خلاصہ خطبہ جمعہ

جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء کے کامیاب انعقاد پر اللہ تعالیٰ کے حضور اظہارِ تشکّر اور مہمانوں کے تاثرات کا تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍جولائی2019ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامسایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے 12؍ جولائی 2019ء کومسجد مبارک اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد و تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور نے فرمایا کہ گذشتہ دنوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے آخری دن بتایا بھی تھا اس سال وہاں حاضری بھی چالیس ہزار سے اوپر تھی ۔ یہ ترقیات ہم ہر سال دیکھیں گے۔ یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہمارے کاموں اور ہماری کوششوں سے بڑھ کر ہمیں دیتا ہے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں بڑھتے ہوئے اپنی طرف سے اپنی کوششوں کو مزید بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے یہ فضل اور نوازشیں بڑھتی چلی جائیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ جلسے میں شامل ہونے والے سینکڑوں غیر از جماعت اور غیر مسلم مہمانوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ایک غیر معمولی ماحول اور اثر دیکھنے میں آیا ہے۔ اپنے تو اظہار کرتے ہی ہیں کہ کس طرح تمام کارکن بچے بچیاں تک کام کرتے ہیں اور کس طرح اتنی بڑی تعداد میں لوگ بغیر کسی جھگڑے اور فساد کے رہتے ہیں۔ یہ غیروں کے نزدیک ایک غیر معمولی چیز ہے بلکہ بعض نے تو یہ اظہار کیا کہ یہ ایک معجزہ ہے۔

ضورِ انور نے فرمایا کہ ہمارا جلسہ علاوہ ہماری اپنی تربیت کے تبلیغ کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ بنتا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس چیز کے پیشِ نظر ہمیں اللہ تعالیٰ کے شکر میں مزید بڑھنا چاہیے اور اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حضورِ انور نے ازراہِ شفقت جلسہ سالانہ جرمنی کو کامیاب بنانے والے کارکنان و کارکنات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ عموماً میں جلسے کے بعد مہمانوں کے تاثرات اور جلسے کے بارے میں بعض باتوں کا ذکر کیا کرتا ہوں ، جو میں پیش کروں گا لیکن اس سے پہلے میں کام کرنے والے کارکنوں اور کارکنات کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے رات دن ایک کر کے جلسہ کے انتظامات کو ہر لحاظ سے کامیاب کرنے کی کوشش کی اور اب وائنڈ اپ ہو رہا ہے اور وہاں ابھی تک یہ لوگ کام کر رہے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس دفعہ شاملین کی تعداد بڑھنے کے بعد انتظامیہ اور امیر صاحب کو بھی خیال آیا کہ ہمارے پاس اپنی ایک بڑی جلسہ گاہ ہونی چاہیے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ امیر صاحب جماعت جرمنی نے ایک جگہ کا ذکر کیا ہے کہ جو اس مقصد کے لیے موزوں ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ جگہ جماعت کے لیے بہتر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے خریدنے اور لینے کے بھی انتظام فرما دے اور آسانی پیدا کر دے ۔ اور اسی طرح جرمن جماعت کے اخلاص و وفا اور قربانی کے اس کے جذبے کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس کے لیے کچھ مالی قربانی کی ضرورت پڑی تو جماعت ان شاء اللہ تعالیٰ یہ قربانی کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی توفیق کو بھی بڑھائے۔

حضورِ انور نے فرمایاکہ جیسا کہ میں نے جرمنی کے جلسے کے آخری دن میں کہا تھا کہ جرمنی کا جلسہ بھی اب بین الاقوامی جلسہ بن گیا ہے اور یورپ کے لیے تو جلسہ جرمنی میں شامل ہونا پہلے بھی آسان تھا اب بعض دوسرے ممالک جیسے سابق روس کی ریاستیں ہیں اور افریقہ کے بعض ممالک ہیں اس دفعہ یہ محسوس ہوا ہے کہ ان لوگوں کا بھی وہاں آنا زیادہ آسان رہا ہے اور ویزے آسانی سے ملے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی جرمنی میں بھی جلسہ گاہ اور متعلقہ انتظامات میں وسعت کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد حضورِ انور نے جلسے پر تشریف لانے والے بعض مہمانوں کے تاثرات بیان فرمائے۔

