متفرق مضامین

تاریخ اسلام آباد (اٹھارہویں صدی سے تعمیرِ مرکز تک)

قدیم نقشوں میں اسلام آباد

موجودہ نو تعمیر شدہ مرکز احمدیت اسلام آباد کا اولین ریکارڈ 1762ءکے نقشہ جات سے ملتا ہے ۔دریائے وے (Wey)کے دونوں اطراف میں ٹلفور ڈبرج (Tylford Bridge)نامی گاؤںکا ذکر ملتاہے جو کہ اب ٹلفورڈ گرین (Tilford Green)کے نام سے جانی جاتی ہے۔جس کے شمالی جانب کروکس بری کامن (Crooksbury Common)اور جنوب کی جانب شیپ ہیچ (فارم)Sheep Hatch farmہےجو کہ ایک نا معلوم مقام کے طور پر ملتاہےاور اس دستاویز کے مطابق ایک چار اطراف سے بند قطہ اراضی کے طورپر نظر آتاہے۔

بعد ازاں 1794ء کے ریکارڈ کے مطابق ٹلفورڈ پل (Tylford Bridge)کے شمال میں یہی جگہ ایک کھلے میدان کے طور پر نظر آتی ہے ۔

1816ء میں مزید تفصیلی طور پر اس جگہ کا ذکر ملتا ہے کہ یہاں دو آبادیاں تھیں ،دریائے وے (Wey)کے ساتھ ایک طرف ٹلفورڈ (Tilford)اور دوسری طرف ٹلفورڈ پل (Tilford Bridge)اور شمال میں شیپ ہیچ (Sheep Hatch)اورٹل ہل فارم (Tilhill Farm)اوراسلام آباد والی جگہ ایک کھلا میدان ہے۔
1871ء کی دستاویزات میں ایک اور تبدیلی نظر آتی ہے اور اکثر جگہ جو کہ کھلے میدان تھے وہ سب لکڑی کے بنے ہوئےگھر نظر آنے لگتے ہیں ۔شیپ ہیچ (Sheephatch)کے ساتھ ایک اور فارم ہیتھی فیلڈ (Heathyfield)بن چکا تھا اورجنوب میں ٹل ہل فارم (Tilhill Farm)تھا ۔

سکول کی تعمیر

1939ء میں اس جگہ ایک نمایاں تبدیلی ہوئی کہ اس جگہ تعمیر کا کام ہوااور شیپ ہیچ کیمپ سکول (Sheephatch Camp School)بنا۔کیمپ سکول کی تاریخ یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل پارلیمنٹ نے ایک کیمپس ایکٹ پاس کیا جس میں انہوں نے کل 50 کیمپ سکول بنانے تھے جس میں سے 32 بنے اور ایک سکول 300 طلباء کے لیے تھا اوران میں سے ایک یہ بھی تھا۔

اگست 1939 میں یہ تعمیر شروع ہوئی اور اپریل1940ء میں اس سکول نے طلباء کے اولین گروپ کو خوش آمدید کہا۔

دوسری جنگ عظیم میں یہ سکول ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔

جنگ عظیم کے بعد اس سکول میں عموماً ایسے طلباء رہتےجو کہ 15 سال سے زائد عمر کے تھے ۔ان کو یہاں ایک ٹرم کے لیے رکھا جاتا تھا تا کہ یہ سکول کے بعد آنے والی زندگی اور خصوصاً خود مشاہدہ کےذریعہ علم حاصل کرنا اور اپنے آپ کو تعلیم یافتہ بنانے کے قابل بن سکیں ۔اس سکول کا ایک اور مقصد شہر کے غریب بچوں کو یہاں لاکر ان کو دیہاتی ماحول سے آگاہ کرنا بھی تھا ۔اس لیے یہاں پر رہنے کےصحت پر مثبت اثرات کو اجاگر کیا جاتا۔

1946ء سے لے کر 1977ء یعنی اس سکول کیمپ کے بند ہونے تک یہ سکول بچوں اوربچیوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ اور ہوسٹل کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔اس سکول کی عمومی شکل بالکل وہی رہی البتہ کچھ تعمیراتی کام بعد تک جاری رہے جن میں برآمدوں کو بدل کر عمارات کو مزید بڑھانا اوراس کےکونوں کے کمروں کو اساتذہ کی رہائش گاہوں میں تبدیل کرنا یہ سب کام 1960ء تک ہوتے رہے۔

