سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

قرآن مجید کے لیے غیرت

پھر ایک اَور جگہ آپؑ فرماتے ہیں :

’’انبیاء علیہم السلام طبیب رُوحانی ہوتے ہیں اِس لیے روحانی طور پر ان کے کامل طبیب ہونے کی یہی نشانی ہے کہ جو نسخہ وہ دیتے ہیں یعنی خدا کا کلام۔وہ ایسا تیر بہدف ہوتا ہے کہ جو شخص بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اس نسخہ کو استعمال کرے وہ شفا پا جاتا ہے اور گناہوں کی مرض دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ جاتی ہے اور اس کی محبت میں دل محو ہو جاتا ہے۔‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 135)

نیز آپؑ فرماتے ہیں :

’’پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اَور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔‘‘

(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259)

نیز فرمایا:

’’اس نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہےاور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے۔لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے۔ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں ۔

اور خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اس سے باتیں کر کے اس کے اصل دعویٰ اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے۔یہ ایک بڑی بات ہے جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفّارہ اور تثلیث اور ابنیّت ہے ایسے متنفر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افترا جو ان پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے۔یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیّت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی لے سکتا ہے۔کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے۔‘‘

(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 272، 273)

ایک اَور جگہ آپؑ رقمطراز ہیں :

’’اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کاآفتاب اور جناب الٰہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچی محبت رکھتے ہیں اور اُس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے۔‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 26)

فرمایا:

’’ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہماری قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں ۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 119)

ایک اَور جگہ آپؑ نے فرمایا:

’’ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالےٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لیے ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان سے ایمان لائے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے صدہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے۔پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اوّلین آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سزا لعنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الٰہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں قرآن نے ہمیں اس گستاخ اور بدزبان یسوع کی خبر نہیں دی اس شخص کی چال چلن پر ہمیں نہایت حیرت ہے جس نے خدا پر مرنا جائز رکھا اور آپ خدائی کا دعویٰ کیااور ایسے پاکوں کو جو ہزارہا درجہ اس سے بہتر تھے گالیاں دیں ۔سو ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں ۔‘‘

(نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 374، 375)

’’ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی۔انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں ۔‘‘

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 292 حاشیہ)

’’اگرگذشتہ زمانہ میں اس کی نظیر دیکھی جائے تو پھر یوسفؑ صدیق ہے۔جس نے ایساصدق دکھایا کہ یوسفؑ صدیق کہلایا۔ایک خوبصورت، معزز اور جوان عورت جو بڑے بڑے دعوے کرتی ہے۔عین تنہائی اور تخلیہ میں ارتکابِ فعل بدچاہتی ہے، لیکن آفرین ہے اس صدیقؑپر کہ خداتعالیٰ کے حدود کو توڑنا پسند نہ کیااور اس کے بالمقابل ہر قسم کی آفت اور دُکھ اُٹھانے کو آمادہ ہوگیا۔یہاں تک کہ قیدی کی زندگی بسر کرنی منظور کرلی۔چنانچہ کہا رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِیْ إِلَیْہِ (یوسف:34) یعنی یوسفؑ نے دعا کی۔کہ اے رب مجھ کو قید پسند ہے اس بات سے جس کی طرف وہ مجھے بلاتی ہے۔اس سے حضرت یوسف ؑکی پاک فطرت اور غیرت نبوت کا کیساپتہ لگتا ہے کہ دوسرے امر کا ذکر تک نہیں کیا۔کیا مطلب کہ اُس کا نام نہیں لیا۔یوسفؑ اللہ تعالیٰ کے حُسن واحسان کے گرویدہ اور عاشقِ زار تھے۔اُن کی نظر میں اپنے محبوب کے سوا دوسری کوئی بات جچ نہ سکتی تھی۔وُہ ہرگز پسند نہ کرتے تھے کہ حدُود اللہ کو توڑیں ۔

کہتے ہیں کہ ایک لمبا زمانہ جو بارہ برس کے قریب بتایاجاتا ہے، وہ جیل میں رہے۔لیکن اس عرصہ میں کبھی حرفِ شکایت زبان پرنہ آیا۔اللہ تعالیٰ اور اُس کی تقدیرپرپورے راضی رہے۔اس عرصہ میں بادشاہ کوکوئی عرضی بھی نہیں دی کہ اُن کے معاملہ کو سوچا جائے یا اُنہیں رہائی دی جائے۔بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس خود غرض عورت نے تکالیف کا سلسلہ بڑھادیا۔کہ کسی طرح پر وہ پھسل جاویں ، مگر اس صدیق نے اپناصدق نہ چھوڑا۔خدانے ان کو صدیق ٹھہرایا۔یہ بھی صدق کا ایک مقام ہے کہ دُنیا کی کوئی آفت ، کوئی تکلیف اور کوئی ذلت اُسے حدود اللہ کے توڑنے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔جس قدر بلائیں بڑھتی جاویں ، وہ اُس کے مقام صدق کو زیادہ مضبوط اور لذیذ بناتی جاتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 381-382)

