متفرق مضامین

اشاعتِ توحید اورمراکز احمدیت

خدا تعالیٰ کےرسل اورانبیاءکابنیادی کام دنیا میں قیام توحید، اشاعت دین اور تبلیغ ہی رہا ہے۔انہوں نے دنیاپریہ حقیقت آشکار کی کہ ایک اللہ ہی حقیقی معبود ہے،اس کے سواکوئی معبود نہیں۔چنانچہ تمام انبیاء نے اپنی اقوام کو عبادت الٰہی اور شرک سے اجتناب کرنے کی نصیحت فرمائی جس کا قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر پایا جاتا ہے۔ صرف ’’اعْبُدُوا اللّٰهَ‘‘ اور ’’اعْبُدُوا رَبَّكُمْ‘‘ کے الفاظ قرآن کریم میں21مقامات پر ہیں۔ اسی طرح حضرت نوحؑ،حضرت ہودؑ،حضرت صالحؑ اورحضرت شعیبؑ نے اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو جن مشترک الفاظ میں توحید الٰہی کے قیام کی نصیحت فرمائی،ان کا قرآن کریم میں نو مقامات پر ذکر یوں موجودہے:

‘‘اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ’’ (الأَعراف 60)

اللہ کى عبادت کرو اس کے سوا تمہارا اور کوئى معبود نہىں۔

پس انبیاء و رسل کا نصب العین قیام و اشاعت توحیدہوتا ہے اور وہ اپنی پوری زندگی اسی کا پرچار کرتے ہیں۔
ہمارے آقا ومولیٰ حضرت خاتم النبیین محمدمصطفیٰ ﷺکا مقصد حیات بھی قیام توحیداور اشاعت اسلام تھا ۔قرآن کریم کی سورة الجمعة میں آپﷺ کی بعثت کے چاراہم فرائض کا ذکر ہے:

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۔ (الجمعة :3)

وہى ہے جس نے اُمّى لوگوں مىں انہى مىں سے اىک عظىم رسول مبعوث کىا وہ اُن پر اس کى آىات کى تلاوت کرتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب کى اور حکمت کى تعلىم دىتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ ىقىناً کھلى کھلى گمراہى مىں تھے ۔

اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ رسول اللہﷺ کا سب سے پہلا کام يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ تھا یعنی پیغام الٰہی کو پہنچانا یعنی اشاعت اسلام۔

چنانچہ حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ

‘‘نبی اور اس کے جانشین خلیفہ کا پہلا کام تبلیغ الحق اور دعوت الی الخیر ہوتی ہے۔وہ سچائی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔اور اپنی دعوت کو دلائل اور نشانات کے ذریعہ مضبوط کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ وہ تبلیغ کرتا ہے۔’’

(منصب خلافت،انوارالعلوم جلد 2 صفحہ26)

چنانچہ رسول اللہﷺ نے توحید کو دین اسلام کا لبِ لباب قرار دےکر مکہ کی بابرکت بستی کواشاعتِ دینِ اسلام کا ابتدائی مرکز قرار دیا۔ جہاں تیرہ سال تک انتہائی نامساعد حالات میں آپؐ اور آپؐ کے جاںنثار صحابہؓ نے تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا فریضہ نہایت تندہی سے سرانجام دیا۔پھر اس تیرہ سالہ مکی دور میں تختہ ٔ مشق ظلم و ستم رہنے کے بعد الٰہی حکم کے تحت رسول اللہﷺ نے تین سو میل دور مدینہ میں مرکزِ اسلام کی بنیاد رکھی اور مرکزِ اسلام کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا نہ صرف اسلامی ترقیات کے دور کے آغاز کا باعث بنا بلکہ اشاعت توحید اور اشاعت اسلام کےلیے مضبوط مرکز بھی میسر آیا۔چنانچہ ہمیں معلوم ہےکہ رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی کیسے اسلامی مرکز مدینہ سے اسلام کی کرنیں پورے عرب میں پھیل گئیں۔
لیکن خدا تعالیٰ کا اصول ہے کہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (العنْكبوت :58) یعنی ہر جان موت کا مزا چکھنے والى ہے پھر ہمارى ہى طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔انبیاء کو بھی بشر ہونے کے ناطے اس مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہےاور ایک معینہ مدت تک پیغام الٰہی کو لوگوں تک پہنچا کر اپنے مالک حقیقی سے جاملنا ہوتا ہے ۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں کو پورا کرنے اور ان کی برکات کے زمانہ کو ممتد کرنے کے لیے نظام خلافت کو جاری فرمایا۔جیسا کہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
‘‘خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لیے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کےلیے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔’’

(شہادت القرآن،روحانی خزائن جلد6صفحہ 353-354)

پھرسورة النور کی آیت 56 میں مومنوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ عمل صالح بجالائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان میں نظام خلافت جاری فرما دے گا۔پس رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہوا اور خلافت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی اور یوں خلافت اورمرکز اسلام لازم و ملزوم ہوگئے اور اس خلافت راشدہ کے تابع چہارسو اسلام کی اشاعت ہوئی اور پہلے سے بڑھ کر اسلام نے ترقی کی۔
سورة جمعہ کی آیت نمبر4‘‘وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ’’(الجمعة :4)کے مطابق دور ِآخرین میں رسول اللہﷺ کی بعثتِ ثانیہ کا ظہورحضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ کے ذریعہ ہوا۔ اس دور میں ہر طرف گناہ اور بدیوں کا دور دورہ تھا۔اسلام پرہر طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہورہی تھی ،بانیٔ اسلام کی ذات پر حملے ہورہے تھے اور مسلمانوں میں سے کسی میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ ان کے مقابل پر کھڑا ہو۔لیکن اسلام کے بطلِ جلیل،جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت مسیح و مہدی موعودؑ ان تمام اعتراضات اور حملوں کے سامنے سینہ سپر ہوئےاور اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر ثابت کردکھایا اور احیائے اسلام کا ایک نیا دور شروع ہوا۔اس وقت کے علماء نے آپؑ کی تعریف و توصیف میں بہت کچھ کہا جو تاریخ کا حصہ ہےاور یوں آپؑ نے الٰہی منشاء کے مطابق ایک پاک اور مخلص جماعت کی بنیاد رکھی۔23؍مارچ 1889ء کو بیعت لی اور ہندوستان کی ایک چھوٹی سی بستی میں مرکزِ احمدیت کی بنیاد رکھی جس سے حقیقی اسلام کی اشاعت ہونے لگی۔چنانچہ اس مرکز اشاعت توحید سے ایک بار پھر اسلام ملک ہندوستان سے نکل کر مشرق و مغرب تک پھیل گیا۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کو اشاعت اسلام کی طرف خاص توجہ دلائی کیونکہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی مختلف اقوام کو دینِ واحد پر جمع کرنا تھا۔آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔’’

(الوصیت،روحانی خزائن جلد 20صفحہ306-307)

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑنےمرکزِ احمدیت قادیان سےاشاعت اسلام کے سلسلہ میں جو خدمات کیں ان سب کا اعتراف غیروں نے بھی کیا۔آپؑ نے 80 سے زائد کتب، سینکڑوں اشتہارات و رسائل،خطابات و تقاریر کے ذریعہ مرکزِ احمدیت سے اشاعت اسلام کی۔پھر آپؑ کی وفات کے بعد آپؑ کے خلفاء نے اس بابرکت سلسلہ کو آگے بڑھایا اور ہر قدم ترقی کی طرف ہی اٹھا۔اور مرکزِ احمدیت کو خلافت کی برکت سے تقویت عطا ہوئی۔