کچھ تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ گندے پانی کے نکاس کے لیے جنوب مغربی کونے پر ایک فارم موجود تھاجو کہ 1950ء کی دہائی کے پلان میں ملتا ہے اور یہ فارم 1968ء سے قبل ختم کر دیا گیاتھااس کو لیونڈر کارنر (lavender corner)کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ایک نصف دائرے کی شکل کا لان جو کہ ڈائننگ ہال اور اسمبلی ہال کے سامنے واقع ہے“ ہولی گراؤنڈ”(Holy Ground) کے نام سے موسوم تھا اور اسمبلی ہال کے مغربی کنارہ پر ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جس کا نام پوپ ڈیک (poop deck)رکھا تھا اسی اراضی کے شمالی جانب ایک سوئمنگ پول بھی تھا۔

ایف بلاک کے نیچے تین کلاس رومز 1963ء سے 1966ء کے درمیان تعمیر کیے گئے ۔بلاک J،4b،a،3،2اوراسی طرح گھوڑوں کے اصطبل بھی اسی عر صہ کی توسیع معلوم ہوتی ہے۔

1976ء میں سرے کونسل (Surrey Council)نے اس سکول کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور آخری طلباء جولائی 1977ء کویہاں سے فارغ ہوئے۔اس کے بعد سے لے کر جماعت کو فروخت ہونے تک یہ سب خالی ہی رہا ۔

جماعت احمدیہ کا اس زمین کو خریدنا

1984ءمیں بولی کے زریعہ یہ قطعہ اراضی جماعت احمدیہ یوکے کو تعلیمی اور مذہبی سنٹر کے طور پر فروخت کی گئی اور اس کی تعمیرات کو ہی استعمال میں لایا گیا اور کچھ مزید تعمیر اور توسیع کر کے اس میں رہائش کا انتظام کیا گیا۔

شمال مشرقی جانب موجود جم اور سٹاف بلاکس کو مسجد کے طرز پر ڈھالنے کے لیے اس کی اندرونی تقسیم ختم کی گئی اور اس کی چھت پر بھی کا م کیا گیا۔کچن کو بھی وسیع کیا اور اس میں روٹی پلانٹ نصب کیا تا کہ جلسوں پر مہمانوں کے طعام کا انتظام کیا جا سکے ۔

اسلام آباد میں ہی رقیم پریس بھی قائم ہوا اور کچن اورڈائننگ ہال کے پیچھے والا حصہ اس مقصد کے لیے تیار کیا گیا۔ بعض نئی عمارات بھی بنائی گئیں جس میں شمال مشرقی طرف ایک بنگلہ اس کے علاوہ اصطبل اور سٹور جو کہ اراضی کے شمالی جانب بنایا گیا اسکے علاوہ بلاک 11 ،ٹائلٹ اور سٹور بھی اس پرانے گندے پانی کے نکاس والی جگہ پر بنائے گئے جو کہ اس اراضی کےجنوب مغرب میں واقع ہے ۔اسی دو ر میں بلاک 9،10 اور G کی تعمیر بھی شامل ہے ۔

اس اراضی میں تعمیرات میں رہائشی عمارات کے علاوہ مشرق میں ٹینس کورٹ اور جنوب میں رہائش گاہیں اوراصطبل اور اس کے سامنے کھلے سر سبز چراگاہ شامل تھیں ۔

اس اراضی میں شامل تعمیرات کو ان کے استعمال کے مد نظر مختلف طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

رہاش گاہیں،اجتماعی کام کرنے والے کمرے جیسے ڈائننگ ہال اور اسمبلی ہال وغیرہ

اساتذہ کی رہائش گاہوں والے بنگلے، انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے دفاتر وغیرہ

روز مرہ کے استعمال کی عمارات مثلاً بوائلر اور گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے گیراج وغیرہ

1984ء میں جماعت احمدیہ کی خرید کے بعد ان عمارتوں کے استعمال کو تبدیل کیا گیا مگر ان کی بناوٹ کو بدستور قائم رکھا گیا ۔

