قرآن کریم

مراکز احمدیت اور خدمت قرآن

خداتعالیٰ کے فرستادوں کی آمد بَارَکْنَاحَوْلَہٗ کے زیر سایہ اس بستی و مقام کو بھی بابرکت بنا دیتی ہے جس میں رحمت الہی کا نزول ہوتاہے۔پس اس قانون خداوندی کے مطابق حضرت مسیح محمدی علیہ السلام کی بستی بھی بابرکت ہو کر حقیقی اسلام کا مرکز بن گئی ۔ وہی مرکز جس نے اب علوم قرآن کا گہوارہ بننا تھا اور علوم چہار دانگ عالم پھیلانے تھے۔ ان مراکز اسلام احمدیت سے قرآن کریم کی رجال فارس اور ان کے مقتدین نے جوخدمت کی ہے ان میں سے چند کا ذکر ذیل میں ضبط ِتحریر کیا گیاہے۔

قادیان

خداتعالیٰ نے قرآن کریم کی خدمات کے لیےاخرین کے گروہ کوقادیان میں آباد فرمایا۔ قادیان میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دور میں قرآن کریم کی عدیم المثال خدمات کی ایک فہرست ہے۔

حکَم وقت نے مخلوق اور خالق کو آپس میں ملانے کے لیے قرآن کریم کےفہم کے حصول کےلیے کی گئی مفسرین کی غلطیوں کی اصلاح فرمائی ،تفسیر نویسی کے لیے عظیم اصول بیان فرمائے،عمدہ تفسیر کی نشانیاں بیان فرمائیں، قرآن کریم کی دیگر مذاہب کی الہامی کتب پر فضیلت ثابت فرمائی،اپنی تحریرات میں جابجاترجمہ و تفسیر کے پرمعارف و حکمت نکات بیان فرمائےاور ایک عظیم جماعت اپنے بعد قرآن کریم کی اشاعت و عمل کےلیے ورثہ میں چھوڑی۔

جن نمایاں تفسیری غلط فہمیوں کی اصلاح فرمائی ان میں سر فہرست قرآن کریم میں ناسخ ومنسوخ کے عقیدہ کی اصلاح ، قرآن کریم میں ترتیب نہ ہونے کی اصلاح فرماتےہوئے اپنی تحریرات میں ترتیب قرآن بیان فرمائی۔تقدیم وتاخیر کے عقیدہ کی نفی فرمائی۔ نیز بتایا کہ قرآن کریم میں جو تاریخی واقعات مذکورہیں وہ صرف قصہ کہانیوں کا رنگ نہیں رکھتےبلکہ حقیقی واقعات ہیں جو پیشگوئی کا رنگ رکھتےہیں اور باعث عبرت بھی ہیں۔اسی ضمن میں ان واقعات کی تکرار کو پرحکمت اور بامعنی ثابت فرمایا۔ایک بہت بڑی غلط فہمی جو عام طور پر رائج ہوچکی تھی کہ گویا حدیث قرآن کریم سے افضل ہے ۔ اس کا رد فرماتے ہوئے قرآن کریم کو افضل قرار دیا ۔

قرآن کریم کی تفسیر کےلیے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کلیدی اصول بیان فرمائے۔

مثلاًآپ نے اس امر کو واضح فرمایا کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ نہ زائد ہے نہ بے معنی و بے فائدہ ہے۔ ہر لفظ ایک معانی اور حقیقت پر دلالت کرتاہے۔ قرآن کریم کی ایسی تفسیر ہوجو دوسری قرآنی آیات سے مؤید ہو۔ نیز قرآنی مطالب کے حصول اور اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق کو لازم و ملزوم قرار دیا۔

اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےقرآن کریم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان سے واقف ہونے کی اہمیت کو بھی اجاگر فرمایا۔عربی کی اشاعت اور ترقی و عظمت کو بیان فرمایااورعربی کو ام الاسنہ ثابت کرنے کے لیے کلیدی اصول مرتب فرماتےہوئے کتاب مننن الرحمن تصنیف فرمائی جواپنی مثال آپ ہے۔ قرآن کریم سمجھنے کے لیے عربی لغت کو لازم قرار دیا کہ اس سے آشنائی کے بغیر قرآن کے مطالب و اسرار پر اطلاع نہیں مل سکتی۔ نیزبرکات دعامیں ایک جگہ فرمایاکہ لغت عرب کھودنے سے (قرآن کریم کے) اسرار مخفیہ سے آگاہی ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دو درینہ خادم کی یکے بعد دیگرے وفات کے بعد مدرسہ احمدیہ میں دینیات کی شاخ کی بنیادی رکھی جس کی غرض یہی تھی کہ طلباء یہاں سے عربی سیکھ کر قرآن کریم کے علوم و معارف پرا طلاع پائیں اور دنیامیں اشاعت قرآن کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوقرآن کریم سے محبت وعشق دیوانگی کی حد تک تھا ۔قرآن کریم کی جامعیت پر دیگرمذاہب کےعلماءکو چیلنج دیا۔ان کی کتب پرقرآن شریف کی فضیلت و برتری ثابت فرمائی۔نیزایک جگہ فرمایاکہ ‘‘میں قرآن شریف کے معجز ہ کے ظل پر عربی بلاغت و فصاحت کا نشان دیاگیاہوں۔کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کرسکے۔’’(ضرورۃ الامام روحانی خزائن جلد13 ص 496)الغرض قرآن کریم سے استدلال و استخراج میں آپ علیہ السلام اور خلفائے کرام کو ید طولی حاصل رہاہے۔

دل میں یہی ہے ہر دم تیراصحیفہ چوموں

قرآن کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

(قادیان کے آریااور ہم روحانی خزائن جلد 20ص 457)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی رحلت کےبعد حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس مرکز اسلام احمدیت کو دَورمسیح علیہ السلام کی طرح قرآن کریم کی تعلیم سے آگاہی کادوربنانے کےلیے اپنے مصمم ارادہ اور خواہش کا اظہار کرزن گزٹ کے ایک تبصرہ کے ذکر کےبعد ان الفاظ میں فرمایا۔‘‘کرزن گزٹ ایک اخبار ہے جو دہلی سے نکلتاہے۔ اس نے جہاں حضرت صاحب کی وفات کا ذکر کیاوہاں ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اب مرزائیوں میں کیا رہ گیاہے۔ ان کا سرکٹ چکاہے۔ ایک شخص جوان کا امام بنا ہےاس سے اور توکچھ ہوگانہیں۔ ہاں یہ ہے کہ وہ تمہیں کسی مسجد میں قرآن سنایاکرے۔ (حضوررضی ا للہ عنہ نے اس کے جواب میں اپنی تقریرمیں فرمایاکہ)سوخد اکرےیہی ہو کہ میں تمہیں قرآن ہی سنایا کروں’’(بدر 7؍جنوری 1909ء قادیان جلد8 شمارہ نمبر10)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اور باقی خلفاء نے دور مسیحی محمدی کی طرح مدرسہ احمدیہ کے قیام کے حوالہ سے کسی قسم کی کمی نہ آنے دی۔ ہر مشکل وقت میں اس کے قیام کو یقینی بنایا گیا پھر چاہے وہ منکرین خلافت کا فتنہ ہویا داغ ہجرت کا مشکل ترین وقت۔ خلافت حقہ اسلامیہ نے اپنے ساتھ ساتھ جہاں مرکز احمدیت کو بدلا اسی طرح جامعہ احمدیہ کو بھی اپنے ساتھ رکھا اور لمحہ بھر کے لیے بھی اس کو بند نہ کیا۔

قادیان دارالامان میں دروس القرآن کا سلسلہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےدور سے جاری وساری رہا۔حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے خلافت سے پہلے اور تادم آخر حتی کے انتہائی بیماری میں بھی اس سلسلہ کورکنےنہ دیا اور مسلسل جاری رکھاگیا۔ حضرت چوہدری سرظفر اللہ خان صاحبؓ بھی اپنی قادیان میں رہائش کےدوران کےمشاہدات کااپنی خود نوشت میں ذکرکرتے ہوئے فرماتےہیں کہ شدید علالت کے چند دنوں کے علاوہ کمزوری و بیماری کے ایام میں بھی آپ اپنے دالان میں ہی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے۔(تحدیث نعمت ص17)آپ ؓکے سانحہ ارتحال کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بھی آپ رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق قادیان میں قرآن کریم کے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔

قادیان میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خلفاء کے علاوہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کامکمل اردو لفظی ترجمہ حضرت مولوی سرورشاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی7پاروں کی تفسیر جو رسالہ تعلیم الاسلام میں شائع ہوتی رہی نیز قادیان میں ہی مولوی محمد علی صاحب سے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے انگلش ترجمہ پر کام شروع کروا یاتھا جو بعداز اں مولوی صاحب اپنے ساتھ ہی لاہور لے گئے۔مولوی شیر علی صاحب کا ترجمۃ القرآن انگریزی کا آغازبھی قادیان میں ہوچکا تھا۔
ہجرت کے ایام کا ایک دلچسپ واقعہ ہے، میر محمد احمد صاحب جو جماعتی جہاز کے پائلٹ کے طور پر خدمات بجالارہے تھے ہجرت کے وقت قادیان سے جماعت کے قیمتی سامان کی ترسیل کے حوالے سے بیان کرتےہیں کہ

‘‘ان دنوں کا ایک خاص اور دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک صبح قادیان سے لاہور جانے کے ٹائم سے کچھ پہلے حضور نے مجھے قصر خلافت کے دفتر میں بلوایا اور فرمایا کہ آج تم نے میری زندگی کی سب سے قیمتی چیز لاہور لے کر جانی ہے او ر اس چیز کی راستے میں پوری حفاظت کرنی ہے اور اس چیز کو تم نے شیخ بشیر احمد صاحب (جو اس وقت لاہور کے امیر جماعت تھے) کو ان کے گھر سے والٹن ائرپورٹ پر بلوا کر انکے سپرد کرنی ہے اور انہیں اس چیز کی خاص حفاظت اور احتیاط کے بارے میں تم نے شیخ صاحب کو انہیں الفاظ میں بیان کرنا ہے جیسے میں تمہیں بتا رہا ہوں پھر تم نے ان سےوصولی کی رسید لینی ہےجو واپس تم نے مجھے دینی ہےمیرے نا پختہ ذہن میں اس وقت یہ احمقانہ خیال آیا کہ شاید حضور مجھے ہیرے جواہرات سے بھرا بکس دیں گےیہ کہہ کر حضور اٹھے اور ایک میلا سا چھوٹا ساٹریول بیگ (Travel Bag) لائے یہ بیگ کینوس کا تھا او ر اسکا اوپر کا زپ بھی ٹوٹا ہوا تھا بیگ کاغذات سے بھرا ہوا تھا آپ نے بیگ میرے سامنے رکھا اور فرمایا میری قرآن شریف کی لکھی ہوئی تفسیر کا کچھ حصہ تو چھپ چکا ہے کچھ حصہ لکھا جا چکا ہے مگر ابھی چھپا نہیں ۔مگر ابھی بہت سے حصے کی تفسیر لکھنے کا کام باقی ہے ۔چونکہ میری زندگی کا ایک بڑا مشن اس تفسیر کو مکمل کرنے کا ہے اس لیے میری عادت ہے کہ دن یا رات چلتا پھرتا ہوں اور یا کوئی اور کام کررہا ہوں۔مگر جو بھی کر رہا ہوں اگر قرآن شریف کی کسی آیت کے بارے میں میرے ذہن میں کوئی نیا مطلب آئے تو میں فوراًاس پوائینٹ کو ایک سادہ کاغذ پر لکھ کر اس بیگ میں ڈال کر محفوظ کر لیتا ہوں تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے ۔ضروری نہیں کہ ان کاغذات پر لکھے ہوئے نوٹس میں کوئی ترتیب ہو مگر میرے لیے یہ بہت بڑا سرمایہ ہے میں نےحضور سے بیگ لیا۔ اسے سنبھالا اور اسے ہوائی جہاز میں رکھ کر لاہور لے گیا۔ساتھ جانے والے جماعتی کارکن کو والٹن ائیر پورٹ پر اتارا کہ وہ جماعت کے کاموں کے لیے شہر چلا جائے ۔پھر میں نے ائیر پورٹ کے کنٹرول ٹاور جا کر شیخ بشیر احمد صاحب کو فون کیا اور انہیں فوری طور پر والٹن ائیر پورٹ پہنچنے کے لیے کہا ۔یہ بھی بتایا کہ میں نے حضور کی طرف سے بھیجی ہوئی ایک بے حد ضروری چیز آپ کے سپرد کرنی ہے اور یہ چیز میں کسی اور کہ سپرد نہیں کر سکتا ۔قسمت اچھی تھی کہ اس وقت کرفیو نہیں تھا اس لیے شیخ صاحب پونے گھنٹے میں والٹن ائیر پورٹ پہنچ گئے۔(یاد رہے کہ اس زمانے میں لاہور کی نہر کے پل سے آگے فیروز پور روڈ پر والٹن ائیر پورٹ کے گیٹ تک خاص آبادی نہ تھی اس لیے والٹن ائیر پورٹ کے ہوائی جہازوں کے کھڑے ہونے والے حصے سے فیروز پور روڈ ااور اس پر چلتا ہوا ٹریفک صاف نظر آتا تھا) میں نے اپنے ہوائی جہاز کے قریب سے ہی جب شیخ صاحب کی کار میں فیروز پور روڈ سے والٹن ائیر پورٹ کے مین گیٹ کی جانب ٹرن لیا دیکھ لیا۔