خلافت اولیٰ میں مرکزِ احمدیت قادیان سےاشاعت اسلام

27؍مئی 1908ءکو مرکزِ احمدیت قادیان میں خلافت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور یہ عجب حسنِ اتفاق ہے کہ خلافت راشدہ کا قیام بھی 27؍مئی 632ء کو ہوا۔اور یوں قادیان کو مرکز خلافت بننے کابھی اعزا زملا۔حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نےمرکزِ احمدیت و مرکز خلافت سے اشاعت اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے باقاعدہ کوئی واعظ انجمن کی طرف سے مقرر نہ تھے۔حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اس امر کے لیے مختلف واعظین کا تقرر فرمایا جن میں شیخ غلام احمد صاحب نومسلم،حضرت مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی،حضرت غلام رسول صاحب وزیر آبادی اور حضرت غلام رسول صاحب راجیکی وغیرہ شامل تھے۔اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر لیکچرز کے لیےآپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ اور دیگر بزرگان سلسلہ کو بھجوایا کرتے تھے۔
آپؓ نے تحریک فرمائی کہ خوشنویس حضرات مرکز میں آکر رہیں تا بوقتِ ضرورت کام آسکیں ۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعض تصانیف جیسے ‘‘مسیح ہندوستان میں’’،‘‘نجم الہدیٰ ’’اور ‘‘براہین احمدیہ حصہ پنجم ’’وغیرہ آپؓ کی زیرنگرانی اور ذاتی توجہ سےشائع ہوئیں۔

حضرت خلیفةالمسیح الاولؓ نےیکم مارچ1909ء کو مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی تاکہ دین حق کی اشاعت کے لیے مبلغین تیار ہوں۔پھر جب بھیرہ میں مسجد کا تنازعہ ہوا توآپ نے احمدیوں اور غیراحمدیوں میں فتنہ و فساد کو رفع کرنے کی خاطراور اشاعت اسلام کے لیے اپنی سہ منزلہ کوٹھی ہبہ کرکے احمدیوں کے لیے مسجد نور کی بنیاد رکھی۔

دہلی میں آریہ سماج کے اسلام پر حملوں کے دفاع کے لیے جماعت احمدیہ دہلی کے حضرت میر قاسم علی صاحب نے اپنی ملازمت چھوڑ کر زندگی وقف کرکے ایک انجمن دیانند مت کھنڈن سبھا کے نام سےقائم کی کیونکہ یہ انجمن اشاعت اسلام اور اس کے دفاع کی غرض سے قائم کی گئی تھی اس لیے اس انجمن کے لیےآپؓ نے اپنی جیب سے ایک سو روپیہ ادا کیا۔اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لیے ایک ہزار روپیہ کا عطیہ بھی بھجوایا۔

خلافت اولیٰ میں اشاعت اسلام کی غرض سےمختلف اخبارات و رسائل جاری ہوئے جن کے ذریعہ مرکزِ احمدیت سے اسلام کا پیغام مختلف ممالک تک پہنچا۔چنانچہ اکتوبر1909ء میں اخبار نور،1910ء میں اخبار الحق اور18 جون1913ء کو اخبار الفضل جاری ہوئے۔اس کے علاوہ جنوری 1911ء میں رسالہ ‘‘احمدی ’’ اورستمبر1912ء میں رسالہ ‘‘احمدی خاتون’’ شائع ہونا شروع ہوئے۔1913ء میں عربی ممالک میں اشاعت احمدیت کے لیے ‘‘بدر’’میں مصالح العرب کے نام سے ایک ہفتہ وار عربی ضمیمہ شائع ہوا۔مرکزِ احمدیت قادیان سے ہندی، انگریزی، گورمکھی، اردو، پشتو اور فارسی زبانوں میں لٹریچر شائع ہوا اور خلافت احمدیہ،اظہار حقیقت،البشریٰ جلد اول و دوم،آئینہ صداقت،احمدیہ پاکٹ بک،کشف الحقائق وغیرہ 40 کے قریب کتب شائع ہوئیں۔قادیان کی پہلی لائبریری بھی آپؓ ہی کے دورِ خلافت میں قائم ہوئی۔

خلافت اولیٰ میں مرکزِ احمدیت میں اشاعت اسلام کے لیے مختلف انجمنوں کا قیام ہوا جن میں انجمن ارشاد ،انجمن مبلغین وغیرہ شامل ہیں۔انجمن ارشاد کا قیام 1909ء میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحبؓ نے فرمایا جس کا مقصددشمنان اسلام کے اعتراضات کا رد تھا۔سکھوں اور ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کے لیے مرکزِ احمدیت قادیان میں ‘‘سادہ سنگت’’ انجمن قائم ہوئی جس کے ذریعہ ہزاروں پمفلٹس شائع ہوئے۔27؍مارچ 1910ء کو راجپوتوں میں تبلیغ کی خاطر‘‘انجمن مسلمان راجپوتان ہند’’ کا قیام عمل میں آیا۔1911ء میں خلافت اولیٰ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے ایک رؤیا کی بنیاد پر‘‘انجمن انصار اللہ’’ قائم کی۔جولائی 1913ء تک اس کےذریعہ دوتین سو آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے پھر اسی انجمن کے تحت پہلے مبلغ انگلستان حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ؓکو اپنے خرچ پرانگلستان بھجوایا۔

1912ء میں قادیان کےنوجوانوں نےاشاعت اسلام کی غرض سے ‘‘انجمن مبلغین’’جس کادوسرا نام ‘‘یادگار احمد’’ بھی تھا،بنائی اورحضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اس میں شمولیت کی تحریک کی۔

خلافتِ اولیٰ میں پورے ہندوستان میں اشاعت اسلام کی خاطر مباحثات و مناظروں میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے حکم پر مرکزِ احمدیت قادیان سے علماء سلسلہ تشریف لے جاتے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی حقانیت ثابت کردکھاتے۔جیسے مرکزِ احمدیت قادیان کے نزدیک ایک گاؤں کھارا میں 1910ء میں مباحثہ ہوا جس میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ،حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ ا ور حضرت سید عبد الحی صاحبؓ کو بھجوایا۔اسی طرح مباحثہ رام پور،مباحثہ منصوری،مباحثہ مانگٹ اونچا، مباحثہ مونگھیر،مباحثہ مدرسہ چٹھہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان مباحثات کے نتیجہ میں کثرت سے لوگ احمدیت میں شامل ہوئے۔چنانچہ ستمبر1913ء میں ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں اٹھوال کے تمام احباب مباحثہ ‘‘مسئلہ حیات مسیح’’کے نتیجہ میں احمدیت کی آغوش میں آئے۔

پھر خلافت اولیٰ میں اشاعت اسلام کا ایک اَور ذریعہ لیکچرز تھے۔1909ء کے آخر میں فورمین کالج میں مسیحی لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اسلامی لیکچروں کا سلسلہ لاہور میں شروع کروایا۔جس میں مرکزِ احمدیت سے مقررین بھجوائے گئے۔اسی طرح جلسہ میرٹھ میں لیکچر کےلیے علماء کا ایک وفد قادیان سے گیا۔ ریاست میسور کے شہر بنگلور میں جماعتِ اسلامیہ کے جلسہ میں بھی مرکزِ احمدیت سےحضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب ؓوغیرہ نے شرکت کی۔

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ اشاعت اسلام میں اس قدردلچسپی رکھتےتھے کہ کان پور میں اشاعت و حفاظت اسلام کی غرض سے ایک نیا مدرسہ الٰہیات قائم ہواتو آپ نے مدرسہ کے سیکرٹری کو نہ صرف مفید مشورے دیے بلکہ کچھ رقم بھی اشاعت اسلام کے لیے بھجوائی۔

جنوری 1910ء میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے مرکزِ احمدیت سے مختلف ممالک میں وفد بھجوانے کی تجویز فرمائی اور سنگاپور اور سیلون میں مبلغین بھجوانے چاہے۔لیکن اس خواہش کی تکمیل خلافتِ ثانیہ میں ہوئی۔لیکن یوپی میں مدرسہ الہیات کانپور اور انجمن ‘‘ہدایت الاسلام’’ اٹاوہ کی طرف سے جلسے میں شرکت کی دعوت پرمرکزِ احمدیت سے حضرت سید سرور شاہ صاحب،حضرت مفتی محمد صادق صاحب،خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی صدر الدین صاحب پر مشتمل ایک وفد روانہ ہوا جس نے یوپی میں کامیاب جلسے کرنے کے بعد لکھنؤ میں مولوی شبلی سے ملاقات بھی کی۔

