متفرق مضامین

حضرت ابراھیمؓ ابن رسول اللہؐ کی تاریخ وفات

سیرت النبیؐ کے اکثر واقعات کی تاریخ یقینی طور پر معلوم نہیں ہے ۔ چنانچہ سیرت کے واقعات کی ترتیب قائم کرنے کے لیے ایسے واقعات بہت اہم ہیں جن کی تاریخ یقینی طور پر معلوم کی جا سکتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ حضرت ابراھیمؓ ابن رسول اللہؐ کی وفات ہے۔ روایات میں بکثرت ذکر ہے کہ آپؓ کی وفات کے دن مدینہ میں سورج گرہن لگا تھا ۔ چونکہ گذشتہ اور آئندہ ہزاروں سال کے چاند اور سورج گرہن حسابی طور پر یقین کے ساتھ معلوم کیے جا سکتے ہیں اس لیے اس واقعہ کی تاریخ بھی یقینی طور پر معلوم کی جا سکتی ہے۔ تمام روایات کو پیش رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورج گرہن ۲۷ جنوری ۶۳۲ء بمطابق ۲۸؍شوال ۱۰ ہجری کو لگا تھا۔

تعارف

سیرت النبیؐ کے تاریخی واقعات کے ضمن میں ایک مشکل یہ پیش آتی ہے کہ کسی واقعہ کا یقینی طور پر تعین کیسے کیا جائے؟ اکثر واقعات کے متعلق مختلف روایات میں کچھ دن، مہینوں اور بسا اوقات سالوں کا فرق بھی موجود ہے۔ چنانچہ ایسے واقعات کی تلاش ضروری ہے جن کے متعلق کسی حد تک حتمی اور یقینی طور پر تاریخ کا تعین کیا جا سکے۔ پھر ان واقعات کی روشنی میں دیگر واقعات کی ترتیب قائم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ اس ضمن میں یہ خیال زیادہ مستند اور معروف یا زیادہ ثقہ راویوں کی بیان کردہ روایات کو حتمی سمجھ کر لے لینا اور دیگر کو چھوڑ دینا غالباً درست نہ ہو گا کیونکہ کسی راوی کے ثقہ ہونے یا کسی کتاب کے مستند ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس میں غلطی کی گنجائش نہیں۔ بسا اوقات ایک ثقہ شخص کسی وقت غلطی کر جاتا ہے۔ اور بسا اوقات ایک کمزور حافظہ والا شخص کوئی بات درست یاد رکھتا ہے۔ اور اگر بظاہر کمزور حافظے والے یا کمزور راوی کی بیان کردہ روایت کی تصدیق کسی دوسرے مستند ذریعہ سے ہو رہی ہو تو اسے تسلیم کرنا بے جا نہ ہو گا۔ پس ثقاہت یا مستند ہونا صرف ایک عمومی پیمانہ ہے ۔ اور اس پر یہ مشکل مستزاد ہے کہ کسی راوی یا کتاب کے درجہ ثقاہت کے متعلق علماء کی رائے میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک ہی راوی کو ایک عالم مستند اور دوسرا کمزور بتاتا ہے۔
خوش قسمتی سے سیرت النبیؐ کے ضمن میں متعدد ایسے بیرونی ذرائع موجود ہیں جو کہ اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ ان میں ایک یقینی ذریعہ علم الفلکیات ہے۔ اسلامی روایات کی رو سے آنحضور ؐ کے صاحبزادے حضرت ابراھیمؓ کی وفات کے دن مدینہ منورہ میں سورج گرہن لگا تھا۔ چونکہ علم الفلکیات کے حساب کی رو سے معین طور پر پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی جگہ پر سورج گرہن کس دن اور کس وقت ہوا اس لیے اس طریق کو استعمال کرتے ہوئے حضرت ابراھیمؓ کی تاریخ وفات یقینی طور پر متعین کی جا سکتی ہے۔

