از افاضاتِ خلفائے احمدیت

بعض ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے ایک اَور عالمی جنگ کے آثار دنیا کے اُفق پر نمودار ہو رہے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی امن اور ہم آہنگی کے قیام کی کوشش میں سب لوگ ایک دوسرے کا اور تمام مذاہب کا احترام قائم کریں بصورت دیگر خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔

دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ لہٰذا باہمی احترام کے فقدان اور امن کے فروغ کے لیے باہمی اتحاد پیدا نہ ہونے کی صورت میں صرف مقامی آبادی یا شہریا کسی ایک ملک کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ در حقیقت یہ تمام دنیا کی تباہی پر منتج ہوگا۔ ہم سبھی پچھلی دو عالمی جنگوں کی ہولناک تباہیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بعض ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے ایک اَور عالمی جنگ کے آثار دنیا کے اُفق پر نمودار ہو رہے ہیں۔ اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو مغربی دنیا بھی اس کے دیر تک رہنے والے تباہ کن نتائج سے متأثر ہو گی۔ آئیں خود کو اس تباہی سے بچا لیں۔ آئیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو جنگ کے مہلک اور تباہ کن نتائج سے محفوظ کر لیں کیونکہ یہ مہلک جنگ ایٹمی جنگ ہی ہو گی اور دنیا جس طرف جا رہی ہے اس میں یقینی طور پر ایک ایسی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے۔ اِن ہولناک نتائج سے بچنے کے لیے انصاف، دیانتداری اور ایمانداری کو اپنانا ہو گا اور وہ طبقے جو نفرتوں کو ہوا دے کر امنِ عالم کو تباہ کرنے کے درپے ہیں ان کے خلاف متحد ہو کر اُنہیں روکنا ہو گا۔

میری خواہش اور دلی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑی طاقتوں کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں اور فرائض انتہائی منصفانہ اور درست طریق پر نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(خطاب فرمودہ 11جون 2013ء بمقام پارلیمنٹ ہاؤس لندن)

ایک اور موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بلاشبہ آج دنیا کے حالات انتہائی خطرناک ہو چکے ہیں اور ساری دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ اگرچہ کچھ بڑے تنازعات عرب دنیا میں ظاہرہو رہے ہیں لیکن فی الحقیقت ہر ذی شعور اور عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ تنازعات محض اس علاقہ تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی حکومت اور اس کی عوام کے مابین تنازعہ ایک وسیع عالمی تنازعہ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔…یہ صورت حال صرف مسلمان ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی انتہائی خطرہ کی گھنٹی ہے۔

ہمیں گزشتہ صدی میں ہونے والی دو عالمگیر جنگوں کا دل دہلا دینے والا تجربہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ خصوصاً دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی تباہی فقید المثال ہے۔ محض روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے ہی گنجان آباد ہنستے بستے قصبے اور شہر مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور کھنڈر بنا دیے گئے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم میں دنیا نے مکمل بربادی والا وہ واقعہ دیکھا جب جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کیا گیا جس نے ایسی تباہی مچائی کہ سننے والا آج بھی کانپ اُٹھتا ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے عجائب گھر اس خوف اور دہشت کی یاد تازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اگر ہم ایٹمی جنگ کا تصور کریں تو جو تصویر ابھرتی ہے وہ انسان کو ہلاکر رکھ دینے کے لیے کافی ہے۔ آج جو ایٹم بم چھوٹے ممالک کے پاس ہیں وہ شاید دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے بموں سے کہیں زیادہ طاقت وَر ہیں۔ پس یہ بے یقینی اور تنازعات کا ماحول ان لوگوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو دنیا میں قیام امن کے خواہاں ہیں۔

آج دنیا کی الم ناک صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو لوگ قیام امن کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنی اَنا کا شکار ہو کر فخر اور تکبر کے لبادہ میں ملبوس ہیں اور اپنی برتری اور طاقت ثابت کرنے کے لیے ہر طاقت وَر حکومت ہر ممکن قدم اُٹھانے پر کمربستہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں دیر پا قیام امن اور مستقبل میں ایسی جنگوں کی روک تھام کے لیے دنیا نے باہمی افہام و تفہیم سے ‘‘اقوامِ متحدہ’’ کی بنیاد رکھی تھی لیکن ایسا لگتا ہے جیسے لیگ آف نیشنز کی طرح اَقوامِ متحدہ بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو کر اپنا مقام و مرتبہ کھو رہی ہے۔ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو پھر امن کے لیے خواہ جتنی چاہے تنظیمیں بنا لی جائیں ان کی کوششیں ناکام ثابت ہوں گی۔

مَیں نے ابھی لیگ آف نیشنز کی ناکامی کا ذکر کیا ہے۔ یہ تنظیم پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم کی گئی تھی جس کا واحد مقصد دنیا میں امن کا قیام تھا لیکن یہ دوسری جنگ عظیم کو نہ روک سکی جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ تباہی ہوئی…۔

(خطاب فرمودہ 4؍نومبر 2013ء بمقام نیشنل پارلیمنٹ ویلنگٹن، نیوزی لینڈ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button