فرمایا کہ جلسے کے دنوں میں غیر احمدی اور غیر مسلموں کے لیے ہفتے والے دن دوپہر کو ایک الگ پروگرام بھی ہوتا ہے جس میں میری تقریر بھی ہوتی ہے۔ حضورِ انور نے پہلے اس پروگرام میں شامل ہونے والے مہمانوں کے تاثرات بیان فرمائے۔ اس سال تبلیغی نشست میں کل 1,179 مہمان شامل ہوئے۔ اس میں جرمن مہمانوں کی تعداد 502 تھی اور دیگر یورپین اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی تعداد 341تھی. اس کے علاوہ 157عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوئے، 104ایشین اور 75افریقن مہمان بھی شامل ہوئے۔ اس طرح کل 67قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی وہاں نمائندگی تھی۔

مسٹر Hans Oliver نے کہا کہ امام جماعت احمدیہ کی تقریر میرے لیے بہت پرجوش اور ہیجان انگیز تاثیر رکھتی تھی۔ پھر لکھتے ہیں کہ بظاہر پرسکون اور روزمرہ کے معمول کے مطابق چلتے ہوئے حالات میں آنے والے خطرات اور جنگ کو بھانپ لینا یہ بڑی اہم بات ہے اور امام جماعت احمدیہ نے نہ صرف مستقبل میں معلق خطرات کو حقیقی طور پر محسوس کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دنیا کو خبردار بھی کر رہے ہیں۔

مس Vereena Ludwig صاحبہ نے کہا کہ میں خطاب کو سنتے وقت مسلسل سوچ رہی تھی کہ گفتگو دیگر رہنما بھی کرتے ہیں اور دنیا کو پیش آمدہ خطرات سے بچنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ امن عالم کے قیام پر بات کرناتو لیڈروں کے لیے ایک ‘ہاٹ کیک’ ہے مگر امام جماعت احمدیہ کی گفتگو میں جو طاقت تھی وہ میں نے کہیں اَور نہیں دیکھی اور دوسری بات یہ ہے کہ بڑی تفصیلی تحقیق کی گئی جس سے گہرا درد بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اگر یہ درد نہ ہو تو اتنا تفصیلی تجزیہ کوئی نہیں پیش کرتا۔ پھر کہتی ہیں کہ مذہبی نقطہ نظر سے ہی نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی حوالوں سے دنیا کی لیڈرشپ پر واضح کیا ہے کہ امن عالم خوف خدا سے منسلک ہے۔ اگر ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر اقدامات نہ کیے گئے تو ایٹمی جنگ کی ہولناک تباہی کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ کہتی ہیں کہ میرے نزدیک اس قدر وضاحت کے ساتھ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر تعصبات حائل نہ ہوں تو انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے یہ تنبیہ کافی ہے اور فیصلہ سازوں تک یہ پیغام پہنچنا چاہیے کیونکہ انسانیت کی وسیع تر بہبود کے لیے اس کا گلوبل لیول پہ ادراک عام ہونا بھی ضروری ہے۔

مسٹر کلاؤزے (Klause)اور مسزہائڈے (Heide)جو جرمن میاں بیوی تھے کہتے ہیں کہ ہمارا یہاں آنے سے پہلے تو بہت خوفزدہ سا حال تھا۔ اگرچہ کئی سال سے جماعت کا تعارف تھا مگر جلسہ میں آتے ہوئے ہمارے تحفظات ہوتے تھے جن کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میڈیا سے سنی ہوئی معلومات پر ہی تھی اس لیے یہاں آتے ہوئے ہم آج ہی بہت گھبرائے ہوئے تھے کہ پتا نہیں کیسا ہجوم ہو گا لیکن آنے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی ایسے ریلیکس اور ماحول میں اتنی اپنائیت ہے کہ ہم گویا اپنے ہی ماحول میں گھوم رہے ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ میری تقریر کے بعد ان کی بیوی کہتی ہیں کہ میں کہنا چاہوں گی کہ میں نے جنگ کے فسادات بچشم خود دیکھ رکھے ہیں۔ اور امام جماعت احمدیہ نے جن تباہیوں اور جن ہولناک مناظر سے قبل از وقت خبردار کیا ہے یا کر رہے ہیں اور جس درد اور سنجیدگی کی روح سے انسانیت کو متنبہ کر رہے ہیں اس کا اثر مجھ جیسوں پر جنہوں نے جنگ عظیم دیکھ رکھی ہے اَور طرح سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس خطاب کے لفظ لفظ سے متفق ہیں اور چاہتے ہیں کہ موجودہ نسل اس کا بروقت ادراک اور احساس کر سکے۔ ان خاتون کے خاوند کہتے ہیں کہ خطرات کی نشاندہی تو ضرور کی ہے انہوں نے مگر یہ بیان کرتے نہ تو کسی کا نام لیا اور نہ ہی دوران گفتگو اس طرح کے لب و لہجہ سے کسی طرف خاص جھکاؤ کا تاثر مل رہا تھا اور نصیحت کا انداز پر درد تنبیہ کا تھا نہ کہ کوئی ذاتی پسند نا پسند کا۔ ذاتی جھکاؤ کا ادنیٰ شائبہ بھی ان کی گفتگو سے نہیں ملا اور مذہبی سربراہ کا یہی مقام ہوتا ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے بعد میں قائل ہو کر جا رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ میں دنیا کے لیے ایک درد ہے۔