2۔ ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہؓ

اسلامی روایات کے مطابق آنحضور ﷺ نے سن چھ ہجری کے آخری ماہ میں صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد دنیا کے متعدد اہم سرداران کی طرح مصر کے شہر اسکندریہ کے مقوقس کو بھی ایک تبلیغی خط تحریر فرمایا۔ یہ خط حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ اللخمی نے اس تک پہنچایا۔ آپؐ کے نامہ مبارک کے جواب میں مقوقس ایمان تو نہ لایا لیکن اس نے آپؐ کے پیغام کا احترام کیا ، آپؐ کی خدمت میں جواب تحریر کیا اور اُس زمانہ کے دستور کے مطابق آپؐ کی خدمت میں حضرت ماریہ ؓ قبطیہ اور ان کی بہن حضرت سیرینؓ ،ایک خواجہ سرا ، جس کا نام سمھوس ؓتھا، ایک گدھا، جس کا نام یعفور بتایا گیا ہے، ایک خچر جو کہ دُلدُل کے نام سے مشہور ہے، ایک ہزار مثقال سونا اور بیس چادریں بطور تحفہ بھیجیں۔ یہ واقعہ سات ہجری کا ہے۔ حضرت حاطبؓ کی تبلیغ اور کردار سے متاثر ہو کر دونوں خواتین راستہ ہی میں مسلمان ہو گئیں جبکہ سمھوسؓ بعد میں مسلمان ہوا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ راستہ میں نہیں بلکہ مدینہ آمد پر خود آنحضور ﷺ نے جب حضرت ماریہؓ کے سامنے اسلام پیش کیا تو آپؓ مسلمان ہوئیں۔ آنحضورؐنے حضرت ماریہ ؓکو اپنے لیے منتخب فرمایا جبکہ حضرت سیرینؓ حضرت حسان ؓ بن ثابت کو عنایت فرمائیں۔ حضرت ماریہؓ کی والدہ رومی تھیں۔ آنحضور ﷺ نے آپؓ کو مسجد نبویؐ سے دور اپنی ایک جائیداد میں ٹھہرایا جو کہ بنو نضیر کے اموال میں سے آپؐ کو ملی تھی ۔( البلاذری، انساب الاشراف، جلد ۲، صفحہ ۸۵۔۸۶)آپؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دور میں ۱۶ ہجری میں ہوئی (البلاذری، انساب الاشراف، جلد ۲، صفحہ ۸۹)۔ان روایات کی روشنی میں گویا ہمارے پاس ایک موٹا تخمینہ آ گیا ہے کہ حضرت ابراھیمؓ ابن رسول اللہؐ کی پیدائش چھ ہجری کے بعد کسی وقت ہوئی۔ اور وفات آنحضورؐ کی ۱۰ ہجری میں وفات سے پہلے ہوئی۔

3۔ حضرت ابراھیمؓ ابن رسولؐ اللہ

حضرت ابراھیم ؓ آنحضور ﷺ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے جن کی والدہ ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ ؓتھیں۔ آپؓ کی پیدائش کے وقت تک اسلام کے ترقی کر جانے اور مدینہ میں کثرت سے صحابہؓ کی موجودگی کی وجہ سے آپ ﷺ کے باقی بچوں کے مقابل پر حضرت ابراھیمؓ کی پیدائش اور وفات کے واقعات نسبتاً تفصیل سے محفوظ ہیں۔

روایات کے مطابق حضرت ابراھیمؓ کی پیدائش کے ساتویں دن حضرت ابو ھندؓ البیاضی نے ان کے بال مونڈھے، جو کہ زمین میں دفن کر دیے گئے اور ان بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دی گئی، عقیقہ کیا گیا اور ابو الانبیاء حضرت ابراھیم ؑ کے نام پر ان کا نام ابراھیم رکھا گیا۔ آپؐ نے حضرت ام بردۃؓ کبشہ بنت المنذر، کو دودھ پلانے پر مقرر فرمایا اور انہیں کھجوروں کا ایک باغ مرحمت فرمایا (البلاذری، انساب الاشراف، جلد ۲، صفحہ ۸۶۔ ۸۷)۔ حضرت ابراھیمؓ کے رضاعی والد مدینہ میں لوہار تھے (ابن سعد، طبقات، جلد ۱، صفحہ ۱۱۳)۔

آنحضورؐ کو حضرت ابراھیمؓ سے بہت محبت تھی ۔ آپؐ ان کو دیکھنے ان کے رضاعی والدین کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ کبھی ابراھیمؓ کو آپؐ کے پاس بھی لایا جاتا تھا۔ مقوقس کی طرف سے دیا جانے والا خواجہ سراء آپؐ نے حضرت ماریہ قبطیہؓ کے خادم کے طور پر مامور فرمایا تھا (البلا ذری، انساب الاشراف، جلد ۲، صفحہ ۸۶۔۸۷)۔ شاید اس لیے کہ وہ ان کے ملک سے تعلق رکھتا اور ہم زبان تھا۔

