کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام

خدا تعالیٰ نے ایک عام طور پر مجھے مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ

اِنّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ

یعنی میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت کا ارادہ کرے گا صدہا دشمن اِس پیشگوئی کے مصداق ہو گئے ہیں اِس رسالہ میں مفصل لکھنے کی گنجائش نہیں۔ اُن میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میری نسبت یہ کہا کہ یہ مفتری ہے طاعون سے ہلاک ہوگا خدا کی قدرت کہ وہ خود طاعون سے ہلاک ہو گئے اور اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اپنا یہ الہام پیش کرتے تھے کہ ہمیں خدا نے بتلایا ہے کہ یہ شخص جلدمر جائے گا خدا کی شان کہ وہ اپنے ایسے الہاموں کے بعد خود جلد مر گئے اور بعض نے میرے پر بد دعائیں کی تھیں کہ وہ جلد ہلاک ہو جائے وہ خود جلدہلاک ہو گئے مولوی محی الدین لکھوکے والے کا الہام لوگوں کویاد ہوگا جنہوں نے مجھے کافر ٹھہرایا اور فرعون سے تشبیہ دی اور میرے پر عذاب نازل ہونے کی نسبت الہام شائع کیے آخر آپ ہی ہلاک ہو گئے اور کئی سال ہو گئے کہ وہ اِس دنیا سے گذر گئے ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری بھی مجھے گالیاںدینے میں حد سے بڑھ گیا تھا جس نے مکہ سے میرے پر کفر کے فتوے منگوائے تھے وہ بھی بیٹھے اُٹھتے میرے پر بد دعا کرتا تھا اور لعنت اللّٰہ علی الکاذبین اُس کا وِرد تھا اور اِسی پر بس نہیں کی بلکہ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں اُس کو بھی شوق آیا کہ شیخ محمد طاہر صاحب مجمع البحار کی طرح میرے پر بد دعا کرے تا اس کی بھی کرامت ثابت ہو کیونکہ صاحب مجمع البحار کے زمانہ میں بعض ناپاک طبع لوگوں نے محض افترا کے طور پر مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور چونکہ وہ ناراستی پر تھے اِس لیے خدا تعالیٰ نے محمد طاہر کی دعا منظور کرکے اُن کو محمد طاہر کی زندگی میں ہی ہلاک کر دیا پس اِس قصہ کو پڑھ کر غلام دستگیر کو بھی شوق اُٹھا کہ آئو میں بھی اس جھوٹے مسیح اور جھوٹے مہدؔی پر دعا کروں تا اس کی موت سے میری کرامت بھی ثابت ہو مگر اس کو شیخ سعدی کا یہ شعر یاد نہ رہا؎

ہر بیشہ گماں مبرکہ خالی است

شائد کہ پلنگ خفتہ باشد

اگر میں جھوٹا ہوتا تو بے شک ایسی دعا سے کہ جو نہایت توجہ اور دردِ دل سے کی گئی تھی ضرور ہلاک ہو جاتا اور میاں غلام دستگیر محمد طاہر ثانی سمجھا جاتالیکن چونکہ میں صادق تھا اِس لیے غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی وحی انّی مھینٌ من اراد اھانتک کا شکار ہو گیا اور وہ دائمی ذلّت جو میرے لیے اُس نے چاہی تھی اُسی پر پڑ گئی۔

