صحت

ذہنی صحت(Mental Health) (قسط نمبر 2)

(ڈاکٹر امۃ السلام سمیع۔ یوکے)

پریشانی لفظ کا ترجمہ انگلش میں WORRY ہے اور ہر لفظ اپنے اندر معنی رکھتا ہے۔

W=weird

O=obstructive breathing

R=rough

R=rude

Y=yelling

یعنی پریشانی کی وجہ سے جو حل نہیں ہو رہی اور جسے آپ نے اپنے اوپر طاری کر لیا ہے آپ میں جسمانی اور ذہنی تناؤ کی علامات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ آپ کا رویہ غیر معمولی طور پر غیر فطری ہو جاتا ہے۔ آپ کی سوچیں بدل جاتی ہیں۔ رویہ بعض اوقات نا مناسب ہو جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں آپ چیخنا چلانا بھی شروع کر سکتے ہیں اور بعض اوقات آپ کو اپنا سانس بھی رکتا محسوس ہو سکتا ہے۔

یہ تمام علامات ایک بالغ مرد اور عورت میں ہی نہیں بلکہ بچوں میں بھی ظاہر ہو سکتی ہیں( ہم بچوں کی صحت کے مضمون میں اس پر بات کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ)۔ ضروری نہیں کہ پریشانی میں مبتلا ہر شخص میں ساری علامات موجود ہوں ۔ مگر ایک بیمار شخص میں مذکورہ بالا باتوں میں سے اتنی علامات ضرور پائی جاتی ہیں جو اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیں کہ اس کے ذہن میں کچھ خلل واقع ہو گیا ہے۔ جب ایک شخص اپنی روز مرّہ کی بے ضرر پریشانیوں کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے اور اپنے شعور اور لاشعور کو جو جسم اور دماغ کا رابطہ ہے یہ پیغام دیتا ہے کہ میں مشکل میں ہوں کچھ کرو میں اس پریشانی کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو ایک حد کے بعد ہمارا جسم اور ذہن اپنا نارمل صحت مندانہ رویہ چھوڑ کر غیر ضروری جارحانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں ۔ ہمارے جسم میں ایکشن یا کام کرنے کے لیے نہایت پیچیدہ لیکن نہایت عمدہ نظام کارفرما ہے۔ دماغ پیغام رسانی کا کام اپنے مخصوص خلیوں کے ذریعہ کرتا ہے اور چھوٹی انگلی کو ہلانے سے لے کر سڑک کو پار کرنے تک جیسے کام دونوں مل کر سرانجام دیتے ہیں ۔ ان کاموں میں ہمارا شعور، لا شعور اور جذبات بھی شامل ہوتے ہیں کیونکہ بالغ ذہن جو معلومات رکھتا ہے وہ ایسی ہوتی ہیں جو ہمارا جسم پیدائش سے لے کر بلوغت تک حاصل کرتا ہے۔ پھر ماحول اور حالات اور سمجھ کے مطابق ان میں ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی آتی رہتی ہیں اور انہی معلومات کی روشنی میں جسم میں عمل شروع ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارا ذہن اور جسم ایک توازن سے کام کرتے ہیں۔

لا شعور ہماری ذہانت کا وہ حصہ ہے جو انسان کی پیدائش سے اس میں ودیعت ہوتا ہے یا کہہ لیں کہ اسے پہلے سے لکھا گیا ہوتا ہے یعنی جیسے کمپیوٹر کو فیڈ (feed)کیا گیا ہوتا ہے۔ اسے طبی زبان میں جین بھی کہتے ہیں۔ ہمارا شعور یا ذہانت ہمارے لاشعور یعنی پہلے سے موجود علم اور ہمارے موجودہ علم سے مل کر بنتا ہے۔ اگر کہیں بھی کسی بھی وجہ سے ہمارے جسم اور ذہن اور جذبات کے مابین کام کرنے کا توازن بگڑ جائے تو سب سے پہلے ہمارا جسم اس کا شکار ہوتا ہے۔ عموماً ہمارا ذہن اورجسم چھوٹی چھوٹی بے اعتدالیوں یا بے ترتیبیوں کو خود ہی ٹھیک کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ توازن تواتر سے بگڑتا رہے اور ہماری روز مرہ زندگی پر اثر انداز ہونے لگے تو ہمارا دماغ ایمرجنسی نافذ کر کے اس پریشانی کے حل کے لیے جسم کے مقابلے کے نظام کو جگا دیتا ہے جسے Fight and flight یا لڑنے اور بھاگ جانے کا نظام کہتے ہیں۔ اس نظام کے جاگنے (activeہونے )یا کام شروع کرنے کے نتیجہ میں ہمارے جسم سے بہت سے ہارمون نکلتے ہیں اور جسم کے ہر حصہ کو اس جنگ کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس مرحلے کی ابتدا ہمارے سانس کی تیزی سے ہوتی ہے ۔یعنی ہم اگر معمول کے حالات میں ایک منٹ کے دوران 18 سے 20 بار سانس لیتے ہیں تو ایسی صورت حال میں یہ تعداد 30 یا اس سے بھی زائد ہو سکتی ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے تیز سانس ہوتے ہیں جو جسم کو یہ اطلاع دیتے ہیں کہ کچھ غیر معمولی کام ہو رہے ہیں، اپنے مقابلے کے نظام کو اَور تیز کرو ۔ آپ کا بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے۔نبض کی رفتار تیز ہو جاتی ہے ۔جسم کے اندر گلوکوز کے ذخیروں سے گلوکوز نکل کر خون میں شامل ہونے لگتا ہے تاکہ جسم کو طاقت پہنچائے۔آپ بعض دفعہ ہانپنے لگتے ہیں۔ جسم میں معمول سے زیادہ طاقت محسوس ہونے لگتی ہے ۔ آنکھیں معمول سے زیادہ کُھل جاتی ہیں۔ آپ بہت زیادہ چوکنّے ہو جاتے ہیں۔ اس سارے عمل میں بظاہر آپ میں کوئی جسمانی تبدیلی نہیں نظر آتی مگر اندرونی طور پر آپ کا جسم ایک ہیجان سے گزر جاتا ہے۔ جب حفاظت کے اس نظام کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ باہر ایسی کوئی بات ہی نہیں جس کا مقابلہ کیا جا سکے بلکہ یہ پیغام دماغ کی اختراع ہے جو معمولی سوچوں اور پریشانیوں سے تنگ آ کر اس نے جاری کی۔ اس طرح ذہنی بیماری کا آغاز ہو سکتا ہے۔