مرکزِ احمدیت قادیان سے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نےحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اور شیخ محمد یوسف صاحبؓ کواشاعت اسلام کی خاطرسنسکرت پڑھانے کے لیے ایک پنڈت مقرر فرما کر اس کے اخراجات کا انتظام خود فرمایا۔

غرضیکہ اشاعت اسلام کا کوئی بھی موقع آپ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔آپ نے ہندوستان کے طول و عرض میں تبلیغی وفود بھجوائے۔علماء لمبے لمبے دورے کرتے اور مختلف مقامات پر متعدد انجمنیں قائم کرتے۔جس کے نتیجہ میں کثیر تعداد میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی اشاعت ہوتی اور کثرت سے لوگ احمدی ہوئے۔خلافت اولیٰ میں 78کے قریب نئی مضبوط جماعتیں قائم ہوئیں۔انہی میں سے حضرت مولوی عبدالحی صاحب فرنگی محل کے مشہور شاگرد حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب نے احمدیت قبول کی اور ان کی تبلیغ سے 1921ء تک ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ احمدی ہوئے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے جنوری 1914ء میں ہندوستان بھر میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے ایک سکیم مرکزِ احمدیت میں حضرت خلیفة المسیحؓ کی منظوری سے پیش کی۔علمائے سلسلہ نے مرکزِ احمدیت کی اس سکیم پر لبیک کہااور اس تبلیغی سکیم کی تکمیل کے لیے حضرت صاحبزادہ صاحب نے دعوت الی الخیر فنڈ بھی کھولا۔

اس کے علاوہ خلافت اولیٰ میں مرکزِ احمدیت قادیان میں محلہ دارالعلوم کی بنیاد رکھی گئی۔پھر 5 مارچ 1909ء کو بعد نمازِ فجر حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نےمسجد نور کی بنیاد رکھی۔بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی وسیع،شاندار عمارت کا سنگ بنیاد بھی آپؓ نے رکھا۔25 جولائی 1912ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی نئی وسیع عمارت کی بنیاد رکھی۔

1910ءکی پہلی سہ ماہی میں مسجدِ اقصیٰ کی توسیع اوّل ہوئی جس میں ایک بڑا کمرہ اور ایک لمبا برآمدہ تیار ہوا۔ اور منارۃ المسیح کے ساتھ مستورات کی نماز کے لیےایک چبوترہ بھی بنایا گیا۔دورِ خلافتِ اولیٰ میں قادیان کے علاوہ لاہور،وزیر آباد،ڈیرہ غازیخاں،جموں،ہنوڑ وغیرہ میں مساجدتعمیر ہوئیں جو اعلائے کلمة اللہ اور اشاعت توحید و اسلام کا مرکز ثابت ہوئیں۔ غرضیکہ خلافت اولیٰ میں مرکزِ احمدیت قادیان سے اشاعت اسلام کی گرانقدر مساعی ہوئیں جس کے نتیجہ میں احمدیت کا پیغام ہندوستان سے نکل کر مختلف ممالک تک پہنچ گیا۔

خلافت ثانیہ میں مرکزِ احمدیت قادیان سے اشاعت اسلام

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد 14؍مارچ 1914ءکو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو مرکز قادیان سےاشاعت اسلام میں اس قدر ترقی ہوئی کہ دنیا حیران رہ گئی۔آپؓ کے سنہری دور میں دنیا کے کونے کونے میں احمدیت کا پیغام پہنچ گیا۔اس دوران جنگ عظیم اول کے خوفناک حالات آئے جس نے دنیا میں ایک نقلاب برپا کردیا لیکن مرکزِ احمدیت سے اشاعت توحید اور تبلیغ اسلام کی مساعی میں کمی نہ آئی۔دنیا کا کوئی ایسا علاقہ نہ تھا جہاں حضورؓ کے تربیت یافتہ پرندے محو پرواز نہ ہوئے ہوں۔یورپ و امریکہ تک مبلغین کا ایک جال بچھ گیا۔

مرکزِ احمدیت کوآپؓ کی خداداد بصیرت سے مزید استحکام نصیب ہوا۔اس کے بالمقابل جنہوں نے خلافت ثانیہ کی بیعت نہ کی وہ لامرکزیت کا شکار ہوگئے۔چنانچہ منکرین خلافت کے ایک سابق صدر نے کہا کہ

‘‘لاہور میں کام شروع کیے ہوئے ہمیں 37 سال گزر چکے ہیں اور ہم اس چار دیواری سے باہر نہیں نکلے……بحثیں ہوتی ہیں کہ ہماری ترقی میں کیا روک ہے بعض کہتے ہیں جماعت قادیان نے دعویٰ نبوت کو حضرت امام زمان کی طرف منسوب کرکے اور دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر کہہ کر ایک بہت بڑی روک پیدا کردی ہے لیکن ان اعتقادات کے باوجود ان کی اپنی ترقی تو بدستور ہورہی ہے……میرے خیال میں ہماری ترقی کے رکنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مرکز دلکش نہیں……بہت سے نوجوان ہمارے سامنے ہیں جن کے باپ دادا سلسلہ پر عاشق تھے لیکن ان نوجوانوں میں وہ روح آج مفقود ہے۔’’

(تقریر الشیخ میاں محمد صاحب مطبوعہ پیغام صلح 6 فروری 1952ء صفحہ7 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ128)

پس قادیان سے خلافت کا یہ قافلہ اپنی ترقی کی شاہراہوں پر پوری آب و تاب کے ساتھ گامزن رہا اور مرکزِ احمدیت سے اشاعت اسلام کا سنہری دور شروع ہوا۔

17؍مارچ1914ءکو آپؓ نے درس القرآن کا آغاز فرمایا۔12؍اپریل 1914ءکو آپؓ کے ارشاد پر تبلیغ و اشاعت اسلام کے معاملہ پر غور کرنے کے لیے ملک بھر کے نمائندوں کی شوریٰ بلائی جس میں ڈیڑھ سو سے زائدنمائندگان نے شرکت کی اوراس شوریٰ میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں اہم امور طے پائے۔حضرت مصلح موعودؓ نے شوریٰ میں منصب خلافت کے موضوع پر خطاب فرماتے ہوئے بیان فرمایا کہ

‘‘پہلا فرض خلیفہ کا تبلیغ ہے جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے اور تبلیغ سے ایسا انس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا۔میں چھوٹی ہی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو……پھر اتنا ہو اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں……غرض اسی جوش اور خواہش کی بناء پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے میری ان دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں……اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے وہ میرا ہی کام ہوگا۔’’

(منصب خلافت،انوارالعلوم جلد2 صفحہ35-36)

پھر آپ نے فرمایا کہ

‘‘میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں۔ تاکہ ہم ہر ایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کرسکیں اور اس کے متعلق میرے بڑے بڑے ارادے اور تجاویز ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے زندگی دی اور توفیق دی اور پھر اپنے فضل سے اسباب عطا کیے اور ان اسباب سے کام لینے کی توفیق ملی تو اپنے وقت پر ظاہر ہو جاویں گے۔ غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں ۔’’

(منصب خلافت،انوارالعلوم جلد2 صفحہ37)

شوریٰ میں طے ہونیوالے امورکی تکمیل کے لیے حضور انورؓ نے ایک رؤیا کی بناء پر ‘‘انجمن ترقی اسلام’’کی بنیاد رکھی۔یہ انجمن اسم بامسمٰی ثابت ہوئی اوراللہ کے فضل سے اسلام کی ترقی اشاعت کا نہایت موثر ذریعہ ثابت ہوئی ۔اس بابرکت ادارہ کے ذریعہ ایک لمبا عرصہ دنیا میں تبلیغ و اشاعت اسلام ہوتی رہی یہاں تک کہ پہلے صدر انجمن احمدیہ اور پھر 1945ء میں تحریک جدید نے بین الاقوامی سطح پر تبلیغ کا یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

بیرون ممالک میں اشاعت اسلام

خلافت ثانیہ میں مرکزِ احمدیت سے اشاعت اسلام کا دائرہ مزیدوسیع ہوا اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام ہندوستان سے بیرون ممالک میں کثرت سے پہنچانے کا انتظام ہوا۔

