درس القرآن

قرآن مجید کی آخری تین سورتوں کا درس

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

درس القرآن فرمودہ 04؍جون 2019ء

(درس القرآن کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۔ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔ اَللّٰهُ الصَّمَدُ۔ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ۔
وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ۔ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِكِ النَّاسِ۔ اِلٰهِ النَّاسِ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔
الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ۔

سورۂ اخلاص کا ترجمہ یہ ہے کہ تو کہہ دے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے۔اللہ بے احتیاج ہے۔نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔اور اس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا۔

پھر سورۂ فلق: اس کا ترجمہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میں چیزوں کوپھاڑ کر نئی چیزپیدا کرنے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ اس کے شر سے جو اس نے پیدا کیا۔اور اندھیرا کرنے والے کے شر سے جب وہ چھا چکا ہو۔اور گِرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔اور حاسدوں کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

سورۂ ناس کا ترجمہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میں انسانوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں ۔انسانوں کے بادشاہ کی۔انسانوں کے معبود کی۔بکثرت وسوسے پیدا کرنے والے کے شر سے جو وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔وہ جو انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جنوں میں سے ہو خواہ بڑے لوگوں میں سے یا عوام النا س میں سے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سورۂ اخلاص کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ‘‘حسن ایک ایسی چیز ہے جو بالطبع دل اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کے مشاہدے سے طبعاً محبت پیدا ہوتی ہے۔’’ فرمایا ‘‘تو حسن باری تعالیٰ اس کی وحدانیت اور اس کی عظمت اور بزرگی اور صفات ہیں جیسا کہ قرآن شریف نے یہ فرمایا ہے:

قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔ اَللّٰهُ الصَّمَدُ۔ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۔

یعنی خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں سب اس کے حاجت مند ہیں۔ ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے۔ وہ کل چیزوں کے لیے مبداء فیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں ۔’’ دنیا کی ہر چیز کو وہ فیض عطا فرماتا ہے، دنیا کی ہر چیز اس سے فیض پاتی ہے لیکن خود اس کو کسی سے فیض لینے کی ضرورت نہیں ‘‘وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں ۔ قرآن نے بار بار خدا کا کمال پیش کر کے اور اس کی عظمتیں دکھلا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کا مرغوب ہے نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور کم قدرت۔’’

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ 417)

پھر اللہ کے نام کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں ۔ ‘‘قرآن کی اصطلاح کی رُو سے اللہ اس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت اس کی ذات میں نہ ہو۔’’ یعنی کوئی نقص اور عیب اس میں نہ ہو۔ فرمایا کہ ‘‘قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے۔’’ یعنی یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کے نام میں پائی جاتی ہیں، قرآن کریم نے اللہ کے نام میں یہ تمام صفات رکھ دی ہیں ‘‘تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں پائی جائیں ۔’’

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 247)

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ثابت ہو کہ اللہ کا جو نام ہے وہ تمام صفات کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے بلکہ تمام کامل صفات کا حامل ہے کوئی کمزوری اس میں نہیں ہے۔ اللہ وہ ہے جو ازلی ابدی اور الحی القیوم ہے اور مالک و خالق اور سب مخلوق کا ربّ ہے۔ پس اللہ اس ذات کا نام ہے جو تمام صفات کا حامل ہے۔ اللہ خدا کا ذاتی نام ہے اور کسی اَور مذہب نے نہیں دیا صرف اسلام میں یہ نام پایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام صرف قرآن کریم میں ہے اور کسی اَور شریعت میں یہ ذاتی نام کہیں نہیں دیکھا گیا، کہیں نہیں ملتا اور یہی وہ خدا ہے جو اپنی ذات میں اکیلا ہے، کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ۔

قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خالص توحید کا اعلان کرنے کا کہا ہے۔ دہریہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں اور دنیا خود بخود قائم ہو گئی اور کسی خدا کا تصرف اس دنیا پر نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے اور اپنے تصرف سے دنیا میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو واضح کر دو کہ تم جھوٹے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہے اور تمام نقائص سے پاک ہستی ہے اور تمام صفات کا حامل ہے اور اس کی صفات ہر وقت جلوہ دکھاتی ہیں ۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری زندگیوں کے سامان میرے مرہونِ منت ہیں۔ تم میرے محتاج ہو۔ کیا سورج، روشنی، ہوا، موسم، پانی، زمین، یہ سب تم نے پیدا کیے ہیں ؟ یہ سب خدا کے پیدا کردہ ہیں اور صرف اگر ربوبیت کے پہلو کو ہی لے لو، اسی صفت کو لے لو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سب میری ربوبیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی صفت ہے۔ یہ رحمانیت ہی ہے جو باوجود انسان کی باغیانہ روش کے اسے زندگی کے سامان اللہ تعالیٰ مہیا کرتا رہتا ہے بلکہ زندگی کو قائم رکھنے کے لیے اس نے کروڑوں سال پہلے سامان مہیا کر دیے۔ اب پانی ہے، اگر یہ پانی ختم ہو جائے تو زندگی ختم ہو جائے۔ کیا یہ لوگ پانی لا سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِيْنٍ۔

