سیرت صحابہ کرام ؓ

مکرمہ برکت بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والوں میں ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بہت سادہ اور غربت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ ہر قسم کے ظلم سے بے نیاز ہو کر خدا کے بھیجے ہوئے بندے کی تائید میں سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے سینہ میں خدا ہدایت و تقویٰ کی وہ شمع جلاتا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے اگر خدا کا فضل شاملِ حال رہے ۔ان خوش نصیب اور نیک بخت لوگوں میں سے میرے دادا چوہدری عبدالرحمان اور دادی برکت بی بی بھی شامل ہیں۔جب دادا جان کی شادی ہوئی تو اس وقت دادی جان ابھی احمدی نہیں ہوئی تھیں۔میری دادی جان کے خاندان میں ایک نامی گرامی پیر ہوئے تھے۔ اُن کو جب علم ہوا کہ اس خاندان کی ایک لڑکی کی شادی مرزائی (احمدی) کے ساتھ ہوئی ہے تو وہ گھوڑے پر بیٹھ کر آپ کو ملنے گائوں آئے ۔آپ کو سمجھایا کہ بیٹی یہ تو نے کیا کیا ہے؟ تیرا خاوند تو مرزائی ہو گیا ہے جس کے ساتھ کھانا پینا ہی جائزنہیں اور نہ ہی نکاح جائز رہتا ہے ۔تو فوری طور پر اس کو چھوڑ دے۔ میری دادی جان غیر تعلیم یافتہ تھیں لیکن عقلمند اور حاضر جواب تھیں ۔انہوں نے پیر صاحب سے کہا کہ اب تو جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب ایسے کیوں نہ کریں کہ بجائے میں ان کو چھوڑوں ،ان کو کیوں نہ مسلمان کریں ۔پیر صاحب آپ کے جواب سے بہت خوش ہوئے ۔ دادی جان نے پیر صاحب سے کہا کہ اس کام میں آپ میرا ساتھ دیں گے؟ انہوں نے حامی بھر لی ۔ چنانچہ ایک دن دادی جان نے گھر میں بہت بڑی دعوت کی۔ اس میں پیرصاحب کو بھی بلایا ۔ دادی جان نے دادا جان کو ساری بات اور دعوت کی وجہ بتائی۔ دادا جان نے دادی جان کے اس منصوبے سے اتفاق کیا لہٰذا اس دن بڑی شاندار دعوت کا اہتمام کیا گیا ۔گاؤں میں پہلی مرتبہ دادی چینی کے برتن خرید کر لائیں جواس دعوت میں استعمال کئے ، جسے دیکھ کر پیر بہت متأثر ہوا کیونکہ ان دنوں مٹی کے برتنوں کا رواج تھا۔ پھر پہلی بار دادی جان نے رنگ دار زردہ بنایا جو کہ پیرصاحب کے لیے نئی قسم کی ڈش تھی کیونکہ ان دنوں گڑ کے چاول یا ایک رنگ کے زردہ کی ڈش ہوتی تھی۔ اتنا اہتمام دیکھ کر پیر صاحب بھول گئے کہ وہ ایک مرزائی کے گھر کھانا کھا رہے ہیں۔جب کھانے سے فارغ ہوئے تو میری دادی جان سر پکڑ کر چلائیں کہ پیر صاحب غضب ہو گیا آپ نے ایک مرزائی کی کمائی کھا لی ۔ پیر صاحب فوراً بولے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔آپ نے جواب دیا چلو پھر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ایک مرزائی کی کمائی کھائوں یا اس کی بیوی رہوں۔ یہ سن کر پیر صاحب پہ سکتہ طاری ہو گیا اور وہ خاموشی سے چلے گئے اور پھر دوبارہ رجوع نہیں کیا۔ میری دادی کو گاؤں کی عورتیں کہتی تھیں کہ مسلمان ہو جائو ورنہ مرنے کے بعدگاؤں میں دفنانے کوئی نہیں دے گا۔ آپ جواباً ڈنکے کی چوٹ پہ کہتیں کہ ’’میں جگہ تے ڈنڈے دے زور تے لے کے دساں گی۔‘‘یہ بات نہایت سادگی سے بغیر سوچے سمجھے کہتی تھیں ۔لیکن خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کے لیے غیرت رکھتا ہے اور ان کی بات کو اپنی بات بنا دیتا ہے ۔ اس کا نظارہ ان کی وفات پر دیکھا ۔ میرے ابو اور چچا اس کا کئی بار ذکر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی شان پر حمد کرتے ہیں کہ خدا نے کس طرح بی بی کی بات کو پورا کر دیا ۔ دادی جان کی وفات13فروری1973میں ہوئی۔ دیہات کے لوگ غصہ میں تھے اور وہ کسی طرح بھی دادی جان کو گاؤں میں دفن ہوتا دیکھنے کو تیار نہ تھے ۔ان کے تین بیٹے تھے۔ سب سے چھوٹے بیٹے چوہدری محمد عرفان یہ صورتحال دیکھ کر بہت پریشان ہوئے کہ کیا کیا جائے؛ دادی کی میت کو کہاں لے جایا جائے ۔ پریشانی میں سلانوالی پولیس اسٹیشن چلے گئے اور وہاں تھانیدار کو غصہ میں کہا کہ اگر میری ماں یہاں دفن نہ ہو ئی تو میں گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا ۔اللہ کی تقدیر نے ایسا کام کر دیا کہ چچا کی یہ بات تھانیدار پر رعب ڈالنے کے لیے کافی تھی حالانکہ چچا با لکل بے بس تھے کیونکہ یہ گاؤں میں اکیلا احمدیوں کا گھر تھا جبکہ پورا گاؤں ایک طرف تھا ۔ تھانیدار نے فوراً اپنے ہیڈ کواٹر کو جو کہ سرگودھا میں تھا فون کیا کہ اگر ہماری فورس گاؤں نہ پہنچی تو یہاں امن و امان کا بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے ۔پولیس کے اعلیٰ حکام نے ڈپٹی کمشنر کو اطلاع دی ۔ چونکہ ان دنوں سنی شیعہ فسادات پھوٹنے کا خطرہ تھا اس لیے انتظامیہ بہت چو کنا تھی ۔لہٰذا تھوڑی ہی دیر میں پولیس کی بھاری نفری اور انتظامیہ گاؤں پہنچ گئی ۔ گاؤں والے حیران رہ گئے …فوری طور پر پٹواری اور تحصیلدار کو بلوایا گیا اور انتظامیہ کی طرف سے پورے گاؤں کی موجودگی میں ایک کنال زمین کا ٹکڑا قادیا نیوں کے قبرستان کے لیے سرکاری طور پر مختص کیا گیا اور اس قبرستان کی حد بندی کی گئی جس کے بعد پورے گاؤں والوں نے قبر کی تیاری میں حصہ لیا اور قبر تیار کی گئی ۔ ساری انتظامیہ پولیس اور گاؤں والوں کی موجودگی میں دفنایا گیا اور بعد میں تمام افسران اور پولیس کے اہلکاروں نے میرے دادا جان اور ان کے بیٹوں سے فرداً فرداً تعزیت کی ۔ یہ نظارہ گائوں کے لوگ دیکھ رہے تھے جو اس خاتون کو یہاں دفنانے کو تیار نہ تھے ۔ بعد میں تمام تعزیت میں آنے والوں اور پولیس اہلکاروں کے لیے گاؤں والوں کی طرف سے کھانا تیار کر وایا گیا۔ یہ خدا کا بہت بڑا نشان تھا اور دادی کی وہ بات کہ میں اس جگہ دفن ہو کر رہوں گی کس شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ الحمدللہ۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے بزرگوں کی نیکیاں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

(روزنامہ الفضل 17جون2010 ء صفحہ 5 مکرم ندیم احمدمجاہد صاحب کے قلم سے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button