خلاصہ خطبہ جمعہ

بدری صحابی حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کی سیرت مبارکہ کا دلنشین تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28؍جون2019ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے 28؍ جون 2019ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ،یوکےمیں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت زید بن حارثہ کے ذکر میں بعض مزید واقعات اور حوالے ہیں جنہیں آج پیش کروں گا۔ ربیع الآخر 6؍ ہجری میں آنحضورﷺ نے حضرت زید ؓکی امارت میں ایک سریہ قبیلہ بنو سلَیم کی جانب روانہ فرمایا۔ نجد کے علاقے جموم میں آباد اِس قبیلے کے متعلق ،ایک عورت حلیمہ نے زیدؓ کو خبر دی ۔ جب اس قبیلے کے جنگی قیدیوں کو لایا گیا تو اُن میں حلیمہ کا شوہر بھی شامل تھا ۔ حلیمہ کی اس امداد کی وجہ سے آنحضرتﷺ نے اس کے شوہر کو بلا فدیہ آزاد کردیا۔

جمادی الاولیٰ چھے ہجری میں ایک سو ستر صحابہ پر مشتمل ایک اور سریہ زیدؓ کی زیرِ کمان عیص مقام کی جانب بھیجا گیا۔ عیص مدینے سے چار دن کی مسافت پر سمندر کی جانب واقع ہے۔ شام سے قریش کا ایک قافلہ آرہا تھا، یہ قافلے عموماً مسلّح ہوتے تھے۔ چونکہ مدینے کے بالکل قریب سے گزرتے تھے اس لیے ان سےہروقت خطرہ رہتا تھا۔

جمادی الآخر 6؍ ہجری میں غزوۂ بنو لحیان کے بعد پندرہ صحابہ کا ایک دستہ زیدؓ کی کمان میں طَرف کی جانب بھیجا گیا۔ اس جگہ بنو ثعلبہ کے لوگ آبادتھےجو بروقت خبر پاکر منتشر ہوگئے۔

پھر پانچ سو صحابہ پر مشتمل ایک اور سریہ زیدؓ کی کمان میں جمادی الآخر6؍ ہجری میں مدینے کے شمال میں بنو جذام کے مسکن حِسمی کی جانب بھیجا گیا۔ اس سریے کی وجہ یہ تھی کہ آپؐ کے ایک صحابی دحیہ کلبیؓ قیصرِروم کو مل کر واپس آرہے تھے۔ اُن کے پاس قیصر کی طرف سے دیے گئے تحائف،خلعت وغیرہ کے علاوہ کچھ تجارتی سامان بھی تھا۔ بنو جذام نے آپؓ سے یہ سب مال لوٹ لیا۔ بنو ضبیب نے دحیہ کلبی کو سامان واپس دلا دیا۔ بنو ضبیب ، بنوجذام ہی کی شاخ تھی،اور اس کے کچھ لوگ مسلمان ہوچکے تھے ۔ جب دحیہؓ مدینہ پہنچے اور آپؐ کو سارے حالات کا علم ہوا تو زیدؓ کی کمان میں یہ سریہ روانہ کیا گیا۔ مسلمان بڑی ہوشیاری سے چھپتےہوئے، عین صبح کے وقت حِسمی پہنچ گئے۔ باقاعدہ جنگ ہوئی اور زیدؓ مال مویشی اور ایک سو کے قریب قیدی پکڑ کر مدینہ واپس آرہے تھے کہ بنو ضبیب کو اس حملے کی خبر ہوگئی۔ انہوں نے آپؐ سے اپنے مسلمان ہونے اور امن کے معاہدے کا ذکر کیا اور کہا کہ معاہدے کے بعد ہمارے قبیلے کو اس حملے میں کیوں شامل کیا گیا۔ آپؐ نے افسوس کا اظہار کیا اورفرمایا کہ زیدؓ کو اس کا علم نہیں تھا۔ بنو ضبیب کے کہنے پر آپؐ نے زید ؓکو حکم دیاکہ سارے قیدی آزاد کردیے جائیں اور مالِ غنیمت واپس کردیا جائے۔ پس یہ آپؐ کا معاہدوں کی پاس داری کا اسوہ تھا۔

