الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم ڈاکٹر عبد السلام صاحب
میرے استاد، ہم منصب اور دوست

یونیورسٹی آف تسمانیہ (آسٹریلیا) میں تھیوریٹیکل فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ ڈیل بورگو (Robert Dellbourgo) نے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارہ میں (اُن کی پہلی برسی کے موقع پر) 1997ء میں جو تقریر کی اس کا اردو ترجمہ مکرم زکریا ورک صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان مارچ 2011ء میں شامل اشاعت ہے۔

ڈاکٹر رابرٹ نے ڈاکٹر عبدالسلام کی زیرنگرانی امپیریل کالج سے .Ph.Dکی ڈگری حاصل کی، 1964ء میں ICTP میں ملازمت شروع کی، 1966ء میں امپیریل کالج میں لیکچرار بنے اور 1976ء میں واپس آسٹریلیا چلے گئے۔ ڈاکٹر سلام کے ساتھ مل کر انہوں نے قریباً تیس سائنسی مقالے لکھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ڈاکٹر سلام نے میری زندگی میں مختلف رول ادا کیے۔ بطور استاد، پھر .Ph.D کے سپروائزر، پھر ICTP میں بطور Boss اور پھر ایک ہم منصب اور نہایت قریبی دوست۔

بطور استاد وہ لیکچر دینے سے لطف محسوس نہیں کرتے تھے لیکن اُن کی کمرتوڑ رفتار کے باوجود مَیں نے اُن کو سب سے زیادہ انسپائر کرنے والا استاد پایا۔ وہ شاگردوں کے ساتھگھل مِل جاتے تھے۔ آپ فطری طور پر طالب علموں کے لیے انسپائریشن کا منبع تھے۔ پوسٹ گریجوایٹ طلباء کی ایک تہائی تعداد آپ کی وجہ سے امپیریل کالج میں تعلیم حاصل کرنے آیا کرتی تھی۔ لیکن آپ کام لینے کے معاملہ میں سخت گیر تھے اور بہت کم طالب علم آپ کی کڑی نگاہوں سے بچ کر چھپے رہ سکتے تھے۔ آپ کا زرخیز دماغ کسی سائنسی مسئلے کے نئے پہلو کی تلاش میں رہتا۔ حسب معمول وہ روزانہ میرے کمرے میں تشریف لاتے، ہاتھو ں کو آپس میں رگڑتے اور استفسار کرتے کہ کیا مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے؟ کسی مسئلے پر آپ اُن کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے ہمّت باندھتے تو خود آپ کو سو فیصد مطمئن ہونا لازمی تھا۔ کیونکہ ڈاکٹر سلام کو مسئلے کا جواب وہبی طور پر معلوم ہوتا تھا اور اکثر اُن کا جواب درست ہوتا تھا۔ اگر آپ اُن سے پوچھتے کہ وہ اپنے جواب سے کیوں اس قدر پُریقین تھے تو اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی، ہاتھ کے انگوٹھوں کو دائرے میں گھماتے، کرسی میں پیچھے ہوکر نیم دراز ہوجاتے اور انگلی آسمان کی طرف اٹھاکر اشارہ کردیتے۔ اور اگر ایسا ہوتا کہ دوسرا میدان نہ ہارتا اور کسی موقع پر صحیح بھی ہوتا تو وہ آپ کا احترام کرتے ۔ لیکن وہ کسی بھی شخص کو اپنی علمیت پر شیخی بگھارتے ہوئے برداشت نہیں کرسکتے تھے۔

اٹلی میں انٹرنیشنل سینٹر کا آغاز سوشل سیکورٹی بلڈنگ کی عمارت کی دو بالائی منزلوں میں ہوا تھا۔ لیکن وہ مصمّم ارادہ کرچکے تھے کہ اُن کے تھیوریٹیکل فزکس کے کامیاب مرکز کا وژن ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ اس وقت یہ شہر کے مرکز میں ایک عالیشان عمارت ہے۔ سینٹر کو مالی طور پر مقروض ہونے سے بچانے اور تعلیمی ادارے کے طور پر زندہ رکھنے کے لیے اُن پر شدید دباؤ تھا۔ سینٹر کو سپورٹ کرنے کے لیے سیاست دانوں کو شرم دلانے یا اُن کی منت سماجت کرنے کے لیے شدید دباؤ تھا اور اس میں آپ کا اتنا وقت اور توانائی ضائع ہوجاتی کہ تحقیق کے لیے وقت نہیں رہتا تھا جو آپ کی ترجیحاً سچی چاہت تھی۔ اُن دنوں یہ سینٹر پُرسکون تعلیمی جگہ تھی، اس کا مورال بہت اونچا تھا جو کہ اب بھی اسی طرح قائم ہے اگرچہ یہ ادارہ اب بہت وسعت اختیار کرچکا ہے۔ ڈاکٹر سلام کی فعال زندگی اُن کو زمین کے ہر کونے میں لے جاتی تاکہ وہ سینٹر کے لیے سپورٹ حاصل کرسکیں اور اکثر وہ اس کوشش میں کامیاب رہتے۔

