متفرق مضامین

حصار عافیت کا، یہ اجلاس گاہیں۔ جلسہ سالانہ

ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی جگہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں مجلس منعقد ہوتی ہے تو اللہ تعالی کے فرشتے اس مجلس کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتےہیں۔اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس بابرکت مجلس کاذکر کرتے ہیں ۔اس بابرکت مجلس میں شامل ہونے والے سب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاہونے والی برکتوں سے بھرپور حصہ پاتے ہیں حتیٰ کہ اتفاقا ًاس مجلس میں آکر بیٹھ جانے والا بھی اس نیک مجلس کی برکتوں سے محروم نہیں رہتا اوراسے بھی ملائک اپنے پروں تلے لے لیتے ہیں ۔


جماعت احمدیہ یعنی حقیقی اسلام کی تمام تر محفلیں اس بات کاعملی نمونہ ہیں تاہم جلسہ سالانہ جس کو خود امام آخر الزمان نے جاری فرمایا اوراس کی بابت فرمایاکہ “اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کرو”اس نوعیت کی نہایت ہی اہم، بابرکت اور پاکیزہ مجلس ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ خدائی نوشتوں کی صداقت کو اکناف عالم میں سچ کر دکھاتے ہوئے سال بھر کے ہر موسم اور ہر دن میں دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں ہو رہاہوتا ہے جس کا انتظار فرزندانِ اسلام تمام سال کرنے کے بعد ان دنوں سے اپنے جسم و روح کوخدا کی یاد اور اس کی حمد سے معطر کرتے ہیں ۔ الغرض یہ خداتعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں میں سے ایک بڑی قدرت ہے ۔

جلسہ سالانہ کا پس منظر اور اغراض و مقاصد

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہوں پر جلسہ سالانہ کی اغراض و مقاصد بیان فرمائی ہیں ۔خاکسا ر اختصار کے ساتھ بعض بیان کرتاہے۔

“اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تویہ ہے کہ تاہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملےاور ان کے معلوما ت وسیع ہوں ا ور خداتعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو……اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقاتِ اخوّت استحکام پذیر ہوں گے ۔”

(اشتہار 7دسمبر 1892 مجموعہ اشتہار ات جلد اول ص341)

“تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تاد نیا کی محبت ٹھنڈی ہواور اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے۔لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لیے مقرر کیے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خداتعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع ضروریہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں۔’’

(آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4ص351)

جلسہ سالانہ کی تواریخ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

“کیونکہ سلسلۂ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر یک کے لیے بباعثِ ضعف ِفرصت یا کمئی مقدرت یا بُعدِ مسافت یہ میسّر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہےیا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لیے آوے……لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لیے مقرر کیے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خداتعالےٰ چاہے بشرطِ صحت و فرصت و عدم موانع قویّہ تاریخ مقرہ پر حاضر ہوسکیں ۔سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ 27 دسمبر سے 29 دسمبر تک قرار پائے۔”

(آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4ص352)

یہ تواریخ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہندوستان میں آسانی کے سبب رکھیں تھیں لیکن بعدازاں جب تمام دنیا اپنے جلسےکروانے لگی تو تواریخ بھی اپنے ماحول کے مطابق اپنی آسانی سے طے کی جانے لگیں۔

جلسہ سالانہ کی عظمت اور برکات

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جلسہ سالانہ کی عظمت و برکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسو ں کی طرح خیال نہ کریں۔یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے ۔اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔”

(اشتہار 7دسمبر 1892ء مجموعہ اشتہارات جلد اول ص341)

جلسہ سالانہ قادیان کی بستی سے جلسہ سالانہ برطانیہ تک کا سفر اور نصرت الٰہی

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے داخلینِ جماعت کے لیے اس جلسہ کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے اور یہ حضرت اقدس کی دعاؤں کا ہی ثمر ہ ہے کہ وہ بستی جہاں پر عامّۂخلائق کا آنا جانا نہ تھا اور وہ وجود جو صدہزار پردوں میں پوشیدہ تھا خود خدائی احکامات کے تابع جلوہ افروز ہوا اور اس کی صداقت کا ڈنکا چار سُو بجا۔

جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ جو کہ الٰہی تائید و نصرت اور جماعتی ترقیات کا ایک روشن باب ہے ہاں وہی جلسہ جس کی ابتداقادیان کی گمنام بستی سے ہوئی تھی اور جس کے بارے میں مسیح الزمان نے فرمایا تھا کہ “یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاءے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے ’’اس کے بعدوہ جلسہ جلد ہی عالم گیر نوعیت اختیار کر گیا ۔ عُشّاق اسلام کے اس سالانہ روحانی جلسہ کا آغاز 1891ء میںحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے 75اصحاب کی معیت میں فرمایا جو کہ اس کامیاب و کامران کاروان کا ہراول دستہ تھے ۔جو کہ بعدازاں ایک قلزم بیکراں بننے والا تھا ۔پھرحضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ‘‘اس کی بنیادی اینٹ خدا تعالی نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی’’ اور بڑے شدّو مد سے فرمایا کہ ‘‘ان باتوں کو ناممکن مت خیال کرو کہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں”۔ یوں خداتعالیٰ کی فرمائی ہوئی بات پوری ہوئی اور احمدیت کا وہ قافلہ جس پر سورج کبھی بھی نہ ڈوبتا تھا ہر چڑھتےسورج کے ساتھ اِکناف عالم میں چھاتا چلا گیا اور چلا جارہا ہےاور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات پوری ہونے لگی کہ ہر قوم اس چشمے سے پانی پیئےگی اور قرآنی وعدہ کہ مسیح آخرالزماں کے وقت میں نفوس باہم ملادیے جائیں گےان تمام تر پیشگوئیوں کا بیّن ثبوت “جلسہ سالانہ’’ہے۔