حضرت زیدؓ کی سربراہی میں ایک سریہ رجب 6؍ ہجری میں وادی القریٰ کی جانب روانہ ہوا۔ اس معرکے میں متعدد صحابہ شہید ہوئے اور خود زیدؓ کو بھی سخت زخم آئے۔

جمادی الاولیٰ8؍ ہجری میں آنحضرت ﷺ کے ایک قاصد حارثؓ بن عمیرجو شاہِ بصرہ کی جانب خط لے کر جارہے تھے موتہ کے مقام پر شہیدکردیے گئے۔یہ سانحہ آنحضرتﷺ پر بہت گِراں گزرا۔ آپؐ نے تین ہزار صحابہ کو زیدؓ کی کمان میں روانہ فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا کہ اگر زید شہید ہوجائیں تو جعفر اور اگر جعفر بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ تمہارے امیر ہوں گے۔ اس لشکر کو جیش الامرا بھی کہتے ہیں۔ حضورِ انور نے حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے اس روایت کی مزید تفصیل بھی پیش فرمائی۔ تینوں امرا کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید نے مسلمانوں کے کہنے پر کمان سنبھالی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے مسلمانوں کو فتح دی۔

زیدؓ کی شہادت پر آپؐ ان کے گھر تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔ آنحضرتﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ زید بن عبادہؓ نے عرض کی یارسول اللہ یہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا یہ ایک محبوب کی اپنےمحبوب سے محبت ہے۔ زید نیزہ لگنے سے شہید ہوئے تھے۔ بوقتِ شہادت آپؓ کی عمر 55 برس تھی۔

حضورِ انور نے زیدؓ سے آنحضرتﷺ کی بے مثال محبت سے متعلق متعدد روایات پیش فرمائیں۔ آپؓ کو رسول اللہ ﷺکا محب کہا جاتا تھا۔

صفر 11؍ہجری میں آپؐ نے زیدؓ کا بدلہ لینے کےلیےلشکر کی تیاری کا حکم دیا۔اسامہ بن زیدؓ کو اس لشکر کا امیر مقرر فرمایا گیا۔ اس وقت اسامہؓ کی عمر سترہ سال سے بیس سال کے درمیان تھی۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ سے اسامہ کے لیے ایک جھنڈا باندھا اور فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کرو۔ جو اللہ کا انکار کرے اس سے جنگ کرو۔اس لشکر میں حضرت ابوبکرؓ،عمرؓ، ابوعبیدہ بن الجراحؓ ،سعد بن ابی وقاصؓ جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ لشکر کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے اسامہ کی کم عمری کے باعث آپؓ کی امارت پر اعتراض بھی کیا۔ آپؐ نے اسے ناپسند فرمایا۔ آنحضورﷺنے منبر پر فرمایا کہ اس سے پہلے تم اسامہ کے باپ کے امیر بنائے جانےپر بھی اعتراض کرچکے ہو۔ خدا کی قسم وہ بھی امارت کے اوصاف رکھتا تھا اور اس کا بیٹا بھی اپنے اندر امارت کے خواص رکھتا ہے۔ فرمایا اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑویہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے۔یہ 10؍ ربیع الاوّل ہفتے کا دن تھا۔ یعنی آپؐ کی وفات سے دو دن پہلے کی بات ہے۔ اتوار کے دن ، حضرت اسامہؓ آپؐ سے ملے توکمزوری کے سبب آنحضورﷺ بول نہیں سکتے تھے۔ اسامہؓ نے آپؐ کو بوسہ دیا، آنحضرتﷺ نےدونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور اسامہؓ کے سر پر رکھ دیے۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپؐ میرے لیے دعا کر رہے ہیں۔ 12؍ ربیع الاوّل کو پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد آنحضرتﷺ نے وفات پائی۔ مسلمانوں کا لشکر جرف مقام سے مدینہ واپس آگیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہوگئی تو تمام عرب میں فتنہ ارتداد پھیل چکا تھا۔ یہودو نصاریٰ آنکھیں پھیلائےبدلہ لینے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی وفات اور کمی تعداد کے باعث مسلمان بہت مشکل صورتِ حال میں تھے۔ صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ کو مشورہ دیا کہ اسامہ کے لشکر کی روانگی متاخر کردیں۔حضرت ابوبکرؓ نے اس مشورے کو پسند نہ فرمایا۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگردرندے مجھے گھسیٹتے پھریں تو بھی میں اس لشکر کو رسول اللہ ﷺکے فیصلے کے مطابق بھجواکررہوں گا۔ ایک روایت کے مطابق اسامہؓ نے عمرؓ کے ذریعے حضرت ابوبکرؓ کو یہ پیغام بھجوایا کہ لشکر کی روانگی کا حکم منسوخ کردیں تاکہ ہم مرتدین سے نبردآزما ہوں۔ بعض انصار صحابہ نے اسامہ کی کم عمری کے باعث حضرت عمرؓ سے کہا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ سے عرض کریں کہ کسی بڑی عمر کے شخص کو امیر مقرر فرمادیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے دونوں تجاویز قبول نہ فرمائیں بلکہ بڑے آہنی عزم کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے فیصلے پر عمل پیرا رہے۔

