از افاضاتِ خلفائے احمدیت

حالات بالآخر ہاتھ سے نکل جائیں گے!

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

ایٹمی توانائی اور ٹیکنالوجی کے برائے نام مفید پہلو انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں اور غفلت کے باعث یا حادثات کی صورت میں یہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہم ایسی تبدیلیاں پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جیساکہ چرنوبل، موجودہ یوکرائن، میں 1986ء میں ایسا ایٹمی حادثہ ہو چکا ہے اور ابھی پچھلے سال ہی جاپان میں زلزلہ اور سونامی کے نتیجہ میں اسے بھی اس قسم کے خطرہ کا سامنا تھا اور تمام ملک ہراساں تھا۔ جب اِس طرح کے حادثات ہوتے ہیں تو متأثر علاقوں کو دوبارہ آباد کرنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کے منفرد اور المناک حادثہ کی وجہ سے جو انہیں سہنا پڑا، جاپانی بہت ہی محتاط ہو چکے ہیں اور اپنے اس خوف و ہراس میں بالکل حق بجانب ہیں۔

یہ تو سب کو معلوم ہے کہ جنگیں ہلاکت کا پیغام لاتی ہیں جب جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں شمولیت اختیار کی تو اس کی حکومت اور لوگ بخوبی جانتے تھے کہ کچھ لوگ تو بہر حال موت کا شکار ہو جائیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ جاپان میں قریباً 30لاکھ افراد نے جان سے ہاتھ دھوئے اور یہ ملکی آبادی کا 4فیصد بنتا ہے۔ باوجود اس کے کہ کل اَموات کے تناسب سے کئی دوسرے ممالک میں زیادہ اَموات واقع ہوئی ہوں گی پھر بھی جاپانی قوم میں جنگ سے نفرت اور کراہت دوسرے ممالک کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ اس کی واضح وجہ دو ایٹم بم ہیں جو دوسری جنگ عظیم میںجاپان پر گرائے گئے اور جس کے بد اثرات کا وہ آج تک شکار ہیں۔ جاپانی قوم نے اپنی عظمت اور دوبارہ ابھرنے کی طاقت کا ثبوت اپنے شہروں کو بڑی تیزی سے از سرِ نو آباد کر کے دیا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اگر ایٹمی ہتھیار آج دوبارہ استعمال ہوتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ بعض ممالک کے کچھ حصے مکمل طور پر دنیا کے نقشہ سے مٹ جائیں اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔

مختاط اندازوں کے مطابق جنگ عظیم دوم میں چھ کروڑ سے زائد اَفراد کی جانیں ضائع ہوئیں اور کہا جاتا ہے کہ اس میں چار کروڑ افراد عام شہری تھے۔ اس طرح بالفاظ دیگر فوجیوں سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے۔ باوجود اس کے کہ جاپان کے علاوہ باقی ہر جگہ پر روایتی ہتھیاروں سے جنگ لڑی گئی پھر بھی اتنی شدید تباہی ہوئی۔ برطانیہ میں پانچ لاکھ لوگ لقمۂ اجل بنے۔ اس وقت برطانیہ کی حکومت نو آبادیاتی طاقت تھی اور اس کی کالونیاں اور وہ ممالک جو برطانیہ کی طرف سے لڑ رہے تھے اگر ان اموات کو بھی شامل کیا جائے تو پھر یہ تعداد کروڑوں میں جا پہنچتی ہے۔ صرف انڈیا میں ہی سولہ لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے۔

تاہم اب حالات بدل چکے ہیں وہ ممالک جو کبھی حکومت برطانیہ کی کالونیاں تھے اور جنہوں نے برطانیہ کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا۔ جنگ کی صورت میں اب شاید وہ برطانیہ کے ہی خلاف جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ مزید یہ کہ جیساکہ میں بیان کر چکا ہوں اب تو بعض چھوٹے ممالک نے بھی ایٹمی ہتھیار حاصل کر لیے ہیں۔

فکر کی بات یہ ہے کہ یہ ایٹمی ہتھیار ایسے لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں جن کے پاس اتنی قابلیت ہی نہیں ہے یا جو اپنے اعمال کے نتائج کا ادراک نہیں کرنا چاہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ عواقب سے بالکل بے پروا اور جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔

پس اگر بڑی طاقتوں نے انصاف سے کام نہ لیا اور چھوٹے ملکوں کے احساس محرومی کو ختم نہ کیا اور عمدہ حکمت عملی نہ اپنائی تو حالات بالآخر ہاتھ سے نکل جائیں گے اور پھر جو تباہی اور بربادی ہو گی وہ ہماری سوچ اور تصور سے بھی بڑھ کر ہو گی بلکہ دنیا کی اکثریت جو امن کی خواہاں ہے وہ بھی اس تباہی کی لپیٹ میں آ جائے گی۔

پس میری دلی خواہش اور تمنا یہ ہے کہ تمام بڑی طاقتوں کے راہنما اس خوفناک حقیقت کو سمجھ جائیں اور جارحانہ حکمت عملی اپنانے اور اپنے عزائم اور مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے ایسی حکمتِ عملی اپنانے کی کوشش کریں جن سے انصاف کو فروغ دیا جائے اور اسے یقینی بنایا جائے۔

(خطاب فرمودہ 24؍مارچ 2012ء بمقام طاہر ہال بیت الفتوح بر موقع نویں سالانہ امن کانفرنس)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button