تعارف کتاب

’’سیرت الابدال‘‘

نام کتاب: سیرت الابدال (عربی)

تصنیف لطیف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام

صفحات : 15

سیرت الابدال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عربی زبان کی فصاحت و بلاغت پر مشتمل معرکہ آراء کتاب ہے۔ یہ کتاب روحانی خزائن جلد نمبر 20کے صفحہ 129 تا صفحہ144 پر موجود مختصر کتاب ہے جو کہ حقائق و معارف کا سمندر اور اللہ کی راہ میں کوشش کرنے والوں کے لیے راہنما ہے۔ اس کتاب میں حضور علیہ السلام نے عبادالرحمٰن کی علامات اور ان کے مقام کو بیان کیا ہے جس سے عام لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔

یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں حکیم فضل دین صاحب کے مطبع سے رمضان المبارک 1321ھ بمطابق دسمبر 1903ء میں طبع ہو کر شائع ہوئی۔

سیرت الابدال کا اردو ترجمہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ عربی بورڈربوہ نے اس ترجمے پر نظرثانی کرکے اِسے عربی متن کے مطابق کیانیز عربی متن پر نظرثانی کرکے اسے ایڈیشن اوّل کے مطابق کیا اور ترجمے کے ساتھ یہ عظیم الشان کتاب 2012ء میں نظارت اشاعت صدرانجمن احمدیہ کے تحت طبع ہوئی تا اُردو دَان قارئین اس عظیم کتاب کا ترجمہ پڑھ کر حضور اقدس علیہ السلام کے بیان کردہ حقائق و معارف سے لطف اندوز ہوں۔

ٹائٹل پیج سمیت اس کتاب کے 17صفحات ہیں۔ 16 صفحات کتاب کے متن پر مشتمل ہیں۔ یہ 16 صفحات کیا ہیں، عبادالرحمٰن کی علامات، حقائق و معارف اور قرآنی نکات کا ایک بحربیکراں اور حضور علیہ السلام کی عربی دانی کا شاہکار۔

اس اردو ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کتاب کے آخر پر مشکل عربی الفاظ کی لغت بھی دی گئی ہے تاکہ قارئین کو الفاظ کا ترجمہ سمجھنے میں اگر مشکل پیش آئے تو وہ اس حل لغات سے استفادہ کریں۔
ذیل میں خلاصۃً ان علامات کا ذکر اس دعا کے ساتھ کیا جارہا ہے کہ اللہ ہم سب قارئین کو ان علامات کے مطابق عمل کرکے عبادالرحمٰن بننے کی توفیق دے۔

1۔ ان کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایسی تاریکی کے وقت مبعوث کیے جاتے ہیں جو سارے زمانے پر چھائی ہوتی ہے۔

2۔ ان کا ظہور شریف لوگوں اور شریفانہ خصائل کے کم ہوجانے پر ہوتاہے۔

3۔ ان کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہے جن کے دل کسی جلال سے مرعوب نہیں ہوتے۔ وہ اپنے رب کی اُلوہیت میں محو رہتے ہیں۔ امراء میں سے کسی کے آگے ان پر لرزہ طاری نہیں ہوتا۔

4۔ ان کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ جب اُن کا فیاض ربّ سے تعلق کمزور ہوجاتا ہے تو وہ بندوں پر احسان کرکے اُس تعلق کو تروتازہ کرتے ہیں۔ انہیں ایسا جام پلایا جاتا ہے جس سے نہ وہ فضول گوئی کرتے ہیں اور نہ انہیں دردِسر لاحق ہوتاہے۔

5۔ ان کے اسرار بوجہ دقیق ہونے کے سمجھے نہیں جاتے۔

6۔ وہ اپنے نفس کو ہر اُس بات سے روک رکھتے ہیں جو اُن کے ربّ کو ناپسند ہو۔

7۔ وہ جھوٹ نہیں بولتے خواہ وہ آگ میں ڈال دیے جائیں اور نہ وہ حق کو چھپاتے ہیں خواہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے۔

8۔ وہ اللہ پر توکل کرتے ہیں اور دنیا کو ردّی سمجھتے ہوئے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔

9۔ مادی اسباب کے پیدا ہونے سے پہلے ہی انہیں اقبال مندی کی خبر دی جاتی ہے۔

10۔ انہیں مایوسی اور لوگوں کے اعراض کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کی بشارت ملتی ہے۔

11۔ بیوقوف ان پیش خبریوں کے اظہار پر ان کی ہنسی اُڑاتے ہیں۔ انجام کار وہ غلبہ اور عزت اور سربلندی کے ساتھ فائز المرام ہوتے ہیں۔