جب وہ ہوائی جہاز سے قریب پہنچے تو میں نے حضور والا بیگ ہوائی جہاز میں سے اتارا اور اسے ہوائی جہاز کے پیچھے کی جانب ٹارمیک Tarmacپر رکھ دیا ۔الیک سلیک کے بعد میں نے بیگ کی طرف اشارہ کر کے اسے حضور کے بیان کردہ الفاظ سنائے اور بیگ ان کے سپرد کر دیا اور ان سے دستخظ کروا کر رسید لے لی اس کے ساتھ ہی میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ بیگ کے پاس ہی ٹھہرے تاکہ میں کنٹرول ٹاور جا کر ایک ضروری کام کر آؤں ۔وہ وہاں میری واپسی تک ٹھرے رہے اور اپنے ایک ساتھی کے ساتھ جسے وہ لے کر آئے تھے میرا انتظار کرتے رہے۔جب میں واپس آیا تو سابقہ کل ساتھ آنے والا جماعتی کارکن بھی ائیر پورٹ پر پہنچ چکا تھا ۔اب میں نے شیخ صاحب سے اجازت مانگی اس یقین کے ساتھ کہ وہ بیگ انہوں نے حفاظت سے اپنی کار میں رکھ لیا ہو گا۔ان کے چلے جانے کے بعد میں نے قادیان واپس جانے کی تیاری کی اور جماعتی کارکن کو مع سامان کے پچھلی سیٹ پر بٹھا کر خود فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا اور حسب قائدہ جہاز کے پیچھے دیکھنے والے آئینہ(Rear View Mirror) پر نظر ماری تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور والا بیگ جہاز سے چند قدم کے پیچھے ٹارمک (Tarmac) پر یعنی زمین پر پڑا ہوا ہے یہ دیکھ کر تو میری جان نکل گئی اور اوپر سے مشکل یہ کہ شیخ صاحب بیس منٹ پہلے جا چکے تھے ۔آج کل کا زمانہ بھی نہیں تھا کہ موبائل فون سے ان سے بات کر لیتا اور ویسے اگر دوڑ کر کنٹرول ٹاور جاتا فون کرتا تو کیسے۔وہ تو ابھی راستے میں تھے اور ابھی تک تو گھربھی نہیں پہنچے ہو ں گے۔اس پریشانی کے عالم میں ہوائی جہاز سے اترا۔میرا اندازہ تھا کہ گھر پہنچ کر انہیں پتا چلے گا کہ وہ بیگ ائیر پورٹ پر ہی بھو ل آئے ہیں اور پھر واپس آنے تک اتنی دیر ہو جائے گی کہ ہم قادیان اس لیے روانہ نہیں ہو پائے گے کہ رات پڑ جائے گی اور قادیان میں رات کو لینڈنگ کرنے کی مددگار(Flares) روشنیاں بھی نہیں ہیں۔ابھی اس سخت پریشانی کی حالت میں میں کھڑا فیروزپور روڈ کی جانب دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک کار نے فیروزپور روڈ سے والٹن ائیر پورٹ کے مین گیٹ کی طرف اس تیزی سے بائیں جانب ٹرن لیا جس سے کار کے ایک جانب کے دونوں پہیے زمین سے اٹھ گئے اور ساتھ ہی ایک سیٹی نما دھماکہ کی آواز آئی شکر ہے کار الٹی نہیں بلکہ بے حد تیزی سے ہماری جانب آئی۔اس وقت میں نے پہچانا کہ یہ شیخ صاحب کی آواز ہے ۔الحمدللہ میرے دل کی گہرائیوں سے نکلا ۔شیخ صاحب جلدی سے کار میں سے نکلے انہوں نے سخت ندامت کا اظہار کیا مگر اس بات پر شکر گزار تھے کہ میں ابھی تک وہاں موجود تھا انہیں ڈر تھا کہ ہوائی جہاز واپس قادیان چلا گیا ہو گا اور بیگ پتا نہیں کہیں غائب نہ ہو گیا ہو،یا گم نہ گیا ہوجب قریب آئے تو انہیں ٹارمک پر پڑا ہو ابیگ نظر آیا اسے دیکھنے کے بعد ہی شیخ صاحب کے ہوش ٹھکانے آئے انہوں نے بیگ اٹھایا اور مجھے دوبارہ الوداع کہہ کر اپنی کار میں بیٹھ کر چلے گئے میں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور ہم قادیان کے لیے روانہ ہوئے قادیان پہنچ کر میں سیدھاحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے پاس گیا اور انہیں سارا قصہ سنایا انہوں نے ساری بات سن کر مجھےتاکیداً یہ ہدایت دی کہ تم نے ہرگز ہرگز حضور کو یہ بات نہیں بتانی کہ آپ کا بیگ شیخ صاحب ائیر پورٹ پر بھول گئے تھے نہ آج اور نہ آئیندہ کبھی اس لیے حضور سے ملاقات کے دوران میں نے شیخ صاحب کی دستخط کردہ رسید تو حضور کو دے دی مگر اس واقعہ کا کوئی ذکر نہ کیا نہ اس وقت اور نہ بعد کو کبھی’’۔

