ادبیات

وفات مسیح ناصری علیہ السلام

درّثمین اردوکی نویں نظم

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

درِّثمین میں شامل نویں نظم ‘‘وفات مسیح ناصری علیہ السلام’’سیّدناحضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف‘ازالہ اوہام حصّہ دوم’مطبوعہ 1891ءسے ماخوذ ہے۔ انتیس اشعار پر مشتمل یہ نظم بحر رمل مسدس محذوف میں ہے۔

‘ازالہ اوہام’حضرت مسیح ناصری ؑ کی حیات و ممات سے متعلق، بیہودہ عقائد اور تاریخی اغلاط کی گرد سےاٹے پردے ہٹاتی ایک لازوال کتاب ہے۔ اس کتاب میں حضورؑ نے قرآن مجید اور احادیث سے مسئلہ وفاتِ مسیح پر مدلّل بحث فرمائی ہے۔ نُزول ،توفّی اور رفع جیسے الفاظ کے منطقی اور حقیقی معنی بیان فرمانے کے ساتھ خروجِ دجّال جیسے نزاعی مسائل پر رہ نمائی کرتی اس کتاب میں آپؑ نے اپنا مثیلِ مسیح ابنِ مریم ہونا ثابت فرمایا ہے۔

‘ازالہ اوہام ’حصّہ دوم میں ‘خلاصہ فیصلہ’ کے عنوان کے تحت آپؑ نے اس عالَمِ فانی سے عالَمِ جاودانی میں جانے والوں پر وارد ہونے والے تغیّر کی حقیقت بیان فرمائی۔ جب کوئی شخص اِس دنیا کے لوازم کو چھوڑ کر عالَمِ ثانی کی لذّات پالیتا ہے تو اِس تبدیلی کو موت کہا جاتا ہے۔ دوسرے عَالَم کے لوگوں کی یہ خاص علامات ہیں کہ وہ کھاتے ہیں نہ سوتے ہیں، پانی پیتے ہیں نہ بیمار ہوتے ہیں وغیرہ۔ پس اگر حضرت مسیح ناصری زندہ ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیااُن میں اِس دنیوی زندگی کے لوازم جیسے کھانا پینا ،سونا جاگنا وغیرہ خصوصیت کے ساتھ اب تک موجود ہیں؟خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرمایا ہے کہ کوئی شخص فوت شدہ جماعت میں بغیر فوت ہوئے داخل نہیں ہوسکتا۔ جبکہ صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت مسیحؑ دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰؑ کے ساتھ موجود ہیں۔قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے حضرت مسیح کی نسبت فرمایا کہ اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ۔ لفظ متوفّی قرآنِ کریم اور احادیث میں روح کے قبض کرنے اور جسم کو معطل چھوڑنے کے معنوں میں مستعمل ہے۔اسی طرح رفع بھی اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس پر قبضہ کیا جائے ۔یہ ممکن نہیں کہ قبض تو روح کا ہو اور رفع جسم کا کیا جائے۔

اس کے بعد حضورؑ نے لوگوں کے ذہنوں میں جنم لینے والے بعض وہموں کا ازالہ فرمایا۔ جیسے کچھ لوگ یہ وہم پیش کرتےہیں کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بعض مُردے زندہ ہوگئے۔ حضورؑ نے اُن تیس آیات کی طرف اشارہ فرمایا جن میں حضرت مسیح ابنِ مریم کی موت کا بیّن ذکر موجود ہے۔ آخرمیں آپؑ نےخلاصتاً چھے قرائن درج فرمائےجو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آنے والےمسیح سے مراد بنی اسرائیلی مسیح نہیں:

اوّل: خلافتِ موسویہ اور خلافتِ محمدیہ کی ترقی اور تنزّل کا سلسلہ ایک ہی طرز پر واقع ہونا بیان کیا گیا ہے۔

دوم: قرآن کریم حضرت عیسیٰ کی وفات ثابت کرتا ہے۔ نیز امام بخاری نے فلمّا توفیتنی کے معنی وفات لکھے ہیں۔

سوم: قرآن کریم نے بتصریح فرمایا ہے کہ جو شخص مرگیا وہ پھردنیا میں نہیں آئے گا۔ لیکن نبیوں کے ہم نام اس امت میں آئیں گے۔