چنانچہ مرکزِ احمدیت سے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ جولائی 1913ء میں بیرونی مشن کی بنیاد رکھ چکے تھے لیکن اس کا مستقل قیام اپریل 1914ء میں ہوا۔جب ووکنگ سے لندن منتقل ہوئے اور کرائے کے مکان میں تبلیغ اسلام کا مرکز بنا یا اور ایک شخص نے اسلام قبول کیا۔پھر حضرت قاضی عبد اللہ صاحب، حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ وغیرہ بھی انگلستان میں اشاعت توحید و اسلام میں مصروف رہے۔لندن کے بعد پھر1920ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ امریکہ تشریف لے گئے۔1920ء میں مولوی مبارک علی صاحب کے لندن تشریف لانے پرحضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ 1921ء میں نائیجیریا چلے گئے۔
احمدیہ دارالتبلیغ ماریشس کے قیام کے لیے 20؍فروری 1915ء کو صوفی غلام محمد صاحب قادیان سے کولمبو14؍ مارچ 1915ء کو پہنچے اور وہاں تین ماہ قیام کرکے جماعت کی بنیاد رکھ کر 15؍جون 1915ء کو ماریشس پہنچے اور وہاں دارالتبلیغ قائم کیا۔اسی طرح نائیجریا ،سیرالیون ،لائبیریا،سیلون میں دارالتبلیغ قائم ہوئے۔

1921ء میں غانا ،نائیجیریا میں دارالتبلیغ کا قیام ہوااور1922ء میں شیخ محمود احمد عرفانی کے ذریعہ بلاد عربیہ کا پہلا دارالتبلیغ مصر قائم ہوا۔19؍اگست 1923ء بالشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ کا آغاز ہوا۔26؍ نومبر1923ء کو ملک غلام فرید صاحبؓ کو مرکزِ احمدیت قادیان سے جرمنی روانہ فرمایا اورمسجد برلن کی تحریک کی گئی۔1925ءمیں شام میں نیا دارالتبلیغ قائم ہوااوراسی سال ہی سماٹرا و جاوا میں بھی دارالتبلیغ قائم ہوا۔12؍ جولائی1924ء کو شہزادہ عبدا لمجید کو ایران میں احمدیہ مرکز قائم کرنے کے لیے بھجوایا گیا۔ان کے ساتھ مولوی ظہور حسین صاحب کو بخارا میں احمدیت پہنچانے کا حکم دیا۔16؍اکتوبر 1924ء کو مشہد ایران میں نیا دارالتبلیغ قائم ہوا۔

1936ء میں دارالتبلیغ ہنگری،پولینڈ،چیکوسلوواکیہ، ارجنٹائن قائم ہوئے۔اسی طرح برما ،سپین و اٹلی،البانیہ و یوگوسلاویہ،سیر الیون ومشرقی افریقہ میں بھی مشن ہاؤسز کاقیام خلافت ثانیہ میں ہوا۔ یکم اپریل 1932ء میں سیلون ،4 جون 1935ءکو جاپان،26؍ مئی 1935ءکو ہانگ کانگ ،مئی 1942ء میں فرانس،1946ء میں صقلیہ سسلی اورسوئیٹزرلینڈ 1947ء میں ہالینڈ میں احمدیہ مسلم مشنز کے قیام سےاشاعت اسلام کا آغاز ہوا۔

مرکزِ احمدیت قادیان اور مضافات میں اشاعت اسلام

مرکزِ احمدیت قادیان میں آنیوالے مہمانوں کو حقیقت احمدیت اور اشاعت اسلام سے روشناس کرانے کے لیے کوئی مستقل واعظ مقرر نہ تھا۔چنانچہ یکم نومبر 1932ء کو واعظ مقامی کی اسامی منظور ہونے کے بعد حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری قادیان کے پہلے واعظ مقامی مقرر ہوئے۔

1938ء سے قادیان اور مضافات میں تبلیغ پر خاص توجہ ہوئی۔پہلا تبلیغی مرکز سٹھیالی،دوسرا کلانور اور تیسرا چودھریوالہ میں قائم کیا گیا۔اس کے بعد جگہ جگہ مراکز قائم کیے گئے۔اس کار خیر میں دیہاتی مبلغین کے علاوہ جامعہ اور تعلیم الاسلام سکول کے اساتذہ اور طلباء اور دیگر احمدیوں نے شرکت کی۔

1940ء میں مجلس انصار اللہ کا قیام ہوااورقادیان کو آٹھ حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔تبلیغی اغراض کے لیےدو حلقوں کی دوکانیں جمعرات سے جمعہ کی نماز تک بندہوتیں اور وہ احباب اشاعت اسلام کے لیے مختلف علاقوں میں جاتے اور ایک رات قیام کے بعد جمعہ کی نماز قادیان میں ادا کرتے۔ان مساعی کے نتیجہ میں 1940ء کے جلسہ میں نئے بیعت کرنے والوں کی تعداد386 ہوگئی۔

ٹریکٹ ، اشتہارات ،اخبارات و

رسائل کے ذریعہ اشاعت اسلام

مرکزِ احمدیت سے اشاعت اسلام کے لیے ایک خصوصی کاوش اشتہارات اور ٹریکٹس کی اشاعت تھی۔ جولائی 1914ء میں اسلام کی حقانیت کے متعلق اہل بنگال کے لیے بنگالی ٹریکٹ کلکتہ سے شائع ہواجس سے عوام الناس میں سلسلہ احمدیہ کے حالات جاننے کا شوق پیدا ہوا۔1915ء میں سندھی ٹریکٹ‘‘ایک عظیم الشان بشارت’’شائع ہوا۔بلاد اسلامیہ میں اشاعت اسلام کے لیے ‘‘الدین الحی’’ کے نام سے عربی زبان میں ٹریکٹ شائع ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓنے اخبارات کی توسیع کی طرف بھی خاص توجہ دلائی۔جس کے نتیجہ میں مرکزِ احمدیت سے 17 اکتوبر 1915ءکوپہلااخبار ‘‘فاروق’’جاری ہوا۔جون 1916ء میں ‘‘اخبار صادق’’ اور دسمبر1916ء میں صادق لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔اسی طرح ‘‘احمدیہ گزٹ’’ اوردسمبر1926ء میں انگریزی اخبار‘‘سن رائز’’جاری ہوئے۔6؍جون 1935ء سےلنڈن سے‘‘ مسلم ٹائمز ’’ عبد الرحیم درد صاحب کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔اسی طرح لنڈن سے ‘‘الاسلام انگریزی’’اوراخبار ‘‘البشریٰ’’ (حیدر آباد سندھ) اورکشمیر کے لیے اخبار ‘‘اصلاح’’ جاری ہوئے۔فلسطین میں ‘‘البشارة الاسلامیة’’چھپنا شروع ہوا۔1930ء میں رسالہ جامعہ احمدیہ اورتعلیم الاسلام ہائی سکول کے میگزین کا اجرا ہوا۔یوں خلافت ثانیہ میں اشاعت اسلام کے لیے مختلف ممالک سے مختلف زبانوں میں 122 اخبارات و رسائل جاری ہوئے۔

تبلیغی خطوط

حضرت مصلح موعودؓ نےمرکزِ احمدیت سے خط و کتابت کے ذریعہ بھی اشاعت اسلام کا کام سرانجام دیا۔ کئی والیان ریاست کو تبلیغی خطوط لکھے اور ان کے لیے کتب تصنیف فرمائیں۔چنانچہ والیہ بھوپال کو 14 ستمبر1914ء کو خط لکھا جس میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی۔پھر ایک اورفرمانروائے ریاست اور ریاست رامپورکوتبلیغی خط لکھا۔نظام حیدر آباد دکن کو تبلیغ کی خاطر جون 1914ء کوتحفة الملوک تصنیف فرمائی ۔اس کتاب کے پڑھنے سے سیٹھ عبد اللہ الہ دین کوقبول احمدیت کی سعادت ملی۔1924ء میں امیر امان اللہ خان بادشاہ افغانستان و ممالک محروسہ پر اتمام حجت کے لیے دعوة الامیر نامی ایک کتاب شائع فرمائی جس کا فارسی ترجمہ حکیم مولانا عبید اللہ بسمل صاحب نے کیا۔امیر امان اللہ کو تو اس کاکوئی فائدہ نہ ہوا لیکن اس ذریعہ سےخان فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔

دسمبر1921ءمیں شہزادہ ویلز جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم بنے ہندوستان کے دورہ پر آئے تو حضورؓ نے تحفہ شہزادہ ویلز کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی۔ جس میں آپ نے شہزادہ کواسلام اور احمدیت کا پیغام دیا۔یہ تحفہ27فروری 1922ء کو لاہور میں شہزادہ کے سامنے پیش کیاگیا۔

1931ء میں لارڈ ارون کی ہندوستان سے روانگی کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک کتاب ‘‘تحفہ لارڈارون’’کے نام سےپانچ روز میں تصنیف فرمائی جو 8اپریل1931ء کو وائسرائے ہند لارڈارون کو بطور تحفہ پیش کی۔

تبلیغی کلاسز

حضرت مصلح موعودؓ نے ملک بھر میں تبلیغ و اشاعت اسلام میں تیزی لانے کےلیےتبلیغی کلاسوں کا اجرا فرمایااورمبلغین کی اعلیٰ کلاسز کے لیے لیکچروں کا سلسلہ شروع فرمایا۔چنانچہ 21 جون 1920ءکومبلغین کلاس کا آغاز ہوا۔

وقف زندگی کی تحریکات

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نےسلسلہ کی تبلیغی سرگرمیوں کے پیش نظر اور اشاعت اسلام کے لیے 7دسمبر1917ء کوتحریک وقف زندگی کا اعلان فرمایا جس کے لیے فوراً63 نوجوانوں نے اپنےنام پیش کیے۔پھرآپؓ نےتبلیغ کے لیے یک ماہی وقف کی تحریک کی جس کےلیے1300 اصحاب نے لبیک کہا29؍ جنوری 1943ء کو مبلغین کی ضرورت کے پیش نظر دیہاتی مبلغین کی تحریک کی۔24؍مارچ 1944ء کو وقف زندگی کی وسیع تحریک فرمائی۔جس کے نتیجہ میں بعض پڑھے لکھے نوجوانوں نےسہ سالہ وقف کے لیے خود کوپیش کیا۔8؍ اکتوبر 1932ء کو پہلا یوم تبلیغ منایا گیا۔

تحریک جدید اور وقف جدید

1934ء میں جماعت احمدیہ کی ترقی دیکھ کر مخالفت کا طوفان برپا کردیاگیا اوراحرار نے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ کیا ۔ان کا دعویٰ ایک خواب ہی بن کر رہ گیا۔جس کے مقابل پر تحریک جدید کی برکت سے پوری دنیا میں مبلغین پھیل گئے۔

تحریک جدید کے ذریعہ اشاعت اسلام میں ترقی ہوئی اور تبلیغ کے مختلف ذرائع سے احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچا۔چنانچہ انفرادی ملاقاتوں،جلسوں،مقامی اخبارات میں مضامین کی اشاعت،تقسیم کتب،تبلیغ بذریعہ خطوط،بلند پایہ شخصیات کی دعوتوں،مناظرات ،جلسہ ہائے سیرت النبیؐ،ریڈیو سے تقاریر،تبلیغی مجالس کےقیام،یوم التبلیغ،غیر مسلموں کی مذہبی کانفرنسوں میں شمولیت وغیرہ سے اشاعت اسلام میں نمایاں کام ہوا۔
تحریک جدید کے نتیجہ میں ٹریکٹوں ،کتابوں کی اشاعت،پریس کے ذریعہ اشاعت احمدیت،نئی درسگاہوں کا قیام،ملک میں تبلیغی سروے،مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا۔تحریک جدید کی طرف سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام،دی ٹروتھ اباؤٹ دی سپلٹ(آئینہ صداقت)،انقلاب حقیقی،تفسیر کبیر،سیر روحانی،نظام نو وغیرہ شائع ہوئیں۔

حضورؓ نے دنیا کی مشہور زبانوں انگریزی،جرمن، ڈچ میں قرآن کےتراجم کروائے،انگریزی تفسیر القرآن کاکام قادیان میں ہورہا تھا جس کی پہلی جلد 1947ء میں طبع ہوئی۔اس کے علاوہ بارہ کتابوں کا سیٹ دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں میں ترجمہ کروایا۔اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار شائع کروائے۔یکم فروری 1945ء کو 11 واقفین کو بیرون ملک بھجوانے اور 9 واقفین کو تفسیر،حدیث،فقہ اور فلسفہ و منطق کی اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے منتخب فرمایا۔اس کے علاوہ احمدی ڈسپنسریاں،مدارس،مساجدقائم ہوئیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 1957ء میں وقف جدیدکی بنیاد رکھی جس کے تحت تمام ہندوستان کی جماعتوں میں اشاعت اسلام کےلیےمعلمین کا جال بچھ گیا۔

قرآن کریم اور کتب سلسلہ کی دیگر زبانوں میں اشاعت

حضرت مصلح موعودؓ نےدنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اقوام میں اشاعت اسلام کےلیے قرآن کریم کے تراجم کی ضرورت محسوس کی اورمختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کرنے کی تحریک فرمائی۔

مساجد کی تعمیر

خلافت ثانیہ میں اشاعت اسلام کےلیے مرکزِ احمدیت قادیان سے جو ایک نمایاں کام ہوا وہ مساجد کی تعمیر ہیں جن کے ذریعہ اشاعت اسلام کا کام بخوبی ہوسکتاہے۔چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر9؍ستمبر 1920ء کو لندن میں مسجد کے لیے زمین کی خریداری ہوئی جس پر خوشی کا اظہار فرمایا اور تقریب بھی ہوئی۔

1925ء میں مسجد فضل لندن کی تعمیرمکمل ہوئی۔24؍مارچ 1936ء کو مسجد محلہ ریتی چھلہ قادیان کا افتتاح ہوا۔1940ء میں سرینگر میں احمدیہ مسجد کی بنیادرکھی گئی۔اسی طرح حافظ آباد،گکھڑ،چنیوٹ اور کوئٹہ میں مساجد کی تعمیرہوئی۔قادیان میں مسجد مبارک کی توسیع ہوئی اور اس موقع پرغلبہ اسلام کے لیے 40 روزہ دعاؤں کی تحریک حضرت خلیفة المسیح نے فرمائی۔7 اپریل 1934ء کومسجد فضل لائلپور کا افتتاح ہوا۔

دیگر مذاہب کی تحقیق کا انتظام

اشاعت اسلام کےلیےحضرت مصلح موعودؓ نے بعض علماء کودیگر مذاہب پر تحقیق کے لیے ارشاد فرمایا۔چنانچہ مہاشہ ملک فضل حسین صاحب ہندوازم کےلیے، چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی سکھ ازم کےلیے،شیخ فضل الرحمن صاحب کو عیسائیت پر تحقیق کے لیےمقررکیاگیا۔چنانچہ ان علماء نے بعد تحقیق اس میدان میں اشاعت اسلام میں نمایاں خدمات کیں۔

تبلیغی وفودودورہ جات اورمباحثات و مناظرات

خلافتِ ثانیہ میں مرکزِ احمدیت قادیان سےاشاعت اسلام کے لیےعلماء اورمبلغین کے وفود بھجوائے جاتے تھے۔چنانچہ 3؍اگست 1917ء کو ممبئی میں وفدبھجوایا جنہوں نےمسلمانوں کے مختلف فرقوں کو تبلیغ کی اوراشتہارات،لیکچرز،دروس،ٹریکٹس کے ذریعہ تبلیغ کی۔26؍نومبر 1932ء کو مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں 29 افراد پر مشتمل جامعہ احمدیہ کا وفد قادیان سے روانہ ہواجس نے جالندھر،پھلور،لدھیانہ،انبالہ، دہلی،علی گڑھ اور میرٹھ سے ہوتے ہوئے دیوبند اور سہارنپور تک لمبا سفر طے کیا۔کھیلوں کے میچ بھی کیے اورتبلیغی لیکچرز بھی دیے۔اسی طرح مرکزِ احمدیت سےشمالی و وسطی ہند میں تبلیغی وفودبھجوائےگئے۔
حضور انورؓ نے اشاعت اسلام کی غرض سے نہ صرف خود دورہ جات فرمائے بلکہ ناظروں کو بھی دوروں کی ہدایت فرمائی۔چنانچہ حضور انور نےحیدرآباد دکن و دہلی کا سفر فرمایا۔لاہور، امرتسراورسیالکوٹ میں 13؍فروری سے 23 فروری 1920ء تک سفرکرکے وہاں لیکچرزدیے۔

