خطبہ عید

خطبہ عید الاضحی مورخہ 22؍اگست 2018ء

خطبہ عیدا لاضحی فرمودہ امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 22؍اگست 2018ء بمطابق 22؍ ظہور 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

(خطبہ عید کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔ کَذَالِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ۔ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (الحج:38)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔ اسی طرح اس نے تمہارے لیے انہیں مسخر کر دیا ہے تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بنا پر کہ جو اس نے تمہیں ہدایت عطا کی اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔

آج عید الاضحی ہے، وہ عید جسے قربانی کی عید بھی کہتے ہیں۔ آج کے دن مسلم دنیا میں بے شمار جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے۔ حج کے موقع پر اتنی بڑی تعداد میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں کہ سعودی حکومت کو دوسری کمپنیوں کو ٹھیکے دینے پڑتے ہیں اس کے باوجود انہیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گو کہ غریب ممالک میں بھی یہ لوگ پھر قربانی کا گوشت بھجواتے ہیں۔ بہرحال یہ قربانی ایک ادنیٰ چیز کا اعلیٰ چیز کے لیے قربانی کا ایک ظاہری اظہار ہے۔ اور یہ احساس دلانے کے لیے کہ انسان ایک ادنیٰ چیز کو اپنے لیے قربان کر سکتا ہے۔ پس جب انسان ایک جانور کو اپنے لیے قربان کر سکتا ہے تو پھر انسان کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اعلیٰ چیز کے لیے، اعلیٰ مقصد کے لیے اپنے آپ کو قربان کرے۔ یہ اقرار کرے کہ مَیں بھی اعلیٰ چیز کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور ایک مومن کے لیے اعلیٰ چیز جس کے لیے اسے ہر قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کے لیے ہر قربانی کے لیے پیش کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کو پورا کرنا ہے۔ جان، مال اور وقت کو پورا کرنے کے لیے بخوشی راضی اور تیار ہونا ہے۔ اور یہی تقویٰ ہے اور یہی وہ مقصد ہے جس کا احساس ہر سال تازہ کرنے کے لیے عید الاضحی منائی جاتی ہے کہ اپنے اس قربانی کے مقصد کو بھول نہ جانا۔

عید الاضحی میں قربانی اور عید کی خوشیاں صرف اس لیے نہیں کہ ہم گوشت کھائیں گے اور اپنے خاندانوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منائیں گے بلکہ اس لیے ہے کہ ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہیں اور یہی بات کھول کر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ قربانی کی حکمت یہ نہیں کہ اس کا گوشت یا خون اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اصل حکمت یہ ہے کہ یہ قربانی تمہیں ہر قربانی کے لیے تیار رہتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کی طرف لے جائے اور ہر قربانی میں تم ترقی کرو۔ اور جب تقویٰ میں ترقی ہو گی تو یہی چیز پھر اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کہ اس کے بندے اپنے نفس کی قربانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بھی حق ادا کریں اور اس کی مخلوق کے بھی حق ادا کریں۔ آج کے دور میں پہلے سے بڑھ کر اس بات کے ادراک کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نفس کی قربانی دے کر یہ دونوں قسم کے حقوق ادا کریں۔