ان عمارتوں کی بنیاد مضبوط اور بجری کے ساتھ بنائی گئی ہیں اور ان بنیادوں کے اوپر کی تعمیر لکڑی کی دیواروں اور چھتوں کی صورت میں کی گئی چونکہ یہ قطعہ اراضی ایک ہموار میدان نہ تھا اس لیے جہاں کہیں ڈھلوانیں تھیں ایسی جگہ بنیادوں میں مزید پختگی کے لیے اور ان کی بنیادوں کو بلند کر کے ایک ہموار سطح پر لانے کے لیے بھی بکثرت بجری کا استعمال کیا گیااور بنیادیں بلند ہونے کی وجہ سے ایسی جگہ کی عمارات کے فرش کے نیچے والا حصہ سٹور کے طورپر استعمال کیا گیا ۔ان عمارتوں کی چھتیں لکڑی کے تختوں اور ان کے اوپر بیرونی جانب سلیٹ اور مٹی کی بنی ہوئی ٹائلوں کا استعمال کیا گیاہے۔شروع میں ان عمارات کی چھتیں مکمل لکڑی کی بنی ہوئی تھیں جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل کی جاتی رہیں۔ان عمارات میں بنائی گئی کھڑکیا ں دو یا تین یا چار خانوں پر مشتمل تھیںاور ان کے بیرونی جانب لکڑی کی جالیاں ہی لگی ہوئی تھیں۔ غسل خانوں میں لگی کھڑکیوں کا شیشہ دھندلا کیا گیا تاکہ پردہ کا اہتمام رہے۔اس اراضی میں یہ لکڑی کی کھڑکیاں ہی بدستورقائم رہیں سوائے بہت تھوڑی کے جوکہ یو پی وی سی (UPVC)کھڑکیوں سے تبدیل کی گئیں۔

اکثر عمارات مستطیل تھیں تاہم بعض عمارتیں جیسے ڈائننگ یا اسمبلی ہال کو زیادہ کھلا اور چوڑا کر کے بنایا گیا تا کہ زیادہ سے زیادہ بیٹھنے کی گنجائش بن سکے۔رہائش والے حصہ کی مزید اندرونی تقسیم کر کے ان کو رہائش کے لیے ہی استعمال کیا جاتا رہا۔ان رہائش گاہوں تک پہنچنے کے لیے درمیان میں سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں ۔یہ سیڑھیاں اور سہارے کے لیے گرل، برآمدے، ستون جو کہ چھت کو سہارا دیتے ہیں سب لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔اسمبلی ہال اور ڈائننگ ہال زیادہ پر آرائش بنائے گئے ہیں اور ان کے سامنے بڑے بڑے سرسبز لان تھے۔1946ء کے طلباء کی یاداشتیں بتاتی ہیں کہ یہ ہال مختلف نوعیت کی تفریحی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔

اسلام آباد میں مختلف بلاکس کا تعارف

بلاک اے

یہ حصہ 1939ءمیں تعمیر ہوا اور رہائشی حصہ بنارہا جو کہ 1946ءمیں دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اوائل میں لڑکیوں کی رہائش گاہ اور اس کے بعدسٹاف فلیٹ کے طور پر استعمال کی جاتی رہی۔

اس کی مغربی طرف کا برآمدہ 1962ءمیں بند کر کےاس حصہ کو سٹاف کی رہائش گاہ بنا دیا گیا ۔یہ حصہ “پائن فلیٹس”(Pines Flat)کے نام سے جانا جاتا تھا۔یہ بلاک اسی قسم کے چھ مزید حصوں پر مشتمل ایک بلاک ہے۔یہ مشرقی حصہ میںواقع ہے ۔جماعت نے جب یہ جگہ خریدی تو یہاں تین رہائشی مکانات بنا دیےجس میں سے ہر ایک کے لیے الگ داخلی راستہ موجود تھا۔

بلاک بی

یہ حصہ 1939ء میں تعمیر ہوا اور رہائشی حصہ بنارہا یہ لڑکوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کی مغربی طرف کا برآمدہ 1962ءمیں بند کر کےاس حصہ کو سٹاف کی رہائش گاہ بنا دیا گیا ۔ جماعت نے اس کو تبدیل کر کے تین رہائشی مکانات کی شکل میں بنا دیا جس میں سے ہر ایک کے لیے الگ داخلی راستہ تھا۔