دورانِ رضاعت ، حضرت ام بردۃؓ کے ہاں ہی ابراھیمؓ کی وفات ہوئی۔ اس روز مدینہ میں سورج کو گرہن لگا اور بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ سورج کو یہ گرہن حضرت ابراھیمؓ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔

ضورﷺ نے اس خیال کی پُر زور تردید فرمائی اور ایک خطبہ میں وضاحت سے فرمایا کہ کسوف و خسوف کسی شخص کی زندگی یا موت کی وجہ سے نہیں لگتے (بخاری، صحیح، کتاب الکسوف، باب الصلاۃ فی کسف الشمس۔ مسلم، صحیح، کتاب الکسوف ، باب ما عرض علی ٰ النبیؐ من فی صلاۃ الکسوف من امر الجنۃ و النار۔ ابو داؤد، سنن، کتاب الاستسقاء، باب من قال اربع رکعات۔ ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۱۱۸)۔

4۔ حضرت ابراھیمؓ کی تاریخ پیدائش اور وفات کی روایات

حضرت ابراھیمؓ کی وفات کے متعلق مختلف راویوں سے بہت سی روایات بیان کی گئی ہیں۔ درج ذیل جدول میں ان میں سے کچھ پیش ہیں۔

یہ حوالہ جات زیادہ تر صحاح ستہ، بلاذری کی انساب الاشراف،ابن سعد کی طبقات الکبیر، ابن حجر کی الاصابۃ ، القسطلانی کی المواھب اللدنیہ ، المقرزی کی امتاع الاسماء اور ابن اثیر کی اسد الغابۃ سے لیے گئے ہیں۔ یہی روایات دیگر بے شمار کتب میں بھی درج ہیں لیکن ان کا ذکر بلا ضرورت طوالت کا موجب ہو گا۔
ان روایات میں حضرت ابراھیمؓ کی عمر ۷۰ دن سے لے کر ۲۲ ماہ ۶ دن تک اور آپؓ کی مبینہ تاریخ وفات ربیع الاول سے لے کر ذو الحجہ تک بیان کی گئی ہے۔ جبکہ یہ واقعہ اس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جب کثرت سے صحابہؓ موجود تھے اور واقعہ کی اہمیت اور اسی روز سورج گرہن ہونے کی وجہ سے اس کا ذہن میں محفوظ رہنا متوقع ہے۔

ان تمام روایات میں اختلاف کے باوجود دو باتوں پر بہر صورت اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ حضرت ابراھیمؓ کی پیدائش صلح حدیبیہ کے بعد ہوئی۔ دوئم یہ کہ آپؓ کی وفات آنحضورؐ کی وفات سے قبل ہوئی۔ یعنی ہمارا مطلوبہ سورج گرہن چھ ہجری سے دس ہجری کے دوران واقع ہوا۔

5۔ مدینہ میں متعلقہ سورج گرہن

جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ،تمام اسلامی روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابراھیم ؓابن رسول اللہ ؐکی وفات کا واقعہ بہرحال صلح حدیبیہ کے بعد پیش آیا ۔صلح حدیبیہ عام طور پر ذو القعدہ ۶ ہجری یعنی مارچ ۶۲۸ء میں خیال کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ واپسی۔ سلاطین کو خطوط لکھے جانا، خط مقوقس کے پاس جانا، حضرت ماریہؓ کا پیام بر کے ساتھ مدینہ آنا، حمل اور پیدائش ، یہ تمام عرصہ مد نظر رکھا جائے تو کسی صورت ۶۲۹ء سے پہلے حضرت ابراھیمؓ کی پیدائش نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اسلامی روایات میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ آپؓ کی پیدائش ذوالحجہ ۸ ہجری یعنی مارچ۔اپریل ۶۳۰ء میں ہوئی۔ (العسقلانی، فتح الباری، جلد ۴، صفحہ ۶۵۔ زیر کتاب الجنائز، باب قول النبیؐ انا بک لمحزونون)۔ اسی طرح تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ حضرت ابراھیمؓ کی وفات آنحضورؐ کی زندگی میں ہی ہوئی۔ چونکہ آپؐ کی تاریخ وفات ۸ جون ۶۳۲ء بتائی جاتی ہےاس لیے حضرت ابراھیمؓ کی وفات اور اس روز وقوع پذیر ہونے والا سورج گرہن مارچ ۶۳۰ء اور جون ۶۳۲ء کے درمیان کسی وقت ہونا چاہیے۔ اس عرصہ میں مدینہ منورہ سے نظر آنے والا سورج گرہن صرف ایک ہی ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل جدول سے ظاہر ہے:

جبکہ ناسا کے حساب کے مطابق یہ گرہن ۷:۱۶:۰۱ پر شروع ہو کر ۹:۵۴:۲۸ پر ختم ہوا۔ نہ صرف یہ سورج گرہن ہمارے مطلوبہ وقت کے اندر مدینہ سے نظر آنے والا واحد سورج گرہن ہے بلکہ مطلوبہ وقت یعنی ۶۳۰ء تا ۶۳۲ء سے ایک سال پہلے اور دو سال بعد تک بھی یہی وہ واحد سورج گرہن تھا جو کہ مدینہ سے نظر آ سکتا تھا۔ وقت کی اس قید کے علاوہ مندرجہ ذیل حقائق بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت ابراھیمؓ کی وفات صرف ۲۷ جنوری ۶۳۲ء کو ہی ممکن ہے:

اول ، روایات میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ سورج گرہن صبح کے وقت ہوا تھا ۔ آپؐ اس وقت سواری پر کہیں تشریف لے گئے تھے اور سورج گرہن ہونے پر واپس تشریف لائے (نسائی، سنن، کتاب الکسوف، باب نوع آخر منہ عن عائشۃؓ۔مسلم، صحیح، کتاب الکسوف، باب ذکر عذاب القبر فی الصلاۃ الخسوف۔وغیرہ)۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سورج اس وقت دو۔تین نیزہ پر تھا (ابو داؤد، سنن، کتاب صلاۃ الاستسقاء، باب من قال اربع رکعات)۔ اسی طرح بتایا گیا ہے کہ نماز کسوف اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ سورج گرہن ختم نہ ہو گیا (بخاری، صحیح، کتاب الکسوف، باب ھل یقول کسفت الشمس او خسفت اور باب خطبۃ الامام فی الکسوف)۔ یعنی یہ گرہن شام کو یا غروب آفتاب کے وقت نہیں ہوا تھا بلکہ نماز کے بعد دوبارہ سورج صاف ہو گیا۔ دو تین نیزہ والی بات اس حد تک درست ہے کہ گرہن ختم ہونے تک سورج کو طلوع ہوئے اڑھائی گھنٹے ہو چکے تھے اور وہ اس وقت تک اتنا بلند ہو چکا تھا۔

دوئم، روایات کے مطابق یہ بہت لمبا گرہن تھا۔ کیونکہ آپؐ باہر تھے۔ گرہن لگنے پر واپس تشریف لائے۔ لوگوں کو مسجد میں بلایا گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے بہت لمبی نماز کسوف پڑھائی (مسلم، صحیح، کتاب الکسوف، باب ذکر النداء بالصلوٰۃ الکسوف)۔ یہ اتنی لمبی نماز تھی کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آپؐ نے پہلی رکعت میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کے برابر قیام فرمایا ہے (بخاری، صحیح، کتاب الکسوف، باب جماعۃ)۔ بعض لوگوں پر غشی طاری ہو گئی(نسائی، سنن، کتاب الکسوف، باب نوع آخر میں صلاۃ الکسوف)۔ اور بعض تو نماز کی طوالت کے سبب گر پڑے (مسلم، صحیح، کتاب الکسوف، باب ما عرض علیٰ النبیؐ فی الصلاۃ الکسوف من امر جنۃ و النار)۔اس نماز کے ہر رکن کی طوالت کا یہ حال تھا کہ جب قیام ہوا تو سمجھا گیا کہ رکوع نہیں ہو گا، اور جب رکوع کیا گیا تو لوگ سمجھے کہ دوبارہ قیام نہیں ہو گا وغیرہ (ابو داود،سنن، کتاب الاستسقاء، باب من قال یرکع رکعتین۔ احمد، مسند، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص)۔ ایسا صرف دو۔اڑھائی گھنٹہ والے کسوف کے متعلق ہی ممکن ہے۔ آدھے یا پونے گھنٹہ کے کسوف میں اگر لوگوں کے جمع ہونے وغیرہ کے وقت کو نکال دیا جائے تو باقی ۲۰۔۲۵ منٹ کی نماز کسوف میں لوگوں کا یہ حال قرین قیاس نہیں جو کہ روایات میں بیان ہوا ہے۔

