حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 16)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

شفقت علی النّفس

بہت سے انسان اپنی حماقت سے بجا ئے فا ئدہ کے الٹا نقصان کر لیتےہیں اور اپنے نزدیک جسے خوبی سمجھتے ہیں وہ دراصل برائی ہو تی ہے اور اس پر عامل ہو کر تکلیف اٹھا تے ہیں۔بہت سے لوگ دیکھے جا تے ہیں کہ وہ اپنے نفس کو خواہ مخواہ کی مشقت میں ڈال کر تکلیف دیتے ہیں اور اسے فخر سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ جا نتے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنا کو ئی آسان امر نہیں پہلے انسان پو ری طرح سے اپنے نفس کو ما رے اور اپنے ہر فعل اور قول کو اس کی رضا کے مطابق بنا ئے اپنی خواہشات کو اس کے لیے قربان کر دے۔ اپنی آرزوؤں کو اس کے منشا کے مقابلہ میں مٹا دے۔اپنے ارادوں کو چھوڑ دے۔اس کی خاطر ہر ایک دکھ اور تکلیف اٹھا نے کو تیار ہو جا ئے۔اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی خاک عظمت نہ سمجھے اور جس چیز کے قرب سے اس سے دوری ہو اسے ترک کر دے۔اپنے اوقات کو ضا ئع ہو نے سے بچا ئے تب ہی انسان خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکتا ہے اور جب اس کا فضل نا زل ہو تو اس کی رحمت کے دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں اور وہ ان اسرار کا مشاہدہ کر تا ہے جو اس سے پہلے اس کے واہمہ میں بھی نہیں آتے تھے اور یہ حالت انسان کےلیےایک جنت ہو تی ہے جسے اسی دنیا میںحاصل کر لیتاہے اور خدا تعالیٰ کے انعامات کا ایسےایسے رنگ میں مطالعہ کر تا ہے کہ عقل حیران ہو جا تی ہے اور جنت کی تعریف ان کشوف پر صادق آتی ہے کہ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ۔

لیکن باوجود اس بات کے پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ مشقت اٹھانےسے حاصل ہوسکتاہے کیونکہ بہت سے انسان اپنی عمر کو را ئیگاں کر دیتے ہیں اور کسی اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچتے۔ اہل ہنود میں ایسے لوگ پا ئے جا تے ہیں کہ جو اپنے ہاتھ سکھا دیتے ہیں۔ایسے بھی پا ئے جا تے ہیں کہ جو سردیوں میں پا نی میں کھڑے رہتے ہیں اور گر میوں میں اپنے اردگرد آگ جلا کر اس کے اندر اپنا وقت گزارتےہیں۔ ایسے بھی ہیں کہ جو سا را دن سورج کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتے رہتے ہیں اور جدھر سورج پھرتا جا ئے ان کی نظر اس کے سا تھ پھرتی جا تی ہے۔پھرایسے بھی ہیں جو نجاست اورگندگی کھا تے ہیں مردوں کا گو شت کھاتے ہیں۔غرض کہ طرح طرح کی مشقتوں اور تکالیف کو برداشت کرتے ہیں اور ان کام منشا یہی ہو تا ہے کہ وہ خدا کو پا لیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ بجا ئے رو حانیت میں تر قی کرنےکے اور گرتے جاتے ہیں۔ مسیحیوں میں بھی ایک جماعت پادریوں کی ہے جو نہانے سے پر ہیز کر تی ہے۔نکاح نہیں کر تی۔صوف کے کپڑے پہنتی اور بہت اقسام طیبات سے محترز رہتی ہے لیکن اسے وہ نور قلب عطا نہیں ہو تا جس سے سمجھا جا ئے کہ خدا تعالیٰ انہیں حاصل ہو گیا بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کے اخلاق عام مسیحیوں کی نسبت گرے ہوئے ہو تے ہیں۔مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سا راسال روزہ رکھتے ہیں اور ہمیشہ روزہ سے رہتے ہیں حالانکہ رسول کریم ﷺ نے دا ئمی رو زے رکھنے سے منع فرما یا ہے پھر بعض لوگ طیبات سے پر ہیز کر تے ہیں۔اپنے نفس کو خواہ مخواہ کی مشقتوں میں ڈالتے ہیں لیکن پھر بھی کو ئی کمال حاصل نہیں ہو تا۔غرض کہ جس طرح بغیر محنت و کوشش کے خدا تعالیٰ نہیں ملتا اسی طرح اپنے نفس کو بلا فا ئدہ مشقت میں ڈالنے سے بھی خد انہیں ملتا بلکہ الٹانقصان پہنچ جا تا ہے۔میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جنہوں نے اول اول تو شوق سے سخت سے سخت محنت اٹھا کر بعض عبادات کو بجا لا نا شروع کیا اور اپنے نفس پر وہ بوجھ رکھاجسےوہ برداشت نہیں کرسکتا تھا اور آخر تھک کر ایسے چُور ہو ئے کہ عبادات تو کجاخدا تعالیٰ کی ہستی سے ہی منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ اگر کوئی خدا ہو تا تو ہماری ان محنتوں کو ضا ئع کیوں کرتا ہم تو اس کوشش و محنت سے ورد وظائف کر تے رہےلیکن وہاں سے ہمیں کچھ اجر بھی نہیں ملا اور آسمان کے دروازے چھوڑ آسمان کی کو ئی کھڑکی بھی ہمارے لیے نہیںکھلی۔اور جب یہ شکوک ان کے دلوں میں پیدا ہو نے شروع ہو ئے تو وہ گناہوں پر دلیر ہو گئے اور وعظ وپند کو بنا وٹ سمجھ لیا اور خیال کر لیا کہ ہم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں وہ بھی ہماری ہی طرح تھے اور نعوذباللہ ان کے دل ہماری طرح ہی تا ریک تھے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے بڑے بڑے دعوے کرتے تھے۔

