکستان منزل بہ منزل’’ تحریر کی۔ آپ نے پنجاب یونی ورسٹی سے ایم۔اے اکنامکس اور ایل۔ایل۔بی کی ڈگری لی۔ اسی طرح لنڈن سکول آف اکنامکس سے ایل۔ایل۔ایم کی ڈگری حاصل کی اور مارک آف میرٹ کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہوا۔

تعلیم کے بعد لندن سے پاکستان آگئے اور سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتے کرتے انسپکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے تک پہنچے۔

آپ کو کتب حضرت مسیح موعودؑ کےمطالعےکا بڑا شوق تھا۔ باقاعدہ ان کتب کے نوٹس لیتے اور دوستوں سے ان مضامین پر تبادلہ خیال بھی کرتے۔ قرآن کریم پر غور کرنے والے تھے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ میرے کلاس فیلو تھے اور کالج کے زمانے سے میں ان کو جانتا تھا۔ ان کے عزیزوں میں سے تو کسی نے نہیں لکھا لیکن مجھے پتا ہے کہ بڑی باقاعدگی سے تہجد ادا کرنے والے تھے۔جماعت کے خدام اور واقفینِ زندگی کے لیے خاص احترام اور پیار کے جذبات رکھتے تھے۔

2014ء میں انہیں فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ 2017ء میں چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب کی وفات کے بعد حضورِ انور نے آپ کو صدر فضلِ عمر فاؤنڈیشن مقرر فرمادیا۔ ان کے پس ماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ آخر میں حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اوررحم کا سلوک فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو بھی کامل وفا کے ساتھ جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button