’’جہاں تک غور کرتے جاوٴ۔یہ پتہ ملے گا کہ کوئی نبی اس مبارک نام کا مستحق نہ تھا۔یہاں تک کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کا زمانہ آگیا اور وہ ایک خارستان تھا۔جس میں نبی کریم ﷺ نے قدم رکھا اور ظلمت کی انتہا ہو چکی تھی۔میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے۔سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اوروہ اصلاح کرنا چاہتے ،جو رسول اکرم ﷺ نے کی ہرگز نہ کر سکتے۔ان میں وہ دل، وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبیؐ کو ملی تھی۔اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہےتو وہ نادان مجھ پر افتراء کرے گا۔میں نبیوں کی عزت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزوسمجھتا ہوں ،لیکن نبی کریمؐ کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں ۔بد نصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ کام کیا ہے ،جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ174)

’’مجھے منجملہ اور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا تھا کہ ہے کرشن رودر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے۔سو مَیں کرشن سے محبت کرتا ہوں کیونکہ مَیں اس کا مظہر ہوں۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 229)

’’ان لوگوں میں کسی زمانہ میں قابل تعریف عملی حالتیں تھیں اور وہ بنوں میں جاکر ریاضت اور عبادت بھی کرتے تھےاور ان کے دلوں میں نرمی اور سچی تہذیب تھی کیونکہ ان کا مذہب صرف زبان تک نہیں تھا بلکہ دلوں کو صاف کرتے تھے اور وہ پرمیشر جس کا کتابوں میں انہوں نے نام سُنا تھا چاہتے تھے کہ اسی دنیا میں اس کا درشن ہو جائے اس لیے وہ بہت محنت کرتے تھے اور اُس صدق کا نور ان کی پیشانیوں میں ظاہر تھا۔پھر بعد اس کے ایک اَور زمانہ آیا کہ بُت پرستی اور دیوتاؤں کی پوجا اور مورتی پوجا اور اَوتاروں کی پوجا بلکہ ہر ایک عجیب چیز کی پوجا سناتن دھرم کا طریق ہوگیا اور وہ اس طریق کو بھول گئے جوطریق رام چندر اور راجہ کرشن نے اختیار کیا تھا جن پر ان کی را ستبازی کی وجہ سے خدا ظاہر ہوا۔‘‘

(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 388)

’’واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں بار ہا مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام ایک شخص جو گذرا ہے وہ خدا کے برگزیدوں اور اپنے وقت کے نبیوں میں سے تھا۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 317 حاشیہ)

’’یہ تو سچ ہے کہ راجہ رام چندر اور راجہ کرشن درحقیقت پرمیشر نہیں تھے مگر اس میں کیا شک ہے کہ وہ دونوں بزرگ خدا رسیدہ اور اوتار تھے۔خدا کی نورانی تجلی ان پر اتری تھی اس لیے وہ اوتار کہلائے۔‘‘

(سناتن دھرم، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 475 حاشیہ)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :

’’ایک بزرگ اوتار جواس ملک اور نیز بنگالہ میں بڑی بزرگی اور عظمت کے ساتھ مانے جاتے ہیں جن کا نام سری کرشن ہے۔وہ اپنے ملہم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے پیرو نہ صرف اُن کو ملہم بلکہ پرمیشر کرکے مانتے ہیں ۔مگر اس میں شک نہیں کہ سری کرشن اپنے وقت کا نبی اور اوتار تھا اور خدا اس سے ہمکلام ہوتا تھا۔

ایسا ہی اس آخری زمانہ میں ہندو صاحبوں کی قوم میں سے بابا نانک صاحب ہیں جن کی بزرگی کی شہرت اس تمام ملک میں زبان زدعام ہے اور جن کی پیروی کرنے والی اس ملک میں وہ قوم ہے جو سکھ کہلاتے ہیں جو بیس لاکھ سے کم نہیں ہیں ۔باوا صاحب اپنی جنم ساکھیوں اور گرنتھ میں کھلے کھلے طور پر الہام کا دعویٰ کرتے ہیںاور بلاشبہ یہ بات ثابت ہے کہ اُن سے کرامات اور نشان بھی صادر ہوئے ہیں اور اس بات میں کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ باوا نانک ایک نیک اور برگزیدہ انسان تھااور ان لوگوں میں سے تھا جن کو خدائے عزوجل اپنی محبت کا شربت پلاتا ہے۔‘‘

(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ445)

(………باقی آئندہ )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button