جب ہم دنیا کے حالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو بدقسمتی سے مسلمانوں میں سب سے زیادہ یہ صورتحال نظر آتی ہے کہ وہ تقویٰ سے دور ہیں۔ دوسرے سے قربانی لینے کا تو بڑھ چڑھ کر مطالبہ کرتے ہیں لیکن اپنے گریبان میںنہیں جھانکتے، اپنی حالتوں کو نہیں دیکھتے، اپنی حالتوں پر غور نہیں کرتے۔ بعض تو ظلم و بربریت کی ایسی مثالیں قائم کر رہے ہیں جس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب گذشتہ دنوں جس طرح یمن میں سکول میں بچوں کا قتل ہوا یا سکول بس پر بم گرا کر درجنوں بچے مار دیے گئے۔ بے رحمی اور بے دردی سے مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے یہ سب تقویٰ کی کمی ہے۔ حج پر جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کا ورد بھی کرتے ہیں، اعلان بھی کرتے ہیں۔ جانوروں کی قربانی بھی کرتے ہیں اور اسی طرح حج کے علاوہ بھی جیسا کہ میں نے کہا باقی دنیا میں رہنے والے بھی حسب توفیق قربانی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے اس اعلان پر غور نہیں کرتے کہ لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔کہ یاد رکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ پس اگر یہ حج اور قربانیاں اور یہ عید کی خوشیاں تقویٰ نہیں پیدا کر رہیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی دوٹکے کی بھی حیثیت نہیں، معمولی حیثیت بھی نہیں۔ جن بچوں کو گذشتہ دنوں ظالمانہ طور پر قتل کیا گیا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا جو کلمہ گو مستقل کلمہ گوکو قتل کر رہا ہے کیا وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں جو تقویٰ سے خالی دل ہے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی نہیں پا سکتا۔ اور جو ان قربانیوں کی روح کو سمجھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے بندوں کے حقوق ادا کرتے رہیں گے، خدا تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کریں گے، اس کا حق ادا کریں گے وہ بڑے بڑے انعامات کے حاصل کرنے والے ہوں گے۔

آج ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر ہم اس فساد زدہ اور ظلم و بربریت میں ڈوبی ہوئی دنیا سے اپنے آپ کو علیحدہ کیے ہوئے ہیں، ہم ان میں شامل نہیں۔ مسلم ممالک میں بھی اور غیر مسلم ممالک میں بھی بہت بڑی تعداد ان ملکوں کی ان فسادوں میں مبتلا ہیں۔ اور وجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دنیاوی خواہشات نفس پر غالب ہیں اور اپنے مقصد پیدائش کو بھول کر تقویٰ سے دور ہیں۔ پس ایسے میں ہماری، احمدیوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ جہاں اپنے آپ کو تقویٰ پر چلائیں، اپنی نسلوں کو تقویٰ کے راستوں پر چلانے کے لیے کوشش اور دعا کریں وہاں دنیا کو بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کی کوشش کریں۔ اور یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ کام مسلسل قربانی اور کوشش چاہتا ہے اور اس کے لیے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے اسے ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی حالتوں کے مستقل جائزے لینے کی ضرورت ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے اس بارے میں کیا چاہتے ہیں اسے ہم سامنے رکھیں اور اس کی بار بار ذہن میں جگالی کرتے رہیں تبھی ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے بن سکیں گے۔ تبھی ہم تقویٰ پر چلنے والے بن سکیں گے ورنہ ہم بھی باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کا اعلان کرتے ہیں ان لوگوں میں شمار ہوں گے جو صرف ظاہری قربانیوں پر خوش ہو جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں کس طرح تقویٰ کے حصول کے لیے توجہ دلائی ہے اور کیا معیار ہیں جو ہم نے حاصل کرنے ہیں۔ اس بارے میں آپ کے چند اقتباسات میں نے لیے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے۔ گوشت اور خون سچی قربانی نہیں۔’’ فرماتے ہیں کہ ‘‘جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔ مگر خدا نے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں۔’’(یعنی ظاہری قربانیاں بند نہیں کیں) ‘‘تا معلوم ہو کہ ان کی قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے۔’’

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 482)

پس حقیقی قربانی دلوں کا ذبح کرنا ہے؟ اپنے نفس کو مارنا ہے۔ دلوں کا ذبح کرنا کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی خواہشات کو چھوڑنا، اپنے نفس کو مارنا ہے۔ ایمان کے اعلیٰ معیار حاصل کرنا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

‘‘یقیناً سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔’’ (ہر پاکبازی اور نیکی کی اصل جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔) ‘‘جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمال صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے۔ لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے۔’’ فرماتے ہیں ‘‘خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا گناہ پر قادر نہیں ہو سکتا’’ (جس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اس سے گناہ سرزد نہیں ہو گا۔ جان بوجھ کر گناہ سرزد نہیں ہو گا۔) ‘‘کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضاء کو کاٹ دیتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد 6صفحہ 244)