خلافت ثانیہ میں کوئی سال ایسا نہ تھا جس میں کوئی مباحثہ نہ ہوا۔مباحثہ ڈیرہ غازیخان،مباحثہ گوجرانوالہ،مباحثہ چٹاگانگ،سڑوعہ،مباحثہ امرتسر،سرگودھا، شنگر، اجنالہ، لکھنؤ۔ مباحثہ مجوکہ وغیرہ ان میں سے چند ایک ہیں۔

ہندوستان کی غیر مسلم اقوام میں تبلیغ

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نےاپریل 1922ء میں اچھوت اقوام میں تبلیغ کےلیے خاص عملہ مقررفرمایااور ان اقوام میں اشاعت اسلام کا ارشاد فرمایا۔چنانچہ کچھ عرصہ میں ہی بہت سےمذہبی سکھ بالیکی اور دوسرے اچھوت اسلام احمدیت میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ابتدائی طور پراشاعت اسلام کا یہ کام شیخ عبد الخالق نو مسلم کے ذریعہ مرکزِ احمدیت قادیان سے شروع ہواپھر دو اڑھائی سال میں جو اچھوت مسلمان ہوئے۔ان کے ذریعہ اردگردعلاقوں میں تبلیغ ہوئی اورپھر پورے ملک میں یہ تحریک پھیل گئی۔گیانی واحد حسین صاحب اچھوت اقوام کے طلباء کے مدرس مقرر ہوئے۔مکرم مہاشہ فضل حسین صاحب نے حضرت خلیفة المسیح کی ہدایات کے ماتحت عظیم الشان لٹریچرتیار کیا جس سے اچھوت اقوام میں بیداری پیدا ہوئی۔

1923ء میں مرکزِ احمدیت سےتحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا اورصیغہ ‘‘انسداد ارتداد ملکانہ’’ کے نام سے دفتر کھولاگیا۔متاثرہ علاقوں میں تبلیغ کرنے والوں کو واپسی پر خلیفہ وقت سے سند خوشنودی عطا ہوئی۔اور پھر حضور ؓنے ان علاقوں میں مستقل مبلغین کا تقرر فرمایا۔اس ضمن میں مرکزِ احمدیت سے جو کارہائے نمایاں ہوئے اس کو غیروں نے بھی تسلیم کیا۔چنانچہ اخبار مشرق نے لکھا:

‘‘جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی۔’’

(مشرق 15 مارچ 1923ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ43)

فنڈز کا قیام

مرکزِ احمدیت میں اشاعت اسلام و احمدیت اور سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر ایک مستقل فنڈ کی ضرورت تھی چنانچہ رسول اللہﷺاور حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں اشاعت اسلام کے لیے جائیدادوں کو وقف کرنے کی طرح حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ نے بھی 1932ء میں ریزرو فنڈ کی مستقل بنیاد رکھی اور سندھ میں زمینیں خریدی گئیں۔

مرکزِ احمدیت میں ادارہ جات کا قیام

اشاعت اسلام کے کام کو منظم طریق پر جاری رکھنے کے لیےآپؓ نے1919ء میں صدر انجمن کا نظام قائم فرمایا اورابتداءًا ناظر اعلیٰ،ناظر تالیف و اشاعت، ناظر تعلیم و تربیت ،ناظر امور عامہ اور ناظر بیت المال مقرر فرمائے۔1915ء میں مزید نظارتیں عمل میں آئیں جن میں نظارت دعوت و تبلیغ بھی تھی۔

اسی طرح اپریل 1922ء کو مستقل طور پرمجلس شوریٰ کی بنیاد رکھی۔

حضرت مصلح موعودؓ کا سفر یورپ

1924ء کا سال تبلیغ و اشاعت اسلام کے حوالہ سے اہم تھا کیونکہ اس میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نےیورپ کا پہلا سفرفرمایاجس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں اشاعت اسلام کےنیا دور کا آغاز ہوا۔
سفر یورپ کا ایک مقصد حضور انور نے خود اپنے مکتوب میں ذکر فرمایا کہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہ کر نہ صرف مذہبی کانفرنس میں شامل ہوں بلکہ اس سے پہلے اور بعد انگلستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو ملاقات کا موقع دے کر سلسلہ کی طرف ان کی توجہ کو کھینچیں۔۔۔دوسرا یہ کہ جماعت احمدیہ مغربی ممالک میں مشن قائم کررہی ہے تو امام جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان کے حالات کا مطالعہ کرے تا تبلیغ کی مکمل سکیم تیار ہوسکے اور مرکز اور مبلغین کا تعلق زیادہ مضبوط ہوجائے۔

(مکتوب حضور از14مئی1924ء)

نیز آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپ لندن میں ہیں اور ایک جلسہ میں آپ شامل ہیں۔مسٹر لائڈ جارج (سابق برطانوی وزیر اعظم)اس جلسہ میں تقریر کررہے ہیں کہ یکدم ان کی حالت بدل گئی اور انہوں نے دہشت زدہ ہوکر کہا کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ مرزا محمود امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آتی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے۔

چنانچہ 23؍ستمبر1924ء کے سنہری روز حضرت مصلح موعودؓ کا ویمبلے کانفرنس میں بے مثل مضمون پڑھاگیا جس سے جہاں ایک طرف حضرت مسیح موعودؑ کا لندن میں تقریر کرنے والی رؤیا پوری ہوئی وہاں اسلام کی فتح کے جھنڈے بھی گڑ گئے۔سفر یورپ کے دوران حضور انور نے تبلیغی لیکچرز دیے اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ریویو آف ریلیجنز کا انگریزی ایڈیشن آئندہ لندن سے شائع ہوا کرے۔پھر 19 اکتوبر1924ء کے بابرکت اور یاددگار دن کو مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

غیر مسلموں کا قبول اسلام

13 اپریل 1914ء کو پشاور مشن کے ایک فاضل مسیحی شیخ عبد الخالق صاحب نےحضورانورؓسےتبادلہ خیالات کے بعد قبول اسلام کرلیا۔بعد میں رد عیسائیت اور تائید اسلام میں خوب کام کیا۔ پروفیسر ریگ کلیمنٹ نے خلافت ثانیہ میں احمدیت قبول کی۔1942ء میں روسی ترجمان نےاسلام احمدیت کوقبول کیا۔اسی طرح دو ہسپانوی باشندوں نے قبول اسلام احمدیت کی سعات پائی۔غرضیکہ کہ خلافت ثانیہ میں تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں پوری دنیا میں اشاعت اسلام ہوئی جس کے نتیجہ میں ہزاروں سعید روحوں نے قبول احمدیت کی توفیق پائی۔

خلافت ثانیہ میں جماعت احمدیہ کا پیغام دنیا کے کئی ممالک میں پہنچ چکا تھا جس نے محققین کو دعوت تحقیق دی۔چنانچہ ڈنمارک کی دو خواتین سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لیے قادیان آئیں۔اسی طرح ایک عرب سیاح محمد سعد الدین قادیان میں آیا۔مسٹر عبد اللہ سکاٹ 9؍مئی 1931ء کو قادیان میں مرکزِ احمدیت کی برکات سے مستفیض ہوئے۔ ایک افغانی سیاح قادیان میں30 مئی1931کو آیا۔

خلافت ثانیہ میں مرکزِ احمدیت قادیان میں دیگر تبلیغی مساعی

یکم مارچ1925ء کو اشاعت دین کی غرض سےانجمن احمدیہ خدام الاسلام کا قیام عمل میں آیا۔جس نے کثیر تعداد میں تبلیغی ٹریکٹ شائع کیے۔