ڈاکٹر عبدالسلام ایک قابل تقلید ڈائریکٹر تھے جو سینٹر میں کام کرنے والے ہر فرد سے شناسائی حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے، نئے ملازمین کا استقبال کرتے اور ہر ایک کے ساتھ گھل مل جاتے۔ قریبی ریستورانوں میں سے کسی ایک میں کھانا کھاتے، مچھلی کے کباب کھانا مرغوب تھا۔ کھانے کے بعد کام پر واپس جانے کی جلدی ہوتی۔ اگر ویٹر بِل لانے میں دیر کرتا تو آپ رقم اداکیے بغیر روانہ ہونے لگتے تو پھر ویٹر کی پھرتی کے ساتھ بِل لکھنے میں شتابی قابلِ دید ہوتی۔

سینٹر قائم ہونے کے پہلے دو تین سال ، جب تک سینٹر کی کامیابی یقینی نہیں ہوگئی، سلام کی صحت اور اعصاب پر اس کا منفی اثر مرتب ہوا۔ لیکن اس دوران اُن کی ریسرچ کا کام سبک رفتاری سے جاری رہا۔ اُن کی جسمانی طاقت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 1968ء میں اُن کو اچانک اپنڈکس ہوگیا۔ سرجری کے لیے ہسپتال میں داخل ہوئے۔ آپریشن کے محض دو روز بعد ملاقات کے لیے آنے والوں سے وہ فزکس کے مسائل پر جوش و خروش کے ساتھ گفتگو کررہے تھے۔

میرے تسمانیہ واپس جانے کے بعد کچھ عرصہ سلام کے ساتھ میرا تعلق برقرار رہا۔ انہوں نے ہمیشہ میری فیملی کے بارہ میں سچی دلچسپی کا اظہار کیا جس طرح وہ دوسروں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے میری زندگی کو کئی نازک مرحلوں پر اتنی گہرائی میں متأثر کیا کہ مَیں اُن کی کمی بہت زیادہ محسوس کرتا ہوں۔ اُن کی بے محابا نوازشات، نئی نئی تعلیمی مہمّات، اُن کی سخاوت، بے مثل دوستی اور پھر انسانیت نوازی!۔

……٭……٭……٭……٭……

محترم چودھری محمد صدیق صاحب

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ فروری2011ء میں محترم چودھری محمد صدیق صاحب (سابق انچارج خلافت لائبریری ربوہ) کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں محترم چودھری صاحب کی خودنوشت سوانح 21؍مئی 1999ء کے شمارہ میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بنائی جاچکی ہے۔

آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ہمارے سلسلے کے ایک پرانے بزرگ مکرم چودھری محمد صدیق صاحب واقفِ زندگی تھے۔ 1915ء میں پیدا ہوئے۔ 1906ء میں ان کے والد نے بیعت کی تھی۔ ان کی والدہ کی تو اس سے پہلے کی بیعت تھی۔ 1935ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کیا اور تیسری پوزیشن لی۔ اس کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔ اور 1938ء میں وہاں سے فارغ ہو کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں وقف کی درخواست دی۔ پھر 1960ء میں انہوں نے پرائیویٹ بی۔اے کیا اور لائبریری سائنس کا ڈپلومہ لیا۔ 1964ء میں تعلیم الاسلام کالج میں عربی کی کلاسیں شروع ہوئیں تو پھر ایم۔اے عربی کے پہلے Batch میں یہ شامل تھے۔ اور عربی میں پوری یونیورسٹی میں انہوں نے پہلی پوزیشن لی۔ 1931ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جو احمدیہ کور قائم کی اس کے بھی آپ ممبر تھے۔ اور 1934ء میں نیشنل لیگ کے قیام پر آپ بھی اس میں شامل تھے۔ 1938ء میں خدام الاحمدیہ کے ابتدائی ممبران میں شامل ہوئے اور معتمد خدام الاحمدیہ مرکزیہ، ایڈیٹر خالد اور قائمقام صدر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ 1947ء میں ہجرت کے موقع پر حضرت امّاں جان اور حضرت مسیح موعودؑ کی باقی اولاد کے ساتھ ہی یہ قافلے کو لے کر آئے۔ 1948ء میں فرقان بٹالین میں شرکت کی۔ اور 1948ء میںربوہ کی سرزمین پر جو خیمے گاڑے گئے تھے ان کا انتظام بھی آپ کے ذمے تھا اور پہلی رات آپ کو ربوہ میں بسر کرنے کی توفیق ملی۔ یہ اور عبدالسلام اختر صاحب خیمے اور چھولداریاں سائبان وغیرہ لے کر ربوہ گئے تھے ۔ سیلاب کی وجہ سے راستے کٹے ہوئے تھے ایک لمبے راستے سے ان کو آنا پڑا۔ اس زمانے میں تعلیم الاسلام سکول عارضی طور پرچنیوٹ میں ہوتا تھا ۔ اور اس کے ہیڈ ماسٹر سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے۔ان کو انہوں نے کہا کہ ہم نے رات وہاں رہنا ہے تو لڑکوں کے ہاتھ کچھ لالٹین بھجوا دیں تا کہ روشنی ہوتی رہے۔جب ربوہ پہنچے ہیں تو اس وقت سورج ڈوب رہا تھا۔ انہوں نے ربوہ کی زمین کے وسط کا اندازہ لگایا اور پھروہاں خیمے لگائے۔ بنجر اور بیابان جگہ تھی۔ جو چند لوکل ،مقامی راہگیر وہاں سے گزرا کرتے تھے، وہ بڑے حیران کہ اس جگہ یہ دو آدمی بیٹھ کے کیا کر رہے ہیں ؟ سامان لانے والے ٹرک رخصت ہوگئے تو یہ دونوں وہاںبیٹھ کر دعائیں کرنے اور نظمیں سنانے لگے۔ پھر دُور سے روشنی نظر آنے لگی۔ یہ سکول کے بچے تھے جو چھ میل کے فاصلے سے لالٹین لے کے آ رہے تھے۔ اس کے بعد رات کو احمد نگر سے ان کو کھانا آیا تو اس طرح انہوں نے یہ پہلی رات ربوہ میں بسر کی۔ اسی طرح ان کے بہت سے تاریخی کام ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1940ء میں علماء کی کمی پوری کرنے کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنے کی خاطر مختلف مضامین میں غیر از جماعت جید علماء سے تدریس کا پروگرام بنایا تو اس میں بھی یہ شامل تھے۔ لائبریرین کے طور پر یہ ریٹائر ہوئے۔ تحریکِ جدید کے ممبر تھے۔ صدر انجمن احمدیہ کے ابتدائی ممبروں میں سے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد جو انجمن بنی ہے اس کے بھی ممبروں میں سے تھے۔ ربوہ کے صدر عمومی رہے۔