بالکل یہی عمل جسم میں غصے کے وقت ہوتا ہے ۔غصہ جسم کا ناپسندیدہ عمل ہے جو اس کی مرضی کے خلاف جسم کے اندرونی اور بیرونی نظام میں خلل پیدا کرتا ہے ۔ بعض اوقات انسان غصے کی حالت میں جسمانی ردعمل بھی دکھاتا ہے جو چیخنا، چلانا ، مارنا ، چیزیں توڑنا ، نقصان کرنا وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے ۔ ایسا غصہ جس کا آپ زیادہ تر اظہار نہ کرسکیں اور اس کو ختم بھی نہ کرسکیں تو وہ گہری پریشانی، ناکامی کے احساس، احساس محرومی یا انگریزی میں فرسٹریشن (Frustration)بن جاتاہے۔ اسلام میں غصے سے بچنے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے اسی لیے دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ غصہ نصف جنون ہوتا ہے۔ اس لیے اس سے ہر طرح بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یاد رکھیں۔ غصہ ہمیشہ ایسی جگہ آتا ہے جہاں آپ سمجھیں کہ حالات آپ کے کنٹرول سے باہر ہونے لگے ہیں۔ مثلاً اپنے بچے کو ڈانٹنا،مارنا ایسی باتوں اور چیزوں پر غصہ کرنا جو آپ کے اختیار میں نہیں ۔اَور نہیں تو اپنی پرانی یادداشتوں کو کھنگال کر خیالوں میں ہی کسی سے بحث کرنا۔ اکثر اوقات آپ اپنا غبار یا غصہ ٹیلی فون پر ہی نکال رہے ہوتے ہیں بغیر اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ غصہ یا تیزاب جس برتن میں ہوتا ہے اسی کو جلاتا ہے اور آپ کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ آپ کا کتنا نقصان ہوگیا ہے یا ہو رہا ہے۔ یعنی غصے سے سب سے زیادہ نقصان آپ اپنی ذات کو پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

معاف کر کے آگے بڑھنے کی عادت پیدا کریںاور معاف کرنے کے حسن کو سمجھیں۔

زندگی آسان رکھیں، غصہ ، فکر اور پریشانی اگر میانہ رَو طریق پر استعمال ہوں تو یہ اپنے آپ میں ہمارے لیے نہ صرف ضروری ہیں بلکہ ہماری ترقی کا باعث بھی ہیں۔

اب تک جتنی بھی علامات کا تذکرہ ہو چکا ہے خدانخواستہ اگر وہ کسی میں ظاہر ہونے لگیں تو الا ماشاء اللہ خود سے ٹھیک نہیں ہوں گی۔ یہ باقاعدہ ایک بیماری ہے اور اس کے علاج سے گزرنا پڑے گا۔ اس میں جسم کی توجہ آپ کی قوتِ مدافعت کی طرف کم ہو جاتی ہے۔ اتنا زیادہ الرٹ رہنے کی وجہ سے نیند اڑ جاتی ہے ۔ جسم کے پاور ہاؤس کو جسےتھائی رائیڈ گلینڈ کہتے ہیں چونکہ اس ہیجانی کیفیت میں اچانک معمول سے بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کیفیت کے دور ہونے پر وہ گویا تھک جاتا ہے اس میں اپنے آپ کو دوبارہ کام کرنے کی صحت مندانہ سطح پر لانے کے لیے سستی پیدا ہو جاتی ہےاور وہ جسم کو مطلوبہ توانائی مہیا نہیں کر پاتا۔

ذہنی، جسمانی یا جذباتی ناہمواری چاہے چند لمحوں کے لیے ہو یا مستقل بڑھنے والی وہ اس سارے عمل میں انسان کو ضرور کچھ نہ کچھ نقصان پہنچا دیتی ہے جس کی وجہ سے آپ کے جذباتی اور روحانی عمل میں کچھ نہ کچھ خلل پیدا ہو جاتا ہے۔

جب آپ مستقل پریشانی میں رہتے ہیں تو آپ کا جسم زیادہ تر اس بظاہر حفاظت کے خول میں رہتا ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے اور جسم کو اس حفاظتی خول میں رہنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ اور جسم کے اعتدال کی بجائے ہر وقت ہوشیاررہنے، لڑنے اور مقابلے کے موڈ میں رہنے کی وجہ سے ہمارے وہ ہارمونز جو عام طور پر نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ان کی مقدار جسم میں زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔

چنانچہ یہ ہارمونز جسم کے ہر نظام پر غیر ضروری طور پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں۔ یہ پھر ہمارے جسم کو ذہنی اور جسمانی بیماریوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button