ان واقعات سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بے فا ئدہ مشقت بھی خطرناک ہو تی ہے اور نفس کو ایسے ابتلاؤں میں ڈالنا کہ جو غیرضروری ہیں بجا ئے فا ئدے کے مہلک ثابت ہو تا ہے۔اسی لیے آنحضرت ﷺ جو تمام دنیا کے لیے رحمت ہو کر آئے تھے اپنے صحابہ ؓ کو روکتے تھے کہ وہ اپنےنفوس کو حد سے زیادہ مشقت میں نہ ڈالیںچنانچہ لکھا ہے کہ ایک صحابی ؓ ایک دوست کے ہاں گئے تو آپ کومعلوم ہواکہ وہ سارا دن روزہ رکھتا اور رات کو تہجد میں وقت گزارتا ہے۔اس پر انہوں نے انہیںڈانٹا جس پر یہ معاملہ آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا آپؐ نے فر ما یا اس نے ٹھیک ڈانٹا کیونکہ انسان پر بہت سے حقوق ہیں ان کا پورا کر نا اس کےلیے ضروری ہے۔

خود آنحضرتؐ کا عمل ثابت کر تا ہے کہ آپؐ ہمیشہ احکام الٰہی کے پورا کر نے میں چست رہتے اور ایسے جوش کے سا تھ خدا تعالیٰ کی عبادت کر تے کہ جوان جوان صحابہ آپؐ کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے جیسا کہ میں بالتفصیل آپؐ کی عبادت کے ذکر میں لکھ آیا ہوں لیکن باوجود اس کے آپؐ آسان راہ کو قبول کرتے اور اپنے نفس کو بے فا ئدہ دکھ نہ دیتے بلکہ فر ما یا کر تے تھے کہ اس وقت تک عبادت کرو جب تک دل ملول نہ ہو جائے۔حضرت عائشہ ؓ آپؐ کے اعمال کی نسبت فر ما تی ہیں مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم بَیْنَ اَمْرَیْنِ اِلَّا اَخَذَ اَیْسَرَ ھُمَا مَالَمْ یَکُنْ اِثْمًا فَاِنْ کَانَ اِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ(بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ النبی ﷺ )رسول اللہ ﷺ کو کسی دو با توں میںاختیار نہیں دیا گیا مگر آپؐ نے اسے قبول کیا جو دونوں میں سے آسان تر تھی بشرطیکہ گناہ نہ ہو اور اگر کسی کام میں گناہ ہو تا تو سب لوگوں سے زیادہ آپؐ اس سے بچتے ۔اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ آسان راہ کو اختیار کیا کر تے تھے اور تکلیف میں اپنے آپ کو نہ ڈالتے۔ایک خیال جو اس حدیث سے پیدا ہو سکتا تھا کہ گو یا آپؐ خدا کے راستہ میں مشقت نہ بر داشت کر سکتے تھے(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ )اس کا رد بھی خود حضرت عائشہ نے فر ما دیا کہ یہ بات اسی وقت تک تھی کہ جہاں دین کا معاملہ نہ ہو۔اگر کسی موقع پر آسانی اختیار کر نا دین میں نقص پیدا کر تا ہو تو پھر آپؐ سے زیادہ اس آسانی کا دشمن کو ئی نہ ہوتا۔