29 جنوری1926ء کے جلسہ سالانہ میں چوبیس زبانوں میں تقریریں ہوئیں۔22 مئی1926ء کوقصر خلافت کی بنیاد رکھی گئی۔

آریہ مصنفین کی طرف سے جب اسلام اور بانیٔ اسلام پر اعتراضات کیے گئے اورآریہ سماجی راجپال نے رنگیلا رسول کتاب شائع کی اورامرتسر کے ہندو رسالہ ورتمان نے بھی مئی1927ء میں اسلام کے خلاف دلآزار مضمون لکھا تواس کے جواب میں حضور انورنے پوسٹر بعنوان‘‘ رسول کریمؐ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہونگے’’ شائع کروایا۔پھرملک بھر میں سیرت النبیؐ کے جلسے انعقاد کروائے۔جس کے لیے 1400 مقررین کے نام پیش ہوئے۔ مرکزِ احمدیت قادیان میں بھی جلسہ سیرت النبیؐ کا انعقاد ہوا جس میں تمام مذاہب کے لوگوں نے شرکت کی۔

15؍اپریل1928ء کو مدرسہ احمدیہ کوجامعہ احمدیہ میں تبدیل کردیا گیا جس کا افتتاح20؍مئی1928ء کوہوا۔
مرکزِ احمدیت سے مسلمانوں کے لیے ہمیشہ آواز اٹھی۔نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح کے نام سے رسالہ شائع ہوا۔جماعت احمدیہ نےمسلم لیگ کا ہر قدم پر ساتھ دیا اورکشمیر کمیٹی میں نمایاں خدمات کیں۔قیام پاکستان میں مرکزِ احمدیت کا کردار بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔

قادیان کی توسیع و ترقی

احمدیت کی ترقی کے ساتھ مرکزِ احمدیت کی ترقی و توسیع کی طرف بھی توجہ کی ضرورت تھی۔چنانچہ چنانچہ جلسہ سالانہ 1931ء کے موقع پر تحریک کہ قادیان میں مکان بنائیں تاکہ وسعت پیدا ہو۔اس تحریک پر احباب نےلبیک کہا اور قادیان کے مشرق میں 4 اپریل 1932ء کومحلہ دارالانوار کا قیام ہوا۔25 اپریل کو وہاں کوٹھی دارالحمد کی بنیاد رکھی گئی۔اسی طرح بیت النصرت،بیت الظفر،گیسٹ ہاؤس اور دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ بھی وہیں تعمیر ہوئے۔حضرت مصلح موعودؓ نے 27 نومبر1914ء کے خطبہ میں منارۃ المسیح کی تکمیل کی تحریک فرمائی۔دسمبر1915ء میں منارة المسیح کی تعمیر مکمل ہوئی۔21 جون 1917ء کو نُور ہسپتال کی بنیاد رکھی۔قادیان میں فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا 11 مئی 1944ء کو قیام ہوا۔مجلس انصارسلطان القلم قائم ہوئی۔

قادیان میں گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد 27 ؍ستمبر1937ء کورکھا گیا۔1928ء میں ریل کی آمد سےقادیان کے مرکزِ احمدیت کوپورے ملک ہندوستان سے ملا دیا گیا۔1921ء میں قادیان کی4400 آبادی میں سے2300 احمدی تھے جبکہ1931ء میں احمدیوں کی تعداد5195 ہوگئی۔

نیا مرکزِ احمدیت ربوہ اور اشاعت اسلام

قیام پاکستان کے بعدخدائی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ نےجماعت احمدیہ کے ایک نئے مرکز ربوہ کی ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ بنیاد رکھی۔ اس نئے مرکز توحید کی بنیاد رکھتے ہوئے چاروں کونوں پر ایک ایک بکرے کی قربانی کرکے پانچواں بکرا اس علاقہ کے وسط میں قربان کیاگیا۔

بکروں کی قربانیوں کے بعد ایک ترک نوجوان نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔جو نئے مرکزِ احمدیت کا پہلا پھل تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے نئے مرکزِ احمدیت کا مقصد بیان کرتے ہوئےفرمایا:

‘‘ربوہ کی بنیاد کی غرض یہ تھی کہ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کرنے والوں کو اس غرض سے بسنا چاہیے کہ وہ یہاں رہ کر دین کی اشاعت میں دوسروں سے زیادہ حصہ لیں گے۔ ہم نے اس مقام کو اس لیے بنایا ہے کہ تا اشاعت دین میں حصہ لینے والے لوگ یہاں جمع ہوں اور دین کی اشاعت کریں اور اس کی خاطر قربانی کریں۔ پس تم یہاں رہ کر نیک نمونہ دکھاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔ تم خداتعالیٰ سے تعلق قائم کرلو۔ اگر تم اس کی رضا کو حاصل کرلو تو ساری مصیبتیں اور کوفتیں دور ہوجائیں اور راحت کے سامان پیدا ہو جائیں۔’’

(تاریخ احمدیت جلد13 ص172)

نئے مرکز ربوہ میں اشاعت اسلام کا کام پہلے سے بڑھ کر ہوا۔خلافت ثانیہ کے ہر سال میں کئی کئی مبلغین بیرون ملک میں اشاعت اسلام کے لیے تشریف لے جاتے۔ مرکزِ احمدیت ربوہ سے سیلون،لبنان،حلب،سیر الیون،لندن،گولڈ کوسٹ وغیرہ مبلغ بھجوائے گئے۔اس کے علاوہ ربوہ مرکز بننے کے بعد اردن مش کا قیام ہوا اور جرمن مشن کا احیاء ہوا اورمسجد فرانکفرٹ جرمنی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔1962ء میں مسجد محمود سوئیٹزرلینڈ کی بنیاد رکھی گئی جس کا افتتاح 1963ء میں ہوا۔ مجلس مشاورت 1950ء میں مختلف ممالک سے 13 نمائندگان نے شرکت کی۔اس مجلس شوریٰ میں تبلیغ اسلام کے لیے جدید لٹریچر تیار کرنے کی تحریک ہوئی۔مارچ 1950ء میں چنیوٹ سے ربوہ لائبریری منتقل ہوئی۔ربوہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول،قصر خلافت،دفاتر تحریک جدید،دفاتر صدر انجمن احمدیہ،دفاتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے مسجد مبارک ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا۔

1954ء میں رسالہ مصباح ضیاء الاسلام پریس میں چھپنے لگا یہ پہلا رسالہ تھاجو ربوہ سے شائع ہوا۔اخبار الرحمت جاری ہوا۔1951ء میں ربوہ سے رسالہ التبلیغ کا اجراہوا۔1951ء سے اخبار البدر قادیان سےدوبارہ جاری ہوا۔1949ء میں سوئیٹزرلینڈ سےرسالہ الاسلام کا اجراءہوا جو بہت مقبول ہوا۔1957ء میں رسالہ تشحیذالاذہان کا دوبارہ اجراءہوا۔ ربوہ سے رسالہ البشریٰ کا اجراء اکتوبر 1957ء میں ہوا۔

حضرت مصلح موعود نے 1952ء کی مجلس مشاورت میں اشاعت لٹریچر کے لیے اردو اورغیر ملکی زبانوں میں اشاعت کےلیے دوکمپنیوں کے قیام کا اعلان فرمایا۔ ایک تحریک جدید اور ایک صدرانجمن۔چنانچہ1953ء میں ایک الشرکة الاسلامیة لمیٹڈ اور دوسری دی اورینٹل ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈ کے نام سے دو اہم اشاعتی اداروں کا قیام عمل میں آیا جو مختلف کتب،قرآن مجید اور دیگر اسلامی کتب کی طباعت و اشاعت کا کام خاص طور پر کریں گی۔ الشرکة الاسلامیہ کی طرف سے روحانی خزائن،ملفوظات،مجموعہ اشتہارات،کتب حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ،کتب حضرت مصلح موعودؓ،کتب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ، کلام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ،کتب مصنفین سلسلہ،بچوں کے لیے کتب شائع ہوئیں۔دی اورینٹل ریلیجس پبلشنگ کارپوریش لمیٹڈکی طرف سے قرآن مجید انگریزی ترجمہ اور تفسیر ،جرمن اور ڈچ ترجمہ وغیرہ شائع ہوئے۔1953ءمیں سواحیلی میں قرآن کریم کا ترجمہ ہواجس سے افریقہ میں اشاعت اسلام میں کافی تیزی آئے حتی کہ جیل کے قیدیوں نے بھی اسلام قبول کیا۔