12۔ وہ اللہ کی راہوں میں مضبوط، تنومند تیز رَو اُنٹنی کی طرح دوڑتے ہیں۔ وہ اُس بارش کے مشابہ ہوتے ہیں جو زمینوں کے خواص ظاہر کردیتی ہے اور اچھی زمین کی روئیدگی اپنے رب کے حکم سے نکلتی ہے۔

13۔ تم انہیں باوقار شخص، زیرک سپہ سالار اور ایسے تاجر کی طرح جو سالارِکارواں ہو اور اپنے ہم عصروں کا سرِخیل پائو گے۔

14۔ وہ اپنی زندگی گریہ وزاری میں بسر کرتے ہیں اور اپنے رب کے لیے قیام و سجود میں ساری رات گزار دیتے ہیں۔

15۔ وہ خواہشاتِ نفسانی کے بھیڑیے سے بچتے ہیں اور موت کے آنے تک اپنے ربّ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔

16۔ رذیل لوگ جب ان کو گالیاں دیتے ہیں اور کتوں کی طرح اُن پر پِل پڑتے ہیں تو ایسی حالت میں بھی وہ صبر کرتے ہیں۔

17۔ وہ گھٹا ٹوپ اندھیرے، پھلوں کے کم ہوجانے، درختوں کے خشک ایندھن سے مشابہ ہونے اور ایسے زمانے میں جب لوگوں پر گہری نیند غلبہ پالیتی ہے، مبعوث کیے جاتے ہیں۔

18۔ وہ رذیلوں کی طرح بدخُلق نہیں ہوتے بلکہ وہ غصہ پی جاتے ہیں اور جاہلوں میں سے جس نے تکلیف پہنچائی ہوتی ہے، اُسے معاف کردیتے ہیں۔

19۔ وہ ایسے جری ہوتے ہیں کہ حد سے بڑھے ہوئے ظلم کے سامنے سرِتسلیم خم نہیں کرتے۔

20۔ وہ اپنے رب سے ڈرتے اور تقویٰ پر مواظبت اختیارکرتے ہیں اور جب انہیں کوئی شیطانی خیال آئے تو استغفار کرتے ہیں۔ اور (ان پر) سکینت نازل ہوتی ہے۔

21۔ وہ کذاب اور عریاں منافق کو جوگرگٹ کے مشابہ ہو،خوب پہچانتے ہیں۔

22۔ وہ ہر معاملے میں صائب الرائے اور شیر کی طرح دلیر ہوتے ہیں۔

23۔ وہ آرام طلبی کی طرف مائل نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اِتراکر چلتے ہیں۔

24۔ جب کسی بلا کا نزول ان پر مقدر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تقدیر کے نزول سے پہلے ہی انہیں آگاہ فرما دیتا ہے۔

25۔ اُن کو نصرت الٰہی حاصل ہوتی ہے اور وہ بے کس نہیں چھوڑدیے جاتے۔ اور کوئی خواہش اُن کے اور اُن کے رب کے درمیان حائل نہیں ہوتی۔ وہ حضرت باری سے جدا نہیں ہوتے خواہ انہیں قیمہ ہی کیوں نہ کر دیاجائے۔

26۔ وہ شیخی بگھارنے والے جاہلوں کی طرح نہیں ہوتے۔

27۔ ان کو علم عطا کیا جاتا اور منور کیا جاتاہے۔

28۔ وہ دکھاوا نہیں کرتے اور نیکیوں کو سنوار سنوار کر ادا کرتے ہیں۔

29۔ اللہ انہیں گمنام نہیں چھوڑتا بلکہ لوگوں میں ان کو شہرت اور عظمت دی جاتی ہے۔

30۔ وہ اُسی روحانی مَے سے پیتے ہیں جس سے انبیاء پیا کرتے ہیں۔

31۔جب انہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کھڑے ہوجاتے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

