الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم محمد کریم اللہ صاحب

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ قادیان 29؍ستمبر 2011ء میں مکرمہ اعظم النساء صاحبہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ اپنے بھائی مکرم محمد کریم اللہ صاحب (عرف نوجوان صاحب)کا ذکرخیر کرتی ہیں۔

مکرم محمد کریم اللہ صاحب اگرچہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن بچپن میں کاوننٹ عیسائی سکول میں پڑھنے کی وجہ سے عیسائیت کی طرف مائل ہوگئے۔ اور پھر رفتہ رفتہ دہریت کی کتابیں پڑھ کر مذہب سے ہی دُور ہوگئے۔ لیکن جب شادی ہوئی تو اہلیہ نیک اور صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ چنانچہ اُن کی لگن اور دعاؤں سے آپ دوبارہ مذہب کے قریب آگئے۔

جب آپ کی عمر 26 سال تھی تو آپ کے والد کی وفات ہوگئی اور یہ آسودہ خاندان مالی بحران سے دوچار ہوگیا۔ آپ نے بیوہ ماں، یتیم بھائی بہنوں اور بیوی بچوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا۔ اپنا ایک اخبار ‘‘آزاد نوجوان’’ آپ اُس زمانہ میں شائع کرتے تھے اور اس کے لیے اس قدر محنت کرتے کہ ہاتھ سے چلنے والی مشین خود چلاتے، پتھر خود دھوتے، پھر اخبار اٹھاکر بازار لے جاکر فروخت کرتے۔ اخبار کی فروخت بھی بہت کم ہوتی لیکن فلمی اشتہارات سے خرچ پورا ہوجاتا۔

آپ کے والدبہت تعلیم یافتہ تھے اور انگریزی، عربی، فارسی اور اردو کے عالم تھے۔ اُن کا ایک انگریزی اخبار Thrillew بھی تھاجس کے اُن کی وفات کے بعد آپ بھی مدیر رہے۔ بہرحال اسی اثناء میں آپ کی ملاقات اپنے والد کے ایک پرانے دوست محترم علی محی الدین صاحب سے ہوئی جو اگرچہ اَن پڑھ تھے لیکن ایک نہایت مخلص اور تبلیغی جنون رکھنے والے دعاگو احمدی تھے۔ اُن کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور مطالعہ بھی جاری رہا۔ آخر محترم کریم اللہ صاحب نے اپنے گھرانے سمیت حضرت مصلح موعودؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ اور پھر جیسے سب میں پاکیزہ تبدیلی آگئی، صوم و صلوٰۃ کی پابندی، چندوں کی ادائیگی اور نیکی کے کاموں میں حصہ لینے لگے۔

مکرم کریم اللہ صاحب نے اپنی بہنوں کی شادیاں مخلص احمدی گھرانوں میں کیں۔ ایک بہن جو قبول احمدیت سے قبل بیاہی گئی تھیں، آخر دعا اور کوشش سے وہ بھی اپنے پورے خاندان سمیت احمدی ہوگئیں۔ تبلیغ کا آپ کو جنون تھا اور اس راہ میں کسی تکلیف کی پروا نہیں کرتے تھے۔ مالی تنگی کے باوجود مہمان نوازی خوب کرتے۔

آپ کو ربوہ جاکر حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کرنے کا موقع بھی ملا۔ حضورؓ نے ازراہ شفقت آپ کے اخبار کے لیے امدادی رقم بھی جاری فرمائی۔ محترم سیٹھ محمد معین الدین صاحب سابق صوبائی امیر آندھراپردیش نے بھی آپ کی بہت مدد کی۔آپ قادیان اور بعض دیگر صوبوں کے جماعتی دوروں پر تشریف لے جایا کرتے۔ بہت پُرلطف تقریر کرتے۔ اپنے اخبار میں ہر شعبۂ حیات کو اسلامی نقطۂ نظر سے پیش کرتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا کلام پڑھتے تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔

آپ نے قریباً 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔ پسماندگان میں دو بیوگان اور اٹھارہ بچے شامل ہیں۔

………٭………٭………٭………

پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد مجید عالم صاحب

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ قادیان یکم ستمبر 2011ء میں مکرم سیّد شارق مجید صاحب نےاپنے والد محترم پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد مجید عالم صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو 15؍اپریل 2011ء کو قادیان میں وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ میں سپردخاک ہوئے۔

