از افاضاتِ خلفائے احمدیت

بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کی بنیاد تمام لوگ بحیثیت انسان برابر ہیں (قرآن کریم )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

…عالمی امن کا قیام۔ یقیناً یہ ایک اہم ترین اور بہت ضروری مسئلہ ہے جو آج دنیا کو درپیش ہے۔ …مَیں بہت اختصار سے قیام امن کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر بیان کروں گا جو یہ ہے کہ امن بین الاقوامی تعلقات میں انصاف اور مساوات سے قائم ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امن اور انصاف کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہ وہ اصول ہے جسے دنیا کے تمام باشعور اور دانا لوگ سمجھتے ہیں۔ درحقیقت مفسدوں کے سوا کبھی بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی معاشرہ، ملک یا دنیا میں عدل و انصاف قائم ہونے کے باوجود فساد ہو سکتا ہے۔ تاہم ہمیں دنیا کے بہت سے حصوں میں امن کا فقدان اور فساد نظر آتا ہے۔ یہ بد امنی اور فساد مختلف ممالک میں اندرونی طور پر بھی پایا جاتا ہے اور دیگر اقوام سے تعلقات کے لحاظ سے بیرونی طور پر بھی موجود ہے حالانکہ حکومتیں انصاف پر مبنی پالیسیاں بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ قیام امن کو سبھی اپنا اوّلین مقصد قرار دیتے ہیں اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بالعموم دنیا میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے اور نتیجۃً فساد پھیل رہا ہے۔ اس سے یہ یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کہیںنہ کہیں انصاف کے تقاضے پامال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ جب بھی اور جہاں کہیں بھی بے انصافی پائی جائے تو اس کا تدارک کیا جائے۔

چنانچہ امام جماعت احمدیہ عالمگیر کی حیثیت سے میں امن کے حصول کے بعض راستوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو انصاف پر مبنی ہیں۔ …یہ بہت اہم بات ہے جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی علم اور عقل کامل نہیں ہے بلکہ یقیناًمحدود ہے۔ پس فیصلہ کرتے ہوئے یا سوچ بچار کرتے ہوئے اکثر ایسے محرکات ذہن میں داخل ہو جاتے ہیں جو فیصلہ میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں اور انسان کو ایسے راستہ پر ڈال دیتے ہیں جہاں وہ اپنے حقوق کے لیے کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ بالآخر ایک غیر منصفانہ فیصلہ کی صورت میں نکلتا ہے لیکن خدا کا قانون ناقص نہیں ہے اس لیے اس میں کوئی ذاتی مفادات یا ناانصافی کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا کو بہر حال اپنی مخلوق کی بھلائی اور بہبود عزیز ہے اس لیے اس کا قانون کلیۃً انصاف پر مبنی ہے۔ جس دن لوگ اس اہم حقیقت کو شناخت کر لیں گے اور اسے سمجھ لیں گے وہ دن ہو گا جب حقیقی اور دائمی امن کی بنیاد رکھی جائے گی ۔ بصورت دیگر ہم یہ دیکھیں گے کہ قیام امن کے لیے مسلسل کوششیں تو ہو رہی ہوں گی مگر یہ کوئی قابل قدر اور ٹھوس نتائج پیدا نہیں کر رہی ہوں گی۔

جنگ عظیم اوّل کے اختتام کے بعد بعض ممالک کے راہنماؤں کی یہ خواہش تھی کہ مستقبل میں اچھے اور پُر امن بین الاقوامی تعلقات قائم ہوں۔ چنانچہ عالمی امن کے قیام کی ایک کوشش کے طور پر لیگ آف نیشنز قائم کی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد دنیا میں امن قائم کرنا اور آئندہ جنگوں کو روکنا تھا۔ بدقسمتی سے اس لیگ کے اصول اور اس کی قراردادوں میں بعض نقائص اور خامیاں تھیں۔ چنانچہ وہ تمام اقوام کے حقوق کا صحیح رنگ میں مساویانہ تحفظ نہ کر سکے۔ اس عدم مساوات کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیر پا امن قائم نہ ہو سکا۔ لیگ کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور اس کے براہ راست نتیجہ کے طور پر جنگ عظیم دوئم برپا ہوئی۔ اس کے بعد جو بے مثل تباہی اور بربادی ہوئی ہم سب اس سے آگاہ ہیں جس میں قریباً سات کروڑ پچاس لاکھ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں ایک بڑی تعداد معصوم شہریوں کی تھی۔ یہ جنگ دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے تھی۔ اس کے نتیجہ میں ایسی پالیسیاں بننی چاہئیں تھیں جن کے ذریعہ انصاف کی بنیاد پر تمام فریقین کو ان کے جائز حقوق ملتے۔ اور اس طرح یہ تنظیم عالمی امن کے قیام کا ایک ذریعہ ثابت ہوتی ۔اس وقت کی حکومتوں نے بلا شبہ ایک حد تک قیام امن کی کوششیں کیں اور اس طرح اقوامِ متحدہ کی تشکیل عمل میں آئی۔ تاہم جلد ہی یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اقوام متحدہ کا اعلیٰ اور بہت اہم بنیادی مقصد پورا نہ ہو سکا۔ در حقیقت آج بعض حکومتیں ایسے کھلے طور پر بیانات دیتی ہیں جن سے اس کی ناکامی ثابت ہوتی ہے۔

انصاف کی بنیاد پر قائم بین الاقوامی تعلقات کے متعلق اسلام کیا تعلیم دیتا ہے جو قیام امن کا ذریعہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ہماری قومیتیں اور نسلی پس منظر ہماری شناخت کا ذریعہ تو ہیں لیکن وہ ہمیں کسی قسم کی برتری اور فوقیت کا مستحق نہیں بناتیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ تمام لوگ بحیثیت انسان برابر ہیں۔ (سورۃ الحجرات:14) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آخری خطبہ میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی عربی کو غیر عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ نہ ہی کسی غیر عربی کو عربی پر کوئی برتری حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھایا کہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ چنانچہ اسلام کی یہ واضح تعلیم ہے کہ تمام قوموں اور نسلوں کے لوگ برابر ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ سب لوگوں کو بلا امتیاز اور بلا تعصب یکساں حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ وہ بنیادی اور سنہری اصول ہے جو بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کی بنیاد رکھتا ہے۔

(خطاب فرمودہ 27؍جون2012ء بمقام کیپٹل ہل، واشنگٹن ڈی سی۔ امریکہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button