سوئم، بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراھیمؓ کی وفات آنحضورؐ کی وفات سے صرف تین ماہ قبل ہوئی (العسقلانی، فتح الباری، جلد ۴، صفحہ ۶۵۔ زیر کتاب الجنائز، باب قول النبیؐ انا بک لمحزونون)۔ یعنی یہ گرہن آپؐ کی وفات کے قریب واقع ہوا۔

مندرجہ بالا حقائق کے پیش نظر حضرت ابراھیم ؓابن رسول اللہؐ کی تاریخ وفات معین طور پر ۲۷ جنوری ۶۳۲ء ثابت ہوتی ہے۔

نوٹ: اوپر جدول میں دیے گئے کسوف کے اوقات عالمی فلکیاتی ادارہ کے حساب کے مطابق ہیں۔ امریکہ کے خلائی ادارہ NASA کے حساب میں قریباً ۵ منٹ کا فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی رفتار یکساں نہیں ہے بلکہ ہر سال اس میں مد و جزر ، زلزلوں وغیرہ مختلف عوامل کی بناء پر معمولی سا فرق پڑ جاتا ہے ۔ گزشتہ ۱۴۰۰ سال کے دوران زمین کی رفتار میں کب کتنا فرق پڑا ہے، اس بارے میں عالمی انجمن فلکیات اور ناسا کے اندازہ میں معمولی اختلاف ہے۔ اس اختلاف اور دیگر عوامل کا نتیجہ یہ پانچ منٹ کا فرق ہے وگرنہ دونوں حساب اپنی اپنی جگہ نہایت درست اور سیکنڈ تک معین ہیں مثلاً عالمی حساب کے مطابق ۲۷ جنوری ۶۳۲ء والا سورج گرہن مدینہ میں ۷:۲۱:۴۰ پر شروع ہو کر ۹:۵۹:۴۳ پر ختم ہوا۔

6۔ نتائج اور روایات کی تصحیح

مندرجہ بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراھیمؓ ابن رسول اللہؐ کی تاریخ وفات یقینی طور پر سوموار ۲۷ جنوری ۶۳۲ء تھی۔ اسلامی روایات پر نظر ڈالنے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ روایات میں جو امور بیان کئے گئے ہیں وہ کم و بیش درست ہیں ۔ بلکہ متعدد امور کافی باریکی سے درست بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً:
۱۔ گرہن کا بہت لمبا ہونا۔ ۲۔ گرہن کا صبح کے وقت ہونا۔۳۔ اس واقعہ کا آپؐ کی وفات سے چند ماہ قبل ہونا۔
تاہم احادیث کے مقابل پر تاریخ اور پہلے زمانہ کے مقابل پر بعد کے زمانہ کی کتب میں کئی غلطیاں بھی راہ پا گئی ہیں مثلاً:

۱۔ قمری ماہ کی دس تاریخ کو سورج گرہن ہونا ناممکن ہے کیونکہ ایسا صرف قمری ماہ کے آخر میں ہو سکتا ہے جب چاند ، زمین اور سورج قریباً ایک لکیر پر آ جاتے ہیں اور چاند سورج کا کچھ حصہ چھپا لیتا ہے۔ یہ بات پرانے علماء نے بھی محسوس کی۔ چنانچہ انہوں نے اس کا جواب یہ پیش کیا ہے کہ اس روز معجزانہ طور پر دس تاریخ کو ہی گرہن لگا تھا(القسطلانی، مواھب اللدنیہ، جلد ۲، صفحہ ۷۰)۔یہ کوئی معقول جواب نہیں۔ نیز یہ جواب اس لحاظ سے اَور بھی زیادہ غلط ہے کہ آپؐ نے بالخصوص واضح فرمایا تھا کہ سورج اور چاند گرہن کسی کی وفات کی وجہ سے نہیں ہوتے۔ اگر یہ گرہن معجزانہ تھا ، تو یہ معجزہ تو پھر ابراھیمؓ کی وفات پر ہی ظاہر ہوا اور ان کی وفات ہی کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا۔ اس صورت میں آپؐ کے ارشاد کے کیا معنی ہیں؟

۲۔ حضرت ابراھیمؓ کی وفات منگل کے دن نہیں ہوئی کیونکہ ۲۷ جنوری ۶۳۲ء کو سوموار تھا۔
۳۔ حضرت ابراھیم ؓ کی وفات ربیع الاول ، ذوالحجہ یا رمضان میں نہیں ہوئی کیونکہ ۲۷ جنوری ۶۳۲ ء اسلامی تقویم کے لحاظ سے ۲۸ شوال ۱۰ ہجری ہے۔ روایات میں تین مختلف مہینوں کا ذکر ہے اگر نہیں ہے تو شوال ہی کا ذکر نہیں ہے!