(روزنامہ الفضل 27؍ اگست 2010ءص4)

ربوہ

اللہ تعالیٰ نے فَاوَیْنَاھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ کے تحت قدرت ثانیہ کے مظہروں کو ربوہ نامی بستی آباد کرنے کی سعادت عطاءفرمائی اور اسلام و قرآن کی خدمات کے لیے اس کو مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی ۔ا س کے بننے کے ساتھ ہی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوااور ساتھ ہی 1947ءمیں انگلش کی پانچ جلدی تفسیر کا بھی پہلا حصہ طبع ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے معاًبعد لاہور میں جامعہ احمدیہ کی دینیات کلاسز کا آغاز کیاپھر ربوہ کی تعمیر کے آغاز میں لاہور سے احمدنگر اور احمد نگر سے ربوہ میں جامعہ احمدیہ کو منتقل کر کے مبلغین ِقرآن کی تیاری کے کام کو جاری و ساری رکھا اور نا صرف ربوہ میں باقاعدہ بلا تعطل جامعہ احمدیہ میں مبلغین قرآن کی تیاری کا کام جاری رکھا بلکہ اس کے علاوہ بنگلہ دیش اور افریقہ کے بعض ممالک میں جامعات کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کےذریعہ تکمیل اشاعت ہدایت کے کام کو وسیع کیا گیااور ایسےمبلغین تیارکیے گئےجو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کی تعلیمات کے مطابق اور آپ کے علم قرآن سے فیضیاب ہوتے ہوئے قرآن کریم کے دروس جاری و ساری رکھے ہوئے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پرچار کر رہےہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پرایک اخبار نے کچھ یوں ذکر کیاکہ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند مقام و ممتاز مرتبہ ہے