بلاک سی

یہ حصہ 1939ءمیں تعمیر ہوا اور رہائشی حصہ بنارہا 1946ء سےیہ لڑکیوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کی مغربی طرف کا برآمدہ 1962ء میں بند کر کےاس حصہ کو سٹاف کی رہائش گاہ بنا دیا گیا ۔ جماعت نے اس کو تبدیل کر کے تین رہائشی مکانات کی شکل میں بنا دیا جس میں سے ہر ایک کے لیے الگ داخلی راستہ تھا۔یہ بلاک اندرونی تعمیر کے لحاظ سے پہلے دو بلاک اے اور بی سے مختلف طرز کا ہے ۔

بلاک ڈی

یہ حصہ 1939ءمیں تعمیر ہوا ۔یہ لڑکوں کی رہا ئش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہااس کی مغربی طرف کا برآمدہ 1962ء میں بند کر کےاس حصہ کو سٹاف کی رہائش گاہ بنا دیا گیا ۔ جماعت نے اس کو تبدیل کر کے تین رہائشی مکانات کی شکل میں بنا دیا جس میں سے ہر ایک کے لیے الگ داخلی راستہ تھا۔

بلاک ای

یہ حصہ 1939ءمیں تعمیر ہوا اور رہائشی حصہ بنارہا یہ Dorm 6کے نام سے جانا جاتا تھا اور کلاس رومز کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ اس کی مغربی طرف کا برآمدہ 1962ءمیں بند کر کےاس حصہ کو سٹاف کی رہائش گاہ بنا دیا گیا ۔ جماعت نے اس کو تبدیل کر کے تین رہائشی مکانات کی شکل میں بنا دیا جس میں سے ہر ایک کے لیے الگ داخلی راستہ تھا۔

بلاک ایف

یہ حصہ 1939ء میں تعمیر ہوا اور رہائشی حصہ بنارہا یہ Dorm 3کے نام سے جانا جاتا تھا 1952ءسے قبل اس کا نام سائیکا مور(Sycamore)تھا 1952ءکے بعد اس بلاک کو آرٹ روم ،لائبریری اور خاموشی کے کمرہ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس کی مغربی طرف کا برآمدہ 1962ءمیں بند کر کےاس حصہ کو سٹاف کی رہائش گاہ بنا دیا گیا ۔یہ بلاک ڈھلوان کے حصہ پر بنا تھا اس لیے اس کی بنیادوں کو مضبوط ستون بنا کراونچا کر کے بقیہ عمارات کے فرش کی سطح پر لایا گیا اوراسی وجہ سے اس بلاک میں فرش کے نیچے کے حصہ کو سٹور کے طور پر استعما ل کیا گیا۔

بلاک 1

یہ بلاک جمنیزیم ،سٹور اور سٹاف فلیٹ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ۔ جماعت نے اسے خریدنے کے بعدمسجد کے طور پراستعمال کرنا شروع کیا جس کا نام ‘مسجد بیت الاسلام’ رکھا گیا۔

یہ حصہ 1939ءمیں تعمیر ہوا اور بعد ازاں اس میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہیں ۔اس عمارت کی ایک طرف ڈھلوان پر بنی تھی اس لیے اس کی بنیادوں کو مضبوط ستون بنا کراونچا کر کے بقیہ عمارات کے فرش کی سطح پر لایا گیا۔اس عمارت کے عقب میں چاردیواری کے اندر ایک باغ ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اور آپ کی حرم محترمہ صاحبزادی آصفہ بیگم صاحبہ کے مزار موجود ہیں ۔

اس عمارت کی شمالی جانب پر ایک داخلی دروازہ تھا جس کے فوراً بعد ایک حصہ میں مسجد میں داخل ہونے سے قبل جوتے وغیرہ رکھنے کی جگہ تھی ۔یہ مسجد میں مردوں کے لیے داخلی دروازہ ہوا کرتا تھا۔ اس حصہ کی پرانی لکڑی کی کھڑکیوں کو جدیدکھڑکیوں سے تبدیل کردیا گیا ۔اسی طرح اس عمارت کی مغربی جانب سیڑھیاں اورداخلی دروازہ ہوا کرتا تھا جو کہ مستورات کے لیے مسجد میں داخل ہونے کے لیے دروازہ تھا۔ مسجد کے اندرون کو پردوں کے ذریعہ مستورات اور مردوں کے لیےدوحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔مغرنی جانب ایک محراب بنایا گیا اوراسی جانب ایک انگیٹھی بھی ہوا کرتی تھی ۔