وہ جلسہ جو قادیان میں مسجد اقصیٰ کے کنارے شروع ہوا تھا وہ مسجد نور اور اس سے ملحقہ میدان میں چند سال منعقد ہونے کے بعد قادیان ہی میں بڑے پیمانے پر ہونے لگا اور ہجرت کے بعد مسیح دوراں کے فرزند دلبند گرامی ارجمند کی بستی “ربوہ ’’ میں انہی کی سرپرستی میں منعقد ہونے لگا جہاں وہ سیر روحانی تقسیم کیے جاتے رہے جن کا ذکر الٰہی نوشتوں میں شدومد کے ساتھ تھااور یہ سلسلہ تمام تر فتن کے باوجود 1982ء تک جاری و ساری رہاجس میں پونے تین لاکھ فرزندان ِاسلام نے شمولیت کی اور پھر خلافت کی ہجرتِ برطانیہ کے بعد جماعت احمدیہ برطانیہ کا 1984ءکا جلسہ ٹالورتھ کے علاقے میں ہوا اور اگلے ہی سال سے یہ جلسہ اسلام آباد برطانیہ میں منعقد ہونے لگا جہاں پہلے ہی سال حاضری 4500 تک جا پہنچی اور خلیفۂ وقت کی موجودگی کی برکت سے یہ جلسہ عالمی جلسہ کی صورت اختیار کر گیا اور اسی وجہ سے بیرون ممالک سے مہمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس میں شمولیت کر نا شروع کی ۔ یوں اس جلسہ کو جلسۂ اقوام عالم کا مقام حاصل ہوگیا جو دراصل خدائی فرمان کہ “اور جب نفوس اکٹھے کیے جائیں گے’’کی عملی صورت تھی۔1947ء میںہندوستان کی تقسیم کے بعد 1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مسیح الزماں کی بابرکت بستی میں ایک شان سے داخل ہوئے اور جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوااور مسیح الزماں کے خلیفہ کے قدموں کے پڑنے کی ایسی برکت نازل ہونا شروع ہوئی جس نے نسلوں کی سستیوں کو دور کردیا اور اکناف میں پھیل کر ہدایت کے متلاشیوں کو تلاش کیا اور انہیں مسیح دوراں کے قدموں تلے لاڈالا۔1993ء سے عالمی جلسہ سالانہ برطانیہ کے مبارک موقعہ پر عالمگیر بیعت کا آغاز ہوا ،اور یوں اس میں عشاقِ اسلام کی تعداد ہر دن بڑھنے لگی اور 1994ء میں ایم ٹی اے کے آغاز سے اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیم اکناف عالم میں جاپہنچی اور یوں عالمی بیعت کے ذریعے جماعت احمدیہ عالمگیر بھی ترقیات کا ایک نیا باب رقم کرنے لگی۔وہ جلسہ جو 75وفا شعار اصحاب سے شروع ہوا تھا اب اس کی تعداد سینکڑوں میں جاپہنچی اورہر سال احمدیت میں داخل ہونے والے احباب کی تعداد کروڑوں میں ہوگئی اور ایم ٹی اے کے بابرکت نظام کی برکت سے اس جلسہ کے شاملین کی تعداد کروڑوں افراد تک جا پہنچی جو اِکناف عالم میں اس مسیحا کے روحانی مائد ہ سے اپنی روحوں کو سیراب کر رہے ہیں۔آج تک صرف بعض مجبوریوں کی بناء پر 2001ء کا جلسہ سالانہ برطانیہ کی بجائے جرمنی کی سرزمین پر ہوا ۔ یہ جلسہ حاضری کے لحاظ سے سب سے بڑا جلسہ تھا اور اس جلسہ کے بعد پھر سے یہ جلسہ برطانیہ کی سرزمین پر ہونے لگا جہاں یہ جلسہ پہلے اسلام آباد میں پھر 2005ءکا جلسہ جگہ کی قلّت کے باعث رشمور کی 120ایکڑ زمین پر اور بعدازاں حدیقۃ المہدی کی بابرکت زمین پر ہورہا ہے۔جس کو جماعت نے ایک انگریز خاندان سے25لاکھ پاؤنڈز سے زائد رقم پر خریداتھا۔جو کہ وسعّ مکانککے خدائی وعدہ کی عملی تصویر ہے جو خدائے ذوالجلال کے اپنے مسیحا کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کی بےنظیر مثال ہے جس کو جماعت نے اپنے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ ایک بڑی رقم خرچ کر کے خریدا تھا جس کا اب بڑامصرف صرف خداکے اس مسیحا کے اس روحانی جلسہ کاہونا ہی ہے۔ حضورانور ایدہ ا للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حدیقۃ المہدی کی اس زمین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ “اس علاقے کے لوگوں کو بعض فکریں تھیں،جب زمین لی گئی تو بہت زیادہ اس طرف سے اپوزیشن بھی ہوئی تھی ۔”

یہاں یہ بات بھی بیان کرنا لازمی ہے اور اس لحاظ سے بہت ہی بابرکت ہے کہ یہ الٰہی تائید و نصرت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ خاندا ن جو ایک انسان کو خدامانتا ہے وہ کیسے انہی لوگوں کے لیے جو اس کے خدا کی خدائی کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں وہ ان کے لیے اپنی سرکار سے اجازت طلب کرتی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

“پھر مسٹرکیتھ نے علاقے کے لوگوں اور کونسل کو ہمارا جلسہ منعقد کرنے کی اجازت اور اس کے لیے راہ ہموار کرنے میں بڑا کردار ادا کیاہے ۔ایک ایک ہمسائے کے پاس گئے،ان کو بتایا کہ جو مختصر عرصے میں میں نے ان لوگوں کو سمجھاہے یہ وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔یہ لوگ تو کچھ اَور ہی چیز ہیں۔”

( خطبہ جمعہ 4اگست 2006ء)