(اخبار صدق جدید لکھنؤ جلد 15 نمبر 51، 18؍نومبر1965ء)

ہمنشیں! گر چاہتاہے حق سے انعام کبیر

دل کی آنکھوں سے کبھی دیکھ آکے تفسیر کبیر

قادیان سے تفسیر کبیر کی تصنیف و اشاعت کا جوسلسلہ شروع ہوا وہ ربوہ میں جاری و ساری رہا اور اس میں مزید وسعت پیدا ہوتی رہی یہاں تک کہ موجودہ شکل میں جو آج ہمارے سامنے ہے اس کی 10جلدوں میں اشاعت ہوئی۔اس عظیم تفسیر میں قرآن کریم کی 59؍مختلف سورتوں کی تفسیر شامل ہے۔

اسی طرح خلافت ثانیہ میں ربوہ کے دَور میں ہی1958ء کے جلسہ سالانہ پرتفسیر صغیر جیسے قیمتی ترجمہ کی بھی اشاعت ہوچکی تھی۔

حضرت مصلح موعود ؓکے دورِ خلافت میں اردو زبان کے علاوہ 1953ءمیںسواحیلی اور ڈچ زبان میں، 1954ءمیں جرمن زبان میںجبکہ1955ءمیں انگریزی زبان میں تراجم قرآن طبع ہوئے۔یہ تمام تراجم مرکز احمدیت ربوہ کے دور میں شائع ہوئے۔

انگریزی زبان میںتفسیر قرآن کے حوالہ سے قادیان میں ابتدائی طور پر کام شروع ہو چکا تھا اور 1947ءمیں اس کی پہلی جلد طبع ہوئی جو پہلے 10؍پاروں پر مشتمل تھی۔اس تفسیر کے لیے حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک دیباچہ اردو زبان میں تحریر فرمایا جس میںبنی نوع انسان کے لیے قرآن کریم اور اسلام کی ضرورت، گزشتہ الہامی کتب میںپائی جانے والی تحریف کی وجہ سے پیدا ہونے والی خامیاںاور متضاد باتیں، آنحضرت ﷺکے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں، آنحضرت ﷺکے حالات زندگی اور سیرت کا بیان نیز قرآن کریم کی پیشگوئیاں اور معجزات جیسے اہم موضوعات پر بحث موجود ہے۔ یہ مقدمہ اپنی ذات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اورمغربی دنیا کے سامنے قرآن کریم کی ضرورت، خوبیاں اور معارف پیش کرنےکے حوالے سے ایک عظیم خزانہ ہے۔لاریب یہ کتاب تاریخ احمدیت میں خدمت قرآن کا ایک نا فراموش باب ہے۔

جیسا کہ ذکر ہوا اس انگریزی تفسیر کی پہلی جلد قادیان سے 1947ءمیں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ربوہ کے دَور میں1960ءمیں دوسری اور1963ءمیںاس کی تیسری جلد شائع ہوئی۔

ربوہ میں دروس القرآن اور دروس رمضان میں قرآن کریم کے معارف کا بیان خاص طرّہ امتیاز رہاہے۔ چنانچہ1964ءمیں پہلی مرتبہ احبابِ جماعت کو قرآنی علوم سکھانے کی غرض سےفضل عمر درس القرآن کلاس کااجراہوا۔

خلافت ثالثہ کے دَور میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ ہمیشہ قرآن کریم کا ایک نسخہ اپنےہمراہ رکھتے ۔ قرآن کریم سے آپ کاخاص شغف ومحبت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کے خطبات و خطابات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ نے قرآن کریم کو حفظ کرنے کی طرف افراد جماعت کو خصوصی تحریک فرمائی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم کی خدمت کے جوش کا اندازہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خواہش سے ہوسکتاہے کہ تمام ہوٹلز میں قرآن کریم کے تراجم رکھوائے جائیں تا یہاں رکنے والے مہمان ان کو پڑھیں اور قرآنی تعلیمات ومحاسن پر اطلاع پاسکیں ۔