محترم سیّد محمد مجید عالم صاحب 1934ء میں خانپورملکی (بہار) میں محترم سیّد عاشق حسین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جنہیں انگریزوں نے اعزازی تحصیلدار اور ضلعی عدالت کا جیورسٹ مقرر کیا ہوا تھا۔ انہوں نے 1945ء میں بیعت کی توفیق پائی تھی اور پھر شدید مخالفت اور معاشرتی بائیکاٹ پر نہایت درجہ استقامت کا مظاہرہ کیا۔ 1946ء میں انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو تعلیم حاصل کرنے قادیان بھجوادیا ۔ لیکن جلد ہی تقسیم ہند کا عمل شروع ہوا تو یہ تینوں واپس آگئے۔ حالات سازگار ہوئے تو 1950ء میں سیّد محمد مجید عالم صاحب دوبارہ قادیان آگئے لیکن تب تک اسکول کا باقاعدہ نظام نہیں تھا چنانچہ درویشان کرام سے تعلیم حاصل کرتے رہے اور پھر مجبوراً واپس وطن چلے گئے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کالج میں لیکچرار لگ گئے۔ دورانِ ملازمت ہی اردو زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ مقرر ہوئے۔
محترم پروفیسر محمد مجید عالم صاحب ایک بااخلاق، ملنسار اور ایماندار انسان تھے۔ صوم وصلوٰۃ کے پابند، دعاگو اور کثرت سے نفل پڑھا کرتے تھے۔ علاقے کے لوگ، ہندو یا مسلمان، سب بہت عزت کرتے اور مشورے لیا کرتے تھے۔ مخالفت کے باوجود غیراحمدیوں نے اپنی انجمن کا ممبر بنایا ہوا تھا۔ مقامی جماعت کے 24 سال تک صدر بھی رہے۔ آپ کے پڑدادا نے ایک عالی شان مسجد بناکر 40 بیگھ زمین کے ساتھ وقف کردی تھی۔ آپ کے والد نے قبول احمدیت کے بعد اس مسجد کو چھوڑ کر ایک احمدیہ مسجد تعمیر کروائی۔

مکرم پروفیسر صاحب کو خلافت احمدیہ اور قادیان سے انتہائی محبت تھی۔ چنانچہ ریٹائر ہونے کے بعد 1997ء میں اپنے تین بچوں کے ساتھ قادیان منتقل ہوگئے۔ آپ کے تین بیٹے قادیان میں ہی خدمت دین میں مصروف ہیں جبکہ چوتھے (مضمون نگار) بنگلور میں مقیم ہیں۔ دو بیٹیوں میں سے ایک بچے کی پیدائش کے وقت وفات پاگئی تھیں۔ جبکہ باقی ساری اولاد خدا کے فضل سے صاحبِ اولاد ہے۔

………٭………٭………٭………

محترمہ شمس النساء صاحبہ

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ قادیان 14؍اپریل 2011ء میں مکرم شہاب احمد صاحب اور اُن کے بھائی بہنوں کی طرف سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جو اُن کی والدہ محترمہ شمس النساء صاحبہ (عرف چنّی بیگم) اہلیہ محترم سیّد محی الدین صاحب مرحوم (ایڈووکیٹ) کے ذکرخیر پر مبنی ہے۔

محترمہ شمس النساء صاحبہ 18؍ستمبر 2010ء کو قریباً 80 سال کی عمر میں بمبئی میں وفات پاگئیں۔ رانچی میں تدفین ہوئی۔ تدفین میں غیرازجماعت بھی بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔

محترم سیّد محی الدین صاحب کو اُن کی سماجی خدمات کے اعتراف میں انگریز سرکار کی طرف سے خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔وہ ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر تھے اور اسمبلی کے رُکن بھی رہے ۔ آپ کے قبول احمدیت پر اگرچہ مخالفت کا طوفان کھڑا ہوا لیکن آپ اور آپ کی اہلیہ نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ اور بعدازاں خوب خدمت کی توفیق پائی۔ خلیفۂ وقت کے ارشاد پر جماعتی جائیداد کے مقدمات کی پیروی کی اور کامیابیاں حاصل کیں۔ انجمن احمدیہ کے ممبر بھی رہے۔ رانچی میں ایک کامیاب کانفرنس کا انعقاد کرکے جماعت کو اعلیٰ سطح پر روشناس کروایا۔ آپ کا گھر ‘‘آشیانہ’’ اُس زمانے میں احمدیہ مرکز کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ کثرت سے مہمان وہاں آتے۔ آپ کی اہلیہ نہایت خوش اخلاقی سے سب کا خیال رکھتیں۔اُنہیں قادیان سے ایسی محبت تھی کہ اپنے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی بھی قادیان میں کی۔

محترم سیّد محی الدین صاحب کی پہلی شادی حسینہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جن سے چھ بچے تھے، پھر دوسری شادی صالحہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جن سے پانچ بچے ہوئے لیکن وہ 1961ء میں وفات پاگئیں تو آپ نے تیسری شادی محترمہ شمس النساء صاحبہ سے کی۔ انہوں نے آپ کی پہلی بیویوں کے بچوں کو بہت پیار دیا اور کم عمر ہونے کے باوجود گھر کو بھی عمدگی سے سنبھال لیا اور حُسنِ سلوک سے سب کا دل جیت لیا۔ آپ کے ہاں چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ احمدی ہونے سے پہلے آپ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کے والد الٰہ آباد میں کلکٹریٹ میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے لیکن بعض وجوہات کی وجہ سے ہجرت کرکے رانچی آگئے اور بطور مدرس کام کرنے لگے۔