لشکر کی روانگی کے وقت حضرت ابوبکرؓ خود تشریف لائے اور لشکر کا جائزہ لیا۔ وہ منظر بڑا حیرت انگیز تھا، حضرت ابو بکرؓ لشکر کے ساتھ پیدل چل رہے تھے اورحضرت اسامہؓ سوار تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کو مدینے میں کئی کاموں کےلیے حضرت عمرؓ کی ضرورت تھی۔ آپؓ نے انہیں از خود روکنے کے بجائے اسامہؓ سے اجازت چاہی کہ اگر وہ مناسب سمجھیں تو عمرؓ کومدینے میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس رہنے دیں۔

اس لڑائی میں جس نے بھی مسلمانوں کامقابلہ کیا وہ مارا گیا۔ بہت سے قیدی بھی بنائے گئے۔ اسی طرح بہت سا مالِ غنیمت بھی حاصل ہوا۔ جس میں سے خُمس رکھ کر باقی سب لشکر میں تقسیم کردیا گیا۔ اس معرکے میں مسلمانوں کا کوئی آدمی شہید نہیں ہوا۔ متفرق روایات کے مطابق یہ فاتح لشکر چالیس سے ستر دن مدینے سے باہر رہنے کے بعد واپس آیا۔ مدینے میں لشکر کا شان دار استقبال ہوا۔ خداتعالیٰ کے فضل ،آنحضرتﷺ اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے طفیل متعدد اندرونی و بیرونی خطرات کے باوجود یہ لشکر کامیاب و کامران لوٹا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی سِرّ الخلافۃ میں اس واقعے کا ذکر فرمایا ہے۔

حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت زیدؓ بن حارثہ اور پھر ان کے بیٹے حضرت اسامہؓ پر ،جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے پیارے اور محبوب تھے ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ آمین
آخر میں حضورِ انور نے دو نماز ہائے جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ پہلا جنازہ مکرم صدیق آدم دنبیا صاحب کاتھا۔ آپ آئیوری کوسٹ کے مبلغ تھے۔ 14؍ جون کو آپ کی وفات ہوئی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

صدیق آدم صاحب پیدل سفر کرکے 1982ء میں پاکستان پہنچے۔ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کےبعد 85۔86ء میں واپسی ہوئی ۔ تیس سال سے زائد عرصہ مغربی افریقہ کے مختلف ممالک میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق ملی۔

دوسرا جنازہ مکرم میاں غلام مصطفیٰ صاحب میرک ضلع اوکاڑہ کا تھا جو 24؍جون کو 83 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم پیدائشی احمدی تھے۔تہجد کے پابند ،بڑے عبادت گزارتھے۔ تبلیغ کا بے حد شوق تھا۔ مرحوم موصی تھے، پس ماندگان میں پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کے بیٹے غلام مصطفیٰ صاحب مربی سلسلہ برونڈی ، میدانِ عمل میں مصروف ہونے کے سبب جنازے میں بھی شامل نہیں ہوسکے۔اس سے پہلے آپ اپنی والدہ کی وفات پر بھی نہیں جاسکے تھے۔ حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر اور حوصلے سے صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button