یہ وہ کمال ہے جس سے آپ کی ذات تمام انبیاءپر فضیلت رکھتی ہے کہ وہ اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے لیکن آپؐ ہر رنگ میں کامل تھے۔ کوئی پہلوبھی تو انسانی زندگی کا ایسا نہیں جس میں آپؐ دوسروں سے پیچھے ہوں یا ان کے برابر ہوں۔ہر بات میں کمال ہے اور دوسروں سےبڑھ کر قدم مارا ہے اور ہر خوبی کو اپنی ذات میں جمع کر لیا ہے۔

بے شک بہت سے لوگ ہیں کہ جو اپنی جان کو آرام میں رکھتے ہیں مگر خدا کو ناراض کرتے ہیں۔لوگوں کو خوش کر تے ہیں۔بعض خدا کو را ضی کر نے کی کو شش میں اپنے نفس کو ایسے مصائب میں ڈالتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب بھی نصیب نہیں ہو تا اور آگے سے بھی گمرا ہ ہو تے جا تے ہیں مگرمیرا پیارا ہا دی تو سا ری دنیا کے لیے ہا دی ہو کر آیا تھا وہ کسی خاص طرز یا مذاق کےلوگوں کا رہبر نہ تھا۔ہر ملک اور قوم کے آدمی اسکی غلامی میں آئے تھے اس نے اپنے اخلاق کا ایک ایسا بے لوث اور مکمل نمونہ دکھا یا ہے کہ کو ئی آدمی اس کی غلامی میں آئے نا کام و نامراد نہیں رہتا بلکہ اپنے کا مل دلی مقصد اور مدعا کو پا لیتا ہے۔

درحقیقت تعصب کو ایک طرف رکھ کر اگر دیکھا جا ئے تو آپ کی یہ صفت ایک ایسی حکیمانہ صفت تھی کہ اس پر جس قدر غور کیا جائے اس کے فوائد زیادہ رو شن ہو تے جاتے ہیں۔ایک ہی نسخہ ہو تا ہے جسے طبیب بھی بتاتا ہے اور ایک بڑھیا بھی بتاتی ہے لیکن وہ طبیب تو حکمت کی بناء پراسے تجویز کر تا ہے اور بڑھیا صرف اس وجہ سے کہ اس کے کسی رشتہ دار کو کبھی اس سے فا ئدہ پہنچا تھا۔یہی فرق رو حانیت کے مدارج میں بھی ہوتا ہے۔بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے را ستہ میں کوشش کر تے ہیںمگر ان کے افعال کی بناء جہالت پر ہو تی ہے اور وہ حکمت سے کام نہیں لیتے مگر رسول کریمﷺ کے تمام کاموں کی بناء علم پر تھی۔آپؐ خوب جانتے تھے کہ کسی چیز سے اپنی طاقت سے زیادہ کام لینے کے یہ معنے ہیں کہ اسے ہمیشہ کے لیے کام سے معطل کر دیا جائے۔اس لیے آپ اپنے قویٰ کوبرمحل اور برموقع استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ سب مقابلہ کر نے والوں سے آگے نکل گئے اور کو ئی انسان ایسا پیدا نہیں ہوا جو آپؐ سے آگے نکلنا تو کجا آپ کی برابری بھی کر سکے۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیدٌ مّجِیْدٌ۔