حضورانور نے فرمایا کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ مرتبے کے بزرگ تھے، عمر بڑی تھی۔ بہت فرق ہے میرا اور ان کی عمر کا۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہائی عاجزی سے ہر ایک کو ملنے والے اور وفادار کارکن تھے۔ جہاں سختی اور دھڑلے کی ضرورت ہوتی تھی وہاں اس سے بھی کام لیتے تھے۔ لیکن بہر حال اچھی انتظامی صلاحیت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

آپ کی اہلیہ محترمہ صفیہ ثاقب صاحبہ بنت مکرم حکیم محمد جمیل صاحب آف راولپنڈی 1997ء میں وفات پاگئی تھیں۔ آپ کی اولاد میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ایک بیٹے مکرم رشید احمد صاحب نظارت زراعت ربوہ میں کارکن ہیں جبکہ ایک بیٹی مکرمہ نعیمہ حمید صاحبہ سابقہ ہیڈمسٹریس نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ (محاسبہ لجنہ اماء اللہ پاکستان) اور دوسری بیٹی مکرمہ سلیمہ قمر صاحبہ دفتر مصباح کی کارکن ہیں۔ حضرت مولوی محمد شریف صاحب سابق مبلغ گیمبیا و فلسطین آپ کے بڑے بھائی تھے۔

……٭……٭……٭……٭……

نماز کے بعد کی دعائیں اور تسبیحات

قرآن کریم میں آتا ہے: اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (سورۃالجمعہ:11)

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ نومبر2011ء میں مکرم صوبیدار محمدرفیق صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں نماز کے بعد کی جانے والی دعاؤں اور تسبیحات کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

نمازوں کے بعد ذکر اور تسبیح کرنے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ انسان چونکہ کمزور ہوتا ہے اور بعض اوقات اپنی کمزوریوں اور سستیوں کی وجہ سے نماز کو کبھی وقت سے بے وقت، کبھی بے توجہی سے پڑھتا ہے اور کبھی نمازوں میں اس کا خیال کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے۔ اس واسطے حکم ہے نماز کا سلام پھیرنے کے ساتھ ہی معاً استغفار پڑھ کر اپنی کمزوریوں اوراگر نماز میں کوئی نقص رہ گیا ہے تو اس کی تلافی خدا سے چاہے اور آئندہ کے واسطے بطریق احسن عبادت کرنے کی توفیق چاہے۔

حضرت مسیح موعودؑ سے جب کسی شخص نے تسبیح گِن کر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپؑ نے فرمایا کہ گنتی پوری کرنے والا توجہ کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو خدا تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گِن کر لیا کرتا ہے!؟

اسی طرح ایک صاحب کی طرف سے نماز کے بعد 33 بار اللہ اکبر وغیرہ پڑھے جانے کے متعلق دریافت کرنے پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا۔ 33 مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذّت سے یاد کرتا ہے اُسے شمار سے کیا کام!۔ جب تک ذکرِ الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذّت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے، حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت ﷺ نے جو 33 بار فرمایا وہ زمانی اور شخصی بات ہوگی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگاتو آپؐ نے اسے فرمادیا۔ جو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں، یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔

……٭……٭……٭……٭……

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button