(الملک:31)

تو کہہ دے کہ مجھے بتاؤ تو سہی کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہو جائے تو بہنے والا پانی تمہارے لیے خدا کے سوا کون لائے گا۔ اس سے روحانی پانی بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور ظاہری پانی بھی مراد ہے۔ اگر روحانی لحاظ سے ہم دیکھیں تو خدا تعالیٰ کو بھلا کر ان کا روحانی پانی تو ختم ہو چکا ہے۔ ظاہری پانی بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ختم ہو سکتا ہے۔ یہ میری رحمانیت ہے، میری ربوبیت ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ میسر آرہا ہے باوجود تمہاری باغیانہ روشوں کے، باوجود اس کے کہ تم میرے شریک ٹھہراتے ہو، باوجود اس کے کہ میری ذات پر اور میری ہستی پر تمہیں یقین نہیں ہے۔ بارشیں نہ ہو ںتو شور پڑ جاتا ہے لیکن ہم جو ایمان والے ہیں اپنے خدا کی قدرت دیکھتے ہیں بیسیوں واقعات ایسے ہیں کئی دفعہ میں بیان بھی کر چکا ہوں کہ بارش نہیں ہے، قحط سالی کی حالت ہے پھر بارش کی ضرورت ہوئی۔ ہمارے مشنری نے یہاں لکھا۔ میں نے دعا بھی کی۔ ان کو کہا دعا کریں لوگوں کو جمع کر کے نماز استسقاء ادا کریں اور پھر لوگوں نے یہ نظارے دیکھے کہ اللہ تعالیٰ نے بارش کے سامان پیدا فرمائے اور یہ چیز وہاں لوگوں کے ایمان میں زیادتی کا باعث ہوئی، اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہستی پر یقین پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ وہ صَمَد ہے، وہ اپنی ذات میں قائم ہے اسے کسی چیز کی حاجت اور ضرورت نہیں ہے اگر حاجت اور ضرورت ہے تو اس کی مخلوق کو ہے۔ ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللّٰهُ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ اَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ

(الرعد:17)

تُو ان سے کہہ کہ بتاؤ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ اس کا جواب وہ تو کیا دیں گے تُو خود ہی کہہ دے انہیں کہ اللہ۔ اور پھر تو ان سے کہہ دے کیا پھر بھی تم نے اس کے سوااپنے ایسے مددگار تجویز کر رکھے ہیں جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع کو حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور نہ کسی نقصان کو روکنے کی ۔اور ان سے کہہ کہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتاہے؟ یا کیا تاریکی اور روشنی برابر ہوسکتی ہے؟ کیا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک تجویز کیے ہیں جنہوں نے اس کی طرح کچھ مخلوق پیدا کی ہے،کچھ پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو چیزیں پیدا کی ہیں کیا ان لوگوں نے بھی کچھ پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی اور دوسروں کی مخلوق ان کے لیے مشتبہ ہو گئی ہو کہ جو اللہ تعالیٰ نے چیزیں پیدا کی ہیں اور دوسرے معبودوں نے پیدا کی ہیں۔ یا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کچھ پیدا کیا ۔تو ایسی کوئی بات ہے جس سے تم سمجھو کہ کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ مشتبہ ہو گیاکیا اللہ کا پیدا کردہ ہے اور کیا دوسروں کا پیدا کردہ ہے اس لیے ہم خدا کو نہیں مان سکتے۔ تُو اُن سے کہہ کہ اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ کامل طور پر یکتا اور ہر ایک چیز پر کامل اقتدار رکھنے والا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَآءٍ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ۔

(القصص:72)

تُو ان سے کہہ کہ مجھے بتاؤ تو سہی کہ اگر اللہ تمہارے لیے قیامت کے دن تک رات کو لمبا کر دے تو اللہ کے سوا اور کون ہے جو تمہارے پاس روشنی لائے گا۔ کیا تم سنتے نہیں ۔ پھر فرمایا

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

(القصص:73)

تُو کہہ دے مجھے بتاؤ تو سہی کہ اللہ دن کو قیامت کے دن تک تمہارے لیے لمبا کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے پاس رات کو لے آئے جس میں تم سکون پا سکو۔ کیا تم دیکھتے نہیں ۔ پھر فرمایا۔ آگے اس کے کہ

وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (القصص:74)

اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے ہیں کہ اس رات میں تم سکون حاصل کرو اور اس دن میں تم اس کا فضل تلاش کرو تا کہ تم شکر گزار بنو۔ یعنی کام میں لگو دنیا بھی کماؤ اور اپنی ضروریات کو پورا کرو لیکن ساتھ ہی دوسری جگہ یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ اللہ کو نہ بھولو اس کے ذکر کو نہ بھولو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دن میں کام کے دوران بھی یاد رہنا چاہیے۔

پھر اللہ تعالیٰ اپنے غنی ہونے کے بارے میں فرماتا ہے کہ

لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ (الحج:65)

