متفرق مضامین

جلسہ سالانہ ۔ بچوں کی یادیں

بچوں کی جلسہ سالانہ قادیان کی صدا بہار یادیں

قادیان میں جلسہ سالانہ پر ہمارے ماموں مع فیملیوں کے اور گاؤں ڈوگری اور ترگڑی کی ساری احمدی خوا تین ہمارے گھرٹھہرتیں اور آپا جی (میری امی)مہمان نوازی نہایت خوش دلی سے کرتیں۔اس دوران ہماری خوب موج رہتی۔حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر بعض دفعہ گہری شام تک جاری رہتیں، اور ہم آپا جی کو ڈھونڈ کر ننھی جمیل ان کی گودی میں دے آتیں۔ اور ہم سہیلیاں پرالی پر خوب لوٹ پوٹ کر لطف اندوز ہو تیں۔
جلسہ سالانہ ہم بچوں کے لیے بہت سی انجانی خوشیاں لے کر آتا۔ کئی دن پہلے شروع ہو ئی چہل پہل، پرا لیوں سے بھرے گڈوں اور اونٹوں کی لمبی لمبی قطاریں اورپرالی کی سوندھی سوندھی خوشبو فضا میں ہر طرف پھیلی ہو تی۔ پرالی کے ڈھیروں پر لوٹیں لگانا، مردانہ جلسہ گاہ میں لکڑی کے پھٹوں سے بنی بیٹھنے کی سیڑھیوںپر اچھلناکودنا ہم نے خوب انجوائے کیا۔ شام کو لنگر کی رو ٹیاں ، بغیر چھلے آلوؤں اور گو شت کا شور بہ اور خوشبودار دال بہت مزا دیتی۔

ہمارے بڑے ما موں اور ممانی گاؤں کی رسم کے مطابق بہن کے گھر آتے ہو ئے کچے چاولوں کے آٹے اور تلوں اور مونگ پھلی سے تیار کی ہو ئی پنیاںلا تے۔ جلسے کی کارروائی کے بعد لوٹنے والے افراد کے لیے آپا جی گڑ والی بڑی مزیدار چائے بنا تیں، جس کا کھیسوں اور لو ئیوں کی بُکلوں میں بیٹھ کر پینے کا اَور ہی مزا ہو تا جو ساتھ ساتھ مونگ پھلی ٹھونگنے سے دوبالا ہو جا تا۔ مہمانوں کی آمد اور رخصت پر دل کی دھڑکن تیز کر نے والے نعرہ ہائے تکبیر ……ہائے کیا بات تھی جلسہ سالانہ کے دنوں کی!

جلسے کے اختتام پر پرالی کی صفائی ہو تی جس کے نیچے سے پیسے ڈھونڈنا اور ساتھ ساتھ حضرت مصلح مو عود ؓاور زیروی صاحب مرحوم کی نئی نظموں کے شعر گنگنانا بھی ہماری کھیل کا حصہ ہوتا تھا۔جو بعد میں ربوہ میں جب تک ہمارے کالج کا میدان زنانہ جلسہ گاہ بنتا رہا، جاری رہا۔اور ہم اپنے آپ کو Treasure Islandکے کھوجی کا کردار خیال کر تے ہو ئے پرالی کے نیچے دبے خزانے کی کھوج میں رہتے۔گندے ، زنگ آ لود سکوں کو ایڑیوں کے نیچے رکھ کر زمین پر گھوم گھوم کر چمکا تے، جب کچھ نقدی بن جاتی تو ساتھ والی دکان یا ٹک شاپ پر جاکر برفی اورگرم گرم چائے سے لطف اندوز ہو تے۔

یہ تو خیر بعد کی بات تھی، ابھی تو میں قادیان کی گلیوںمیںہوں۔ ہماری کھیل میں ایک لڑکی ثریّا جو ہم سے عمر میں ذرا بڑی تھی شامل ہو گئی ۔ اس کے پاس کسی پرانے وقتوں کے بہت خو بصورت کھلونے اور گڑیوں کے کپڑے تھے۔ ثریّا ایک جگہ بیٹھ جا تی اور اپنے ارد گرد مٹی سے دیوار سی بنا لیتی، یہ ہمارا گھر ہو تا اور ثریا گھر والی۔ ہم چولہا بنانے کے لیے اینٹ، روڑے اور جلانے کے لیے سو کھی ،گری پڑی ٹہنیاں اِدھر اُدھر سے چن چُن کر لاتے ۔ ہم میں سے کو ئی گھر سے ماچس یا جلتا لکڑی کا ٹکڑا لے آ تی۔ ثریّا ایک چھوٹی سی سلور کی ہنڈیا میں پا نی ڈال کر آگ پر چڑھا دیتی۔ ہم لڑکیاں اپنے اپنے گھر سے چھوٹا موٹا روٹی کا ٹکڑا، پکی ہو ئی بوٹی، آ لو، دال ، چاول ، بچا ہوا کھا نا ، غر ضیکہ جو بھی ہاتھ لگتا لاتیں اور یہ سب کچھ اس ہانڈی میں ڈال دیاجاتا۔ہمیں کھانا اپنے گھر سے باہر لے جانے کی اجازت تو نہ تھی، اس لیے میںا سٹور میں رکھے اچار کے مرتبان سے آم کی ایک پھانک لے آ تی۔یہ ملغوبہ ہمارے گھر کی بڑی (ثریّا)ہمیں پتوں پر ڈال کر کھا نے کے لیے دیتی، اور ہم انگلیوں یا چپٹے تنکوں پر چڑھاکر مزے مزے سے کھا تے۔آ پ تصور نہیں کر سکتے یہ کھا نا ہمیں کتنا لذیذلگتا تھا………