وقار

وقارایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں عالی حوصلگی ،حلم اور بڑا ئی،چونکہ لوگ عام طور پر اس لفظ کو استعمال کر تے ہوئے اس کے معانی سے ناواقف ہو تے ہیں اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے معنے کردوں تا کہ ناظرین کو معلوم ہو جا ئے کہ جب میں وقار کا لفظ استعمال کر تا ہوں تو اس سے میری مراد کیا ہو تی ہے۔چونکہ عام طور سے یہ لفظ اردو میں عزت کے معنے میں استعمال ہو نے لگا ہے اور عام لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑے وقار والا ہے اور اس سے ان کی مراد یہ ہو تی ہے کہ بڑی عزت والا ہے یا معزز ہے لیکن دراصل اس لفظ سے گو بڑائی اور عزت کے معنی نکلتے ہیں لیکن اس سے مراد نفس کی بڑا ئی ہوتی ہے یعنی جس شخص میں چھچھورا پن،کمینگی اور ہلکا پن نہ ہو۔ذرا ذرا سی بات پر چڑ نہ جائے لو گوں کی با تیں سن کر ان پر حوصلہ نہ ہار دے۔مخالف کی باتوں کو ایک حد تک برداشت کر نے کی طا قت رکھتا ہو۔اسے صاحب وقار کہیں گے۔اور جو رذیل لوگوں کی صحبت میں رہتا ہو،چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑ جا تا ہو،ذرا ذرا سی تکلیف پر گھبرا جا تا ہو،چھوٹے چھوٹے مصائب پر ہمت ہار بیٹھتا ہو وہ صاحب وقار نہیں ہو گا۔خواہ اس کے پاس کتنی ہی دولت ہو اور کیسے ہی عظیم الشان عہدہ پر مقرر ہو۔پس گو وقار کے معنوں میں عظمت اور بڑا ئی بھی ہے مگر میری اس جگہ وقار سے وہی مراد ہے جو میں نے پہلے بیان کر دی ہے۔

آنحضرت ﷺ کو جو عہدہ اور شان اللہ تعالیٰ نے عطا فر ما ئی تھی وہ دنیا وی بادشاہوں سےکسی صورت میں کم نہ تھی اور گو آپ خود اپنے زہد وتقویٰ کی وجہ سے اپنی عظمت کا اظہار نہ کر تے ہوں لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ آپؐ ایک بادشاہ تھے اور تمام عرب آپؐ کے ماتحت ہو گیا تھا اور اگر آپؐ ان سب طریقوں کو اختیار کر لیتےجو اس وقت کے بادشاہوں میں مروّج تھے تو دنیاوی نقطۂ خیال سے آپؐ پر کوئی الزام قائم نہیں ہو سکتا تھا اور آپؐ دنیاوی حکومتوں کی نظر میں بالکل حق بجانب ہو تے لیکن آپؐ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے نہ تھی جو شہروں اور ملکوں پر حکومت کے نام سے مشہور ہے بلکہ دراصل آپؐ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے تھی جو آپؐ کو اپنے دل پر حاصل تھی۔جو آپؐ کو دوسرے لوگوں کے دلوں پر حاصل تھی۔آپ نے باوجود بادشاہ ہو نے کے اس طریق کو اختیار نہ کیا جس پر بادشاہ چلتے ہیں اور اپنی عظمت کے اظہار کے لیے وہ نمائشیں نہ کیںجو سلطان کیا کرتے ہیں کیونکہ آپؐ نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے اور بادشاہ ہو کر جو معاملہ آپؐ نے متبعین سے کیا وہ اس بات کے ثابت کر نے کے لیے کا فی ہے کہ آپؐ کا نفس کیسا پاک تھا اور ہر قسم کے بد اثرات سے کیسا منزّہتھا۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button