اس مسجد کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کئی مرتبہ برکت بخشی اوریہاں متعددنمازوں کی امامت فرمائی ۔

بلاک 2

یہ حصہ 1939ءمیں تعمیر ہوا۔اس کا اولین استعمال معلوم نہیں تا ہم ایک عرصہ یہ بوائلر روم کے طور پر مستعمل رہا ۔ جماعت کے خریدنے کے بعد اسے پرنٹنگ پریس کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔یہاں سے ایک لمبے عرصے تک اخبار الفضل انٹرنیشنل کے علاوہ دیگر جماعتی کتب و رسائل کی طباعت ہوتی رہی۔
اس کے ساتھ ہی لکڑی کے ستونوں پر کھڑی ایک پانی کی ٹینکی ہے۔1950ءکے پلان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بلاک اور بوائلر روم کے درمیان ایک تعمیر بعد میں کی گئی جو کہ بجلی سے متعلقہ جیزوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی جس کی تعمیر1950ء سے قبل کی معلوم ہوتی ہے ۔

بلاک 3

اس عمارت کو گرین ہاؤس او رکلاس رومز کے ساتھ منسلک کیا گیاتھا۔جماعت کے خریدنے کے بعد سٹور کے طورپر یہ جگہ استعمال ہوتی رہی ۔یہ اراضی کے جنوب مشرق میں واقع ہے جوبلاک 14/EFکے ساتھ ملا ہوا تھا ۔عمارت ایل “L”کی شکل میں ہوا کرتی تھی اور اس کی چھتوں پر ٹائلیں تھیں۔

بلاک 4 اے

اس کا اولین استعمال معلوم نہیں لیکن بعد ازاں یہ پرنٹنگ پریس کے سٹور کےطور پر استعمال ہوتا رہا ۔یہ عمارت بیسویں صدی کے آخر پر تعمیر کی گئی۔

بلاک 4 بی

یہ 1960ء اور 1970ءکی دہائی میں تعمیر ہوا ۔دومنزلہ عمارت ہوتی تھی اور اس کی چھتوں پر ٹائلیں ہوا کرتی تھیں۔اس کے داخلی دروازہ کی ایک جانب باتھ روم اور دوسری جانب دفتر ہوتا تھا۔اس دروازہ کے بیرونی جانب سیڑھیاں تھیںجو نچلی منزل تک لے کر جاتی تھیں۔

بلاک 5،5اے اور 5 بی

یہ 1939ءکی تعمیر ہے جس کوبعدمیں مزید کشادہ کیا گیا۔ اس کا استعمال ڈائننگ اور کچن کے طورپر ہوتا رہا۔کچن کا منہ جنوب کی طرف تھا جس کے سامنے ایک سرسبز لان ہولی گراؤنڈ (Holy Ground)کے نام سے جانا جاتا تھا۔اس بلاک کےعقبی جانب کو بھی کچن کے طورپر استعمال کیا جاتا رہا۔یہ بلاک وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہا ہے۔

بلاک 6 اور 6اے

یہ 1939ءکی تعمیر ہے جو کہ اسمبلی ہال کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔اس میں اندرونی اور بیرونی تبدیلیاں کی گئیں ۔جماعت کے خریدنے کے بعد یہ جگہ فاتر کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔

بلاک 7

یہ 1939ءمیںتعمیر ہوااوریہ عمارت غسل خانوں کے طور پر استعمال کی جا تی تھی ۔یہ ایک ہی چھت کے نیچے دو مختلف عمارتیں تھیں۔ اس کے مشرقی کونہ میں ایک کمرہ تھا جو کہ لانڈری روم کے طور پر استعما ل ہوتا تھا۔اسی طرح مغربی کونہ میں ایک کمرہ تھاجو سٹور کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔اس ہال کے درمیان غسل خانوں اورواش بیسنز کی ایک قطارتھی۔اس کی مشرقی دیوار کے ساتھ ساتھ نہانے کے لیے شارو رومز ہوا کرتے تھے۔

بلاک 8

یہ 1939ءمیںتعمیر ہوااور زنانہ غسل خانے ،نہانے کی جگہ اور وضو کرنے کی جگہ کے طور پر مستعمل رہا۔