32۔ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے وہ خدا کی خاطر لٹا دیتے ہیں اور بخل نہیں کرتے۔
33۔ بے شک وہ خدا کے شیر ہوتے ہیں۔ وہ دشمنوں پر حملہ کرتے اور انہیں فنا کردیتے ہیں۔
34۔ وہ شجرۂ قدس کی شاخیں ہوتی ہیں جو اُنہیں توڑنے کے لیے جھکائے، اللہ اُسے توڑ ڈالتا ہے۔
35۔ وہ ایسی قوم ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ خود جنگ کرتا ہے۔
36۔ وہ طالب حق قوم کے دلوں میں اپنے علوم ڈالتے ہیں اور انہیں اس طرح پالتے ہیں جیسے پرندہ اپنے بچے کو اور ان کی فریاد بڑی دلجوئی سے سنتے ہیں۔
37۔ اُن کے ربّ کی طرف سے ان کے نفوس کا ایسا تزکیہ کیا جاتا ہے کہ نفسانی جذبات ایک ایک کرکے مٹ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ فقط روح باقی رہ جاتی ہے۔ تب وہ لوگوں کی طرف مبعوث کیے جاتے ہیں۔ یہ ہے مقام ابدال کا۔
38۔ وہ اس وقت تک وفات نہیں پاتے جب تک کہ اپنے پیچھے ایسی جماعت نہ چھوڑیں جسے معرفت عطا کی جاتی ہے۔
39۔ وہ ہر ایک نادان ہلاک ہونے والے کو اپنے چشمے کی طرف بلاتے ہیں اور اُکتاتے نہیں۔
40۔ مخلوق ان کی وجہ سے ہی محفوظ ہوتی ہے۔
41۔ اللہ تعالیٰ ان سے کرب و اضطراب کی شدت دور کردیتا ہے۔
42۔ انہیں ایسے اخلاق دیے جاتے ہیں جن کی نظیر ان کے غیروں میں نہیں ملتی۔
43۔ ان لوگوں کو اللہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ وہ رضائے الٰہی کے طلب گار ہوتے ہیں اور دنیا ان کی نگاہوں میں بے وقعت ہوتی ہے۔
44۔ ان کی برکات متواتر برسنے والی بارش کی سی ہوتی ہیں۔
45۔ وہ ملت اور دین کی رونق اور زمین پر اللہ کی حجت ہوتے ہیں۔
46۔ آسمان پر اُن کو عزت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے وہ لوگ جو ان کی ہتک عزت کرتے ہیں یا ان کا خون بہاتے ہیں، اللہ ان سے جنگ کرتا ہے۔
47۔ ان علامات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے حوض کا پانی کبھی مکدر نہیں ہوتا۔ا نہیں ہر وقت جاری پانی عطا کیا جاتاہے اور انہیں رب العالمین کی طرف سے شیریں آب زُلال مسلسل عطا کیا جاتاہے۔
48۔ اللہ تعالیٰ اُن کے نفسوں میں کامل معرفت (حاصل کرنے) کی شدید پیاس پیدا کردیتا ہے۔
49۔ وہ ہر احمق سے اعراض کرتے ہیں اور برائیوں کو نیکیوں کے ذریعہ دور کرتے ہیں۔
50۔ اُن کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر تو کچھ عرصہ اُن کے پاس رہے تو تُو ان سے عجائبات دیکھے گا۔ اُن کے قول دلوں کو دھو دیتے ہیں اور ان کی گفتار دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔
51۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی نجات کو ان (ابدال) کی محبت اور عنایت سے وابستہ کردیا ہے۔ پس وہ شخص ہلاک ہوگیا جس نے اُن سے قطع تعلق کیا۔ کیونکہ اُس نے ایسے لوگوں کو چھوڑا جو محافظ تھے۔
52۔وہ میدان کارزار میں کم ہمتوں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ ثابت قدم ہوتے ہیں اور بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تصنیف عربی زبان دانی کا شاہکار ہے اور حضور علیہ السلام کے اس دعوے کی صداقت کی دلیل بیّن ہے کہ آپ کو عربی زبان الہاماً سکھائی گئی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ومن أظلم أبناء الزمان فی ھٰذا الأوان من تصدق لایذائی وھو ضبس وأشوس کالشیطان و خوّفنی من کشیشہ وفحیحہ کالثعبان، وواللّٰہ انی حمی الرحمن، فمن أرادأن یقطعنی فسیُقطع من أیدی الدیّان و انی بأعینہ ولا یخاف لدیہ المرسلون ولا یرد الجَرۡبزۃُعلی أھلھا لو کانوا یعلمون۔

(ترجمہ) اس وقت ابنائے زمانہ میں سے سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو میری ایذا رسانی کے لیے کمربستہ ہے۔ وہ شریر ہے اور شیطان کی طرح ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والا متکبر ہے اور اس نے اژدھا کی طرح اپنی پھنکار اور جلد کی آواز سے ڈرایا ہے اور اللہ کی قسم میں رحمان خدا کی رَکھ ہوں۔ پس جس نے مجھے کاٹنے کا ارادہ کیا، وہ جزا سزا کے مالک خدا کے ہاتھوں سے کاٹا جائے گا اور میں اُس کی نگاہ میں ہوں اور اس کے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے اور فریب کاروں کے فریب اُن پر لوٹا دیے جائیں گے۔ کاش وہ جانتے!۔

اردو ترجمہ سیرت الابدال۔ صفحہ 22)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button