محترمہ شمس النساء صاحبہ نے احمدی ہونے کے بعد دینی امور کی سختی سے پابندی کی۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند اور تہجدگزار تھیں۔ حج کی سعادت بھی حاصل کی۔

………٭………٭………٭………

مکرمہ ثریا بانو صاحبہ

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ 21؍اپریل 2011ء میں مکرم مولانا جلال الدین نیّر صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ ثریا بانو صاحبہ بنت مکرم ماسٹر عبدالرزاق صاحب آف بھدرواہ کشمیر کا ذکر خیر کیا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مرحومہ کی شادی فروری 1969ء میں خاکسار سے ہوئی۔ ایک واقف زندگی سے شادی کے نتیجہ میں وہ خوش دلی سے سلسلہ کے کاموں کو ہر حال میں مقدّم رکھنے کے عہد میں شامل رہی۔ آمد محدود تھی۔ چونکہ وہ ٹیچر ٹریننگ کے امتحان میں کامیابی حاصل کرچکی تھی اس لیے نصرت گرلز ہائی سکول قادیان میں ٹیچر ہوگئیں۔اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی اور دو بیٹے عطا کیے۔ پہلے دو بچوں کی پیدائش کے وقت خاکسار جماعتی دوروں پر گھر سے دُور تھا۔ لیکن اُس نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ صرف ایک بار جب میری بیٹی تشویشناک طور پر بیمار ہوگئی تو اُس نے نظام کے تحت بذریعہ ٹیلیگرام مجھے اطلاع کی اور مَیں اُڑیسہ سے تین دن کا اذیّت ناک سفر طَے کرکے واپس قادیان پہنچا۔ خداتعالیٰ نے فضل فرمایا اور اُسی روز میری بیٹی ہسپتال سے شفایاب ہوکر گھر آگئی۔ بہرحال مَیں سال میں سات آٹھ مہینے دوروں پر رہتا تھا اور وہ سکول اور گھر کی ذمہ داریاں نہایت حوصلے سے انجام دیا کرتی تھی۔ کمزور ہونے کی وجہ سے وہ بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاسکی۔ پاؤڈر کا جو دودھ بچے پیتے تھے وہ ساڑھے چھ روپے کا آتا تھا۔ مالی تنگی اس قدر تھی کہ اکثر گزارہ کرنا مشکل ہوجاتا۔ ایسے ہی ایک دن جب مہینے کے آخری دن تھے اور کوئی پیسہ نہیں تھا کہ دودھ کا ڈبّہ خرید سکتے تو ہم دونوں دعاؤں میں لگ گئے۔ اسی اثناء میں مَیں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میری دونوں الماریوں میں جس قدر کتابیں اور فائلیں ہیں، اُنہیں ایک ایک کرکے پھولنا شروع کرو، ہوسکتا ہے مَیں کسی کتاب میں کوئی نوٹ رکھ کر بھول گیا ہوں۔ چنانچہ ہم اس کام میں جُت گئے۔ ایک گھنٹے کی محنت کے بعد ایک کتاب سے اچانک تین چار دس دس روپے کے نوٹ گرے۔ اس پر ہم دونوں کو اس قدر خوشی ہوئی جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ مرتے دَم تک وہ یہ واقعہ دہراکر خدا کا شکر ادا کیا کرتی تھی۔ بہرحال ہر عسرویسر میں اُس نے وفا کے ساتھ میرا ساتھ دیا۔

مرحومہ اپنوں اور غیروں سے بے انتہا حسنِ سلوک کرنے والی تھی۔ مہمان نواز تھی اور جو بھی میسر ہوتا وہ سامنے رکھ دیتی۔ سکول کی غریب بچیوں کو اپنی طرف سے کاپیاں، پنسل اور ربڑ وغیرہ دیا کرتی اور کبھی کھانا بھی کھلادیتی۔ بعض بچیوں کی فیس بھی خاموشی سے ادا کردیتی۔قریباً بیس سال لجنہ اماء اللہ قادیان میں بطور سیکرٹری مال خدمت کی۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی انتظامیہ میں خدمت بجالاتی۔ وفات سے پہلے قریباً دو سال بیمار رہی اور نہایت حوصلے اور صبر سے بیماری کا مقابلہ کیا۔ 7؍فروری 2011ء کو صرف 64 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے ازراہ شفقت لندن میں نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

………٭………٭………٭………

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ 9؍جون 2011ء میں شاملِ اشاعت مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب کے دو قطعات میں سے ایک قطعہ ہدیۂ قارئین ہے:

تُو ہے سب مُلکوں کا مالِک تُو ہے دنیا کا خدا

جس کو چاہے عزت و تکریم تُو کر دے عطا

کوئی بندہ فضل تیرا روک سکتا ہی نہیں

جس پہ چاہے تُو چلادے اپنے فضلوں کی ہوا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button