مسٹر نوبرٹ واگنر(Nobert Wagner) نے کہا کہ میں جلسہ میں شرکت اگرچہ پہلی بار نہیں کر رہا اور احمدیوں کے کیسز کے وکیل کے طور پر مجھے اکثر باتوں کا علم ہوتا رہتا ہے۔ (یہ اسائلم کیس کرتے ہیں احمدیوں کے ) لیکن امام جماعت احمدیہ کا آج کا خطاب میرے لیے بالکل نئے پہلو اور نئے نکات کا حامل تھا۔ گو کہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کر رہا ہوں مگر یہ اظہار ایک طرح کا فوری ردّعمل ہے جو میں کہہ رہا ہوں جبکہ ابھی اس تقریر میں میرے لیے پیشہ وارانہ ضرورت کے بہت سے اہم نکات ہیں جن کو میں گھر جا کر دوبارہ زیر غور لاؤں گا۔ مہاجرین اور تارکین وطن کے مسئلے پر آج جو نکتہ نظر امام جماعت احمدیہ نے بیان کیا ہے اس سے میزبان ملکوں اور مہاجرین کے باہمی معاملات میں بہتری اور وقار پیدا ہو گا اور خاص طور پر جس طرح انہوں نے اعداد و شمار کی مدد سے بڑھاپے اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے جرمنی کی افرادی قوت کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے اس سے پناہ گزینوں کی عزت نفس کو بھی سہارا ملے گا اور میزبان اداروں میں بھی ان مہاجرین کی عزت اور وقار بڑھیں گے مگر میں دوبارہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی میرے لیے اور امیگریشن لاء کی پریکٹس کرنے والے رفقائے کار کے لیے اس میں بہت سامواد ہے جو ہمارے کام آ سکتا ہے تو اس لحاظ سے بھی دنیاوی لحاظ سے بھی لوگوں کی مدد ہو جاتی ہے ۔

اس کے بعد حضورِ انور نے شاملینِ جلسہ کے عمومی تأثرات میں سے چند بیان فرمائے:

حضورِ انور نے میسیڈونیا سے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے آنے والے وفد کا تذکرہ فرمایا اورمیسیڈونیا وفد کی ایک خاتون ‘الیگزانڈرا دونیوا’صاحبہ (Aleksandra Doneva) کے تاثرات بیان فرمائے ۔ فرمایا کہ ان کا اپناانداز بیان ہے بڑا شاعرانہ اور فلسفیانہ اس لیے میں نے اس کو بیان کرنے کے لیے رکھ لیا۔ کہتی ہیں اہل خانہ کے بغیر گھر کا کیا تصور ہو سکتا ہے۔ کیا اخلاق کے بغیر انسانیت کا تصور ہو سکتا ہے؟ انسان کی حقیقت مذہب اور عقیدے کے بغیر نہیں ہے اور محبت کے بغیر انسانیت کا کیا تصور ہو سکتا ہے۔ انسان کی روح کی پاکیزگی صرف امن میں رہنے اور امن کو پھیلانے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح روح کی پاکیزگی رواداری باہمی عزت و تکریم میں پنہاں ہے۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا پر یقین رکھے اور زمین پر مستقبل کو بہتر بنائے۔ یہ ایک ایسا طریق ہے جس سے ہم انسانیت کی حفاظت کر سکتے ہیںا ور جماعت احمدیہ یہ تمام امور سرانجام دے رہی ہے۔ احمدی امن کو پھیلاتے ہیں، امن کی تعلیم دیتے ہیں اخلاقیات کو قائم کر رہے ہیں کہ بنی نوع انسان یہ تمام امور سرانجام دیں۔ احمدیت لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر رہی ہے ان کو عبادت کی لو لگائی ہے۔ احمدیت یہ چاہتی ہے کہ لوگ روحانیت میں اضافہ کرنے والے ہوں ان میں اتحاد قائم ہو وہ خدا کے قریب ہوں اور اس سال جلسہ سالانہ پر میں نے بہت زیادہ اچھے لوگ دیکھے مسکراتے چہروں کے ساتھ جو ہمیں بہت عزت دے رہے تھے۔ ان کو اس بات کا یقین ہے کہ اچھے اخلاق کے ساتھ اچھی زندگی جی جا سکتی ہے۔ کہتی ہیں کہ میں شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتی ہوں کہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کا خدا پر یقین اور ایمان بہت مضبوط ہے مجھے امید ہے کہ آپ یہ نیک کام جاری رکھیں گے اس سلسلہ میں زیادہ توجہ اور محبت جاری رکھیں گے اور پھر ایک وقت آئے گا اور لوگوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ زندگی کا اصل مقصد اور ویلیو کیا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ ایک غیر از جماعت کا تاثر ہے اور یہ تاثر ہمیں اس بات کی طرف لانے والا ہونا چاہیے کہ ہم حقیقت میں اپنی زندگ کے مقصد کو پہچاننے والے ہوں اور اس مقصد کو حاصل بھی کرنے والے ہوں۔
اسی وفد میں شامل وویو مانیوسکی صاحب (Vojo Manevski) کہتے ہیں کہ میں نے گہرائی میں جا کر احمدی مسلمانوں کے پیغام کو سمجھا ہے۔ بطور صحافی میں نے مختلف مذاہب میں ملتی جلتی تعلیمات کا جائزہ لیا ہے۔ مذہب کی بنیاد اللہ تعالیٰ سے محبت اور بنی نوع انسان سے محبت پر مبنی ہے۔ یہ ایسا پیغام ہے جس کی آج کے دور میں بہت ضرورت ہے۔ آج کی دنیا کے بہت سے مسائل کا حل جو دنیا کو سخت پریشان کر رہے ہیں اس محبت میں ہے۔ آج یورپ کا بہت بڑا مسئلہ دائیں بازو کی سیاست دانوں کی طاقت میں اضافہ ہے جس کا حل صرف گفتگو سے ممکن ہے جو مختلف مذاہب کلچر اور سویلائزیشن کے درمیان ہو۔ اگر ہم خدا کی تلاش کریں تو ہمیں علم ہو جائے گا کہ ہم میں آپس میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جتنا ہم خدا سے دور ہوں گے اتنا ہی ہم انسانیت اور لوگوں سے دور ہوں گے۔ مادیت کا دور روحانی زندگی اور آپس کے تعلقات کو ختم کر رہا ہے۔ اس لیے ہم اپنی فیملی اور دوستوں کی حفاظت کریں اور تعلقات کی حفاظت کریں۔

بلغاریہ کی یونیورسٹی کے ایک طالبعلم کہتے ہیں کہ لوگ بہت ہمدرد تھے جس کی وجہ سے میں اب یہاں ہوں۔ بیعت کی تقریب کو میں ایک زائر کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں۔ لوگوں کا اس رنگ میں اکٹھے ہونا ایک شاندار امر ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بلغاریہ سے 49؍ افراد پر مشتمل وفد شامل ہوا تھا اس میں 15؍ احمدی تھے اور 34؍ غیر از جماعت اور عیسائی احباب شامل تھے۔ وفدمیں شامل ایک عیسائی خاتون یولیا صاحبہ (Yulia)کہتی ہیں ۔ میں اس بات کو سوچ کر بہت جذباتی ہو رہی ہوں کہ میں بھی احمدیہ جماعت کے جلسہ پر ان ہزارہا شاملین کے ساتھ شامل ہوئی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بے شک میں عیسائی ہوں لیکن مجھے حضور کی تقریر بہت پسند آئی۔ آپ کی دعائیں دل پر اثر کرنے والی تھیں۔ تلاوت قرآن کریم بھی مجھے بہت پسند آئی۔ اس کا ترجمہ بھی۔حضورِ انور نے بلغاریہ سے آنے والے وفد میں سے بعض اور احباب کے تاثرات بیان فرمائے۔

اس کے بعد حضورِ انور نے فرمایا کہ ہنگری سے اس سال 8؍ مہمانوں اور 11؍ احمدیوں پر مشتمل ایک وفد آیا ۔ اس وفد کے ایک ممبر ساوا ونس صاحب ( Szava Vince) جن کا تعلق روما قوم سے ہے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جس کے سولہ ہزار سے زائد ممبر ہیں اور انہیں اپنے کام کی وجہ سے مختلف لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ ان میں یہودی، مسلمان او رعیسائی سب لوگ شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ جومحبت اور انسانیت کا احترام مساوات بھائی چارہ یہاں آ کر دیکھا ہے ایسا کبھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی اَور پروگرام میں دیکھا۔

