ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 10)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

اخلاق سے کیا مراد ہے

’’اب سوچنا چاہیے کہ وہ کونسی باتیں ہیں جو مانگنی چاہئیں۔اول اخلاق ۔جو انسان کو انسان بناتا ہے ۔اخلاق سے کوئی صرف نرمی کرنا ہی مراد نہ لے لے ۔خُلق اور خَلق دو لفظ ہیں ۔جو بالمقابل معنوں پر دلالت کرتے ہیں ۔خَلق ظاہری پیدائش کا نام ہے ۔جیسے کان ،ناک ۔یہاں تک کہ بال وغیرہ بھی سب خَلق میں شامل ہیں ۔اورخُلق باطنی پیدائش کا نام ہے ۔ایسا ہی باطنی قویٰ جو انسان اور غیر انسان میں مابہ الا متیاز ہیں ۔وہ سب خُلق میں داخل ہیں ۔یہاں تک کہ عقل فکر وغیرہ تمام قوتیں خُلق ہی میں داخل ہیں ۔خُلق سے انسان اپنی انسانیت کو درست کرتاہے۔اگر انسانوں کے فرائض نہ ہوں تو فرض کرنا پڑے گا کہ آدمی ہے ؟گدھا ہے ؟یا کیا ہے ؟جب خُلق میں فرق آجاوے تو صورت ہی رہتی ہے ۔مثلاً عقل ماری جاوے تو مجنون کہلاتا ہے ۔صرف ظاہری صورت سے ہی انسان کہلاتاہے ۔پس اخلاق سے مراد خدا تعالیٰ کی رضا جوئی (جو رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی میں مجسم نظر آتا ہے )کا حصول ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺکے طرز زندگی کے موافق اپنی زندگی بنانے کی کوشش کرے یہ اخلاق بطور بنیاد کے ہیں اگر وہ متزلزل رہے تو اس پر عمارت نہیں بنا سکتے ۔ اخلاق ایک اینٹ پر دوسری اینٹ کا رکھنا ہےاگر ایک اینٹ ٹیڑھی ہو ۔تو ساری دیوار ٹیڑھی رہتی ہےکسی نے کیا اچھا کہا ہے۔؂

خشتِ اول چوں نہد معمار کَج
تا ثریا مے رود دیوار کَج‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ 132)

*۔اس میں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ شعر استعمال کیا ہے ۔

خِشْتِ اَوّل چُوْں نِہَدْ مِعْمَارْ کَجْ
تَاثُرَیَّا مِے رَوَدْ دِیْوَارکَجْ

ترجمہ:۔ جب معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے تو وہ دیوا ر آسمان تک ٹیڑھی ہی اٹھے گی

صائب تبریزی جن کا پورا نام میرزا محمد علی صائب تبریزی جو صائب اصفھانی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیںکا ایک شعر ہے جو درج بالا شعر سے الفاظ میں تھوڑا مختلف ہے لیکن مطلب وہی ہے ۔اور یہ شعر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔

چُوْن گُذَارَدْ خِشْتِ اَوَّلْ بَرْزَمِیْن مِعْمَارْ کَجْ
گَرْ رَسَانَد ْبَرْفَلَکْ، بَاشَدْھَمَانْ دِیْوَار کَجْ

ترجمہ :۔ اگر معمار زمین پر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دے اور پھر اس پر آسمان تک اونچی دیوار کھڑی کرے تو وہ دیوار ٹیڑھی ہی بنے گی۔ایک اور مقام پریہ شعر اس طرح بھی آیا ہے جس میں ’’چوں‘‘ کی جگہ ’’گر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر تحریر کیا جاچکا ہے۔

خِشْتِ اَوَّل گَرْنِھَدْ مِعْمَارکَجْ
تَاثُریّا مِیْ رَوَدْ دِیْوَارکَجْ

…………………………………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button