اعضاء کے کٹنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عملی طور پر اپنے ہر اس عضو کو کاٹ دیتا ہے جس سے گناہ سرزد ہونے کا امکان ہو۔ نہیں، بلکہ اس کا تقویٰ کا معیار اور ایمان باللہ کا معیار ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی دل کا ذبح کرنا ہے، یہی نفس کا مارنا ہے اور اسی بات کی ہم سے توقع کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ

‘‘ہماری جماعت کو … ایمانِ کامل کی ضرورت ہے۔’’ فرمایا ‘‘پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں۔’’

(ملفوظات جلد 6صفحہ 245)

انسان جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر غور کرے تو کانپ جاتا ہے کہ کیا تقویٰ کے یہ معیار اور ایمان کے یہ معیار ہم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج کل کی اس دنیا میں قدم قدم پر شیطان اپنی تمام تر دنیاوی دلچسپیوں اور محرکات اور بے حیائیوں کے سامان کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اور اس تاک میں ہے کہ مومن پر حملہ کرے،بلکہ ایک کے بعد دوسرا حملہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ایمان کے ایسے معیار ہی انسان کو شیطان کے حملوں سے بچا سکتے ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے۔ دنیا کی عارضی چیزوں کو قربان کر کے، دنیا کی وقتی اور عارضی خواہشات کو قربان کر کے ہی ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں۔

پس آج ہمیں قربانی کی عید اپنے نفس کی اس قربانی کی طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہیے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نفس کی قربانی اور کامل معرفت جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلائے اور اسلام کی حقیقت کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفت کاملہ ہے۔’’(یعنی اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی صحیح پہچان یہی معرفت کاملہ ہے۔) ‘‘پس جس کو معرفت کاملہ دی گئی اس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی۔’’ (یعنی جس کو اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت مل جائے وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور محبت کے اعلیٰ معیار حاصل کر لیتا ہے یا یہ کہہ سکتے ہیںکہ تقویٰ کے معیار اس کے بلند ہو جاتے ہیں۔) فرمایا ‘‘اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی اس کو ہر ایک گناہ سے جو بے باکی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی۔’’(بعض گناہ انسان سے اپنی معمولی غلطیوں کی وجہ سے، لاعلمی کی وجہ سے یا بعض حالات کی وجہ سے سرزد ہو جاتے ہیں لیکن جب انسان ایسے گناہ جو انسان بے باک ہو کر کرتا چلا جائے اور جن کی پروا نہ کرے ،آپؑ فرماتے ہیں کہ جس کو کامل محبت مل گئی ہر ایک گناہ جو بے باکی سے پیدا ہوتا ہے، جان بوجھ کر جو انسان گناہ کرتا ہے اس سے اس کو نجات مل جاتی ہے۔) فرمایا ‘‘پس ہم اس نجات کے لیے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجت مند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔’’(پس اسلام نام ہے نفس کی قربانی کا، گناہوں سے بچنے کا، تقویٰ میں ترقی کرنے کا۔) فرمایا ‘‘اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لیے گردن آگے رکھ دینا۔ یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا۔’’ فرمایا کہ ‘‘یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لیے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لیے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت۔ اسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے۔ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔ (الحج:38) یعنی تمہاری (قربانیوں) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لیے تقویٰ اختیار کرو۔’’

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 151-152)

اس کی مزید وضاحت کہ اسلام کی روح کو کس طرح سمجھنا ہے اور تقویٰ کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لیے نمونے قائم کیے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لیے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْیعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو’’ (اللہ تعالیٰ سے) ‘‘کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ۔ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔’’

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 99 حاشیہ)