حضورِ انور نے بعض ایسے مہمانوں کے تاثرات بھی بیان فرمائے جو جلسہ میں شامل ہونے کی وجہ سے احمدیت کی طرف اس قدرمائل ہوئے کہ بیعت کر کے باقاعدہ جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ پھر ایک احمدی دوست گزم ازاچی صاحب جن کا تعلق لامذہب سوسائٹی سے تھا چند سال قبل جماعت سے رابطہ ہوا۔ مذہب اور خصوصاً اسلام سے متعلق دلائل جو جماعت احمدیہ دیتی ہے وہ انہیں بہت معقول لگے بہت پسند آئے۔ اس سے قبل مولویوں کی کہانیوں کی وجہ سے ان کا دل مذہب سے بیزار تھا چنانچہ چند سال قبل انہوں نے بیعت کی اور اب آہستہ آہستہ اسلامی شعار کی پابندی کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ مجھے بہت خاص لگا انتظامات اور مہمان نوازی ہر سال کی طرح نہایت ہی اعلیٰ تھے اور جو لجنہ میں خطاب تھا میرا اور اختتامی خطاب یہ کہتا ہے اس نے مجھے بڑا متاثر کیا اور یہ پیغام ہم مردوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔

حضورِ انور نے یورپ، افریقہ، رشیا، ایشیا، الغرض دنیا بھر سے اس جلسہ میں شامل ہونے والے متعدّد مہمانانِ کرام کے تاثرات بیان فرمائےجنہوں نے جماعتِ احمدیہ کی کاوشوں کو سراہا، احمدیت کو اسلام کی حقیقی تصویر قرار دیا، حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اسلام کا حقیقی نمائندہ اور انسانیت کا حقیقی درد رکھنے والے پُر شفقت وجود قرار دیا اور بیان کیا کہ آج دنیا میں اگر کوئی جماعت حقیقی امن کی تصویر پیش کرتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے۔بعض مہمانوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ جس طرح جماعت احمدیہ کے ممبران اپنے امام سے الفت اور محبت کا تعلق رکھتے ہیں دنیامیں کسی لیڈر کے پاس ایسی جماعت نہیں ہو گی۔

مہمانوں نے جلسہ سالانہ کے انتظامات اور اس میں اکٹھے ہونے والے چالیس ہزار سے زائد مہمانوں کے اس طرح مل جل کر بھائی چارے کے ساتھ رہنے کی بھی کھل کر تعریف کی۔ ایک خاتون مہمان نے برملا کہا کہ خواتین کی مارکی میں انہیں زیادہ سہولت محسوس ہوئی اور انہیں دونوں طرف کے ماحول کو تجربہ کرنے کا موقع ملا اور اسلامی تعلیمات کہ جن کے مطابق مردو خواتین کے لیے علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے اس کی صحیح اور گہری حکمت اور فلاسفی کو سمجھنے کا موقع ملا نیز انہوں نے کہا کہ ہم اپنے تجربے کی بنا پر بھی یہ کہہ سکتی ہیں کہ اسلامی تعلیمات بہت گہری اور حکمت سے پُر ہیں اور خواتین علیحدہ جگہ پر زیادہ آسانی اور اطمینان محسوس کرتی ہیں اور انہیں اپنے انتظامات سنبھالنے اور اپنی قابلیتوں کا جوہر دکھانے کا وسیع موقع ملتا ہے۔

خطبہ جمعہ کے آخر پر حضورِ انور نے جلسہ سالانہ کے ذریعہ دنیا بھر میں پہنچنے والے جماعت کے پیغام کے اندازاً اعداد و شمار بیان فرمائے جن کے مطابق میڈیا کے ذریعہ سے اس سال جرمنی میں کل تیرہ میڈیا آؤٹ لٹس نے جلسہ کی کوریج کی۔ اس کے علاوہ اٹلی، چین اور سلواکیہ کے آن لائن اخبارات میں بھی خبریں دی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ چھبیس لاکھ افراد تک ان ذرائع سے احمدیت کا پیغام پہنچا۔ ریویو آف ریلیجنز کے ذریعہ سے بھی مختلف پروگرام آتے رہے ان کا خیال ہے کہ اس کے ذریعے ایک ملین لوگوں تک پیغام پہنچ جائے گا۔ ایم۔ٹی۔اے افریقہ کے ذریعہ سے افریقہ میں بھی جلسوں کے پروگرام دکھائے گئے۔ جلسہ جرمنی کے حوالے سے رپورٹس بنا کر جو بھیجی گئی تھیں وہاں گھانا، گیمبیا، روانڈا، سیرالیون اور یوگنڈا کے نیشنل ٹیلیویژن نے دکھائیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جلسے کے حوالے سے بڑے وسیع پیمانے پر جماعت کا تعارف بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ بابرکت فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button