جلسہ سالانہ برطانیہ ہر سال خداتعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کے ساتھ آتا ہے اوروہ تین د ن جس کا انتظار پورا سال اور بعض لوگ اپنی عمروں تک کرتے ہیں ، یہ تین دن پَر لگاکر اُڑتے چلے جاتے ہیں اور پھر آئندہ سال کے لیے حضورِانور کے ارشادات کے ماتحت جلسہ کی تیاریاں شروع کرد ی جاتی ہیں ۔کارکنان و کارکنات کی ایک بڑی تعداد اس کے انتظامات کے لیے اپنے شب و روز وقف کرتی ہے ،حضورانور ڈیوٹیز کا معائنہ فرماتے ہیں اور پھر کارکنان سےمخاطب ہوتے ہیں اور ہدایات سے نوازتے ہیں ۔یہ بھی یاد رہے کہ برطانیہ وغیرہ میں اس قدر بڑے بڑے جلسے کروانا کوئی آسان کام نہ ہے بلکہ یہ انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے ۔اس کے لیے ہر سال ہی انتظامیہ سے اجازتیں طلب کرنا۔موسم کی سختی سے نبرد آزما ہونے کے لیے انتظامات اور سب سے بڑھ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خدائی مہمانوں کی مہمان نوازی ہاں وہی مہمان جن کی بابت خود اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ یاتون من کل فج عمیق۔ یاتیک من کل فج عمیق ۔کہ وہ تیرے پاس ہر ایک راستے سے آئیں گے اور ان کی آمد سے رستوں میں گڑھے پڑجائیں گے۔اور پھر اسی جلسہ کے مہمانوں میں ایسےبادشاہ بھی شامل ہونے کی سعادت پاچکے ہیں جن کی نسبت خداتعالیٰ نے فرمایا کہ “بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ’’اور ان لمحات کو دنیا نے ایم ٹی اے کی آنکھ سے دیکھا اور مقید کیا ۔

تأثرات مہمانان بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال جلسہ سالانہ کے اختتام پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بابرکت اور روح پرور خطاب آتا ہے ۔جس میں حضورا نور اید ہ اللہ تعالیٰ دنیا بھر سے آنے والے مہمانا ن کے تأثرات بیان فرماتے ہیں۔ جن میں سے چند ایک میں یہاں پر اس غرض سے لکھ رہا ہوں کہ کس طرح الٰہی تائید و نصرت کے نظارے اللہ تعالیٰ جماعت کے مومنین کے لیے بطور شکر اور دنیا کے لیے بطور ہدایت دکھاتا ہے۔جن کے بعد جماعت احمد یہ کا مِنْ حَیْثُ الجماعت تو لمحہ لمحہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے گزرتا ہے اور ہم پر اس لیےاللہ تعالیِ کی شکر گزاری بھی واجب ہوتی ہے۔

پھریہ کہ آج کے اس دور میں جب کہ دنیا کہنے کو تو باہم گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن باہم ایک دوسرے کے مذاہب کی تبلیغ کو کوئی بھی سننے کا روادار نہ ہے ایسےمیں یہ ماحول کس طرح اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیم کو پھیلانے والاہےاور کس طرح دنیا اس بات کا اظہار کرتی ہے ۔حضورانوراس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ

“کانگو کنشاسا سے سپیکر صوبائی اسمبلی باندو ندو بونیفا این تو ابو شیوا صاحب پہلی بار جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے ۔یہ کہتے ہیں کہ یہاں ہر کوئی ایسے مل رہا ہے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتا ہو۔ہر کوئی سلام کر رہا ہے ۔یہی حقیقی محبت ہے یہی حقیقی محبت ہے یہی حقیقی مذہب اور دین ہے ۔”

(خطبات مسرور 5ستمبر 2014)