اگر کوئی مولوی خدا سے ڈرنے والا ہو تو اِس ایک ہی مقام سے اُس کا پردہ غفلت کا دور ہو سکتا ہے ہر ایک طالبِ حق پر لازم ہے کہ اِس بات کو سوچے کہ یہ کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی دعا سے تو جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی ہلاک ہو گیا اور جب میاں غلام دستگیر نے اس کی ریس کرکے بلکہ مشابہت ظاہر کرنے کے لیے اپنی کتاب فتح رحمانی میں اس کا ذکر بھی کرکے میرے پر بد دعا کی اور بد دعا کرنے کے وقت اپنی اسی کتاب میں میری نسبت یہ لفظ لکھا تَبًّا لہٗ وَلاتبا عِہٖ جس کے یہ معنی ہیں کہ میں اور میرے پیرو سب ہلاک ہو جائیں تب وہ چند ہفتہ کے اندر آپ ہی ہلاک ہو گیا اور جس ذلّت کو میری موت مانگ کر میرے لیے چاہتا تھا وہ داغ ذلّت ہمیشہ کے لیے اُسی کو نصیب ہو گیا کوئی صاحب مجھے جواب دیں کہ کیا یہ اتفاقی امر ہے یا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ظہور میں آیا مَیں اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہوں مگر غلام دستگیر کے مَرنے پر گیارہ برس سے زیادہ گذر گئے اب آپ لوگوں کا کیا خیال ہے۔ کیا خدا تعالیٰ کو محمد طاہر کے زمانہ کا جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی بُرا معلوم ہوتا تھا اور اُس سے خدا دشمنی رکھتا تھا مگر غلام دستگیر کے زمانہ میں جو جھوٹا مسیح پیدا ہوا اُس کو خدا تعالیٰ نے محبت کی نظر سے دیکھا اور اُس کو عزت دی کہ غلام دستگیر کو اُس کے سامنے ہلاک کر دیا اور غلام دستگیر کی بد دعا کو اُسی کے مُنہ پر مار کر اُسی کو موت کا پیالہ پلا دیا اور قیامت تک یہ داغِ ذلّت اس پر رکھا۔ اگر میں غلام دستگیر کی بد دعا سے مر جاتا اور غلام دستگیر اب تک زندؔہ رہتا تو کیا میرے دشمن بلکہ دین اسلام کے دشمن دنیا میں ہزاروں اشتہار جاری کرکے شور قیامت نہ مچا دیتے اور کیا میرا جھوٹا ہونا نقارہ کی چوٹ سے مشہور نہ کیا جاتا؟ تو پھر اب کیوں بزرگان قوم خاموش ہیں کیا ان لوگوںکی یہی تقویٰ ہے اور یہ کہنا کہ یہ مباہلہ نہیں۔ فرض کیا کہ یہ مباہلہ نہیں مگر محمد طاہر کی ریس کرکے بد دعا تو ہے جس کے مقابل میرا الہام ہے کہ انّی مھینٌ من اراد اھانتک پس یہ کیا ہوا کہ اس بد دعا سے میرا تو کچھ نہ بگڑا مگر خدا تعالیٰ کے الہام انّی مھینٌ من اراد اھانتک نے کھلا کھلا اثر دکھا دیا اور اسی بد دعا کو بموجب آیت عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ(التوبہ:98) غلام دستگیر پر نازل کر دیا۔ اور جو شخص محمد طاہر کا ثانی بننا چاہتا تھا اس کو خدا نے جھوٹے مسیح کا ثانی بنا دیا اور اُس کے مرنے کے بعد میرے پر برکت پر برکت نازل کی گئی۔ کئی لاکھ انسان مُرید ہو گئے اور اس کی وفات کے بعد تین بیٹے پیدا ہوئے اور کئی لاکھ روپیہ آیا اور قریباً تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ خدا نے مجھے مشہور کر دیا۔ شاید ہمارے مخالف اب یہ کہیںگے کہ وہ جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی جو محمد طاہرکی بد دعا سے مر گیا تھا وہ بھی ایک اتفاقی موت تھی محمد طاہر کی دعا کا اثر نہ تھا پس ایسی باتوںکا ہم کہاں تک جواب دے سکتے ہیں چاہیں تو وہ دہریہ بن جائیں اور یہ کہہ دیں کہ غلام دستگیر کی موت بھی اتفاقی ہے ظاہرً اعلامات تو یہی معلوم ہوتی ہیں۔

کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال

دل میں اُٹھتا ہے میرے سو سو اُبال

اِس قدر کین و تعصّب بڑھ گیا

جس سے کچھ ایماں جو تھا وہ سڑگیا

کیا یہی تقویٰ یہی اسلام تھا

جس کے باعث سے تمہارا نام تھا

غرض خدا کا یہ الہام کہ انّی مھینٌ من اراد اھانتک صدہا جگہ پر بڑے زور سے ظاہر ہوا اور ظاہر ہو رہا ہے اِس میں کیا بھید ہے کہ وہ قادر اس قدر میری حمایت کرتا ہے یہی بھید ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ اُس کا محب ضائع ہو۔

چہ شیرین منظری اے دِلستانم

چہ شیرین خصلتی اے جانِ جانم

چو دؔیدم رُوئے تو دل در تو بستم

نماندہ غیر تو اندر جہانم

تواں برداشتن دست از دو عالم

مگر ہجرت بسوزد استخوانم

در آتش تن بآسانی توان داد

زہجرت جان رود باصد فغانم

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 353تا356)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button