پس یہ وہ معیار ہیں جو آپ ہم سے توقع رکھتے ہیں۔ اور یہ معیار اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب حقوق اللہ کی بھی پوری ادائیگی ہو، حقوق العباد کی ادائیگی ہو ،تمام احکامات اپنی تمام تر صلاحیتوں اور طاقتوں کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں اور پھر ان پر عمل کرنے والے ہوں۔ پس یہی وہ چیزیں ہیں جو تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے والی بناتی ہیں اور مومن کو کامل الایمان بناتی ہیں اور جس کے نتیجہ میں پھر خدا تعالیٰ ملتا ہے۔

عبادات کی ظاہری شکل کا روح اور روحانیت کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہیے اور اس کا ہماری حالتوں پر کیا اثر پڑنا چاہیے۔ اس کو بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔ جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سُکھا دیتے ہیں’’(کسی نے ہاتھ کھڑا کیا تو کئی کئی دن کھڑا رکھا یہاں تک کہ اس کی بلڈ سرکولیشن ختم ہو گئی۔ ہاتھ سوکھ گئے۔ اس حد تک وہ ریاضت کرتے ہیں۔) ‘‘اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے۔’’ (ایک ظاہری چیز ہے جو انہوں نے کر لی۔) ‘‘بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے۔’’ (ظاہری طور پر بدن کی ریاضت تو ہو گئی۔ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لیا۔ اپنے ہاتھ بھی سُکھا لیے۔ اپنے بازو بھی سُکھا لیے۔ اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرلیا لیکن اس کا اندر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ روح سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ روحانیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔) فرمایا ‘‘اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا’’ (اس چیز کا) ‘‘اسی لیے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْیعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔’’ فرمایا کہ ‘‘حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتاہے۔’’ آپ فرماتے ہیں کہ ‘‘اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی’’(جو حرکات ہم نماز میں کرتے ہیں۔ مختلف پوسچر(posture) ہوتے ہیں ان کی) ‘‘کیا ضرورت ہے؟’’ فرمایا کہ ‘‘اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیازمندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی جو اصل مقصد ہے۔’’(جسم کی خدمت بھی روح کے ماننے کے لیے، روح کو اس طرف لانے کے لیے ضروری ہے۔) فرمایا ‘‘اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیںکرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں۔’’ (جو صرف ظاہری جسمانی ورزشیں کرتے ہیں یا مشکلات میں اپنے آپ کو مبتلا کرتے ہیں یا ریاضت کرتے ہیں) فرمایا کہ ‘‘روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے … غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں۔’’ (اب نماز میں ہم ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، رکوع کرتے ہیں، ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر سجدے میں چلے جاتے ہیں یہ سب عمل جسم کی ظاہری عاجزی کا اظہار ہیں جس کے ساتھ روح میں بھی ویسی ہی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جیسے انسان کے ظاہر میں نماز کی جو مختلف صورتیں ہیں وہ اس میں پیدا ہوتی ہیں۔) فرمایا کہ ‘‘روح میں جب عاجزی پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں۔’’ (سجدے کی حالت میں انسان کی اپنی ایک کیفیت ہوتی ہے۔ انتہائی تذلل کی حالت ہے تو دل پر بھی اس کا اثر ہو رہا ہوتا ہے۔) فرمایا کہ ‘‘جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہرہو جاتے ہیں۔اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔’’(ملفوظات جلد 4صفحہ 420-421)

اور یہی نماز کی جو مختلف پوسچرز(postures) ہیں اس کی فلاسفی ہے۔ پھر تقویٰ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے۔’’ (جس مقصد کے لیے میں آیا ہوں وہ مقصد یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی ہو رہا ہے۔ تقویٰ دنیا سے دور ہو رہا ہے۔ فرمایا کہ ‘‘تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے۔تقویٰ ہونا چاہیے نہ یہ کہ تلوار اٹھاؤ۔ یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہو گی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزو اعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنیو الے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں۔’’ فرمایا کہ ‘‘یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہو سکتی۔’’ فرماتے ہیں ‘‘اس وقت کل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے مگر اب خدا چاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکل نہیں ہو سکتے۔ ’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 357-358)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈالتی ہے کہ اپنے آپ میں حقیقی تقویٰ پیدا کریں اور یہ بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتا۔

پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ متقی کون ہے؟ آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں۔ وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے۔ ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔’’ (بڑی عاجزی ان میں ہوتی ہے۔) فرمایا کہ ‘‘ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہیے جس سے ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں۔ وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے۔ جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا۔’’ فرمایا کہ ‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابراہیم علیہ السلام میں سے کسی نے وراثت سے تو عزت نہیں پائی۔ گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے لیکن اس نے نبوت تو نہیں دی۔’’ (کسی کو وراثت کی وجہ سے یہ مقام نہیں ملا اور خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ آپ کے والد ماجد باوجود اس کے کہ مشرک نہیں تھے لیکن اس کی وجہ سے آپ کو نبوت نہیں ملی۔) ‘‘یہ تو فضل الٰہی تھا ان صِدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھے۔’’ (وہ سچائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں تھی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا۔) ‘‘یہی فضل کے محرِّک تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابوالانبیاء تھے انہوں نے اپنے صدق و تقویٰ سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا۔ خود آگ میں ڈالے گئے۔’’ فرماتے ہیں کہ ‘‘ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمدٌرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے۔ آپؐ نے ہر ایک قسم کی بدتحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پروا نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ … اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبیؐ پر۔’’

فرماتے ہیں کہ ‘‘اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لیے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کیے۔ یعنی آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔’’ (اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔یعنی ایسے اعلیٰ اور کامل اعمال تھے جس کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی یا جس کا ایک عام انسان احاطہ نہیں کر سکتا۔) فرمایا ‘‘اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔’’فرمایا کہ ‘‘آپؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ آپؐ کی ہمت و صدق وہ تھا کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں تو اس کی نظیر نہیں ملتی۔’’ فرمایا کہ ‘‘خود حضرت مسیح کے وقت کو دیکھ لیا جاوے کہ ان کی ہمت یا روحانی صدق و وفا کا کہاں تک اثر ان کے پیروؤں پر ہوا۔ ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایک بد رَوش کو درست کرنا کس قدر مشکل ہے۔ عادات راسخہ کا گنوانا کیسا محالات سے ہے۔’’ (یعنی جو پکی عادتیں ہو جائیں ان کو ختم کروانا کتنا مشکل کام ہے) ‘‘لیکن ہمارے مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہزاروں انسانوں کو درست کیا جو حیوانوں سے بدتر تھے۔ بعض ماؤں اور بہنوں میں حیوانوں کی طرح فرق نہ کرتے تھے ۔یتیموں کا مال کھاتے۔ مُردوں کا مال کھاتے بعض ستارہ پرست، بعض دھریہ، بعض عناصر پرست تھے۔ جزیرہ عرب کیا تھا۔ ایک مجموعہ مذاہب اپنے اندر رکھتا تھا۔’’

(ملفوظات جلد 1صفحہ 37-38)

لیکن آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے جب بھیجا تو ان سب کی اصلاح کر دی۔ پس آپؐ ہی نے ہمارے سامنے اسوۂ حسنہ بھی قائم فرما دیا اور یہی وہ نمونہ ہے جو ایک مومن کو ایمان میںکامل ہونے کے لیے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر ہمیں اپنی زندگی عاجزی اور انکساری سے بسر کرنے اور اپنے نفس کو پاک کرنے اور اپنے اعمال خالصۃً اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرنے اور حقیقی تقویٰ پیدا کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ ؑفرماتے ہیں کہ