پھر حضورانور ایدہ اللہ نے بینن کے وزیر داخلہ فرانسس ہوسو کے خیالات کا اظہار فرمایا کہ وہ کہتے ہیں کہ
“میرے پاس الفاظ نہیں جن سے میں جلسے کے انتظامات کی تعریف کرسکوں ۔بہت عمدہ اور منظم جلسہ تھا۔اپنے مقاصد کے حصول میں اتنی محنت کرنے والے لوگ میں نے کبھی نہیں دیکھے ۔ میں نے دنیا دیکھی ہے امریکہ جیسے سپر پاور کے انتظامات بھی دیکھے ہیں مگر بڑی بڑی طاقتوں کو بھی اس طرح کے منظم اور پرامن انتظام کرتے نہیں دیکھا……جماعت کی عالمی طاقت کا راز یہی ہے کہ جماعت کو ایک خلیفہ ملا ہوا ہے ۔ “

(خطبات مسرور 5ستمبر 2014)

اب کوئی بتلائے کہ کیا کوئی اس سےبڑھ کر بھی خدا کی تائید و نصرت کے نظارے دکھلاسکتا ہے۔ ہرگز نہیں! یقیناً یہ وہی قرآنی حکم ہے کہ مومنین باہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔یہی وہ خدائی تائید و نصرت کے بیّن ثبوت ہیں جن کو یہ اقوام اور ان کے نمائندگان اپنے منہ سے مانتے ہیں۔

صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں

ا ک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار

یہی وہ بات ہے جو خود خدا کے مسیحا نے فرمائی تھی کہ ‘‘اس جلسہ کو عام انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کرو’’

(خطبات مسرور 5ستمبر 2014)

پھر حضورِا نور نے فرمایا کہ مالٹا سےا یک صحافی اِوان بار تولو صاحب آئے تھے ……وہ کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ 125سال میں جماعت نے اس قدر ترقی کی ہے کہ دنیا کے 206ممالک میں جماعت قائم ہوچکی ہے۔یہ یقیناً الٰہی تائیدو نصرت کے بغیر ممکن نہیں۔پھر کہتے ہیں کہ جلسہ پر ہر چیز منظم اور باقاعدہ ایک ترتیب کے مطابق تھی اور جہاں نظام اور ترتیب ہو وہاں خدا ہوتا ہے۔

(خطبات مسرور5ستمبر 2014)

الغرض یہی وہ بابرکت جلسہ ہے جس کی بنیاد قادیان دارالامان جیسی بابرکت بستی میں رکھی گئی اور اس سے غرض یہ تھی کہ تاداخلینِ بیعت اپنے اند ر روحانی تبدیلی پیدا کریں اور سچے مسلمان بن جائیں اور یہ ربّانی جلسے دراصل مومنین کے لیے درس گاہیں ہیں جن میں شامل ہونے والے تمام احباب کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیں کی ہوئی ہیں۔ یہ جلسہ اب ایم ٹی اے کے بابرکت نظام کی بدولت عالمگیر شکل اختیار کرچکاہے ۔

ایک موقعہ پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کے برکات و فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا:

“حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کے لیے اور دعا میں شریک ہونے کے لیے اس تاریخ پر آجانا چاہیے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہیں اور نیز ان دوستوں کے لیے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدا ئے تعالےٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لیے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے……اور اس روحانی جلسہ میں اَور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوںگے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے۔”

(آسمانی فیصلہ اشتہارات 30دسمبر 1891ء روحانی خزائن جلد 4ص 352)

یہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ “اور نیز ان دوستوں کے لیے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدا ئے تعالےٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لیے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے”اب اسی بات کی صداقت میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک بیان فرمودہ واقعہ دیکھیں

“ٹرینڈآڈ اور ٹوباگو کے منسٹر آف لیگل افیئرز پرکا رمادار بھی جلسہ میں شامل ہوئے ۔کہتے ہیں کہ‘‘کمیونٹی کے ممبرز کا خلیفۃ المسیح کے لیے جو پیار تھا انسان اس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔جہاں تک جلسے کی بات ہے تو ہرچیز زبردست تھی ۔وہاں کام کرنے والوں کا اخلاص اور جذبہ اس حقیقت پر گواہ تھا کہ یہ جماعت کسی انسان کی بنائے ہوئی جماعت نہیں ہے بلکہ اس جماعت کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے ۔”