بلاک 9

یہ عمارت 1974ءکے نقشوں میں پہلی مرتبہ سامنے آئی۔ اس کا استعمال لجنہ ہال اور مستورات کے لیے گیسٹ ہاؤس کے طور پرہے۔

بلاک 10

یہ عمارت جمنیزیم کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ 1974ء کے نقشوں میں پہلی مرتبہ سامنے آئی۔یہ ایک منزلہ عمارت ہے۔

بلاک 11

یہ تعمیر مردانہ معذور افراد کے لیے غسل خانوں کے طور پر استعمال کی جاتی تھی ۔یہ 1994ءمیں تعمیر کی گئی۔1939ءمیں یہ پانی کےنکاسی کی جگہ تھی اور 1968ءمیں یہ گیراج کے طورپر استعمال کی جاتی تھی ۔اس جگہ کو Lavender Cornerکے نام سے جانا جاتا تھا۔

بلاک ای ایف/14

یہ کیمپ سکول کا حصہ ہے جس کو 1970ءمیں کشادہ کیا گیا

بلاک جی

یہ عمارت 1974ءکے بعدکی تعمیر ہے ۔اسے جماعتی گیسٹ ہاؤس کے طور پراستعمال کیا جاتا رہاہے۔

بلاک جے

یہ عمارت سٹور کے طور پر استعمال ہو تی رہی ہے۔یہ عمارت 1970ءکے نقشہ میں نظر نہیں آتی ۔گویا یہ اس کے بعد کی تعمیر ہے۔

بلاک ایل

یہ 1939ءکی تعمیر ہے ۔جماعت نے اسےرہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا۔تا ہم اس عمارت کا اولین استعمال ایک ہسپتال کے طورپر ہوا کرتا تھا جس کے ساتھ ایک نرس فلیٹ بھی شامل تھا ۔بعد ازاں اس میں مزید تبدیلیاں بھی کی جاتی رہیں ۔اس کے اندرونی حصہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور اس عمارت کے نچلے حصہ کو سٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

بلاک ایم

یہ 1939ءکی تعمیر ہے۔یہ بنگلوں کی طرز پر بنایا گیا تھا اورسٹاف فلیٹ کے طور پر بھی استعمال ہوتارہا۔1970ءمیں اس میں تبدیلیاں کی گئیں اور یہ ایک ہی طرح کے دو الگ بنگلے بنےجو آپس میں جوڑے ہوئے تھے ۔جماعت کے خریدنے کے بعدیہ عمارت رہائش کی غرض سے استعما ل میں لائی گئی ۔

بلاک ایس

یہ 1939ء کی تعمیر ہے ۔بعد ازاں اس کی جنوبی سمت میں اضافہ کیا گیا۔جماعت کے خریدنے سےقبل بھی یہ رہائشی حصہ تھا اور بعد میں بھی رہائش کے طور پر ہی مستعمل رہا۔

حضرت خلیفۃ المسیح کی رہائش گاہ

اس اراضی میں جند رہائش گاہیں جو کہ بنگلوں کی شکل میں 1980ء اور 1990ءکے دوران بنائی گئیں۔یہ حضرت خلیفۃالمسیح کی رہائش گاہ کے طور پر تعمیر کی گئی تھی ۔ اس کےتعمیر کی جگہ 1970ءکے پلان کے بطابق سٹاف ہاؤس بنائے گئے تھے۔

یہ بنگلہ لکڑی کی اونچی چار دیواری میں واقع ہے اور یہ ایک منزلہ عمارت ہے ۔اس عمارت میں ایک مرتبہ 2010ءمیں مشرقی طرف ایک اضافہ کیا گیا تھا پھر 2011ءمیں مزید وسیع کیا گیا ہے اور شمالی جانب داخلی راستہ اور برآمدہ بنایا گیا۔

اصطبل

اسی اراضی میں کچھ اصطبل بھی بنائے گئے تھےجوکہ آج بھی اصطبل کے طورپر استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ دو اور تعمیرات ہیں جو کہ 1974ءکے نقشہ میں نظر آتی ہیں ان میں سے ایک کا ذکر 1950ءکے پلان میں بھی ملتا ہے ۔

ماخوذ از:

(ISLAMABAD TILFORD,SURREY,
HISTORIC BUILDINGS RECORDING
Oxford archaeology south November 2017)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button