کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے

’’ نماز کا پڑھنا اور وضو کا کرنا طبی فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ اطباء کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آ جاتی ہے اور یہ نزول الماء کا مقدمہ ہے اور بہت سی بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں۔پھربتائوکہ وضو کرتے ہوئے کیوں موت آتی ہے؟بظاہر کیسی عمدہ بات ہے۔منہ میں پانی ڈال کر کلّی کرنا ہوتا ہے۔ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو دُور ہوتی ہے۔ دانت مضبوط ہوجاتے اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چبانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتی ہے۔ پھرناک صاف کرنا ہوتا ہے۔ ناک میں کوئی بدبُو داخل ہو تو دماغ کو پراگندہ کر دیتی ہے۔ اب بتلائو کہ اس میں بُرائی کیاہے۔ اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے اور اس کو اپنے مطالب عرض کرنے کا موقع ملتا ہے۔ دُعا کرنے کے لیے فرصت ہوتی ہے ۔زیادہ سے زیادہ نمازمیں ایک گھنٹہ لگ جاتاہے ۔اگرچہ بعض نمازیں تو پندرہ منٹ سے بھی کم میں ادا ہو جاتی ہیں ۔ پھر بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے جس میں اس قدر بھلائیاں اور فائدے ہیں۔ اور اگر سارا دن اور ساری رات لغو اور فضول باتوں یاکھیل اور تماشوں میں ضائع کردیں تو اس کا نام مصروفیت رکھاجاتاہے ۔ اگر قوی ایمان ہوتا ،قوی تو ایک طر ف اگر ایمان ہی ہوتا تو یہ حالت کیوں ہوتی اور یہاںتک نوبت کیوں پہنچتی‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 407۔ایڈیشن2003ء مطبوعہ ربوہ)

’’مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سست اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اوربڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے۔ پھر شہروں اور گائوں میں تو اور بھی سستی اور غفلت ہوتی ہے۔ سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اورسچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتا۔ پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ان کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوںنے اس مزہ کو چکھااورمذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں۔کبھی ایسا ہوتاہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتاہے پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے ،گویا ا ُن کے دل دُکھتے ہیں۔یہ لوگ بہت ہی قابل رحم ہیں۔ بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دکانیںدیکھو تو مسجدوں کے نیچے ہیں مگر کبھی جا کر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے۔ پس مَیں یہ کہنا چاہتا ہوںکہ خداتعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے۔ کھایا ہوا یاد رہتا ہے۔ دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت بہ اعتبار اس کے مجسم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہوتو کچھ یاد نہیں رہتا۔ اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اٹھ کر سردی میں وضو کرکے خوابِ راحت چھوڑ کر، کئی قسم کی آسائشوں کو کھوکر پڑھنی پڑتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیںسکتا۔اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 104-103۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button