چہارم: قرآن کریم خاتم النبیین کے بعدکسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا۔

پنجم: احادیثِ صحیحہ بالخصوص حدیث امامکم منکم بصراحت بتا رہی ہے کہ آنے والا مسیح امتیوں کے رنگ میں آئے گا۔

ششم: بخاری شریف میں اصل مسیح ابن مریم کاحلیہ اور آنے والے مسیح کا حلیہ مختلف بیان ہواہے۔

اس کے بعدحضورؑ نے درج ذیل دو ممکنہ اوہام کا مختصر جواب ارشادفرمایا ہے۔

1۔ اگر اصل مسیح کی جگہ مثیلِ مسیح نے آناتھا تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ مثیل آنے والا ہے۔

2۔ سلاطین کی کتاب میں لکھا ہے کہ ایلیاءجسم سمیت آسمان پر اٹھائےگئے تھے۔
یہاں مضمون کے اختتام پر یہ نظم درج ہے۔ مثنوی کی صنف میں مرقوم یہ نظم ایک مدلّل، ناصحانہ منظوم تقریر ہے۔ مضمون کی پیچیدگی کے باوجود اشعار میں ایک لطیف و نفیس شائستگی موجود ہے۔اس نظم میں قرآن و حدیث اور عقلی دلائل کی مدد سے اولوالالباب کو نہایت درد کے ساتھ غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔

اے عزیزوسوچ کر دیکھو ذرا

موت سے بچتا کوئی دیکھا بھلا

کیوں تمہیں انکار پر اصرار ہے

ہے یہ دیں یا سیرتِ کفّار ہے

آپؑ نے ثابت فرمایا کہ خالق ،حیّ و قدیر اور غیب دان جیسی الوہی صفات کا مسیحؑ کی طرف منسوب کرنا، مسیح کے ایک طویل مدت تک زندہ رہنے پر یقین رکھنا گویا انہیں خدا ماننے کے مترادف ہے۔ نظم کے آخری حصّےمیں حضورؑ نے اپنے عقیدے اور مسلک کی دوٹوک الفاظ میں وضاحت فرمائی :

ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں

دل سے ہیں خدّام ختم المرسلیں

شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں

خاکِ راہِ احمدِؐ مختار ہیں

سارے حکموں پرہمیں ایمان ہے

جان و دل اس راہ پر قربان ہے

نظم کا چھٹا اور اٹھائیسواں شعر فارسی میں ہے۔ جن کا ترجمہ لجنہ اماءاللہ کراچی کی شائع کردہ ‘درّثمین مع فرہنگ’سے پیش کیا جارہا ہے۔

ترجمہ شعر نمبر 6: خداتعالیٰ کی طرف سے یہ عہد ہوچکا ہے۔ (آیتِ کریمہ۔ناقل)‘‘وہ واپس نہیں لوٹیں گے’’اس بارے میں غور کرو۔

ترجمہ شعر نمبر28:دنیا میں بہت شورپڑ گیا ہے۔ اے زندگی دینے والے مخلوق پر رحم کر۔

سولھویں شعر میں ‘دیو’ کا لفظ ہے۔ ‘فرہنگِ آصفیہ’کے مطابق یہ لفظ دیوتا یا قابلِ پرستش بزرگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کا درست تلفظ دیْوْ (دے۔وْ) ہے۔

اٹھارویں شعر میں ‘الاماں’کا لفظ استعمال ہواہے۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر) کے مطابق یہ عربی ترکیب اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ مستعمل ہے۔مصیبت، آفت یا بیزاری کے موقعے پر بولتے ہیں۔ جس کےمعنی خدا محفوظ رکھے،امن میں رکھے یا خدا بچائےکےکیے جاسکتے ہیں۔

ادائیگی کے حوالے سے پہلے شعر میں‘سو’(سوسو اُبال) بمعنی سینکڑا استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ غلط طور پر لو اور دو کے وزن پر بولا جاتا ہے۔ جبکہ اس کی درست ادائیگی سَو بروزن جَو (زردی مائل سفیدرنگ کا غلّہ۔شعیر)ہے۔ یہی معاملہ ساتویں شعر میں موجود لفظ ‘موت’ اور اکیسویں شعر میں لفظ ‘خوف’ کے ساتھ بھی ہے۔

بعض دیگر الفاظ کا درست تلفّظ پیش ہے:

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button