خلافت ثالثہ میں حضور رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے علوم پھیلانے اور زیادہ سے زیادہ احبابِ جماعت کا اس روحانی مائدہ سے استفادہ کرنے کی غرض سے 18؍مارچ 1966ءکو وقف عارضی کی تحریک کا اعلان فرمایا۔اس کےذریعہ افراد جماعت کےذمہ لگایا گیا کہ وہ عارضی طور پروقف کر کےافراد جماعت کو قرآن کریم کے علوم سے آگاہ کریں۔ جنہیں ناظرہ پڑھنا نہیں آتا انہیں قرآن کریم پڑھنا سکھائیں اور جنہیں ترجمہ نہیں آتا انہیں ترجمۃ القرآن سکھائیں۔5؍اگست 1966ء کے خطبہ جمعہ میں ہی حضورؒ نے خاص طورپر موصیان کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ تحریک وقف عارضی میں حصہ لیں اور قرآن کریم کے علوم کو پھیلانےمیںصف اوّل میں ہوں۔

تحریک وقف عارضی وقت کے ساتھ ساتھ منظّم ہوتی گئی یہاں تک کہ 1969ءمیںباقاعدہ طور پرایک نظارت کی صورت اختیار کر گئی اورایڈیشنل نظارت اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن ووقف عارضی کا قیام عمل میں آیا۔

لندن

لندن ہجرت 1984ءتک جماعت احمدیہ نےکُل11؍زبانوں میں تراجم قرآن کریم شائع کئے تھے۔ حضور رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت و تبلیغ پر خاص توجہ دی ۔1989ءمیںجماعت کی صد سالہ جوبلی کی تقریبات کے سلسلے میںتراجم قرآن کریم کے خصوصی پروگرام بنائے گئےاور متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے۔

خلافت رابعہ کے اکیس سالہ دورمیں جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے47؍زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنے کی توفیق پائی۔

ان مکمل تراجم کے علاوہ منتخب آیات قرآنی کے نام سے ایک کتاب تیار کی گئی جس میں 20عناوین کے پر آیات قرآنی منتخب کی گئیں۔ان منتخب آیات کا ترجمہ سو سے زائد زبانوں میں کیا گیا۔

اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خود بھی اردو زبان میں قرآن کریم کا بامحاورہ ترجمہ کیا۔اس ترجمہ کے ساتھ مختصر تشریحی نوٹس اور سورتوں کےمضامین کا تعارف بھی شامل ہے۔ اس ترجمہ کے آخر پر ایک تفصیلی انڈیکس بھی موجود ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمۃ اللہ نے لند ن میں انگریزی زبان میں دروس کےسلسلہ کا آغاز فرمایا۔جو آج انگریزی زبان میں ویڈیوز کی صورت میں ایک بیش قیمتی خزانہ ہے۔ان دروس کے بعد ایم ٹی اے کےسنہری دور کاآغاز ہوا اور خلیفہ وقت کی آواز اکناف عالم تک پہنچنے لگی ۔

ایم ٹی اے کا آغاز

مراکز احمدیت سے خدمت قرآن کا ایک عظیم الشان سنگ میل ایم ٹی اے (مسلم ٹیلی وژن احمدیہ)کی صورت میں طے ہوا۔ خلفاء وقت کے دروس القرآن لندن سے تمام دنیا میں نشر ہونے شروع ہوئے جن سے اکناف عالم کی پیاسی روحیں سیراب ہونے لگیں۔دروس القرآن کی صورت میں خلفاء احمدیت کی آواز دنیا کے ہر شہر ہر کوچہ میں جاپہنچی۔ جس سے تمام دنیا کو قرآنی علوم و معارف سے آگاہی و استفادہ کی سعادت دے کر اسمعو صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

ان دروس میں ان قرآنی حصوں کی تفسیر کی گئی جو حضرت مصلح موعود ؓ کی تفسیر کبیرمیں شامل نہیں۔
قادیان میں جب لاوڈ سپیکر نصب ہوا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےقرآن کریم سے محبت اور تمام دنیا میں خلیفہ وقت کے درس القرآن سے استفادہ کی خواہش کا اظہار اس پیشگوئی کے رنگ میں کیا جو ایم ٹی اے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘……جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی تمام دقتیں دور ہوجائیں گی۔ تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن و حدیث کا درس دیا جارہا ہو اور جاو ا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریا کےلوگ اور ہنگری کےلوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اورسی طرح اور تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لیے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہوجاتے ہیں۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جنوری 1938)