7 جولائی1954ءکوضیاء الاسلام پریس کا افتتاح ہوا۔آپ نے قرآن،اس کے ترجمہ و تفسیر،حدیث،تاریخ احمدیت اور اسلامی لٹریچر کی وسیع اشاعت کے لیے 28 نومبر1957ء کو ادارة المصنفین کا قیام فرمایا۔جس نے تفسیر صغیر،تبویب مسند احمد بن حنبل،ہدایة المقتصداردو ترجمہ وغیرہ شائع کیے۔ نیز مرکزی لائبریری قائم ہوئی۔
25 جون 1953ء کوحضورؓنےفضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ربوہ کا افتتاح فرمایا۔ جولائی1955ء کو لندن میں حضور کا سب سے اہم کارنامہ عظیم الشان تبلیغی کانفرنس ہے جو تاریخ اسلام میں ایک انقلاب انگیز سنگ میل کی حیثیت سے کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی اور جس کے نتیجہ میں غیر اسلامی دنیا میں تبلیغ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔لندن قیام کے دوران مالٹا کے ایک انجنئیرنےحضورؓ کے دست مبارک پر قبول اسلام کیا جس سے مالٹا میں جماعت احمدیہ کی بنیادپڑی۔اسی طرح سوئس دوست مسٹر سٹیوڈر کی بیعت ہوئی۔حضورؓنےمبلغین اسلام کی کانفرنس میں قیمتی رہنمائی سے نوازا اور تبلیغ اسلام کے لیےلائحہ عمل عطا فرمایا۔

27؍ مئی1957ءکو پہلا یوم خلافت دنیا بھر میں منایا گیا۔مرکزِ احمدیت ربوہ میں بھی اسی روز پہلا یوم خلافت منایا گیا۔ ستمبر 1957ء میں ربوہ میں سفیر انڈونیشا کی آمدہوئی۔

خلافت ثانیہ میں واشنگٹن(امریکہ)، ہیمبرگ (جرمنی)، فرینکفرٹ (جرمنی)، زیورک (سوئٹزرلینڈ)، ہیگ (ہالینڈ)، نیروبی (کینیا)، جنجہ کسموں (ٹانگانیکا) کے علاوہ کئی ممالک میں 311 شاندار مساجد کی تعمیر یا توسیع ہوئی۔

خلافت ثالثہ میں مرکزِ احمدیت ربوہ سے اشاعت اسلام

خلافت ثانیہ کی طرح خلافت ثالثہ میں بھی اشاعت اسلام میں مرکزِ احمدیت نے خوب کردار ادا کیا۔چنانچہ خلافت ثالثہ میں سپین مشن کو کھل کر کام کرنے کی توفیق ملی اور پہلے سے بڑھ کر وہاں تبلیغ ہونے لگی۔سربراہ مملکت سپین جنرل فرانکو کے نام تبلیغی خط لکھا گیا۔حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے1970ء میں دورہ سپین کیا جس کے بعد مغربی افریقہ تشریف لےگئے۔ سپین کے دارالحکومت میڈرڈ پھرقرطبہ،غرناطہ،طلیطلہ وغیرہ میں تشریف لے گئےاور شوکت اسلام کے لیے پر سوز دعائیں کیں۔آپؒ نے سپین کی نسبت پیشگوئی فرمائی کہ ‘‘ہم مسلمان سپین میں تلوار کے ذریعہ داخل ہوئے اور اس کا جو حشر ہوا وہ ظاہرہے۔اب ہم وہاں قرآن لے کر داخل ہوئے ہیں اور قرآن کی فتوحات کو کوئی طاقت زائل نہیں کرسکتی۔’’

خلافت ثالثہ میں 21 جولائی 1967ء کومسجد نصرت جہاں ڈنمارک کا افتتاح ہوا۔قرآن کریم کا مکمل ڈینش ترجمہ1967ء میں ہی ڈنمارک کے مشہور پبلشر Borgenنے شائع کیا۔

27؍ستمبر1975ء کوسویڈن کی پہلی مسجد ناصر گوتھن برگ کا سنگ بنیادرکھا۔جس کا افتتاح20 اگست 1976ء کو ہوا۔مسجد نور اوسلو کا دسمبر1979ء میں افتتاح ہوا۔یہیں یورپین مبلغین کی کانفرنس ہوئی جس کے نتیجہ میں چودہ یوگو سلاوین نے قبول احمدیت کی توفیق پائی۔

1967ء میں مرکز احمدیر ربوہ میں علمی تقاریر کے اجلاس ہوتے تھے۔حضور ؒنے اس مجلس کا نام مجلس ارشاد مرکزیہ رکھا اور ہر جماعت میں مجلس ارشاد کے قیام کا ارشادفرمایا۔

18؍جنوری 1970ء کو خلافت لائبریری کاسنگ بنیاد رکھا۔8 مارچ 1970ء کو جامعہ نصرت اور سائنس بلاک کا سنگ بنیاد رکھا۔1970ء میں حدیقة المبشرین کا قیام فرمایا۔24 جون 1970ء کو مجلس نصرت جہاں قائم فرمائی۔اسی روز تعلیم الاسلام کالج کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔

خلافت ثالثہ میں مبلغین کی بیرون ممالک میں آمد و روانگی کا سلسلہ جاری رہا۔صرف 1970ء میں 14؍مبلغین اشاعت اسلام کا فرض ادا کرکےربوہ واپس آئے اور 11 مبلغین بیرون ملک اشاعت اسلام کے لیے روانہ ہوئے۔

خلافت رابعہ میں مرکزِ احمدیت سے اشاعت اسلام

1989ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے جرمنی میں 100 مساجد بنانے کی تحریک فرمائی۔

9اکتوبر1999ء کو حضور ؒنے بیت الفتوح کا سنگ بنیاد رکھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ بمقام لاس اینجلس امریکہ فرمودہ 7 جولائی 1989ء میں واشنگٹن میں مرکزی مسجد کی تعمیر میں احبابِ جماعت کو حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ بیلجیئم،مسسی ساگا،قطب شمالی مساجد کی تعمیر کی تحریک فرمائی۔خلافت رابعہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو 13065 نئی مساجد تعمیر کرنے کی توفیق دی نیز ہزاروں وہ بھی ہیں جو مقتدیوں سمیت جماعت کو ملیں۔ حضورؒ کی تحریک توسیع مساجد کے تحت سینکڑوں مساجد کی ازسرنو تعمیر ہوئی اور اضافے کیے گئے۔امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ براعظم یورپ میں بیسیوں مساجد تعمیر ہوئیں۔1982ء میں خلافت رابعہ کے آغاز کے وقت جماعت 80ممالک میں قائم تھی۔ 1984ء میں حضور کی ہجرت کے وقت جماعت 91 ممالک میں قائم ہو چکی تھی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد فضل لندن ہجرت کے بعد جماعت احمدیہ ترقی کے ایک نئے دَور میں داخل ہوئی۔ لندن ہجرت سے قبل 91؍ ممالک میں جماعت قائم ہو چکی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت رابعہ میں176 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا تھا۔

خلافت خامسہ میں مرکز احمدیت سے اشاعت اسلام

خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں 2018ء میں منعقد ہونے والا جلسہ سالانہ مسجد فضل لندن کا مرکز کی حیثیت سے آخری جلسہ تھا ۔ اس سال تک 212 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا تھا۔ اس طرح خلافت خامسہ میں مسجد فضل لندن کے مرکز کی حیثیت سے 16 سالہ دور میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو 36؍نئے ممالک عطا فرمائے اور مجموعی طور پر مسجد فضل لندن کی مرکزی حیثیت کے 35 سال میں 121 ممالک میں احمدیت کا پودا لگا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button