‘‘اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے۔’’ (تقویٰ کیا ہے؟ غربت یہ نہیںکہ آدمی مالی لحاظ سے غریب ہو بلکہ غربت یہ ہے کہ امیر ہو کر بھی غربت اور مسکینی کی حالت ہو۔ اور غریبوں کا خیال رکھنے والے ہوں اور عاجزی اور انکساری پیدا ہو) فرمایا کہ ‘‘یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے۔ جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔ عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عُجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔’’ (یعنی غصّہ جو ہے اس کی وجہ سے تکبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے) ‘‘کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔’’ فرماتے ہیں کہ ‘‘میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔’’ (کسی کو حقیر اور کمتر سمجھیں) فرمایا کہ ‘‘خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے۔ جس کے اندر حقارت ہے۔ ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔’’ (اگر یہ حقارت کسی کے اندر ہے تو پھر بیج کی طرح جس طرح بیج سے پودا نکلتا ہے اور بڑھتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے اس طرح یہ انسان کے اندر دل میں پنپتا رہتا ہے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے۔ یعنی اس سے، تقویٰ سے دور ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے اور یہی ایک مومن کی ہلاکت ہے۔) فرمایا کہ ‘‘بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے…… اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چِڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ۔ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔’’ (الحجرات: 12)(یعنی ایک دوسرے کو برے ناموں سے یاد نہ کیا کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو توبہ نہ کرے وہ ظالموں میں سے ہے۔) فرمایا کہ ‘‘تم ایک دوسرے کا چِڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسَّاق اور فُجَّار کا ہے جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔’’

(الحجرات:14)(ملفوظات جلد 1صفحہ 36)

یعنی اللہ کے نزدیک معزز وہی ہے جو متقی ہے۔ یقینا اللہ علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہ دلوں کے تقویٰ کو بھی جانتا ہے اور قربانیوں کی نیت کو بھی جانتا ہے۔ اگر عمل صالح نہیں، حقوق کی ادائیگی نہیں، تکبر دلوں میں ہے تو پھر ایسے لوگوں کی پھر یہ قربانی قبول نہیں ہوتی۔ یہ بڑے خوف کا مقام ہے اور ہر وقت ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

‘‘ہماری جماعت کے لیے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی روبہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔’’

(ملفوظات جلد 1صفحہ 10)

پس ہر برائی سے تقویٰ میں مبتلا ہو جائیں گے، اگر حقیقی طور پر تقویٰ پیدا ہوا ہے تو پھر تمام برائیوں سے اللہ تعالیٰ بھی نجات عطا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی تقویٰ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری ظاہری قربانیاں بھی قبول ہوں اور ہمیں نفس کی اصلاح اور قربانی کی بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ ہمارے دل ہر قسم کی ملونی سے پاک ہوں۔ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام مشکلات اور آفات سے بھی نجات دے اور ہم سے راضی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی وہ کام ہے جو ہمیں عید کی حقیقی خوشیاں نصیب کرنے والی بن سکتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم وہ مقام حاصل کرنے والے ہوں۔

٭٭خطبہ ثانیہ٭٭

اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں تمام دنیا کے مظلوم احمدیوں کو خاص طور پر یاد رکھیں جو اپنے دین کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں ،اپنے دین کو بچانے کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ پاکستان کے احمدیوں پر آئین اور قانون کی آڑ میں ظلم کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح الجزائر میںبھی احمدیوں پر بڑی سختیاں کی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ظلموں کو اپنے خاص فضل سے دور فرمائے۔ اسیران کی رہائی کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے مزید سختیوں سے انہیں بچائے۔ جن جن ملکوں میں احمدیوں کو آزادی سے رہنے میں رکاوٹیں ہیں اللہ تعالیٰ ان رکاوٹوں کو بھی دور فرمائے۔ پرانے احمدیوں اور نئے آنے والوں کو ثبات قدم عطا فرمائے اور ان کے ایمان و ایقان کو بڑھاتا چلا جائے۔ مالی قربانی کرنے والوں کی قربانیوں کو بھی قبول فرمائے۔ مبلغین، معلمین جو تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لیے قربانیاں کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت ڈالے اور اسے قبول فرمائے۔ تمام واقفین زندگی اور کارکنان کے لیے بھی دعا کریں کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے انہیں اللہ تعالیٰ کام کرنے کی توفیق دے اور ان کی خدمت کو قبول فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رحم کی نظر ہم پر ڈالتا رہے۔ اب دعا کر لیں۔

٭٭٭دعا٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button