نا گہاں اللہ جانے ثریّا کو کیا ہو گیاکہ اس نے ہمارے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیااور اپنے کھلونوں کی سیل لگا دی، فی کھلونا ایک پیسہ!مہنگا ئی کا زمانہ تھا، پیسے بچوں کو سوچ سمجھ کر دیے جاتے تھے۔جب ہماری لیڈر نے دیکھا کہ بِکری کچھ بھی نہیں ہو رہی تو اس نے ایک گول ٹھیکری، فی پٹولا قیمت لگا دی! جب وہ اپنا سارا سٹور بیچ بیٹھی ……تواس نے خود گھر سے نکلنا بند کر دیا۔اور بڑی بہن کے ساتھ سینے پرونے میں لگ گئی۔تب ہمیں شدت سے احساس ہوا کہ کسی لیڈر کے بغیر زندگی کتنی بے معنی ہے۔ہمیں سب کھلونے بے معنی لگنے لگے۔ اورہمارے سارے کھیل بد مزہ ہو گئےاور رفتہ رفتہ ہماری کھیلوں میں دلچسپی ختم ہو گئی۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم ابا جی کے ساتھ بھام چلے جا یا کرتے تھے۔یہ سفر مو سمِ برسات میں ہو تا۔تانگہ کچے راستے پر چلتے ہوئے پانی کی چھپڑیوں سے بچتا بچاتا ، جھٹکے کھاتاہوا، کئی بار تو ایسا لگتا کہ اب اُلٹا کہ اب……چلتا رہتا۔ آپا جی نے گودی میں بچہ پکڑا ہو تا اور دُعا ئیں کر رہی ہو تیں، مگر ہم تھے کہ ہر جھٹکے پر ہماری ہنسی کے فوارےچُھٹ رہے ہو تے۔ رستے کا نظارہ قا بلِ دید ہو تا۔ یہ پرندوں کے انڈے بچے دینے کا موسم ہوتاتھا۔نہر کے کنارے اونچے اونچے درختوں پر طوطوں کی چیخ و پکار، فضامیں اونچی نیچی اُڑانے بھر تی ابا بیلیں، ایسا لگتا جیسے بارش کے قطروں کا تعا قب کرتی اِدھر سے اُ دھر لہراتی آ جا رہی ہیں۔فا ختاؤں کی کُگو کو اور کوّوں کی تیز تیز کائیں کا ئیں میں کوئل کی نہا یت ذو معنی اور انجانی پکار، اور ہم بچوں کا اس کی نقل میں ویسے ہی جواب دینا۔تو قادیان سے بھام تک کا یہ دلچسپ سفر اس طرح تمام ہو تاکہ ہم ایک کچے پکے گھر کے دالان میں تانگے سے اترتے ، جو سکھ سرداروں کی اونچی اونچی حویلیوں کے قریب تھا……

ربوہ کے 1950ء کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے ہم حافظ آباد سے آئے ہو ئے تھے، جلسہ کے اختتام پر وا پسی سے پہلے ہمارا حضرت اماں جان ؓکی زیارت کا پرو گرام بنا۔خوش قسمتی سے اگلے دن ہی علی الصبح اجازت نامہ آ گیا۔ مو جودہ یادگار چوک کے ایک کچے مکان میں حضرت اماں جانؓ مقیم تھیں۔ کچھ انتظار کے بعد ہمیں اندر بلا لیا گیا۔ کمرے میں فرشی نشست گاہ کا انتظام تھا اور ایک نو رانی وجود گا ؤ تکیہ کے سہارے دیوار کے ساتھ تشریف فر ما تھیں۔میری والدہ نے اپنے مختصر تعارف کے بعد دعا کے لیے درخواست کی، تو حضرت اماں جانؓ نے فر مایا “بی بی کیا دعا کروں ؟”آپا جی نے عرض کی “اماں جان! دعا کریں میرے بچے نیک بنیں”۔ حضرت اماں جانؓ نے فر مایا “ہاں بی بی نیک بنیں گے تو دین و دنیا سنور جا ئے گی”۔ یہ با برکت دعا ہم سب بہن بھا ئیوں کے لیے ساری زندگی ایک جاری چشمۂ فیض بنی رہی ۔الحمدُ للہ

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button