ادبیات

درّثمین اردوکی چھٹی نظم حمدِ ربّ العالمین (حصہ دوم آخر)

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

اس نظم کےشعر نمبر دس،گیارہ اور بارہ فنّی خوبیوں کی اچھوتی مثال ہیں:

چشمِ مستِ ہرحسیں ہردم دکھاتی ہے تجھے

ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا

آنکھ کے اندھوں کو حائل ہوگئے سَو سَو حجاب

ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافرو دیندار کا

ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اِک تیغِ تیز

جن سےکٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اغیار کا

ان تینوں اشعار میں دیکھنے یا دکھانے کا ذکر ہے ۔ تینوں اشعار میں فاعل مختلف ہیں۔ بالترتیب چشم، آنکھ اور نگاہیں تین مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اسی طرح ‘دکھانا’، ‘حجاب حائل ہونا ’اور‘تیغِ تیز’یعنی دیکھنے یا دکھانے سے متعلق فعل، محاورہ اور ترکیب، ترتیب سے تینوں اشعار میں آرہے ہیں۔ دسویں شعر کا دوسرا مصرعہ ‘‘ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا’’ خصوصی طور پرتوجہ طلب ہے۔ اس مصرعے میں حضورؑ نے مظاہرِ قدرت کے خداتعالیٰ ہی کی طرف رہ نمائی کرنے کے مضمون کو آگے بڑھایا ہے۔ کلام کی خوبی یہ ہے کہ جس طرح کسی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے ،بالعموم ہاتھ کو تھوڑا سا موڑا جاتا ہے۔اُسی مناسبت سے‘گیسوئے خمدار’یعنی بَل کھاتے ہوئے بال کی دل کش ترکیب استعمال فرمائی ہے۔ پھر یہ کہ زلف یا گیسو کا ہاتھ نہیں ہوتا تو یوں اس میں تجسیم کی خوبی نظر آتی ہے۔

تجسیم یا Personificationکا مطلب ہے کہ غیر مرئی حقائق ، جبلات یا عادات وغیرہ کو، مادی جسم میں ڈھال کر پیش کیا جائے۔(انور جمال، پروفیسر، ادبی اصطلاحات، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد،2016ء)

شکیب جلالیؔ کا شعر دیکھیے:

تعریف کیا ہو قامتِ دل دار کی شکیبؔ

تجسیم کردیا ہے کسی نے الاپ کو

لغت کے حوالے سے پہلے شعر میں لفظ ‘آئینہ’ ہے۔ اس فارسی اسم مذکر کی نسبت ‘فرہنگِ آصفیہ’نے یہ دل چسپ بات بیان کی ہے کہ پہلے پہل آئینہ چونکہ لوہے سے بنایا گیا تھا اس سبب سے اسے آہنہ کہتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ ہائے ہوّز کو حسبِ قاعدہ یائے تحتائی یا ہمزۂ ملینہ سے بدل کر آئینہ کردیا گیا۔

نویں شعر میں لفظ ‘ملاحت’ ہے۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر) میں اس لفظ کے معنی نمکینی اور سلون پن کے علاوہ چہرے کے سانولے پن کے حُسن یا خوب صورتی کے بھی بیان ہوئے ہیں۔ مثال میں درج ذیل دو اشعار دیے گئے ہیں:

صباحت میں دے توں ملاحت کا آب

رکھیا حسن کے تیغ کا جگ پہ داب

(علی نامہ)

نہ ہوئے کیوں شور دل کی بانسلی میں

ملاحت کا سلونا کان پہنچا

(کلیاتِ سراج)

درج ذیل دو مصرعے دیکھیے:

‘‘کیا عجب تُونے ہر اِک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص’’

اور

‘‘شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر’’

ان دونوں مصرعوں میں علمِ صرف کا قاعدہ ‘امالہ’ لاگو ہوگا۔ یعنی لفظ‘ذرّہ’اور‘کُوچہ’دونوں کے بعد کیوں کہ (حرفِ جار)‘میں’آرہا ہے اس لیے ‘ذرّہ’ اور‘کُوچہ’دونوں الفاظ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوّز(ہ)کو یائے مجہول (ے)سے بدل دیا جائے گا۔ گویا درست ادائیگی کچھ یوں ہوگی کہ

کیا عجب تُونے ہر اِک ‘ذرّے ’ میں رکھے ہیں خواص

اور

شور کیسا ہے ترے ’کُوچے‘ میں لے جلدی خبر

تلفّظ کے حوالے سے پہلے شعر میں لفظ ‘قَدَر’ہے۔ یہ لفظ مقدار یا اندازہ ظاہر کرنےکےلیےاستعمال ہوتا ہے۔ اس کے بالمقابل لفظ ‘قَدْر’یعنی دال ساکن کے ساتھ عزت، بزرگی، مرتبہ یا رتبہ جیسے معنوں میں مستعمل ہے۔ حضورؑ کا مصرعہ ہے:

’’قَدْر کیا پتھر کی لعلِ بےبہا کے سامنے‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button