پس معلوم ہوا کہ بسا اوقات روایات میں کسی واقعہ کے ایک مخصوص مہینہ یا دن کو ہونے کا جو ذکر ہوتا ہے تو یہ باتیں اضافی دلائل کے بغیر قابل انحصار نہیں۔

7۔ حضرت ابراھیمؓ کی وفات کا وقت

اس روز سورج کو گرہن طلوع آفتاب کے چند منٹ بعد ہی لگ گیا تھا۔ پس ان تمام روایات کے پیشِ نظر، جن میں یہ ذکر ہے کہ جس دن حضرت ابراھیمؓ کی وفات ہوئی اسی دن سورج کو گرہن لگا ، یہ سوال اٹھتا ہے کہ حضرت ابراھیمؓ کی وفات سورج گرہن سے پہلے ہوئی یا بعد میں؟ یہاں “اسی دن” سے مراد ۲۶ جنوری کو غروب آفتاب کے بعد کا وقت نہیں ہو سکتا ، جبکہ اسلامی تقویم کے مطابق نیا دن شروع ہو گیا تھا ، کیونکہ حضرت ابراھیمؓ کی وفات اور تدفین کے متعلق کسی روایت میں رات کا ذکر نہیں ۔ پس ایک ہی امکان باقی رہ جاتا ہے یعنی یہ کہ آپؓ کی وفات ۲۷ جنوری ہی کو ہوئی مگر سورج گرہن کے بعد۔

8۔ ۲۷ جنوری ۶۳۲ء کا دن

۲۷ جنوری ۶۳۲ء کو آنحضورؐ صبح نماز فجر پڑھانے کے بعد کسی جگہ تشریف لے گئے۔ متعدد روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ کبھی اس طرح قبرستان یا کسی صحابیؓ کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس روز آپؐ حضرت ابراھیمؓ ہی کو دیکھنے تشریف لے گئے ہوں۔ سوا سات بجے سورج طلوع ہوا تو آپؐ اس وقت ابھی باہر ہی تھے۔ چند منٹ بعد جب سورج کو گرہن لگنا شروع ہوا تو آپؐ واپس گھر تشریف لائے اور مسجد میں لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں کے جمع ہونے پر آپؐ نے طویل نماز کسوف ادا فرمائی جو کہ دس بجے تک جاری رہی۔ اس نماز کے دوران آپؐ کو کشفی طور پر جنت و دوزخ اور دیگر بہت سے امور کے متعلق خبریں دی گئیں۔ نماز کے بعد آپؐ نے اس بارہ میں صحابہ اور صحابیات کو مطلع فرمایا اور انہیں نصائح فرمائیں۔ دس بجے کے بعد کسی وقت حضرت ابراھیمؓ کی وفات ہو گئی اور بعض لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ سورج کو گرہن اسی لیے لگا تھا۔ چنانچہ ابراھیمؓ کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد آپؐ نے اس ضمن میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس خیال کی پُر زور تردید فرمائی۔

کتب:

البلاذری، انساب الشراف، دار الفکر،بیروت، لبنان، ۱۹۹۶۔؍ابن سعد، کتاب طبقات الکبیر، مکتبۃ الخانجی، قاھرہ، مصر،۲۰۰۱۔؍ابن حجر العسقلانی، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، مرکز ھجر للبحوث و دراسات العربیۃ و الاسلامیۃ،قاھرہ، مصر، ۲۰۰۸۔؍ابن حجر العسقلانی، فتح الباری بشرح البخاری، دار الطیبۃ، ریاض، سعودیہ، ۲۰۰۵۔؍ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، دار ابن حزم، بیروت، لبنان، ۲۰۱۲۔؍مقریزی، امتاع الاسماع، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ۱۹۹۹۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button