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اس کا ہے اور اللہ یقینا ًاپنے سوا سب وجودوں کی مدد سے بے نیاز اور سب تعریفوں کا مالک ہے۔ پھر فرمایا

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ وَ الْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ۔ (الحج:66)

کہ کیا تُو نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے تمہارے کام پر جو کچھ بھی زمین میں ہے اسے بغیر مزدوری کے لگا رکھا ہے اور کشتیاں بھی سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہیں اور اس نے آسمان کو روک رکھا ہے کہ کہیں زمین پر سوائے اس کے حکم کے گر نہ جائے ۔ اللہ تعالیٰ یقینا ًلوگوں سے بہت شفقت کرنے والا اور ان پر بار بار رحم کرنے والا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور مہربانی ہے کہ اس نے آسمانی آفات کو روک رکھا ہے ورنہ انسان جس طرح کی حرکتیں کر رہا ہے اور اس زمانے میں خاص طور پر جو باغیانہ رویے اور روش ہیں ۔اللہ تعالیٰ کو بھلایا ہوا ہے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر شریک ہیں دوسرے اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے وجود پہ یقین نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو فوری پکڑ لے مگر اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے، اس کو جلدی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، سوال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پھر پکڑتا کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے میں ڈھیل دیتا ہوں اگر پکڑنا چاہوں تو تمہیں پکڑ سکتا ہوں ، دنیا میں کوئی آبادی نہ رہنے دوں لیکن اس کی رحمانیت ہے کہ وہ پھر بھی تمہیں ڈھیل دے رہا ہے اور اس کو اس لیے جلدی نہیں وہ سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اسے پتہ ہے کہ جب میں نے پکڑنا ہے تو پکڑ سکتا ہوں کوئی مجھے روک نہیں سکتا اور کوئی میری پکڑ سے فرار حاصل نہیں کر سکتا ۔پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس لحاظ سے بھی دیکھ لو تمہیں میری ضرورت ہے اور یہ میری رحمانیت اور ربوبیت کے جلوے ہیں جو مَیں تمہیں دکھاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی باقی صفات ہیں ۔کون ہے تم میں سے جو یہ کہہ سکے کہ وہ چاہے تو سورج کی روشنی لا سکتا ہے یا رات کو دن بنا سکتا ہے یا دن کو رات بنا سکتا ہے یا طوفانوں کو روک سکتا ہے۔ نہ جاپان نہ امریکہ نہ اَور کوئی طاقت اپنے تمام دنیاوی وسائل کے ساتھ جو ان کے پاس ہیں اور سمجھتے ہیں ہم بڑے ترقی کر چکے ہیں، بڑے ایڈوانس ہو چکے ہیں وہ بھی چاہیں تو ان طوفانوں کو روک نہیں سکتے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر وہ چاہے تو طوفانوں کے رخ پھر پھیر دیتا ہے۔

فجی میں ہم دورے پر گئے تو وہاں ایک دن صبح صبح فجر کی نماز سے پہلے پاکستان سے ناظر صاحب اعلیٰ کے فون آئے اور بی بی سی پہ خبریں آ رہی تھیں کہ بڑا شدید سونامی آ رہا ہے اور فجی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ہر طرف سےبڑی گھبراہٹ کا اظہار تھا ۔مختلف عزیزوں کے فون آنے لگے۔ نماز کا وقت تھا ہم اپنی رہائش سےمسجد چلے گئے ۔ مسجد میں نماز سے پہلے میں نے سب نمازیوں کو کہا کہ نماز میں ہم سجدے میں اس طوفان کا رخ پھیرنے کے لیے دعا کریں گے۔ میں دعا کروں گا آپ بھی میرے ساتھ شامل ہوں اور دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے وہیں تسکین کے سامان پیدا فرما دیے۔ واپس آئے تو پتہ لگا طوفان کا رخ دوسری طرف چلا گیا ہے۔ تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ دنیاوی طاقتیں اس طوفان کو نہیں روک سکتیں لیکن اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے جو خالص اس کو ماننے والے ہیں، اس کی عبادت کرنے والے ہیں ان کی سنتا ہے اور ان دعاؤں سے پھر بارشیں بھی نازل فرماتا ہے، طوفانوں کے رخ بھی پھیرتا ہے، باقی مصائب سے بھی نجات دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ ہوں میں، یہ ہے میری ذات، یہ ہے میرے وجود کی نشانی۔ پس اللہ تعالیٰ جو رحمان ہے، رحیم ہے، مجیب ہے، بہت ساری صفات کا مالک ہے اپنے جلوے دکھاتا ہے لیکن دہریوں کو اور مشرکوں کو اس کی سمجھ نہیں آتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آپؐ کے ذریعہ مومنوں کو یہ فرمایا کہ اس شرک کے زمانے میں ، اس دہریت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے وجود سے دنیا کو آگاہ کرو اور اب یہ مسیح محمدیؐ کے غلاموں کا کام ہے کہ اس کام کو احسن طریق پر ادا کرنے کی کوشش کریں۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button