ایم ٹی اے پر ہی خلافت ربعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ترجمۃ القرآن کلاس کا سلسلہ جاری فرمایا۔ اس میں آپ نے قرآن کریم کے نئے سے نئے معارف کھولے ۔آیات کے باہم ربط کے حوالہ سے ان کلاسوںمیں حضورؒ نے خاص روشنی ڈالی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کے بابرکت دور میں قرآن کریم سے عشق ومحبت کے عظیم پر معارف نظارے آپ کے خطبات وخطابات میں ہر دوسرے دن خود مشاہدہ کرنے کو ملتے ہیں۔ پھر چاہے ٹیری جونز کی قرآن کریم جلانے کے دھمکیوں کے واقعات ہو ں یا قرآن کریم کی تعلم پر پوپ کے اعتراضات ہوں مرکز خلافت نے ہمیشہ ان کے خلاف حقیقی یلغار کی ۔ ان کے جوابات دیئے ان تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچائیں۔قرآن کریم کی امن، عدل و انصاف اور مساوات کی تعلیمات کو دنیا کے عظیم ایوانوں تک پہنچایا۔دنیاکے معروف سربراہان ممالک کو خطوط کے ذریعہ حقیقی اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ تمام مراکز احمدیت سے جماعت احمدیہ کے افراد میں قرآن کریم کی تعلیم تربیت کا سامان باقاعدگی سے کیا جاتاہے۔ جس کے ذریعہ مقامی ضلعی ، علاقائی ، صوبائی اور قومی سطح پر ہر عمر کے مرد وزن کے لیے تعلیم القرآن کلاسز کا انعقاد کیا جاتارہاہے۔تا تمام جماعت قرآن کریم فرقان حمید کی تعلیمات پر خود بھی عمل پیرا ہوسکے اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کرسکیں۔

الاسلام ویب سائٹ پر جدیدٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتےہوئے قرآن کریم کی ترویج واشاعت کا کام بھی جاری ہے۔ نیز جماعتی تراجم کی ایک خاصیت جس کے غیر بھی مداح ہیں یہ ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ قرآن کریم کے مضامین کا انڈیکس شامل کیا گیاہے۔اب جدید ٹیکنالوجی سے ہر حرف،لفظ اور ترجمہ کو سرچ کے قابل بنا دیاگیاہےجس کا افتتاح حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں فرمایا ۔ جس سے ایک بٹن سے پور ے قرآن کریم سے ایک مضمون کی آیات ہمارے سامنے آجاتی ہیں ۔

اسی طرح خلافت خامسہ میں خصوصی طورپر آن لائن قرآن کریم ناظر ہ و ترجمہ کے علاوہ قرآنی علوم سے عوام النّاس اور احمدی احبابِ جماعت کے لیے قرآن کریم کی خصو صی کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیاہے ۔

اسلام آباد

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اسلام آباد منتقل ہونے کا علان فرماتے ہوئے یہ دعا فرمائی کہ ‘‘اللہ تعالیٰ اسلام آباد سےاسلام کی تبلیغ کے کام کو پہلے سے زیادہ وسعت عطا فرمائے’’(خطبہ جمعہ 12؍اپریل 2019ء)

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کی جو ذمہ داری اس زمانے میں جماعت احمدیہ کے سپرد فرمائی ہے اس نے یقیناً وسعت اختیار کرتے چلے جانا ہے یہاں تک کہ کُل عالم پر محیط ہو جائے۔ہمارےپیارے امام کے منہ سے جو دعا نکلی اس کے پورا ہونے کے نظارے دنیا ضرور دیکھے گی۔آئندہ آنے والی نسلیں گوہی دیں گی اس مرکز احمدیت نےبھی سابقہ مراکزکی طرح خدمت قرآن کے نئے سنگ میل قائم کئے۔اللہ کرے کہ ہم حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس دعا کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا ہوا دیکھیں۔آمین

اللّٰھم بارک فی سعی امامنا و اید ہ بروح القدس و بارک لنا فی عمرہ و امرہ ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button