(خطبات مسرور 5ستمبر 2014)

الغرض یہ وہی پاک جلسے ہیں جس کا قیام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنے ہی ہاتھوں سے کیا تھا جو اس دور میں بھی الٰہی تائیدات کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں کہ کس طرح ایک گمنام بستی میں اک غریب و بیکس و گمنام بے ہنر کی آواز پر وفا شعاروں کا اکھٹا ہونا اور محض للہ وہاں دھونی رمائے بیٹھے رہنا اور مسیحا نفس کے کلا م کو سننا……اس دور میں وسائل کی بہت زیادہ قلت تھی لیکن مہمان نوازی کا ایک بڑا کام حضرت اقدسؑ کے اہلِ خانہ کر تے تھے اور پھر حضورعلیہ السلام کی ہی دعاوں کا ثمر ہ کہ خدا تعالیٰ نے اس جلسہ کو اس قدر عظمت بخشی کہ آج دنیا کے کونوں کونوں میں اس کا قیام ہو رہاہے ۔اور بڑے بڑے مہمان خانے اور لنگرخانہ امام الزمان کی مہمان نوازی کو فخر جانتے ہیں۔ہاں لیکن جلسہ سالانہ برطانیہ کو ربوہ کے جلسہ کے بعد اب خلیفۃ المسیح کی موجودگی کی وجہ سے مرکزی حیثیت حاصل ہوچکی ہے ۔ہماری جماعت جو کسی طرح بھی عام دنیاوی جماعتوں اور ملکوں کا مقابلہ نہ کر سکتی لیکن خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہمیشہ شامل حال رہا اور اس جلسہ میں بادشاہوں کو بھی شمولیت کی توفیق ملی اور انہوں نے بھی ان اللہ والوں کے کاموں کی قدر دانی کی اور خدا جو عالم الغیب والشھادہ ہے اس نے ان کے منہ سے سچ نکلوایا۔حضورانورایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے29؍ جولائی 2011ء کے خطبہ جمعہ میں مراکش کے ایک بھائی کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا جو میں درج کرتا ہوں کہ‘‘جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد عرض ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ وقت جلد لائے جب اگلے جلسہ مکۃ المکرمہ میں منعقد ہوں اور ہم رکن و مقام کے مابین عالمی بیعت کے نظارے دیکھیں ۔”

آج جلسہ سالانہ ارتقاء کی منازل طے کر رہا ہے جس کی مثالیں ہر سال دنیا بھر میں ہونے والے جلسے ہیں ۔ لیکن ان تمام جلسوں میں برطانیہ کےعالمی جلسہ کو اک خاص مقام اس لیے بھی حاصل ہوچکا ہےکہ ہر نئے سال کا جلسہ جماعت احمدیہ عالمگیر کی فتح و ظفر کی بہترین مثال ہوتا ہے جہاں ہر ایک اپنی روحانی پیا س کو نت نئے انداز میں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور تہجد اور نوافل کےبعد زمین پر خدائی خلیفہ کی اک جھلک دیکھنے کو ہی اپنی معراج سمجھتا ہے۔ آخر پر مَیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شاملینِ جلسہ کے لیے دعائیں تحریر کرتاہوں۔

شاملین جلسہ کے لیے دعائیں

“ہر یک صاحب جو اس لِلّٰہی جلسہ کے لیے سفر اختیار کریں۔خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرماوے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز ِآخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تااختتام ِسفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو ۔اے خدا ! اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا !یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے ۔آمین ثم آمین ۔

(اشتہار 7دسمبر 1892 مجموعہ اشتہارات جلد اول ص342)

“اس جلسہ پر جس قدر احباب محض للہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خداان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر یک قدم کا ثواب ان کوعطا فرماوے ۔آمین ثم آمین ۔

(آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4 ص351-353)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button